حدیث اور سنت میں فرق :مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شروع اللہ کے پاک نام سے جو بڑا مہربان اور نہا یت رحم کرنے والا ہے ۔
الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی ۔ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اھدنا الصراط المستقیم ۔ صراط الذین انعمت علیھم ۔ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین۔ وقال رسول اللہ ﷺ علیکم بسنتی و سنة الخلفاءالراشدین المھدیین۔ صدق اللہ مولنا العظیم و بلغنا رسولہ النبی الکریم الامین۔ ونحن علی ذالک لمن الشاھدین والشاکرین والحمد للہ رب العالمین ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ اس نے اپنی پوری مخلوقات میں سے ہمیں انسان بنایا جو کہ اشرف المخلوقات ہے اور انسانوں میں سے اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں مسلمان بنایا کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں سچا دین صرف اور صرف اسلام ہے ۔ اور پھر مسلمانوں میں اہل سنت والجماعت بننے کی توفیق عطاء فرمائی ۔ جس طرح سارے دینوں میں سچا دین صرف اسلام ہے اسی طرح مسلمانوں میں سے نجات پانے والی جماعت کا نام اہل سنت والجماعت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں تاکیدیں فرمائیں کہ علیکم بسنتی میری سنت کو لازم پکڑنا اور فرمایا فمن رغب عن سنتی فلیس منی جو میری سنت سے منہ موڑ گیا وہ میرا کہلانے کا حقدار نہیں۔ من احب سنتی فقد احبنی جس نے میری سنت سے پیار کیا اس نے مجھ سے پیار کیا ومن احبنی کان معی فی الجنة اور جس نے مجھ سے پیار کیا وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنت پر عمل کرنے کی بہت تاکیدیں فرمائیں۔

حضرت آپ کی سنت کیا ہے ؟
ایک دن صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ حضرت آپ کی سنت کیا ہے ؟ فرمایا میری سنت یہ ہے کہ سینہ کینے سے پاک ہو ۔ ہمارے مسلک اہل السنت والجماعت میں جہاں اور ہزاروں خوبیاں ہیں ایک سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس مسلک کی بنیاد کسی کینے پر نہیں۔ آپ اردگرد نظر دوڑائیں تو کسی فرقے کی بنیاد ہی یہی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ سے کینہ رکھا جائے کسی کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت سے کینہ ہو ۔ کسی کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ فقہاءکرام کے خلاف کینہ ہو کسی کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ محدثین کے خلاف کینہ ہو۔ عثمانی کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ اولیاءاللہ کے خلاف کینہ رکھا جائے ۔ کوئی علماءامت کے خلاف کینہ رکھتا ہے لیکن ایک مسلک اہل السنت والجماعت ہے جو دنیا میں محبت اور پیار کا پیغام دیتا ہے وہ یہی کہتا ہے ، ان کی دعا اور محنت یہی ہے کہ یا اللہ جس طرح ہمارا سینہ صحابہ کرام کی محبت سے پرنور ہے سب کے سینے کو صحابہ کی محبت سے پر نور کر دے ۔ یا اللہ جس طرح ہمارے دل اہل بیت کی محبت سے منور ہیں سب کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور اہل بیت کی محبت پیدا فرما دیجیئے ۔ یا اللہ جس طرح فقہاءو محدثین سے ہمیں محبت ہے ، یہ دو جماعتیں ہیں فقہاءاور محدثین جنہوں نے صحابہ ؓ کے بعد دین کی خدمت کی ہے ۔

محدث اور فقیہ میں فرق کی مثال:
کیا بات ہے ؟ کیا بات ہے (ڈانٹ کے ساتھ غصے کا اظہار کرتے ہوئے) ۔ کیا بات ہے ( تعریفی انداز میں) دیکھئے ایک فقرہ میں نے آپ کے سامنے تین دفعہ بولا ہے ۔ پہلے میرا لہجہ سوالیہ تھا تو سب نے پیچھے دیکھا پتہ نہیں کیا بات ہے ادھر ۔ دوسری بار میں نے صرف لہجہ بدلا ہے ایک نقطہ بھی کم و بیش نہیں کیا اور اور میں نے پورا غصہ اس میں بھر دیا ہے گویا میں کسی کو ڈانٹ رہا ہوں ۔تیسری مرتبہ میں نے یہی فقرہ بولا ہے صرف لہجہ بدلا ہے اور اسی فقرے میں محبت اور پیار بھر دیا ہے گویا میں کسی کی تعریف کر رہا ہوں کہ کیا بات ہے ۔ اب یہ میرا بولا ہوا فقرہ کاغذ پر لکھ کر کسی کے سامنے رکھ دیا جائے تو جس نے میرا لب و لہجہ نہیں دیکھا تو وہ کیا سمجھے گا کہ یہ پیار میں کہا ہے یا غصے میں کہا ہے یا سوالیہ لہجہ ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ ہمیں صرف الفاظ کی ضرورت نہیں ہے ۔ کس ماحول میں حضرت نے ارشاد فرمایا آپ کا لب و لہجہ کیا تھا اس کی بھی ضرورت ہے اسی لےے محدثین کون ہیں؟ الفاظ شناسِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فقہاء ہیں مزاج شناسِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ محدث کی رسائی زبانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہے کہ حضرت فرمان کیا فرما رہے ہیں۔ اور فقہاءحضرت کی پیشانی سے سینکڑوں مسائل پڑھ جاتے ہیں۔ اسی لئے یہ دونوں جماعتیں دین کی خادم ہیں کہ ایک نے چھلکے کو محفوظ کیا ہے دوسرے نے مغز کو محفوظ کیا ہے اور اہل السنت والجماعت (الحمد للہ ) دونوں سے محبت رکھتے ہیں ۔ اولیاءاللہ سے محبت رکھتے ہیں ۔ تو ایک تو خوبی یہ ہوئی دنیا میں کہ اہل سنت والجماعت جو مسلک ہے یہ محبت اور پیار کا مسلک ہے ۔ صحابہ ؓ سے محبت رکھو، اہل بیت سے محبت رکھو، اولیاءاللہ سے محبت رکھو ، علماءامت سے پیار کرو، فقہاءسے محبت رکھو، محدثین سے محبت رکھو۔ یہ تو دنیا میں فائدہ ہے ۔ اور آخرت میں جب ان کی بات سنی جائے گی اللہ کی بارگاہ میں تو آج اگر حضرت تونسوی دامت برکاتہم العالیہ یہ گالیاں سن کر بھی فاروق اعظم ؓ کی شان بیان کرتے ہیں تو کیا قیامت کے دن فاروقِ اعظم ؓ جو ہیں وہ حضرت تونسوی کو بھول جائیں گے ؟ وہ سفارش کریں گے سنیوں کی ۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب دامت برکاتہم العالیہ سب کی گالیاں سن کر بھی اہل بیت کی شان بیان کرتے ہیں۔ تو کیا قیامت کے دن اہل بیت قاضی کو بھول جائیں گے ۔ قیامت میں فائدہ یہ ہو گا کہ صحابہ کہیں گے آﺅ ہم تمہاری سفارش کردیں اللہ کی بارگاہ میں ۔ اہل بیت بھی آوازیں دیں گے سنیو آﺅ ہم تمہاری سفارش کردیں اللہ کی بارگاہ میں ۔ محدثین بھی ہماری سفارش کریں گے الحمد للہ ۔ فقہاءبھی ہماری سفارش کریں گے ۔ اولیاءاللہ بھی ہماری سفارش کریں گے ۔ تو اس لئے یہ ایک ایسی بابرکت جماعت ہے جو دنیا میں بھی محبت اور پیار کا پیغام دیتی ہے ۔

