زندگی اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے، ہر نعمت کا کوئی نہ کوئی استعمال ہوتا
ہے، اس زندگی کا بھی کچھ نہ کچھ استعمال)مقصد( ضرور ہے۔ لہٰذا جو شخص اپنے
سامنے ایک خاص مقصد رکھ کر زندگی گزارتا ہے تو وہ اُس مقصد میں کبھی نہ
کبھی کامیاب ہو ہی جاتا ہے، اور اگر کسی وجہ سے اس مقصد میں کامیابی نہ بھی
ملے تو مقصد کو پانے کی جد و جہد مقصد کے قریب ضرور کر دیتی ہے۔ آج میرے
مضمون کا موضوع “میری زندگی کا مقصد”ہے۔اس مختصر مضمون میں یہ لکھنے کی سعی
کی جائے گی کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد کو پانے کےلیے کیا کچھ عمل کر رہے ہیں
اور کیا کچھ عمل کر سکتےہیں۔
ہم اس حقیقت سے واقف ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، مگر افسوس ہم آخرت کی
بجائے دنیا کو ہی ترجیح دیتے ہیں، دنیا کے لیے جیتے ہیں، دنیا کے لیے
منصوبے بناتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم زندگی کے مقصد کو فراموش کر
بیٹھتے ہیں۔ہمارے لیئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہمیں کس مقصد کے لئے
بنایا گیا ہے؟ کیونکہ جب تک کسی چیز کا مقصد سمجھ نہ آئے اُ س کا درست
استعمال بھی نہیں ہوسکتا۔
ہم میں سے کئی ایسے ہوں گے جن کے پاس موٹرسائیکل ہو گی، کئی ایسے بھی ہوں
گے جن کے پاس گاڑی ہوگی، سوچئے! گاڑی کیوں بنائی جاتی ہے؟ اس کا مقصد یہ
ہوتا ہے کہ بندہ اس میں آسانی سے سفر کر سکے اور جلدی سے جلدی اپنی منزل
پر پہنچ جائے، گاڑی جب سواری کے قابل نہیں رہتی، تنگ کرنے لگتی ہے تو اسے
بیچ دیا جاتا ہے، یعنی جو چیز جس مقصد کے لیے بنائی جائے اگر وہ اس مقصد
میں کام آتی ہے تو ہمارے کام کی رہتی ہے اور جب وہ مقصد سے ہٹ جاتی ہے تب
اسے چھوڑ دیا جاتا ہے، اس کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ایک بہت طویل
فہرست ہے۔ ہم زندگی کی مختلف چیزوں کو دیکھتے چلے جائیں، ہر چیز جب تک
اپنےمقصد پر قائم رہتی ہے، بندہ اس سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے جیسے ہی مقصد
ختم ہوتا ہے اس چیز کو بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔
کبھی ہم بھی غور کریں! ہمیں کیوں بنایا گیا ہے؟ ہم بھی تو اللہ پاک کی
مخلوق ہیں، ہمیں اشرفُ المخلوقات قرار دیا گیا ہے، جب ساری مخلوق کو بنانے
کا مقصد ہے تو حضرت انسان کو بنانے کا کیا مقصد ہے؟کیا اس حسین و جمیل، عقل
مند و شعور یافتہ انسان کو بے مقصد پیدا کیا گیا ہے؟ نہیں نہیں! اس انسان
کو بنانے کا بھی کوئی مقصد ہے۔ چنانچہ پارہ18 سورۃ المومنون آیت نمبر115میں
ارشاد ہوتا ہے:
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا
تُرْجَعُوْنَ
ترجمہ:تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف
پھرنا نہیں
گویا ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ کوئی وجہ ہے جس کے
لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے، اسی مقصدِ تخلیق کو پارہ 29، سورۃ الملک
آیت 2 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ
اَحْسَنُ عَمَلًاؕ
ترجمہ:وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں کس کا کام
زیادہ اچھا ہے۔
زندگی آمد برائے بندگی!
