اللہ سلامت رکھے واپڈا کو اور دعا ہے مچھروں کے لیے، اگر بجلی بند نہ ہوتی
تو میں کبھی بھی صبح کے تین بجے تکیہ اٹھا کر چھت پر نہ آتااور مچھر پل بھر
کے لیے بھی غفلت کرتے تو آپ اس تحریر سے محروم ہی رہتے۔مچھروں سے پنجہ
آزمائی میں ہار مان کر توجہ خطہ افلاک پر روشن ستاروں پر جما دی۔ دب اکبر
اور قطبی ستارے کے بارے میں سکول کے زمانے میں پڑہا تھا۔ آج انھیں دریافت
کر ہی لیا۔ ایک اور ستارے سے بھی شناسائی ہے مگر وہ ابھی نکلا نہیں ہے۔ جگر
مراد ٓبادی نے کہا تھا:
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گذرے
تو پھرکیسے کٹے زندگی کہاں گذرے
مجھے انتظار ہے اسی کوکب حسن زہرہ کے طلوع ہونے کاجس کے ساتھ کئی حکائتیں
اور داستانیں منسلک ہیں۔ رومیوں نے اسے وینس کہہ کر اس کی پرستش کی تو
یونان والے افرودیت سمجھ کر اس کے نام قربانیاں کرتے رہے۔ ایران والوں نے
اسے نائید کا نام دیا۔ عرب اسے زہرہ کہتے اور ہم صبح کا ستارہ پکارتے
ہیں۔ہم حقیقت پسند لوگ ہیں یہ سورج کے نکلنے سے آدھا گھنٹہ پہلے طلوع ہوتا
ہے اسی لیے اسے صبح کا ستارہ کہتے ہیں۔ہم جسے شام کا ستارہ کہتے ہیں جو
غروب آفتاب کے ساتھ ہی مغرب کی جانب چمکتا نظر آتا ہے وہ بھی دراصل یہی
زہرہ ہی ہے۔
قصص الانبیاء کے مطابق حضرت ابراہیم کی قوم سورج اور چاند کے ساتھ ساتھ
زہرہ کی بھی پجاری تھی۔زمانہ جاہلیت کے عرب زہرہ کے نام پر خوبصورت عورت
چڑہایا کرتے تھے ان کا اعتقاد تھا اس طرح ان کی عورتیں خوبصورت پیدا ہوں
گی۔مگر لاہور میں فورمن کرسچین کالج کے استاد مولانا پادری سلطان محمد صاحب
پال نے لکھا ہے کہ قربانی کے باوجود انکی عورتیں اور عورتوں کی طرح بعض
خوبصور ت ہیں اور بعض بد صورت۔
شاہ عبدالعزیزنے تفسیر عزیزی میں ا لکھا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے
زمانے میں ایک بار اللہ تعالی نے آسمان کے پردے ہٹا دیے تو فرشتوں نے دنیا
میں لوگوں کو گناہوں میں مبتلاء دیکھا۔اس پر انھوں نے شکائت کی کہ انسان کو
تو دنیا میں عبادت کے لیے بھیجا گیا تھااوریہ گناہ کے کام کر رہے ہیں اور
اللہ تعالی ٰ انسانوں کی پکڑ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری ذات
دنیا والوں سے پردے میں ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ گناہ کی جرات کرتے
ہیں۔فرشتوں کے اظہار تعجب پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا تم خود میں سے
سب سے زیادہ پارسا چنو۔ فرشتوں نے تین فرشتے چنے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
میں تمھیں زمین پر اتاروں گا۔ مگر تم نے وہا جا کر چار کام نہیں کرنے۔ شراب
نہیں پینی، زنا نہیں کرنا، قتل نہیں کرنا اور بت پرستی سے دور رہنا ہے۔ایک
فرشتے نے تو شرائط سے خوفزدہ ہو کر انکار کر دیا مگر ہاروت اور ماروت کو
خواہشات عطا کر کے زمین پر بھیج دیا گیا۔وہ دنیا میں منصف تھے۔ ان کے پاس
دو خوب صورت عورتیں انصاف حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئیں۔ ہاروت اور ماروت پر
خواہشات کا غلبہ ہوا۔ عورتوں سے کہا ہماری خواہش پوری کر دو تمھارے حق میں
فیصلہ کر دیں گے۔ عورتوں نے شرط رکھی، ہمارے ہم مذہب ہو جاؤ، بتوں کو سجدہ
کرو تو ہم تمھاری خواہش پور کر دیں گی۔ انھوں نے بتوں کو سجدہ کرنے سے
انکار کردیا۔ عورتیں واپس چلی گئیں مگر ایک مدت کے بعد واپس آئیں۔ انھوں نے