سنت کسے کہتے ہیں ؟
آپ اپنے کاموں پر نظر دوڑائیں تو یقیناً آپ اپنے کاموں کو دو حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں ۔ ایک وہ کام جو آپ عادتاً کرتے ہیں۔ اور ایک وہ کام جو کبھی ضرورتاً کرتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی کی عادت ہے کہ روزانہ فجر کی نماز کے بعد ایک پارہ تلاوت کرتا ہے اس نے عادت بنالی ۔ اسی طرح ایک آدمی ہے وہ روازنہ اذان سے پہلے سیر کو نکل جاتا ہے پھر آکر جماعت سے نماز پڑھ لیتا ہے انہوں نے ایک عادت بنالی ہے ۔ ایک دن آپ نے دیکھا اس نے تلاوت نہیں کی اٹھ کر چلا گیا ہے اگلے دن آپ نے پوچھا کل آپ بیٹھے نہیں۔ وہ جواب دیتا ہے کہ ایک دوست بیمار تھا میں نے سوچا کالج جانے سے پہلے اس کی بیمار پرسی کرلوں ۔ تو یہ عمل جو اس نے کیا یہ ضرورت تھی کہ عادت ۔ تو جب آپ اپنے کاموں پر نظر دوڑائیں گے تو کچھ کام آپ ضرورتا ً کرتے ہیں اور کچھ کام آپ عادتاً کرتے ہیں۔ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کام بھی ان دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ کچھ کام آپ عادتاً فرماتے تھے اور کچھ کام ضرورتاً فرماتے تھے ۔ اب ان میں سے ہم نے تابعداری کن کاموں کی کرنی ہے فرمایا علیکم بسنتی وہ جو میں عادتاً کام کرتا ہوں ان کی تابعداری کرو۔ اب حدیث میں دونوں چیزیں آئیں گی سنت والے کام بھی اور عادت والے کام بھی اب جس میں دو چیزیں آجائیں وہاں ہمیں حکم ہے علیکم بسنتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت کا اتباع کرنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک عادت کو ہم نے بھی عادت بنانا ہے اور اپنانا ہے ۔

اس بات کو ایک دو مثالوں سے سمجھیں:
آپ روزانہ وضو میں کلی کرتے ہونا؟ یہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک عادت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزانہ وضو میں کلی فرماتے تھے ۔ اب یہ عادت امت نے عادت کے انداز میں ہی اپنالی ۔ جہاں بھی کوئی وضو کرتا ہے اس میں کلی کرتا ہے یا نہیں کرتا؟ اگر ایک دن آپ وضو میں کلی نہ کریں تو آپ کا دل یقیناً جھنجھوڑے گا کہ آج ایک سنت کا ثواب ضائع ہوگیا ہے ۔ جھنجھوڑے گا یا نہیں؟ لیکن جن حدیث کی کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس مبارک عادت کا تذکرہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کلی فرماتے تھے ۔ فقہاء نے اس کو سنتوں میں شمار کیا ہے ۔ احادیث کی کتابوں میں ایسی کتابیں بھی ملتی ہیں کہ وضو کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی سے بوس و کنار بھی فرمایا ہے ۔ یہ عادت نہیں تھی بلکہ ضرورت تھی ۔ کیونکہ پیغمبر پر مسئلہ سمجھانا بھی ایک ضرورت ہوتی ہے کہ کہاں تک وضو ہے اور کہاں تک ٹوٹ گیا۔

جیسے :
ایک مرتبہ حضرت فاروقِ اعظمؓ تشریف لائے ایک سیب ہاتھ میں ہے رمضان کا مہینہ ہے اور روزہ رکھا ہوا ہے آکر عرض کیا حضرت اگر روزے کی حالت میں بیوی سے بوس وکنار کر لیا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ حضرت یوں بھی فرما سکتے تھے کہ ٹوٹ جاتا ہے اور یوں بھی کہ نہیں ۔ لیکن دیکھا کہ یہ صحابی تو مجتہد ہے اس کو تو اجتہاد کا انداز سکھانا چاہئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ ہاتھ میں کیا ہے فرمایا جی سیب ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ذرا مجھے دو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیب لے کر مبارک ہونٹوں پر رکھ لیا پھر حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ عمر کیا میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے ؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ ایسے تو نہیں بلکہ کھانے سے ٹوٹے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسئلہ تو نے پوچھا وہ سمجھ آگیا یا نہیں۔ حضرت عمرؓ کہنے لگے کہ سمجھ آگیا۔

حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہؒ کی ذہانت:
حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہؒ سبق پڑھا رہے تھے برقعے میں ایک عورت آئی اس نے ایک سیب اور ایک چھری امام صاحب کو دے دی ۔ طلباءبڑے خوش ہوئے کہ بھئی بہت ہی نیک عورت ہے کہ سیب تو لائی ساتھ چھری بھی لے آئی تاکہ ہمیں تلاش نہ کرنی پڑے۔ کیونکہ طالب علموں کی سستی تو بڑی مشہور ہوتی ہے ۔

لطیفہ :
ایک بار طالب علم روٹی کھارہے تھے لقمہ اٹک گیا اب اس کو کوئی پانی لاکر نہیں دے رہا تھا بلکہ ایک اٹھتا ہے دو مکے مارتا ہے دوسرا اٹھتا ہے دو مکے مارتا ہے تاکہ نیچے چلا جائے ۔ آخر لقمہ بھی ایسا تھا جو کسی کی بات نہیں مانتا تھا لقمے کو مکوں کو دلیل سمجھ میں نہیں آرہی تھی ۔ اب وہ خود ہی اٹھا اور جاکر کنویں میں ڈول ڈالا جب کھینچنے لگا اس بھرے ہوئے ڈول کو تو زور لگا وہ لقمہ نیچے چلا گیا تو وہ بھی ڈول وہیں پھینک کر آگیا۔

