کاش! انسان الحمداللہ کا فلسفہ
تسلیم کر لیتا تو الکلام اس کیلیے صراطِ المستقیم بن جاتا-
انسانی معاشرے کا ابتدائی دور انسانیت کا دور جو معاشرے کی قربانیوں اور
تجربوں کے نتیجہ میں ظاہر ہوا اس دور کے حاصل علم سے فیضیاب انسان نے جب
اُس علم کو اپنی ذاتی کاوش اور کوشش سے حاصل کردہ علم قرار دیا اور اُس کو
بطورِ قوت استعمال کر کے ذاتی ملکیت کا دعویدار بنا تو دورِ اول کے فرعون
کا انسانیت کے دور میں ظہور ہوا فرعون اور انسانیت کے درمیاں جاری دور میں
انسانیت کامیاب ہوجاتی-
مگر بصورت ِ ہامان عالم بن کر فرعون کا اک سہارا بن گیا انسانیت پھر سے
فرعو ن و ہامان سے زیر ہوئی انسانی علم زمینی قطعہ کے بعد اب انسان پر بھی
ذاتی ملکیت کا انسان دعویدار بنا انسانیت کا علم بردار انسان پھر بھی
انسانیت کیلے جہدوجہد میں سرگرمِ عمل رہا اور مرضی کی زندگی کیلیے کوشش
کرتا رہا-
کوشش و کاوش قربانی وتجربے کے بعد حاصل کے گئے علم سے انسان نے سرمائے کے
اِدراک و انتقال کا علم واضع کیا اس سے قارون کی صورت میں انسانیت کے دور
کا سب سے بڑا مخالف وجود میں آیا جو کہ انسان و انسانی معاشرے کی خرید
وفروخت تک کرسکتا ہے-
دورِفرعون کے بعد دورِفرعون و ہامان اور دور ہامان کے بعد دورِ ہامان و
فرعون کے دور اس کے بعد دورِ فرعون ہامان وقارون سے بھی اپنی مرضی کی زندگی
کیلے انسانیت کے دور کے انسان نے کسی بھی قسم کی جانی ومالی قربانی سے گریز
نہ کرتے ہوئے ارتقاء کا سفر طے کیا-
موجودہ دور کے فرعون ہامان قارون کی موجودگی میں بھی انسان کو اختیار ہے کہ
وہ اپنے لیے اپنی مرضی کی زندگی کا انتخاب کرے انسان جب تسخیرِ کائنات کیلے
سرگرمِ عمل ہوا تو اب آنے والے انسان کو یہ حق حاصل ہوا کہ وہ ارتقاء کرتی
دنیا میں ایسی اعلیٰ ترین دنیاوی زندگی بسر کرے جو اس وقت کے لحاظ سے
بہترین ہو ساتھ ساتھ فرد یہ بھی خیال رکھے کہ اس کا کوئی بھی غلط قدم اس کو
انسان یا انسانوں کی غلامی یا غلام بنا سکتا ہے لہٰذا اپنے مقام سے ارتقاء
کرتے ہوئے زندگی کو بسر کرئے نہ کہ خواہش کا اظہار کرتے ہوئے مقام اسفل کی
طرف جائے-
دور اول کا انسان اس ارتقاء کرتے دور میں عقل و قیاس سے اپنی ارتقاء کی
منازل طے کرتا جارہا ہے کیا اگر آ ج تک کے حاصل کردہ علم کے بعد اب فرد
اپنا ارتقائی سفر الکلام وعقل سے جارہی رکھے تو آج کے فرعون ہامان و قارون
کے خلاف جلد انسانیت کا دور فتح حاصل کرسکتا ہے ؟
وسلام |