بے بسی کی تصویر

جدید جمہوری اقدار کا نچوڑ یہ ہے کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے جو کہ اپنے شہریوں کے جان و مال کی محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی فلاح و بہبود اور خوشی کی بھی متمنی ہوتی ہے۔ریا ست اپنے شہریوں کے دکھ درد اور تکالیف کے ازالہ کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔اپنے شہریوں کو مصائب میں گھرا ہوا دیکھنے کے بعد اس کی آنکھوں میں آنسو تو نہیں دیکھے جا سکتے کیونکہ ریاست گوشت پوست کا کوئی مجرد پیکر تونہیں ہوتی جو اپنے اظہاریہ میں عام انسانوں کی طرح ہو۔ریاست ایک غیر محسوس شہ ہے ہوتی ہے جس کو چھو کر محسوس نہیں کیا جا سکتا جبکہ اس غیر محسوس حقیقت کی خاطر وطن کے جانباز اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنااپنا فخر تصورکرتے ہیں ۔اپنے وطن کی خاطر جان دینے والوں کو شہید کہا جا تا ہے اور ان کی شان میں نغمے گائے جاتے ہیں جس سے ریاست کی اہمیت مزید دو چند ہو جاتی ہے ۔ریاست انسانوں کے ارتقاء کی ایک قابلِ قدر اکائی ہے جبکہ زمانہ قدیم میں ریاست نام کی کوئی شہ نہیں ہوتی تھی ۔قبائلی نظام میں انسان چھوٹے چھوٹے قطعات میں بٹے ہوے تھے اور باہمی لڑائیوں سے دنیا کا امن تاراج کرتے رہتے تھے ۔یہ تو علم کی روشنی تھی جس نے جمہوریت کے نور سے جدید ریاست کا تصور پیش کر کے انسانوں کو باہم مل جل کر رہنے کی جانب راغب کیا۔جمہوریت ان کا متفقہ محور قرار پائی اور یوں عام انسانوں کی رائے سے حکمرانوں کے انتخاب کو قبولِ عام عطا ہوا۔نئے قوانین مدون ہوئے جن کی روشنی میں شہریوں نے اپنے حقوق ریاست کے حوالے کئے اور ریاست نے ایک معاہدے کے تحت انھیں ان کے جان و مال کے تحفظ کا یقین دلایا۔جمہوری حسن کی انتہا یہ ہے کہ ابراہم لنکن جیسا خانہ بدوش مدبر امریکہ کا صدر منتخب ہوااور پھر موجودہ صدی میں حقیر قرار پانے والی سیاہ فام کمیونیٹی کا درخشندہ ستارہ بارک حسین اوبامہ امریکہ کا صدر منتخب ہوا۔ یورپ نے تو جدید ریاست کے قیام کو ایسا روپ عطا کیا جس پر دنیا اس پر رشک کرتی ہے ۔اس نے ہر شہری کے ساتھ عدل و انصاف اور مساوی سلوک کی ایک ایسی تابندہ روائت قائم کی جس کی پیروی کرنے کی ہر قوم متمنی ہے لیکن مفادات کی زنجیریں انھیں ایسا کرنا میں مانع ہیں ۔جدید فلاحی ریاست کے اس تصور کو والٹیر اور روسو جیسے فلاسفرز نے مزید بڑھاوا دیا اور دوسری ا قوام کو اس کے قیام کی جانب راغب کیا۔نتیجہ یہ ہے کہ آج اس کرہِ ارض پر جرنیلوں اور شہنشاہوں کی بجائے جمہوری حکمران مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہیں۔ ،۔
پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو ابھی تک فلاحی ریاست کا مقام حاصل نہیں کر سکی۔قائدِ اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا مطمع نظر ایک جدید فلاحی ریاست تھی لیکن بد قسمتی سے اس جانب ہماری پیش قدمی انتہائی سست روی کا شکار ہے۔آزادی کے ابتدائی ایام سے ہی پاکستان پر چند مخصوص خاندانوں نے قبضہ کر رکھا ہے لہذا فلاحی ریاست کے قیام کی جس طرح دھول اڑائی گئی وہ بیان سے باہر ہے ۔ محلاتی سازشوں سے جس طرح وزرائے اعظم کی نامزدگی اور رخصتی ہوتی رہی وہ سب کے سامنے ہے۔پہلے تو کرپشن کے الزام کے بغیر ہی وزیرِ اعظم کو رخصت کر دیا جاتا تھا کیونکہ گونر جنرل کو ایسا کرنے کا آئینی اختیار تھا جبکہ بعد میں ۵۸ ٹوبی کے تحت حکومتوں کی رخصتی معمول کا کارنامہ قرار پائی اور اب یہ کام عدالتوں کے ذمہ لگا دیا گیا ہے کہ کسے کب اور کیوں اقتدار سے بے دخل کرنا ہے ۔کون ہے جس کی جشمِ آبرو سے یہ سارا تماشہ رچایا جاتا ہے ؟ کون ہے جو اس طرح کے فیصلے صادر کرتا ہے ؟کس کی جانب سارے ادارے دیکھتے ہیں؟ کون ہے جس کا فرمان حرفِ آخر قرار پاتاہے ؟کون ہے جس کے خوف سے وہ سہمے سہمے رہتے ہیں؟ مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بابائے قوم کا جدید فلاحی ریاست کے قیام کا ویژن حقیقت کا جامہ پہننے سے قاصر رہا ۔یہ مخصوص خاندان اتنے شاطر ہیں کہ انھوں نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے عوام کو اپنے جال میں جکڑرکھا ہے ،وہ دھن دولت، پیسے اور جتھے کے زور پر منتخب ہو کر لوٹ مار کا دھندہ شرع کر دیتے ہیں اور انھیں روکنے والا کوئی نہیں ہوتا کیونکہ مخصوص قوتیں ان کی پشت پر کھڑی ہوتی ہیں۔ان کے ذاتی مفادات اتنے قوی ہوتے ہیں کہ انھیں اپنے مفادات کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا ۔