خیر بات یہ کر رہا تھا کہ طلباء بڑے خوش ہوئے کہ بڑی نیک عورت ہے کہ سیب تو لائی ہے ساتھ چھری بھی لائی ہے ۔ امام اعظمؒ نے سیب کاٹا اس کا جو اندر کا حصہ تھا وہ باہر نکال کر چھری اور سیب عورت کو واپس کر دیا ۔ اب شاگرد امام صاحب کو حدیثیں سنا رہے ہیں کہ حضرت حدیث میں تو آتا ہے کہ ہدیہ قبول کر لینا چاہیے تو آپ نے تو حدیث کے خلاف عمل کیا ہے اگر آپ کو ضرورت نہیں تھی تو ہم جو یہاں بیٹھے ہوئے تھے اور ہدیے میں سارے شریک ہوتے ہیں آپ ہمیں دے دیتے ۔ امام صاحبؒ نے فرمایا وہ بے چاری تو مسئلہ پوچھنے آئی تھی ۔ اب یہ حیران کہ مسئلہ کونسا پوچھ کر گئی ہے ۔ نہ اس نے زبان سے پوچھا نہ اس نے زبان سے بتایا ۔ فرمایا کہ سیب کے باہر کئی رنگ ہوتے ہیں کہیں مٹیالہ ہے، کہیں مہندی کا رنگ ہے ،کہیں سبز ہے کہیں سرخ ہے ۔ عورت جب ناپاک ہوتی ہے تو خون کئی رنگ بدلتا رہتا ہے وہ یہ مسئلہ پوچھنے آئی تھی کہ کونسا رنگ ناپاکی کا ہے اور کانسا پاکی کا ہے کہ کب نماز شروع کی جائے اگرچہ سیب کے باہر بہت سے رنگ ہوتے ہیں لیکن اس کو کاٹیں تو اندر ایک ہی سفید رنگ ہے اور کوئی رنگ نہیں ۔تو میں نے کاٹ کر وہ حصہ باہر کی طرف کرکے اس کو دے دیا کہ سوائے سفید کے سارے رنگ ناپاکی کے ہیں۔ وہ خیرالقرون کا زمانہ تھا اندازہ کرو کہ عورت کو بھی اللہ تعالیٰ نے کیسا دماغ دیا تھا کہ کس طرح مسئلہ پوچھا اور امام اعظمؒ نے بھی کس انداز میں مسئلہ سمجھایا ۔

تو خیر میں عرض کر رہا تھا وضو کے بعد بیوی سے بوس و کنار کی حدیث آتی ہے ۔ لیکن آپ لوگوں نے زندگی میں جتنے وضو کئے تو کیا جس طرح آپ ہر وضو میں کلی کرتے ہیں کیا اسی طرح ہر وضو کے بعد بیوی سے بوس و کنار بھی کرتے ہیں؟ اور اگر نہیں کرتے تو کیا آپ کو دل جھنجھوڑتا ہے کہ آج سنت کا ثواب نہیں ملا؟ آخر کیوں؟ وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہے اور یہ بھی ۔ فرق کیا ہے کہ وہ (کلی کرنا) صرف حدیث نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ ہے اور یہ صرف حدیث ہے ۔ ہمیں حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ کو اپنانے کا ۔ اس لئے ہم وضو کریں گے کلی کریں گے اور نماز پڑھیں گے ۔ یہ ہوا سنت پر عمل ۔ اور اگر ہم وضو کرکے بیوی سے بوس و کنار کریں گے تو یہ ہے حدیث پر عمل نہ کہ سنت پر ۔

بخاری و مسلم میں حدیث موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے ۔ جوتے اتار کر نماز پڑھنے کی حدیث بخاری و مسلم میں بالکل نہیں ہے بلکہ ابو داﺅد شریف میں ہے لیکن کیونکہ جوتے اتار کر نماز پڑھنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی اس لئے امت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی عادت کو اپنایا اور اسی لئے ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق جوتے اتار کر نماز پڑھتے ہیں اگرچہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے کی احادیث بخاری و مسلم میں موجود ہے ۔ یہ ہے سنت اور حدیث میں فرق ۔ اس لئے جو حضرات یہ رٹ لگاتے ہیں کہ حدیث پر عمل کرو حدیث پر عمل کرو یہ نہ دیکھا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کیا تھی وہ حدیث کے نام پر سنت کو منا رہا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو فرمایا تھا میری سنت کو اپنانا جبکہ آج کل شوروغل ہے کہ حدیث پر عمل کرو حدیث پر۔

اسی طرح کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے جبکہ بیٹھ کر پیشاب کرنے کی حدیث بخاری و مسلم میں بالکل ہی نہیں بلکہ ترمذی و ابوداﺅ میں ہے ۔ لیکن بیٹھ کر پیشاب کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت کو امت نے عادتاً ہی اپنایا ۔ اور ساری امت بیٹھ کر پیشاب کرتی آرہی ہے ۔ اب بیٹھ کر پیشاب کرنے والا کیونکہ سنت پر عمل کررہا ہے اس لئے یہ اہل سنت ہے اور جو کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والی بخاری و مسلم کی حدیث پر عمل کرتا ہے وہ اہل حدیث ہے ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کیونکہ ہمارے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ علیکم بسنتی میری سنت کو اپنانا اسی لئے ہم کو تو سنت پر چلنے دو ۔ اگر آپ کہتے ہو کہ ہم نے تو حدیث پر عمل کرنا ہے اہل حدیث ہی بننا ہے سنت پر عمل نہیں کرنا تو ہم کو سنت سے نہ ہٹاﺅ بلکہ ہم آپ کو حدیث پر عمل کروانے میں آپ کی مدد کردیں گے وہ ایسے کہ جہاں کسی کو بیٹھ کر پیشاب کرتے دیکھ لیا اسے فوراً کھڑا کردیں گے کہ بھائی بیٹھ کر پیشاب کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اس لئے یہ اہل سنت کا طریقہ ہے تو اہل حدیث ہے حدیث پر عمل کر کھڑا ہو کر پیشاب کر۔

الحمد للہ ہم اہل سنت والجماعت ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ کو اپنانے والے ۔ معلوم ہوا کہ صرف حدیث کے لئے سنت ہونا ضرورت نہیں (یعنی جو بات بھی حدیث میں آجائے ضروری نہیں کہ وہ ہی سنت ہو جیسا کہ سابقہ مثالوں سے معلوم ہوگیا)۔

سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث بخاری میں ہے :
چنیوٹ کا ایک طالب علم میری پاس پڑھتا تھا ۔ شکیل نام تھا۔ میں لڑکوں کو کہتا تھا کہ تبلیغی جماعت والوں کی طرح کبھی کبھی اپنی مسجد میں اکٹھے ہوکر سب بیٹھ جاﺅ ایک لڑکا کھڑا ہو کر بیان کرے تاکہ بات کرنے کی جھجک دور ہو ۔ اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ جواب دینے میں کیا کمزوری رہ گئی ہے پھر اس جواب کی تیاری ہو ۔ خیر وہ لڑکا کسی مسجد میں گیا جماعت ہو چکی تھی دو تین آدمی نماز پڑھ رہے تھے ۔ یہ ایک آدمی کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ جب اس نے سلام پھیرا تو اس نے سلام کیا۔ اس نماز پڑھنے والے نے جواب دیا اس نے پوچھا کہ جی آپ کے والد صاحب حیات ہیں ؟ اس نے کہا جی ہاں لڑکے نے پوچھا کہ کیا کسی باہر کے ملک میں رہتے ہیں کہا جی ہاں باہر رہتے ہیں مگر آپ کو کیسے معلوم آپ کیوں پوچھ رہے ہیں لڑکے نے کہا کہ کچھ نہیں بس کوئی بات تھی ۔ اس آدمی نے پھر پوچھا کہ آپ کے پوچھنے کی وجہ کیا تھی ۔ اس لڑکے نے جواب دیا کہ آپ امی والی نماز پڑھ رہے تھے ابا والی نہیں پڑھ رہے تھے اسی سے میں نے سمجھ لیا کہ یا تو ابا وفات پا گئے ہوں گے یا باہر کسی ملک میں ہوں گے اور نماز امی سے سیکھی ہوگی ۔ اسی لئے سینے پر ہاتھ باندھ رہے ہیں۔ وہ آدمی بڑا تلملایا ۔ کہا کہ بخاری میں ہے یہ حدیث بخاری میں ہے لڑکے نے کہا کہ بالکل جھوٹ ہے یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے ۔

