مکرمی! ہائی کورٹ کی ۲ رکنی بنچ نے مالیگاؤں بم دھماکہ
معاملہ میں گرفتار ۴ بھگوا ملزمین کو غیر مشروط ضمانت پر رہا کئے جانے کے
احکامات صادر کردیئے ہیں ۔انصاف کی آس لگائے شہر مالیگاؤں کی عوام اورخصوصاً
بم دھماکہ متاثرین کے اہل و عیال میں مایوسی کی لہر چھا گئی۔ جب سے مودی
دور حکومت شروع ہوا، اس وقت سے بھگوا ملزمین کو راحت ملنا شروع ہوگئی۔ یہ
تمام بھگوا ملزمین گجرات فسادات پھر ان کے بعد مسلم فرضی انکاؤنٹر یا پھر
مسلمانوں کے خلاف سلسلہ وار بم دھماکوں اور دہشت گردی کے معاملوں میں مختلف
مواقع پر گرفتار ہوئے تھے لیکن ان میں ہر کسی کو ایک ایک کرکے ضمانت یا
رہائی ملتی چلی جارہی ہے اس کو محض حسن اتفاق نہیں کہا جاسکتا کیو ں کہ یہ
تمام افراد خود کو ’ہندو توا سپاہی‘ کہتے ہیں ان تمام افراد پر مسلم اقلیت
کے خلاف جرم عائد ہوئے تھے، اور اس سلسلے میں ان تمام لوگوں پر مقدمے چلے
اور سزائیں بھی ہوئیں لیکن پھر ایک ایک کرکے کئی بھگوا ملزمین کو ضمانت پر
رہا کردیاگیا۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔واضح رہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس پر دہشت
گرد انہ حملے کے معاملے میں ملزمین کو بری کرتے ہوئے جج نے افسوس کا اظہار
کیا تھا کہ این آئی اے نے ثبوت قاعدے سے پیش نہیں کئے۔ جج کے تبصرہ سے
نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ ایجنسی نے معاملے کو کمزور کیا جس سے ملزم بری
ہو جائیں۔بھگوا دہشت گردی کے ملزمان نہ صرف عدالتوں سے ضمانت پارہے ہیں
بلکہ انہیں کلین چٹ بھی دی جارہی ہے۔دہشت گردی کی کاروائی میں دوہرا پیمانہ
اختیار کیا جا رہا ہے۔دہشت گردی کے جرم میں ملوث ہندو شدت پسند وں کو اکثر
بے قصور مانا جارہا ہے اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اکثریتی طبقہ سے متعلق
لوگ قطعی اس طرح کی کاروائی انجام نہیں دے سکتے۔ وہیں دوسری جانب ان
معاملوں میں بات جب کسی اقلیتی اور پسماندہ طبقات کے لوگوں کی آجائے تو
انھیں فوراً ہی قصوروار مان لیا جاتا ہے۔ ایک بار کسی کا نام دہشت گردی سے
جڑ جائے تو اسے عدالت ضمانت دینے سے کتراتی ہے اس کے برعکس یہاں ہندوانتہا
پسندوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ عجیب ہے۔منصوبہ بند طریقے سے یکے بعد دیگرے
ضمانت ملنے سے بھگوا شدت پسند تنظیموں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔عدالت کو یہ
ضمانت عرضداشت پر فیصلہ صادر کرتے وقت ان بم دھماکہ معاملے میں شہید ہونے
والے افراد اورسیکڑوں زخمیوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے تھا جو گذشتہ بارہ
سالوں سے انصاف کے منتظرہیں۔
|