اس آیت سے معلوم ہو اکہ زندگی میں بندے کا ہر عمل خالص اللہ پاک کی رضا
حاصل کرنے کے لئے اور شریعت کے بیان کردہ طریقے کے مطابق ہونا چاہیے۔یعنی
ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ٭ یہ زندگی ہمیں اس لیے ملی ہے کہ ہم زیادہ سے
زیادہ نیکیاں کریں، ٭یہ زندگی ہمیں اس لیے ملی ہے کہ اپنے اندر خوفِ خدا
پیدا کریں، ٭یہ زندگی ہمیں اس لیے ملی ہے کہ اپنے اندر حُسنِ اخلاق پیدا
کریں، ٭یہ زندگی ہمیں اس لیے ملی ہے کہ زہداور تقویٰ اختیار کریں، ٭یہ
زندگی ہمیں اس لیے ملی ہے کہ عاجزی و انکساری کے پیکر بنیں، ٭یہ زندگی ہمیں
اس لیے ملی ہے کہ اتباعِ شریعت کا جذبہ بیدار کریں، ٭یہ زندگی ہمیں اس لیے
ملی ہے کہ دل میں محبتِ الٰہی کا بیج بوئیں، ٭یہ زندگی میں اس لیے ملی ہے
کہ اللہ پاک کی عبادت کریں، ٭یہ زندگی ہمیں اس لیے ملی ہے کہ تلاوتِ قرآن
کریں، ٭یہ زندگی ہمیں اس لیے ملی ہے کہ درودِ پاک پڑھیں، ٭یہ زندگی ہمیں اس
لیے ملی ہے کہ نمازیں پڑھیں، ٭یہ زندگی ہمیں اس لیے ملی ہے کہ ہم باحیا
بنیں اور باحیا رہنے کی کوشش کریں، ٭یہ زندگی ہمیں اس لیے ملی ہے کہ خود
میں اتباعِ رسول کا جذبہ پیدا کریں، ٭یہ زندگی ہمیں اس لیے ملی ہے کہ ہم
اپنے کردار کو بہتر بنائیں، ٭الغرض! یہ زندگی ہمیں اس لیے ملی ہے کہ اسے
اللہ پاک کی عبادت اور اس کی اطاعت میں گزاریں۔ کسی فارسی شاعر نے کیا خوب
کہا ہے:
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی
یعنی زندگی عبادت کرنے کے لیے ملی ہے، بغیر عبادت کے بسر کئے جانے والی
زندگی شرمندگی کا باعث ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ!عبادت کرنے کے لیے اس کو سیکھنا بھی لازم ہے۔ جو عبادت
لازم ہے ، اس کے ضروری مسائل سیکھنا بھی ضروری ہیں یعنی ہمیں ربّ پاک کی
عبادت کرنی ہے اور جیسا حکم ہے، ویسی کرنی ہے۔
وقت کی ناقدری!
افسوس! صد افسوس! آج حالت عجیب ہوگئی ہے،ہر طرف گناہوں کی بھرمار ہے،
مسلمانوں کی ایک تعداد ہے جوفضول کاموں میں مبتلا ہو کر وقت جیسی عظیم اور
انمول نعمت کو برباد کرتی نظر آ رہی ہے۔ ٭دنیاکی محبت اورفکرِآخِرت سے
غفلت کے سبب مُسلمانوں کی بھاری اکثریت شوقِ عِبادت سے کوسوں دُور ہوتی
جارہی ہے۔٭آج کا نوجوان قِطار میں لگ کر مہنگےداموں ٹکٹ خریدکرساری رات
گناہوں بھرے میوزک پروگرام دیکھنے سننے کوتو تیار ہے مگر نماز ادا کرنے کی
غرض سے چند منٹ کے لئے مسجد کا رُخ کرنے سے کَتراتا ہے۔ ٭نئی آنے والی فلم
کو دیکھنے کےلیے سنیما گھر میں یا موبائل پر کئی کئی گھنٹے برباد کرنے کے
لیے تو بہت وقت ہے، مگر دِین سیکھنے کےلیے وقت نہیں ملتا۔ ٭ کئی لوگ ایسے
ہوتے ہیں جو روزانہ سینکڑوں سطروں پر مشتمل اخبار پڑھ ڈالتے ہیں مگر انہیں
مہینوں مہینوں قرآنِ پاک کی چند آیات کی تلاوت کی سعادت حاصل نہیں ہوتی،
٭دن میں سینکڑوں سینکڑوں میسیجز ٹائپ کر کے بھیجنے والوں کو اذان کا جواب
دینے کا موقع نہیں مل پاتا۔ ٭کرکٹ، فٹ بال، ہاکی اور دیگر کھیلوں کے لیے
ایک تعداد وقت پر گراؤنڈ میں تو پہنچ جاتی ہے مگر نماز کا ٹائم ان سے مِس
(Waste)ہوجاتا ہے۔ اَلْغَرَض! ٭ایک تعداد ہے جو دنیا کے لیے تو بڑی متحرک و
تیز (Active)نظر آتی ہے مگر آخرت کو بہتر بنانے کی طرف توجہ نہیں کرتی۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے وقت کی قدر کریں اور اپنی زندگی کے مقصد کو پانے کے لیے
اس کا بہترین استعمال کریں۔ وقت ایک ایسی شے ہے جو روکنے سے نہیں رکتا۔
لہٰذا عقل مند وہی ہے جو اپنی زندگی کے مقصد کو پانے کے لیے وقت کا دُرست
استعمال کرے۔اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کل ہر شخص زندگی میں
طرح طرح کے منصوبے بناتارہتاہے یعنی پلاننگ کرتارہتاہےجس کو پانے کے لیے اس
کی جستجو جاری ہوتی ہے۔
دل میں مقصد ہونا چاہیے!