مجھے واپس آکر اس لڑکے نے یہ لطیفہ سنایا کہ آج یہ ماجرہ پیش آیا ۔ کل اس نے مجھے بخاری میں یہ حدیث دکھانی ہے ۔ میں نے کہا کہ فکر نہ کرو بخاری میں یہ حدیث ہے ہی نہیں اب اس لڑکے کے ساتھ ایک دو ساتھی اور چلے گئے کہ جی وہ کل آپ نے کہا تھا کہ حدیث دکھاﺅں گا وہ حدیث دیکھنی ہے وہ آگے سے لڑ پڑا کہ دفعہ ہو جاﺅ یہاں سے ۔ مجھے کل پتہ نہیں چلا تو نیو ٹاﺅن سے آیا ہے اور امین کا شاگرد ہے لڑکے نے کہا کہ امین کے شاگرد کو حدیث دکھانے سے کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع کیا ہے ۔ اس آدمی نے کہا کہ نہیں تو شرارت کرتا ہے ۔ لڑکے نے کہا کہ چلو بالفرض میں شرارت کر رہا ہوں تو حدیث تو دکھا دے نا۔

بخاری و مسلم کے خلاف ہے :
ایک دن اسی طرح وہ جامعہ ستاریہ چلا گیا کہتا ہے کہ میں نے جاکر دو نفل پڑھے۔ دو تین بابے بیٹھے تھے شور مچانے لگے نماز نہیں ہوتی ۔ نماز نہیں ہوتی ۔ بخاری مسلم کے خلاف ہے ۔ حدیث کے خلاف ہے میں نے کہا بابا جی نماز تو پڑھ لینے دو شور کیوں مچاتے ہو وہ پھر بول پڑے جی ہوتی ہی نہیں ہے ہوتی ہی نہیں ہے پوچھا کیا ہوا کہا بزرگوں نے کہ بخاری و مسلم کی حدیث کے خلاف ہے ۔ اس نے کہا چلو حدیث کے خلاف ہے سنت کے خلاف تو نہیں میں تو اہل سنت ہوں ۔ آپ کو کس نے کہا کہ میں اہل حدیث ہوں۔ بزرگوں نے گرج کر کہا کہ جو بخاری کے خلاف نماز پڑھتا ہو اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ لڑکے نے کہا کہ ویسے ہی غصہ کر رہے ہو یہ جو باقی لوگ نماز پڑھ رہے ہیں ان کو کیوں نہیں کچھ کہتے ہیں کہا کہ یہ لوگ تو بخاری کے خلاف نماز نہیں پڑھ رہے ۔ لڑکے نے پوچھا کہ کون پڑھ رہا ہے کسی نے نماز میں جوتا نہیں پہنا ہوا ان سب کے جوتے پہناﺅ تاکہ بخاری و مسلم پر عمل ہو جائے ۔

بخاری میں باب ہے باب الصلوة فی ثوب واحد ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا باب ہے تین کپڑوں میں نماز پڑھنے کا باب بخاری میں نہیں ہے تو ان کے کپڑے اتارو کسی کی قمیص رہنے دو کسی کی جراب رہنے دو کسی کی صرف بنیان رہنے دو۔ تاکہ آرام سے گن کر بتایا جا سکے کہ یہ دیکھئے ایک کپڑے میں نماز ہو رہی ہے حدیث پر عمل ہو رہا ہے بخاری پر عمل ہو رہا ہے اور بخاری و مسلم میں ہے کان یصلی وھو حامل حمامة بنت عاص کہ اپنی نواسی کو گود میں اٹھا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ رہے ہیں۔دو چار بچے یہاں موجود رکھو تاکہ جو بھی نماز پڑھے اس پر بچے کو سوا کر دیا جائے ۔ تاکہ نماز بخاری و مسلم کے مطابق ہو جائے ۔ وہ لڑکا کہتا ہے کہ اتنے میں دیکھا کہ ایک آدمی بیٹھ کر استنجا کر رہا تھا میں نے کہا کہ دیکھو وہ آدمی بیٹھ کر استنجا کر رہا ہے اسے کھڑا کرو بخاری و مسلم کے خلاف کر رہا ہے ۔ کم از کم اس کو تو بتاﺅ کہ بخاری و مسلم میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کی حدیث موجود نہیں ہے وہ لڑکا کہتا ہے کہ مجھے کہنے لگے کہ چلو ہمارے شیخ الحدیث کے پاس ۔ لڑکے نے کہا چلو بزرگوں نے جا کر کہا کہ جی یہ کہتا ہے کہ یہ یہ بات بخاری و مسلم میں ہے ۔ شیخ الحدیث نے کہا کہ جی ہاں ہے ۔ بزرگوں نے کہا کہ پھر اس پر ہمارا عمل کیوں نہیں ؟ شیخ الحدیث نے کہا کہ بس یہ لڑکا کوئی شرارتی معلوم ہوتا ہے ۔ لڑکے نے کہا کہ بخاری و مسلم کی حدیث پر عمل کرنے کو آپ شرارت کہتے ہیں۔

آمین تین بار کہنا سنت ہے ۔
اسی طرح فتاوی ستاریہ میں مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ تین دفعہ آمین کہنا سنت ہے اور آمین کے ساتھ رب اغفرلی کہنا بھی سنت ہے ۔ تین بار ایک شاگرد نے وہ صفحہ فوٹو سٹیٹ کروالیا جیب میں ڈالا اور چلا گیا ان کی مسجد میں مغرب کی نماز تھی ۔ امام نے کہا ولاالضا لین ۔ سب نے کہا آمین ۔ اس لڑکے نے کہا ۔ آمین رب اغفرلی ۔ پھر کہا آمین رب اغفرلی ۔ پھر کہا آمین رب اغفرلی ۔

اب شور مچ گیا ۔ پوچھا گیا تو کہاں سے آیا ہے ۔ کہنے لگا کہ جی میں تو حدیث پر عمل کر رہا ہوں یہ دیکھو فتاویٰ ستاریہ میں لکھا ہے ۔ عجیب بات ہے کہ اہل حدیث کی مسجد ہے اور حدیث پر عمل کرنے سے ناراض ہو رہے ہو ۔ کیوں ناراض ہو رہے ہو کہنے لگے نہیں نہیں تو شرارت کر رہا ہے ۔لڑکے نے کہا کہ حدیث پر عمل کرنا شرارت ہے ؟ عجیب بات ہے ؟ اہل حدیث کے منہ سے یہ کہنا کیسے زیب دیتا ہے کہ حدیث پر عمل کرنا شرارت ہے انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی عمل کرنا چاہئے ۔ کہنے لگا کہ بھئی کبھی کبھی کا لفظ دکھاﺅ کہ کہاں ہے حدیث میں ؟ تو میں کبھی کبھی کر لیا کروں گا تو وہ خاموش ہو گئے ۔