پھر خواہش کی، عورتوں نے کہا پہلے ہمارے شوہروں کو قتل کرو تاکہ وہ ہمارے
اور تمھارے لیے فتنہ پیدا نہ کر سکیں۔ ہاروت اور ماروت نے قتل کرنے سے بھی
انکار کر دیا۔ تو عورتوں نے شراب پینے کا کہا۔انھوں نے اسے معمولی سمجھ کر
پی لیا۔ شراب پی چکے تو زنا کیا، پھر ان کے شوہروں کو قتل کر کے بت کے
سامنے سجدہ ریز بھی ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کے پردے ہٹا دیے تو فرشتے
اپنے پارسا ساتھیوں کی جرات پر ششدر رہ گئے۔عورتوں نے پوچھا تم آسمان پر
کیسے چلے جاتے ہو۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس اسم اعظم ہے۔ عورتوں نے بھی
وہ اسم سیکھ لیا اور دونوں ہاروت اورماروت کے ساتھ زمیں سے آسمان پر آ
گئیں۔ آسمان پر ان دونوں کو تو اچک لیا گیا مگر ہاروت اور ماروت کے پر کاٹ
کر زمین کی طرف دھتکار دیا گیا۔ہاروت اور ماروت کو معلوم تھاکہ زمین پر
اللہ تعالیٰ کا پیغمبر موجود ہے جن کی دعا قبول ہوتی ہے۔ دونوں نبی اللہ کے
پاس پیش ہوئے اور معافی کے لیے سفارش کی درخواست کی۔ آخرت میں عذاب یا دنیا
میں سزا میں سے چناو کا اختیار دیا گیا۔ انھیں معلوم تھا کہ دنیا عارضی ہے
انھوں نے دنیا کی سزا مانگی۔ عراق کے شہر بابل میں وہ بطور سزا ایک کنویں
میں الٹے لٹکے ہوئے ہیں۔ مولانا مودودی مرحوم نے اپنی تفہیم القرآن میں اس
قصے پر سوال اٹھائے ہیں۔
زہرہ ستارے سے پاکستانیوں کی دلچسپی کا سبب یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے
وقت ہندوستان کے نجومیوں کے بیانا ت اخبارات میں چھپے تھے کہ پاکستان پچاس
سال میں ختم ہو جائے گااور یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اگر پاکستان نے جیسے
تیسے پچاس سال پورے کر لیے تو پھر پاکستان کا اچھا وقت شروع ہو جائے گا
کیونکہ ہندو جوتشیوں کے مطابق زہرہ پاکستان کے گھر میں داخل ہوکر بیٹھ جائے
گا۔ جناب انتظار حسین زنجانی کے مطابق زہرہ27 دسمبر2012 کو پاکستان کے گھر
میں داخل ہو چکا ہے۔زنجانی صاحب کے مطابق پاکستان کے جنم کا جو زائچہ 1947
میں بنایا گیا تھا وہ 16 دسمبر 1971 کے سقوط ڈھاکہ کے بعد کارآمد نہ رہا تو
20 دسمبر 1971 دوسرا زائچہ بنایا گیا۔ نئے زائچے کے مطابق پاکستان کا طالع
برج ثور ہے اور اس کا مالک ستارہ زہرہ ہے۔اب پاکستان کو عالم افلاک سے کوئی
خطرہ نہیں ہے۔
علم نجوم کے مطابق مرد کے زائچے میں زہرہ اس کی شریک حیات کی نمائندگی کرتا
ہے۔ اسی مناسبت سے خوبصورتی کو زہرہ لقا، زہرہ جمال،زہرہ وش اور زہرہ جبین
جیسے مرکب الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
زہرہ کے نام سے ایک پتھر بھی پایا جاتا ہے۔ زہرہ مہرہ نایاب ہونے کے باعث
بہت قیمتی ہے۔اس پتھر کو جسم کے ساتھ مس کر کے رکھنے والے سے جنات اور جادو
کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ فشار خون کو معتدل رکھنے میں معاون بنتا
ہے۔زہرہ مہرہ سے زہر کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ زہرہ مہرہ پتھرکے برتن میں
کھانا کھانے سے زہر کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی شہید وزیر اعظم بے
نظیر بھٹو صاحبہ نے جب سوئٹزرلینڈ کا دورہ کیا تھا تو عزت مآب پرنس آغا خان
صاحب نے ان کی دعوت کی تو کھانازہرہ مہرہ کے برتنوں میں پیش کیا گیا تھا۔ |