مثلاً کوئی طالب علم ہو تو اس نے یہ سوچا ہوا ہوتا ہے کہ پہلے میٹرک مکمل
کرنا ہے۔ میٹرک کلیئر کر لینے کے بعد یہ طے کرتا ہے کہ مجھے اعلیٰ تعلیم
میں کہاں تک جانا ہے۔ یوں وہ ایک پورا منصوبہ بنا کر پھر اپنے ہدف کی طرف
بڑھنے کےلیے کوشش شروع کر دیتا ہے۔اسی طرح کوئی تاجرجب اپنا بزنس شروع کرتا
ہے تو سوچتا ہے کہ آج ایک دکان ہے، مجھے ایسی محنت کرنی ہے کہ میں اپنی
کچھ نئی شاخیں بھی کھول سکوں۔ جب اتنی شاخیں کھول لوں گا تو پھر اپنا
کارخانہ اور فیکٹری لگا لوں گا، جب ایک فیکٹری ہوجائے گی تو پھر اگلے اتنے
سالوں میں مجھے دو فیکٹریاں کرنی ہوں گی، یوں ایک بزنس مین اپنے اہداف
بناتا رہتا ہے اور اپنے مقصد کو پانے کے لیے ان کی طرف سفر کرتا رہتا
ہے۔اسی طرح کچھ لوگ اپنے بیوی بچوں کے لیے بھی کچھ منصوبہ سازی (Planning)
کرتے نظر آتے ہیں، کہ میرے بچے ہیں، میں نے انہیں کیا بنانا ہے، کیسے
پڑھانا ہے، کیسے ان کی تربیت کرنی ہے، کیسے ان کے مستقبل کو سنوارنا ہے،
کیسے انہیں ایک کامیاب انسان بنانا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ
الغرض!ایک تعداد ہے جس نے کوئی نہ کوئی منصوبہ بنایا ہوا ہوتا ہے کہ اس نے
آگے کیا کیا کرنا ہے۔
یاد رکھئے! پلاننگ(Planning) دو طرح کی ہوتی ہے، ایک وہ جو ہم نے اپنی
زندگی، اپنے بیوی بچوں اور اپنے کاروبار کے لیے بنائی ہوئی ہے جس کا نتیجہ
یہ نکل رہا ہے کہ ہم دِین سے دُور ہوتے چلے جار ہے ہیں۔ جبکہ دوسری وہ
پلاننگ ہے جس کی طرف دِین اور شریعت ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ جس کی طرف
قرآن اور احادیث رہنمائی کرتے ہیں۔
ہم زندگی کا مقصد تب ہی پا سکتے ہیں ،جب زندگی بلکہ زندگی کے ہر ہر لمحے کی
قدر کریں۔ ٭ہم زندگی کا مقصد تب ہی پا سکتے ہیں جب اِس فانی دنیا کے دھوکے
میں مبتلا نہ ہوں، ٭ہم زندگی کا مقصد تب ہی پا سکتے ہیں جب سونے اورجواہرات
سے زیادہ قیمتی لمحات کی نا قدری نہ کریں، ٭ہم زندگی کا مقصد تب ہی پا سکتے
ہیں جب اپنے شب وروز کو فضولیات اور دنیوی عیش کوشیوں میں ضائع نہ کریں،
٭ہم زندگی کا مقصد تب ہی پا سکتے ہیں جب ان کاموں کو بجالانے میں ہرگز
سُستی کا مظاہرہ نہ کریں،جنہیں شریعت نے کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ ٭ہم زندگی
کا مقصد تب ہی پا سکتے ہیں جب شریعت کے منع کئے ہوئے کاموں میں"اگرمگر"
"چُونکہ چُنانچِہ"سے کام لینے کے بجائے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کریں اور
انہیں چھوڑ دیں۔
آخر میں شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کے اس شعر پر اپنے مضمون کو اختتام
کرتا ہوں کہ:
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
|