تو بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اہل سنت والجماعت ہیں اہل سنت وہ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ کو اپناتے ہیں ۔ ثبوت اور چیز ہے سنت اور چیز ہے جیسے نماز پڑھتے ہوئے دروازہ کھول دینا ثابت ہے سنت نہیں۔نماز کی حالت میں بچے کو اٹھا لینا ثابت ہے سنت نہیں ۔ لیکن ہم اہل سنت ۔ سنت کہتے ہی سڑک اور راستے کو ہیں اسی لئے جو عمل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امت میں چل پڑا وہی سنت ہے ۔

چند وسوسوں کے جوابات :
ہمارے دوست جو ہیں ان کے پاس صرف چند وسوسے ہوتے ہیں اور کچھ نہیں میں جب کراچی تھا تو دس بارہ آدمی آگئے میں نگرانی کر رہا تھا امتحانات میں ۔ دو ساتھی آئے کہ یہ آدمی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم بیٹھ گئے بڑا عجیب انداز تھا ان کا پڑھے لکھے آدمی تھے کوئی پروفیسر، کوئی ٹیچر، کوئی وکیل کہنے لگے ہم بہت پریشان ہیں پوچھا کیا ہوا جی ۔ کہنے لگا ہوا کیا چار امام ہو گئے ہیں ۔ چار ،چار، چار میں نے کہا کہاں؟ یہاں جھنگ میں کتنے مدرسے ہیں شافعیوں کے ؟ مالکیوں کے ؟ حنبلیوں کے کتنے ہیں ؟ تو میں نے کہا کہ جو بھینگا ہو تا ہے نا اس کو ایک کے دو نظر آتے ہیں ۔ تو یہاں صرف ایک حنفی ہیں پھر یہ آپ کو ایک کے چار کہاں سے نظر آنے لگے ؟ کہنے لگے کہ جی وہ کہیں نہ کہیں تو ہوں گے نا۔ میں نے کہا کہ جہاں جہاں وہ ہوں گے تو وہاں کے لوگ پریشان ہوں آپ کو کیا پریشانی لگ گئی ہے یہاں پر بیٹھے بیٹھے ؟

کہنے لگے کہ جی کسی حدیث میں ہے کہ صرف ایک ہی امام کی تقلید کرنا ؟ میں نے پوچھا کہ آپ قرآن پاک پڑھتے ہیں ؟ کہنے لگے جی ہاں ۔ میں نے کہا کہ ساتوں قراتیں آتی ہیں ؟ کہنے لگے کہ نہیں جی ایک ہی قرات میں ہم تو پڑھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کسی حدیث میں ہے کہ سات میں سے صرف ایک ہی قرات میں پڑھنا ؟ کہنے لگے کہ ہم کیا کریں کہ ہمیں آتی ہی ایک قرات ہے ۔ میں نے کہا کہ کیا کریں کہ یہاں ہے ہی ایک مسلک امام ابو حنیفہؒ کا ۔ اس کی حدیث تم دکھا دو اس کی ہم دکھا دیتے ہیں۔ پوچھنے لگے کہ جی خدا کتنے ہیں ؟ میں نے کہا کہ ایک ۔ کہنے لگے کہ خدا ایک اور امام چار بن گئے ؟ توبہ توبہ غضب خدا کا ۔ میں نے کہا ابھی تھوڑا ہے ۔ کیسے ؟ خدا ایک ہے اور نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں میں نے پوچھا کہ آپ کا مقصد کیا ہے صاف صاف بات کریں ۔ کہنے لگے کہ ہم نے تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سب کو چھوڑ دو۔ میں نے کہا کہ دیکھو جلدی نہ کرنا کیونکہ قرآن پاک میں سات قاریوں کا اختلاف ہے قرات کا۔ تو سات کا اختلاف بڑا ہے یا چار کا؟ اس لئے اگر ائمہ کو چھوڑنا ہے تو پہلے لکھ کر دو کہ آج کے بعد ہم قرآن نہیں پڑھیں گے کیوں کہ اس کی قرات میں سات قاریوں کا اختلاف ہے اور ہم اختلاف کو پسند نہیں کرتے ۔ اس کے بعد احادیث کی باقی کتابیں تو ایک طرف کردیں۔ صرف صحاح ستہ ہی ایسی چھ کتابیں ہیں جن میں آپس میں اختلافی حدیثیں ہیں ۔تو چھ کا اختلاف زیادہ ہے یا چار کا ؟ کہنے لگے کہ چھ کا میں نے کہا کہ پھر دوسرے نمبر پر چھ والا اختلاف چھوڑنا پڑے گا ان بے چارے اماموں کی کہیں جا کر تیسرے نمبر پر باری آئے گی جن کے پیچھے آپ پہلے نمبر پر ہی لاٹھی اٹھائے پھر رہے ہیں

پھر کہنے لگے کہ چاروں امام ہی بر حق ہیں ؟ میں نے کہا جی ہاں چاروں برحق ہیں ۔ پھر کہا کہ چاروں ؟ میں نے کہا ہاں چاروں کہنے لگے کہ پھر آپ باقی تین کی تقلید کیوں نہیں کرتے میں نے کہا نہی کرتے ۔ ہماری مرضی پھر کہنے لگے کہ ان کو برحق کیوں کہتے ہو؟ میں نے کہا بالکل برحق کہتے ہیں مگر تقلید اپنے امام کی کرتے ہیں ۔

پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آج آپ جمعہ پڑھ رہے ہیں نا کیونکہ آپ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بر حق مانتے ہیں ۔ اور کیا کل آپ لوگ یہودیوں کی عبادت گاہوں میں جائیں گے ؟ کیونکہ آپ موسیٰ علیہ السلام کو برحق مانتے ہیں کیا پرسوں عیسائیوں کے گرجے میں جائیں گے ؟ تاکہ اتوار والی عبادت بھی کر آئیں ۔ انہوں نے کہا نہیں میں نے کہا کہ اس لئے نہیں جائیں گے کہ آپ سب نبیوں کو بر حق مانتے ہیں مگر تابعداری صرف اپنے نبی کی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جی وہاں تو ناسخ منسوخ کا مسئلہ ہے ۔ میں نے کہا کہ یہاں راجح مرجوح کا مسئلہ ہے ۔جیسے منسوخ پر عمل جائز نہیں ویسے ہی مرجوح پر عمل جائز نہیں ہم ان نبیوں کو برحق مانتے ہیں مگر ان نبیوں کے بعض مسائل کو منسوخ مانتے ہیں ۔ ہم ان آئمہ کو بر حق مانتے ہیں مگر بعض مسائل کو مرجوح مانتے ہیں۔