وہ خالی خولی نعروں سے عوام کو بیوقوف بنانے کا ہنر جانتے ہیں اور عوام ان کے جھوٹ پر یقین کر کے ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔و ہ پچھلی کئی دہائیوں سے اقتدار میں ہیں اور ہر جماعت حکومت سازی کیلئے ان کی مرہونِ منت ہے ۔وہ اپنی طاقت سے بھی باخبر ہیں اور مقتدر حلقوں کی خوشنودی سے بھی غافل نہیں ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مقتدر حلقوں کی خوشنو وی کے بغیر سب کچھ پانی کا بلبلہ ہے لہذا راتوں رات جماعتیں بدل کر وفاداری کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔جب ان کی آنکھوں کے سامنے وزرائے اعظم جیلوں ،زندانوں اور پھانسی گھاٹوں پر لٹکائے جاتے ہوں تو وہ کیا اتنے کوڑھ مغز ہیں کہ وہ اس منتخب قیادت کا ساتھ دیں جن کا مقدر زندانوں کی تاریکیا ں ہیں۔وہ روشنی ،اجالے اور نور کے راہی ہیں لہذا ظلمتوں سے پر ہیز کرتے ہیں۔وہ وہاں پر کھڑا ہونا پسند کرتے ہیں جہاں بادِ نسیم ہولے ہولے چلتی اور اٹھلیکیاں کرتی ہے۔فیض احمد فیض نے کہا تھا ( گل کھلے،نہ ان سے ملے نہ مہ پی ہے۔،۔ عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے)لہذا وہ ایسی بہار کے قائل ہیں جس میں یہ ساری خوبیاں یکجا ہوں اور یہ سب کچھ مہربانوں کی چشمِ آبرو کی جنبش سے ہی ممکن ہے اور وہ حتمی فیصلے کیلئے اسی جانب تکتے رہتے ہیں۔،۔عمران خان سے توقع تھی کہ وہ اس مروجہ کلچر کا خاتمہ کریں گے لیکن وہ تو مٹی کا مادھو نکلے۔ان کے دائیں بائیں بھی وہی چہرے ہیں جو سدا سے اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر رہے ہیں اور وزارتوں سے مستفیذ ہوتے رہے ہیں۔ان کیلئے وزارت ایک شان کی علامت ہے لہذا انھیں وزارت کا طرہ سجائے بغیر چین نہیں آتا۔وہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو سدا کرتے آئے ہیں۔یعنی حکومت کا مال ہڑپ کرنا ہے جس سے تبدیلی کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گیا ہے۔صفِ دشمناں میں تو کہرام مچا ہوا ہے جبکہ صفِ دوستاں عیش و طرب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ان کے خلاف نہ کوئی کاروائی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ریفرنس فائل کیا جاتا ہے۔وہ غریبوں کی جھو نپڑیوں پر قبضہ کر لیں،ان کے اہل وعیال کو ناکردہ جرموں کی سزا میں جیل کی کال کوٹھریوں میں بند کروا دیں ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جاتا کیونکہ اپنوں کی حفاظت بہر حال فرض کفایہ ہے جس کا دا کیا جانا ضروی ہوتا ہے۔ احتساب سے کوئی نہیں روکتا لیکن یہ کیسا احتساب ہے کہ مخالفین کی گردنیں ناپی جائیں اور اپنوں کو ریاستی تحفظ عطا کیا جائے۔اپنے خاندان کی چشم و چراغ منی لانڈرنگ میں ملوث ہو تو بے گناہ ٹھہرے جبکہ پی پی پی کی قیادت اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت ہتھکڑیوں کا زیور پہننے اورذلت و رسوائی سمیٹے۔مو جو دہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ اس نے(ریاست ماں جیسی ہے ) کے تصور کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں ۔جن کی آنکھوں میں خوا ب سجائے گئے تھے اب وہاں پر پچھتاوے کے آنسو ہیں ۔ غریب مفلوک الحال اور محروم لوگ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت ان کے منہ سے آخر ی نوالہ چھینے کی کوشش میں جٹی ہوئی ہے ۔ ٹیکسوں کی نئی بوچھاڑ میں ہر کوئی مضطرب اور پریشان ہے ۔اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ پٹرول ،ڈیزل ، گیس اور تیل کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں پہلے ہی عوام کو نڈھال کئے ہوئے ہیں کہ ایسے میں موجودہ بجٹ نے سارے کس بل نکال دئے ہیں ۔ وہ جائیں تو جائیں کہاں کیونکہ جھنیں مسیحا کہہ کر اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا تھا انہی کے ہاتھوں زہر کا پیالہ پینا پڑ گیا ہے ۔ کاش کوئی غریب کا ہمدردہوتا، غمگسار ہوتا ،دوست ہوتا، اس کے درد کو محسوس کرتا اور اسے آسانیاں عطا کرتا۔ٹیکس کی تلوار تو ہر کوئی سونت سکتا ہے جبکہ ریاست ماں جیسی کا عملی ثبوت بہم پہنچانا بڑے دل گردے کا کام ہو تا ہے ۔کاش حکومت ایسا کرکے نیک نامی کے ساتھ ساتھ عوام کی دعائیں سمیٹتی ؟

 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 516140 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.