ڈاکٹرمحمد مرسی ۔ استقامت کی علامت

رمضان المبارک شروع ہوا تو میں نے کالم لکھنے کا سلسلہ وقتی طور پر بند کردیا تھا ۔ بنیادی وجہ یہ رہی کہ میں رمضان المبارک میں قرآن کریم کے حوالے سے کچھ کام کرنا چاہتا تھا اور وہ میں نے الحمد اللہ کیا،عید گزر گئی، انسان بھی عجیب چیز ہے ،جلد کسی چیز کا عادی ہوجاتا ہے اور اتنی جلدی ہی کسی چیز کو بھلا بھی دیتا ہے ۔ میری بھی عادت چھٹ گئی تھی سیاسی موضوعات پر لکھنے کی، حالانکہ اس دوران بے شمار سیاسی، نیم سیاسی، معاشرتی موضوعات ایسے آئے جن پر لکھنا چاہیے تھا لیکن ذہن دوسری جانب ہونے کے باعث کسی موضوع پر لکھنے کی رغبت ہی نہیں ۔ اب جب کہ عید گزرے بھی کئی دن ہوگئے، کالم کی طرف رغبت نہیں ہورہی تھی، آج ’’علم نگر‘‘ کے مہربان نعیم سلہری صاحب نے فرمائش کی کہ مصر کے سابق صدر محمد مرسی پر’ علم نگر‘ کے لیے کچھ لکھوں ۔ بس طبیعت فوری طور پر اس جانب مائل ہوگئی ۔ اس کی بنیادی وجہ مرسی کا مصر کی سرزمین سے تعلق تھا ۔ رمضان میں کلام مجید کا خلاصہ لکھنے کے دوران مصر کا ذکر متعدد بار آیا، مصر کی سرزمین انبیاء کی سرزمین ہے ، اللہ نے ا س سرزمین کو کئی انبیاء کے لیے منتخب کیا ۔ تین انبیاء حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے مصر کا ذکر قرآن میں موجود ہے ۔ یہ مصر ہی تھا جہاں حضرت یوسف علیہ السلام فروخت کیے گئے، پھر قید و بند کی صعوبتیں آپ کا مقدر بنیں ، اسی تاریخی سرزمین پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا معرکہ عمل میں آیا، عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی والدہ مریم بھی اسی سر زمین میں پناہ گزین ہوئے ۔ قرآن کریم میں مصر سے متعلق کم و بیش آٹھ آیات ہیں ۔ سورہَ بقرہ میں مصر کا ذکر ہے ، سورہَ یونس میں کہا اللہ پاک نے ’’اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لیے مصر میں گھر بناوَ اور اپنے گھروں کو قبلہ یعنی مسجدیں ٹہراوَ اور نماز پڑھواور مومنوں کو خوشخبری سناوَ‘‘، سورہَ یوسف میں فرمایا گیا ’’اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا وہ اپنی عورت سے بولا انہیں عزت سے رکھو شاید اس سے ہمیں نفع ہو‘‘، سورہَ طہٰ ، سورہ الزخرف، سورۃ الدخان میں بھی مصر کا ذکر ملتا ہے ۔