اب ایک صاحب تو زیادہ ہی ناراض ہونے لگے کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ کو کبھی عقل آئے گی بھی یا نہیں؟ چاروں اماموں میں حلال و حرام کا اختلاف ہے حلال و حرام کا۔ ایک امام ایک چیز کو حلال کہتا ہے ایک اسی چیز کو حرام کہتا ہے حلال بھی برحق حرام بھی برحق ؟ غضب خدا کا ۔ کبھی تو عقل کی بات کیا کرو۔ میں نے کہا کہ یہ امام بے چارے جن پر آپ ناراض ہیں، یہ نبیوں کے تابعدار ہیں۔ نبیوں میں بھی حلال و حرام کا اختلاف ہے ۔ آدم کے زمانے میں بہن سے نکاح حلال تھا یا حرام ؟ (حلال) اور آج ؟ (حرام ) وہ نبی بھی برحق جس کی شریعت میں بہن سے نکاح حلال تھا۔ اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی برحق جس کی شریعت میں بہن سے نکاح حرام ہے ۔ہم آدم علیہ السلام کو برحق ضرور مانیں گے مگر عمل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت پر کریں گے ۔ یعقوب علیہ السلام کے نکاح میں دونوں سگی بہنیں تھیں ان کی شریعت میں حلال تھا۔ اور اب آیت آگئی ہے ان تجمعوا بین الاختین (دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع نہ کرنا ) ۔ اب یعقوب علیہ السلام بھی برحق اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھر برحق ۔ برحق ہم دونوں کو مانتے ہیں مگر عمل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت پر کریں گے ۔ ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ ماں کی طرف سے آپ کی بہن تھیں باپ کی طرف سے نہیں تھیں۔ اس سے نکاح ہوا۔ آج یہ نکاح حلال ہے ؟ (حرام ہے ) تو ابراہیم علیہ السلام کی شریعت میں حلال تھا اور ہماری شریعت میں حرام ۔ برحق ہم دونوں کو کہیں گے مگر تابعداری صرف اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرینگے کہنے لگے کہ وہاں تو زمانے کا اختلاف ہے ۔ میں نے کہا یہاں علاقوں کا اختلاف ہے شافعی سری لنکا میں ہیں حنفی پاکستان میں ۔ شافعی اپنے ملک میں ہیں ۔ حنبلی اپنے ملک میں ہیں ۔ مالکی اپنے ملک میں ہیں اور حنفی اپنے ملک میں ہیں۔

علاقے کے اختلاف کو سمجھنے کے لئے مثال:
علاقوں کے اختلاف کو ایک مثال سے سمجھیں ۔ کئی سالوں سے آپ دیکھ رہے ہیں کہ سعودیہ میں عید ہوتی ہے اور پاکستان میں روزہ ہوتا ہے ۔ اب عید کے دن روزہ رکھنا حلال ہے یا حرام ؟ اور رمضان میں عید پڑھنا حرام ہے ۔ لیکن ان کی عید اپنی جگہ بالکل درست اور ہمارا روزہ صحیح یا غلط ؟ (بالکل صحیح ) کیونکہ مسئلہ ہے کہ چاند نظر آگیا تو عید، نہ نظر آیا تو روزہ وہاں تواتر کے ساتھ چاند ثابت ہو گیا۔ یہاں نہیں ہوا وہاں سارے عید پڑھ رہے ہیں ان کی عید درست ہے یہاں سارے روزہ رکھ رہے ہیں یہاں والوں کا روزہ بالکل درست ہے ہاں فتنہ پھیلانا اچھا نہیں کہ چار آدمی لاٹھیاں لے کر آجائیں کہ توڑو روزے آج مکے میں عید ہے یا چار آدمی وہاں لاٹھیاں لے کر کھڑے ہوجائیں کہ نہیں پڑھنے دیں گے آج عید ۔ پاکستان بڑا اسلامی ملک ہے وہاں آج روزہ ہے ۔ تو یہ فتنہ ہے ۔ جس طرح وہاں عید ان کا مذہب ہے بالکل برہق اسی طرح روزہ یہاں ہمارا مسلک ہے بالکل برحق۔ جہاں شافعیت ہے وہاں شافعیت بالکل بر حق ہے مذہب ہے فتنہ نہیں ۔ جس ملک میں حنبلیت ہے وہ مذہب ہے فتنہ نہیں جس ملک میں حنفیت ہے وہ مذہب ہے فتنہ نہیں جس ملک میں مالکیت ہے وہ مسلک ہے فتنہ نہیں اور غیر مقلدیت فتنہ ہے کوئی مسلک و مذہب نہیں ۔

کہنے لگے کہ جب تین امام ایک طرف ہوں اور ایک امام ایک طرف ہو تو کس کی بات ماننی چاہئے ؟ میں نے کہا ایک کی ۔ کہنے لگے کیوں جی ؟ زیادہ کی ماننی چاہئے میں نے کہا اچھا انبیاء کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کو سجدہ تعظیمی کیا تھا نا ؟ اسی آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت میں پہلے تمام شریعتوں میں تعظیمی سجدہ جائز تھا۔ اور ہماری شریعت میں جائز نہیں ۔سارے نبی ایک طرف اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک طرف ۔ اب آپ ایک نبی کی بات مانیں گے یا زیادہ کی بلکہ سارے انبیاء کی کہنے لگے کہ جی ہم تو ایک ہی کی مانیں گے ۔ میں نے کہا کہ اسی طرح ہم بھی ایک ہی کی مانیں گے ۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کی تمام امتوں میں تصویری بنانا جائز تھا ہماری شریعت میں حرام ہے ۔ اب سب کی بات مانیں گے یا ایک کی ۔

