ــ’’علی کیا حال ہے آپ کا ۔ آج کل کدھر ہوتے ہو نظر ہی نہیں آتے‘‘۔اکمل نے
اپنے دوست سے پوچھا جو اس کو کافی دن بعد محلے میں نظر آیا تھا۔
’’میں تو بالکل ٹھیک ہوں ۔آج کل میں مثالی سکول کے ٹائم ٹیبل پر عمل کر رہا
ہوں اور میں نے ہر کا م کو ایک خاص وقت پر کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ اس سے
میں کم وقت میں بہت سا کا م کرلیتا ہوں اور کھیل کود کے لیئے بھی مناسب وقت
نکال لیتا ہوں ۔ پہلے میں ہر وقت یہی شکوہ کرتا تھا کہ میرے پاس ٹائم نہیں
ہوتا اور میر ے بہت سے کا م اور بہت سے مضامین کا کا م بھی رہ جاتا تھا۔
لیکن اگر آپ باقاعدہ ایک ٹائم ٹیبل بنا کر چلیں تو آپ بہت سی مشکلات سے بچ
سکتے ہیں اور کم وقت میں ذیادہ کام کرسکتے ہیں۔ دراصل ہم بہت سا وقت فضول
ضائع کر دیتے ہیں جس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔اسی وقت کو اچھے طریقے
سے استعمال کر کے ہم کامیاب ہوسکتے ہیں۔ہمارے پاس وقت تو بہت ہوتا ہے لیکن
ہمیں اس کو استعمال کرنا نہیں آتا جس کی وجہ سے ہم ہر وقت پریشان رہتے ہیں
اور اچھے طریقے سے پڑھائی اور اپنے دیگر کا م نہیں کر پاتے‘‘۔علی نے اپنے
بارے میں بتا یا۔
’’ارے بھائی آپ تو بڑی اچھی اچھی باتیں کر رہے ہو آج۔ یہ تبدیلی کیسے آگئی
اور اپنے اس نئے ٹائم ٹیبل کا احوال بھی بتاؤ‘‘۔
’’اس ٹائم ٹیبل میں صبح فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد قرآن مجید کی تلاوت
اور ترجمعہ ہے۔ اس کے بعد ورزش کے لیئے ایک گھنٹہ پی ٹی یا جوڈو کراٹے
سکھائے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد ناشتہ اور سکول کی تیاری ہے۔ اسمبلی کے بعد
باقاعدہ کلاسز شروع ہوجاتی ہیں۔ پہلی چار کلاسز کے بعد بریک ہوتی ہے۔ اس
میں چائے یا جوس یا ملک شیک دیا جاتاہے۔ اس کے بعد اگلے چار پیریڈز ہوتے
ہیں اور چھٹی کے بعد ظہر کی نماز ہوتی ہے اور دوپہر کے کھانے کے بعد ایک
گھنٹہ تک دوپہر میں سونا ہوتا ہے۔ اس کو قیلولہ کہتے ہیں۔ جاگنے کے بعد
سلیف سٹڈی کے لیئے ایک گھنٹہ دیا جاتے ہے جس میں بچے ٹیچرز کی نگرانی میں
سکول کا ہوم ورک کرتے ہیں ۔اسی دوران عصر کی نماز پڑھائی جاتی ہے اور پھر
ایک گھنٹہ گیمز کے لیئے دیا جاتا ہے جو کہ نماز مغرب تک جاری رہتا ہے۔ مغرب
کی نماز سے فارغ ہوکر بچے پریپ ون کے لیئے پھر کلاس روم کا رخ کرتے ہیں
جہاں پر ان کو خطاطی اور کمزور مضامین کی سٹڈی کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
عشاء کی نماز کے ساتھ یا اس سے پہلے ان کو رات کا کھانا دیا جاتا ہے۔اور
عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد ایک استا د کی نگرانی میں بچے پریپ ٹو
میں خود سے پڑھتے ہیں اور تمام ہوم ورک مکمل کرتے ہیں اور کل ہونے والے
ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہیں ۔اس کے بعد بچوں کو سلا دیا جاتا ہے‘‘۔
’’یہ روٹین تو بہت اچھی ہے‘‘۔
’’بالکل اس روٹین پر عمل کر کے آپ کا کام بھی مکمل ہو جاتا ہے اور آپ کا
وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ یہ بچوں کو بہت سے فضول کاموں سے بھی
بچاتی ہے‘‘۔
’’لیکن یہ روٹین عام اداروں میں تو نہیں ہے۔‘‘
’’جی ہاں ۔ عام اداروں میں بچے کو دو بجے فارغ کرکے ٹیوشن سینٹروں کے حوالے
کر دیا جاتاہے۔ جہاں سے وہ رات گئے گھر آتا ہے اور ٹی وی دیکھ کر سو جاتا
ہے۔ اسی وجہ سے بچوں میں پڑھنے کا رحجان ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اور وہ اپنی
تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔ بس وہ دن گزارتے ہیں اور تعلیمی ادارے
اپنی فیس کھری کرتے ہیں۔ لیکن جن اداروں میں مثالی سکول کا ٹائم ٹیبل
اپنایا جاتا ہے وہاں بچہ ایک ہی چھت کے نیچے اپنی تما م ضروریات بھی پوری
کر لیتا ہے اور اپنی تعلیم پر بھی اس طرح سے توجہ دے پا تا ہے کہ ان اداروں
میں پڑھے ہوئے بچے بورڑ اور یونیورسٹی میں ٹاپ کرتے ہیں‘‘۔
’’لیکن آج سے کچھ عرصہ پہلے تو اس قسم کی تعلیم کا کوئی وجود نہ تھا۔ تب
بھی تو بچے بورڈ میں ٹاپ کرتے تھے ۔ اب اس کی اتنی ضرورت کیوں محسوس ہورہی
ہے؟‘‘۔
’’میں نے اوکاڑہ میں قائم اس ادارے کے بانی پروفیسر ظفر شاہ صاحب سے جب یہ
سوال کیا تو انہوں نے مجھے بتا یا کہ آج سے چند سال پہلے میڈیا نے اتنی
ترقی نہیں کی تھی ۔ اب طالب علم سکول سے واپس آکر گھر میں توجہ اور انہماک
کے ساتھ پڑھ نہیں سکتا۔ گھر میں ٹی وی چل رہا ہوتا ہے۔موبائل اور انٹر نیٹ
کا استعمال بھی بہت عام ہوچکا ہے۔ بچے لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹس کا استعمال بھی
آذادانہ کر تے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کی
صحت پر بھی اس کے مضر اثرات پڑتے ہیں۔اور گھر میں روک ٹوک کے باوجود بھی
بچے باز نہیں آتے۔لیکن مثالی سکول کے سسٹم میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں پر بچے
کی توجہ صرف اور صرف پڑھائی پر ہی رہتی ہے۔ فارغ وقت میں اس کے لئے کھیلوں
کا انتظام کیا جاتا ہے۔جس سے اس کی صحت پر بھی اچھے اثرات پڑتے ہیں‘‘۔
|