مصر کی سرزمین اس اعتبار سے بہت متبرک ہے کہ اس سرزمین پر کتنے ہی انبیاء اور ان کی قومیں رہائش رکھتی رہی ہیں ، اس کے برعکس یہ سرزمین نے فرعون جیسے ظالم بھی پیدا کیے ۔ فرعون ظالم بادشاہ کے اثرات اس قدر شدید ہوئے کہ لفظ بادشاہ کا متبادل فرعون کہا جانے لگا ۔ اس کے بعد کئی فرعون گزرے ہیں جیسے نارمر ، سیزارئیئن وغیرہ ، مصر میں اسلامی دور حکومت بھی رہا ان میں فاطمی خلفاء، عثمانی مصری ولی عہد، پھر آل محمد علی پاشا نے اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، اس کے بعد شاہ فواد دوم ۔ سابقہ پچاس سالوں میں محمد نجیب جو عسکری کمانڈر تھا نے حکومت کی، مصری کمانڈ کونسل جس کا سربراہ جمال عبد الناصر تھانے 1970ء تک حکومت کی، انور سادات نے دس سال مصر پر حکمرانی کی، صوفی ابو طالب بھی مصر کا صدر رہا ، حسنی مبارک 93ء ۔ 2011ء تک مصر کا صدر رہا، فوجی دور شروع ہوا دوسال بعد عام انتخابات 2012ء میں ہوئے جس میں ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے پانچویں جمہوری صدر منتخب ہوئے ، مرسی اسلامی ذہن اور اسلامی نظریات رکھتے تھے، اخوان السلمین کے صدارتی امیدوار تھے ۔ مرسی کے صدر منتخب ہونے کے فوری بعد ہی مصر میں مرسی کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے، عوامی مظاہروں سلسلہ روز بہ روز بڑھتا ہی گیا، یہاں تک کہ فوج نے بھی مرسی سے کہا کہ 2011ء میں حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے سیاسی بحران کو جلد حل کیا جائے، یہ دراصل مرسی پر فوج کی جانب سے دباوَ تھا ۔ لیکن مرسی اور فوج کے درمیان خلیج بڑھتی ہی گئی آخر 3جولائی 2013ء کو جب کہ مرسی کو صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے ایک سال ہی ہوا تھا فوج نے اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور خود اقتدار پر قابض ہوگئی ، مرسی کو گرفتار کر کے چار ماہ تک نا معلوم مقام پر رکھا گیا ، چار ماہ بعد عدالت میں پیش کر کے ان پر حکومت نے کئی مقدمات قائم کر دئے ۔ ان مقدمات میں مرسی پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے حامیوں کو صحافی اور حزب مخالف کے دو رہنماؤں کو قتل کرنے میں اکسایا، کئی کو غیر قانونی طور پر قید میں رکھا ۔

سیاست کا کھیل خواہ کسی بھی ملک میں ہو ، عجیب ہی ہوتا ہے ۔ یہاں تخت یا تختہ والی صورت حال ہوتی ہے، حکمرانی کرنے والے اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں ان کا اقتدار ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے، اقتدار کو براجمان رہنے کے لیے وہ ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں ، تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کے لیے باپ نے بیٹے کو، بیٹے نے باپ کو قتل کرایا ، کال کوٹھری میں ڈالوایا، شوہر نے بیوی کو ، بیوی نے شوہر کو ، بھائی نے بھائی کو قتل کروادیا ۔ پاکستان کی طرح مصر کی سیاسی تاریخ بہت اچھی نہیں ، وہاں بھی فوجی حکومتیں قائم ہوتی رہیں ، جمہوری نظام کی بساط وہاں بھی لپیٹی جاتی رہی، وہاں بھی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے قتل جیسے اقتدامات کرنے میں تعمل سے کام نہیں لیا۔

ڈاکٹر محمد مرسی کی سیاسی زندگی بہت طویل نہیں ۔ وہ مصر کے ایک گاؤں ال ادوا میں 8 اگست 1951ء میں پیدا ہوئے، قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی، امریکہ کی کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی نارتھ ریج سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، یونیورسٹی سے وابستہ بھی رہے، 2012ء میں ہونے والے عام انتخابات میں اخوان المسلمین نے انہیں اپنا صدارتی امیدوار نامز کیا اور وہ اکثریت سے مصر کے پہلے جمہوری صدر منتخب ہوئے لیکن ، انہیں ایک پل سکون کا میسر نہ آیا، 30 جون 2012ء کو صدر منتخب ہوئے اور 3 جولائی 2013ء کو فوج نے ان کا تختہ الٹ کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا، چار ماہ انہیں کسی نہ معلوم مقام پر رکھ ، پھر عدالت میں مقدمات کے ساتھ پیش کردیا، 17 جون 2019ء کو وہ اپنے اوپر قائم ہونے والے مقدمات کی پیروی از خود کر رہے تھے،قاہرہ کی ایک عدالت لگی ہوئی تھی، جج ہمہ تن گوش تھے، وہ ملزم کے کٹہرے میں کھڑے اپنے اوپر قائم کیے جانے والے جھوٹے مقدمات کو غلط ثابت کرنے کے حق میں دلائل دے رہے تھے، اسی دوران انہیں دل کا دورہ پڑا ، وہ کٹہرے میں ہی گر پڑے اور خالق حقیقی سے جا ملے ۔ ان کی عمر 67 سال تھی ۔

YOU MAY ALSO LIKE:

Mohamed Morsi, Egypt’s first democratically elected president, collapsed and died while on trial in a Cairo courtroom on Monday, six years after the military ousted him in tumultuous circumstances that pushed Egypt back to autocratic rule.