پھر آخر میں وہ لوگ کہنے لگے کہ دین مکے مدینے میں آیا تھا یا کوفے میں ؟ میں نے کہا کہ مکے مدینے میں ۔ کہنے لگے کہ پھر مکے مدینے والے امام کو ماننا چاہئے یا کوفے والے امام کو ؟ میں نے کہا کہ آپ کا دل کیا کہتا ہے ؟ کہنے لگے کہ مکے مدینے والے کو ماننا چاہئے ۔ میں نے کہا اچھا آپ کو معلوم ہے کہ جھوٹ بولنا ہر شریعت میں منع ہے ؟ کہنے لگے کہ بالکل کیا ہم نے کوئی جھوٹ بولا؟ میں نے کہا کہ بہت بڑا جھوٹ بولا ہے ۔ قرآن کی جو سات قراتیں ہیں ان میں مکی قاری بھی تھا ۔ مدنی قاری بھی تھا ۔ بصری قاری بھی تھا تم سب لوگ تو قاری عاصم کوفی جو کہ کوفہ کا رہنے والا تھا اس کی قرات پڑھ رہے ہو یہ ہی قرآن ہے جسے شاہ فہد ساری دنیا میں تقسیم کر رہا ہے تو خود کوفے والوں کو مانتا ہے تجھ سے بڑا کوفی کون ہوگا کہ قرآن نازل تو مکے مدینے میں ہو اور تو مکی قاری اور مدنی قاری کی قرات چھوڑ کر کوفے والے قاری کے مطابق قرآن پڑھتا ہے اب وہ کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ کوفہ والوں نے قرآن خود تو نہیں بنایا تھا نا ۔ ایک ہزار سے زائد صحابہ کرام ؓ آئے تھے مکے مدینے سے ۔ وہ ساتھ قرآن لے کر آئے تھے میں نے کہا کہ جو صحابہ کرام ؓ قرآن ساتھ لائے تھے وہی صحابہ کرام ساتھ نماز لے کر آئے تھے ۔ ساتھ لائے تھے یا وہیں پھینک کر آئے تھے کہ کوفے جا کر نئی نماز بنا لیں گے ؟ یا نماز بھی وہاں سے لے کر آئے تھے ؟ (یقیناً نماز بھی مکے مدینے سے لے کر آئے تھے )تو جب قران کے معاملے میں اہل کوفہ پر اعتماد کرتے ہو تو نماز کے بارے میں بھی اعتماد کرنا چاہئے ۔ لیکن کریں کیا ایک رافضی کہتا ہے کہ نماز غلط ہے ایک رافضی کہتا ہے کہ قرآن غلط ہے لیکن قران کوفہ میں کہاں سے آیا؟ مکے اور مدینے سے نماز کہاں سے آئی ؟ مکہ مدینہ سے جب کوفے والے کی قرات تم کو پسند ہے تو کوفے والوں کی وہ نماز جو صحابہ کرام لے کر آئے ہیں وہ پسند کیوں نہیں ؟ پھر ہمارے امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ کافی ہیں۔ (الحمد للہ ) امام صاحب نے صحابہ ؓ کی زیارت کی ہے جس صحابی نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور نبوت پورا پایا وہ بھلا کتنے سال ہے دور نبوت ؟ ۳۲ سال ۔ اور امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ نے تقریباً چالیس سال صحابہ کا زمانہ پایا ہے تو چالیس سال کی عمر میں مسلمان نماز شروع کر دیتے ہیں یا نہیں ؟ خاص طور پر خیر القرون کے زمانے میں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ جب مسجد میں نماز کے لئے بچہ آتا ہے تو لوگ دیکھتے ہیں کہ بچہ نماز پڑھ رہا ہے ۔ اور بچہ لوگوں کو دیکھ دیکھ کر نماز پڑھتا ہے اسی طرح صحابہ کرام ؓ امام صاحب ؒ کو دیکھتے تھے اور اما م صاحب صحابہ کرام کو دیکھ کر نماز پڑھتے تھے ۔ اگر امام صاحب کی نماز خلاف سنت ہو تو صحابہ کرام کو ٹوکنا چاہئے تھا یا نہیں ؟ ( اور اگر صحابہ کرام ؓ نے دیکھا کہ نماز سنت کے خلاف پڑھ رہے ہیں اور صحابہ نے نہ ٹوکا تو مطلبہ یہ ہوا کہ نعوذ باللہ صحابہ کے سامنے غلط کام ہو رہا ہے اور صحابہ خاموش ہیں؟ ) ۔

میں نے سرپر ہاتھ باندھ لئے :
ایک صاحب تھے بس میں بیٹھے تھے ۔ کسی جگہ بس رکی پاس ہی مسجد تھی وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ چلو نماز پڑھ لوں۔ میں نے جب نماز پڑھنے کے لئے ہاتھ ناف کے نیچے باندھے ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں ۔ ان من السنة وضع الکف علی الکف فی الصلوة تحت السرة کہ بے شک نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا یہ سنت ہے ۔ تو ایک بابا جی آئے اور انہوں نے نماز میں ہی میرے ہاتھ سینے پر رکھ دئے ۔ میں نے سر کے اوپر رکھ لئے نماز کے بعد مجھ سے پوچھنے لگا کہ یہ کیا تھا؟ ( جو تو نے سر پر ہاتھ باندھے) میں نے پوچھا وہ کیا تھا ؟ (جو تو نے سینے پر رکھوائے تھے )۔
نوٹ : نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔

اب اگر اس مسجد میں کوئی نماز پڑھنے کے لئے آئے اور ہاتھ ناف کے بجائے سر پر باندھے تو کیا آپ لوگ اس کو ٹوکیں گے یا نہیں ؟ (بالکل ٹوکیں گے ) اس کا مطلب ہے کہ ۵۱ ویں صدی کے مسلمانوں کا ایمان بہت ہی زیادہ مضبوط ہے جو غلط کام ہوتا دیکھیں تو فوراً ٹوک دیتے ہیں اور معاذ اللہ ، استغفراللہ جس زمانے کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیر القرون فرما رہے ہیں صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین جو تھے ان میں معاذ اللہ سنت کی کوئی محبت ہی نہ تھی کہ امام صاحبؒ غلط نماز پڑھتے رہتے تھے کوئی ٹوکتا ہی نہیں تھا؟

ہم جو نماز پڑھتے ہیں ہمیں فخر ہے کہ ہماری نماز کی توثیق الحمد للہ صحابہ کے سامنے ہو چکی ۔ اگر اس میں کوئی غلطی ہوتی تو صحابہؓ ضرور ٹوکتے ۔ اب جس نماز کی تصدیق صحابہؓ سے ہو چکی ہو؟ مجھے ان دوستوں سے نہیں گلہ ۔ آپ سے گلہ ہے کہ صحابہ کی تصدیق کے بعد بھی جب تک وہ بابا گنڈیریوں والا جب کہے گا نا کہ نماز ٹھیک ہے تو نماز ٹھیک ہوگی ورنہ نہیں ۔ کیا صحابہ کی تصدیق کے بعد کسی بابے روڑے کی تصدیق کی ضرورت ہے ؟ (بالکل نہیں ) اگر آپ نے شک کیا تو گویا آپ نے صحابہ کی تصدیق کو نہ مانا ۔ امام صاحب تابعی ہیں۔ اوار صحابہ استاد ہیں۔ تابعین ہم جماعت ہیں ۔ تبع تابعین شاگرد ہیں۔ہماری نماز کی صحابہ کے سامنے تصدیق ہو چکی ۔ تابعین کے سامنے تصدیق ہو چکی اسی طرح تبع تابعین کے سامنے تصدیق ہو چکی ۔ ان سب کی تصدیق کے بعد اب ہمیں کسی ۵۱ ویں صدی کے کسی آدمی کی تصدیق کی کوئی ضرورت نہیں۔

گوجرانوالہ کا واقعہ :
یہ ہی بات ایک دفعہ میں گوجرانوالہ میں بیان کر رہا تھا ایک نوجوان کو غصہ آگیا۔ کھڑا ہوگیا کہنے لگا کہ آپ کی نماز کی تصدیق ہو گئی ہماری کی نہیں ہوئی ؟ میں نے کہا بالکل وہ کہنے لگا کہ ہمارے صادق سیالکوٹی صاحب نے نماز کی کتاب لکھی ہے صلوة الرسول اس کی تو نوائے وقت اخبار نے بھی تصدیق کی ہے کہ بہت اچھی کتاب لکھی ہے ۔ مرزائیوں کا رسالہ ہے ”شہاب“ اس نے بھی تصدیق کی ہے کہ بہت اچھی کتاب ہے کراچی کے ”صحیفہ اہل حدیث “ نے تصدیق کر دی کہ بہت اچھی کتاب ہے ۔ میں نے کہا کہ بہت اچھی بات ہے تصدیق تو ہوگئی ۔ مگر ہماری نماز کی تصدیق تو ہوگئی صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کے سامنے، جن کے تصدیق عرش والے (اللہ) نے کی ۔ فرمایا والذین اتبعو ھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضواعنہ اور فرش والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کی ۔ فرمایا خیر امتی قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم عجیب بات یہ ہے کہ صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کی تصدیق انہیں اچھی نہیں لگی اس کو چھوڑ دیا اور کہتے ہیں کہ مرزائیوں کے رسالے نے تصدیق کی ہے وہ اچھی لگی ہے ۔ الحمد للہ ہمارے امام صاحبؒ نے ۵۵ حج کئے ہیں اللہ پاک اپنے ہر مسلمان بندے کو اپنے گھر کے حج اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضے کی زیارت نصیب فرمائے (آمین) پاکستان کا رہنے والا مسلمان اگر یہاں نمازوں میں سستی بھی کرتا ہو تو وہ وہاں جا کر نمازیں ضرور پڑھتا ہے ۔امام صاحب جب حج پر جاتے تھے تو وہاں نمازیں بھی پڑھتے تھے اگر اس نماز میں ایک بھی عمل خلاف سنت ہوتا تو مکے والوں کا کام تھا اعتراض کرنا۔ مدینے والوں کا حق تھا سمجھانا۔ مگر مکے والے کہتے ہیں۔ ماراینا احسن صلوة من ابی حنیفہؒ کہ ابو حنیفہ سے زیادہ پیاری نماز ہم نے (اس زمانے میں) کسی کی دیکھی ہی نہیں الخیرات الحسان کتاب ہے اس میں علامہ ابن حجر مکی شافعی ( جوکہ حنفی نہیں شافعی المسلک ہیں) ۔لکھ رہے ہیں کہ اہل مکہ یہ کہتے تھے اور یہ نہیں کہ امام صاحب وہاں کوئی چھپے ہوئے تھے امام لیث بن سعد مصر کے بہت بڑے امام ہیں کہتے ہیں کہ میں ایک سو تیرہ ہجری میں حج کے لئے چلا اور دل میں یہ ہی خواہش تھی کہ امام صاحب حج پر آئیں گے ان کی زیارت بھی ہو جائے گی کیونکہ بہت شہرت تھی امام صاحب کی کہتے ہیں کہ میں جب پہنچا تو دیکھا کہ ایک نوجوان کھڑا ہے اور اس کے گرد دنیا اکٹھی ہے کوئی قرآن کی آیت کی تفسیر پوچھ رہا ہے کوئی حدیث کے بارے میں پوچھ رہا ہے ۔ کوئی قاضی قانون کا مسئلہ پوچھ رہا ہے اور میں حیران ہوں کہ سوال کرنے والے کو سوال کرنے میں دیر لگتی ہے اسے جواب دینے میں دیر نہیں لگتی ۔ تو میں بھی کھڑا ہو گیا کہ بھئی یہ بھی کوئی اچھا آدمی ہے اس کی باتیں سن لیں پھر لوگوں سے پوچھ لوں کہ امام صاحب بھی آئے ہوئے ہیں یا نہیں۔ تو میں کھڑا سن رہا تھا کہ اتنے میں ایک نے سوال یوں کیا ۔ ما تقول فی ھذا یا ابا حنفیة اے ابو حنیفہ اس مسئلے میں آپ کیا فرماتے ہیں۔اب میں نے سوچا کہ اچھا یہ ہی امام ابو حنیفہ ہیں جن کے لئے میں یہاں پہنچا ہوں ۔ تو یہ ۳۱۱ ہجری ہے ۔ ۰۵۱ ہجری تک آپ کی شان برھی ہے گھٹی نہیں۔ تاریخ میں تو یہاں تک آتا ہے کہ حضرت امام صاحب جب کسی جگہ تشریف لے جاتے تو اعلان ہوجاتا تھا کہ فقیہ اعظم پہنچ گئے ہیں کسی نے فتویٰ لینا ہو تو آجائے ۔ یہ مکہ مکرمہ کی بات ہے اب مکہ اور مدینہ والوں نے تو نہیں کہا کہ امام ابو حنیفہ کی نماز غلط ہے ۔ شور اٹھا ہے تو امرتسر میں ؟ اور وہ بھی انگریز کے دور میں کسی اسلامی حکومت میں نہیں شور اٹھا ہے تو روپ ڑ میں جو کہ سکھوں کا شہر ہے کہ جو نماز امام ابو حنیفہ اور حنفی پڑھتے ہیں وہ غلط ہے ہماری تبلیغی جماعت والوں کو لوگ کہتے ہیں کہ وہ لسوڑا پارٹی والے آگئے ۔ جیسے لسوڑا چمٹ جاتا ہے ایسے ہی یہ لوگ بھی چمٹ جاتے ہیں اور کھینچ تان کر تو ایک دفعہ اللہ کا گھر دکھا دیتے ہیں بعد میں انسان کی قسمت ہے ۔ جماعت والے وہ کھیتوں میں پھر رہے ہیں پوچھو بھئی کیا کر رہے ہو ۔ کہیں گے کہ ایک مسلمان ہے اللہ سے غافل ہوگیا ہے بندگی کا اقرار کرتا ہے بندگی کرتا نہیں۔ اسے ہم یاد کرانے جارہے ہیں کہ بھئی نماز پڑھا کرو۔ گلیوں میں پھر رہے ہیں دروازوں پر کھڑے ہیں اور الحمد للہ ان کی برکت سے دفتروں میں مصلے بچھ گئے ہیں تو ان لوگوں کا ایک مشن ہے کہ جو مسلمان نماز نہیں پڑھتا اس کو نمازی بنانا ہے ۔ اور سینکڑوں نہیں ہزاروں کو انہوں نے نمازی بنایا۔ تو آپ نے کبھی دیکھا کہ غیر مقلد اس طرح بے نمازی کے پیچھے پھر رہے ہوں اور اس کو نمازی بنا رہے ہوں؟ نہیں جب تک آدمی بے نمازی ہوتا ہے تو اس کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی غیر مقلد رہتا ہے یا نہیں۔ اب وہ بے چارہ جب نماز پڑھنا شروع کردے گا تو ایک غیر مقلد ادھر سے آجائے گا کہ تیری نماز نہیں ہوتی ۔ اب ان کا کام ہے بے نمازی کو نماز پر لگانا ۔ اور ان کا مشن ہے کہ جو نماز پڑھنے لگ گیا ہے اس کے دل میں اتنے وسوسے ڈالنے ہیں کہ وہ بے چارہ نماز پڑھنا ہی چھوڑ دے ۔ تو ہم حدیث کو سابقہ انبیاء کی طرح اور سابقہ شریعتوں کی طرح بر حق مانیں گے ضرور۔ اس کا ادب و احترام بھی ضرور کریں گے ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق عمل سنت پر کریں گے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کی تو فیق نصیب فرمائے ۔
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 120878 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.