حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں مست ہیں
۔حکومت بجٹ منظور کروانے ، اپوزیشن بجٹ نامنظور اور اپنے اسیر قائدین کو
چھڑانے میں لگی ہے ۔لیکن بدقسمت عوام دو وقت کی روٹی اور بیماری کے مسائل
سے ایسا نمرد آزما ہے کہ انہیں کسی چیز کا ہوش نہیں ہے ۔ملک بھر میں صاف
پانی کی بوند بوند کو ترستی غیور عوام چلاتی ہے کہ ہماری گردنوں کو کاٹ
کرایوان اقتدار میں پہنچنے والو:جہاں ہمیں بیماری،فاقہ کشی ،بیروزگاری
،مہنگائی کی سونامی سانس نہیں لینے دے رہی ۔ ہم تعلیم اور دوسری بنیادی
سہولیات کی امید کیسے کر یں ۔
اس حکومت کی بے حسی کو دیکھ کر تمام پرانی حکومتوں سے شکوے دور ہو جاتے ہیں
۔اس کی مثال ایچ آئی وی جیسے مہلک مرض کی سندھ کے بعد پنجاب کے پانچ اضلاع
میں تصدیق ہونا انتہائی تشویش ناک صورت حال کو جنم دیتی ہے ۔ابھی چنیوٹ،
ساہیوال ، فیصل آباد ،ڈیرہ غازی خان ،جھنگ اور ننکانہ صاحب میں تین ہزار سے
زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں ۔لیکن افسوس اتنی بڑی بات سامنے آنے کے بعد بھی
حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔اس گھمبیر صورت حال کا اندازہ لگایا جا
سکتا ہے کہ صرف پنجاب کے پانچ اضلاح میں ماہانہ ستر سے نوے لوگوں کو ایڈز
کی تشخیص ہو رہی ہے ،مگر پنجاب کے کسی ضلع میں اسکریننگ ٹیسٹ کے لئے
اقدامات نہیں کئے گئے ۔یوں تو پی ٹی آئی کی حکومت سوشل سیکٹر پر کام کرنے
کے بڑے دعوے کرتی ہے ۔صحت اور تعلیم ترجیحات میں شامل ہے ۔لیکن صوبے میں اس
موذی مرض کی روک تھام کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے ۔
یہ 1987ء میں ایچ آئی وی وائرس کا حامل پہلا مریض سامنے آیا تھا۔پھر یہ
سلسلہ جاری رہا،یہ نہایت خطر ناک بات ہے ۔دنیا کے دوسرے ممالک اس مرض کے
حوالے سے انتہائی احتیاطی تدابیر کرتے ہیں ۔مسلسل ریسرچ کا عمل جاری رہتا
ہے ۔کیوں کہ یہ وائرس جس انسان کے جسم میں داخل ہو جائے پھر ساری زندگی اس
کی جان نہیں چھوڑتا۔مریض کو تاحیات ادویات کھانا پڑتی ہیں ۔اگر مریض ادویات
کھانے میں کوتاہی برتے تو ایچ آئی وی وائرس چند ہفتوں میں سرگرم ہو جاتا ہے
۔یہ وائرس خلیوں پر حملہ کر کے انسانی مومون نظام تباہ و برباد کر دیتا ہے
اور تب کوئی دوا اس وائرس کا راستہ نہیں روک پاتی ۔انسان سسک سسک کر زندگی
سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔کیا حکومت وقت کو اندازہ ہے کہ جس غریب کے گھر دو
وقت کی روٹی میسر نہ ہو ،اپنی چھت اسے نصیب نہ ہو وہ اس موذی مرض سے لڑنے
کی طاقت کیسے رکھ سکتا ہے ؟اس کے لئے مہنگی ادویات کا تسلسل ممکن ہو سکتا
ہے ؟
اس بیماری کی سنگین صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
حکومتی اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں ’’ڈیڑھ لاکھ‘‘سے زائد افراد ایچ
آئی وی وائرس کے حامل ہیں ۔صوبہ پنجاب میں 75 ہزار کے قریب ہیں ۔سندھ
60ہزار،15ہزار خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پانچ ہزار کے قریب بتائے جاتے
ہیں ۔لیکن حقیقت میں یہ اعدادو شمار کہیں کم بتائے گئے ہیں،اعداد خوفناک حد
تک زیادہ ہیں ۔اس صورت حال پر کسی حکومتی ادارے کو کوئی پروا نہیں ۔حکومت
نے صحت کے بجٹ میں کٹوتی کرکے عوام کو بتا دیا ہے کہ انہیں عوام کا احساس
کتنا ہے ۔کیونکہ ایچ آئی وی وائرس سے متاثر لوگوں کی زیادہ تر تعداد غریب
اور نا خواندہ ہے ۔گزشتہ دنوں ایک ایڈز کے مریض کا ٹی بی سمجھ کر علاج کیا
جاتا رہا ہے،بعد میں معلوم ہوا کہ اسے ایڈز تھا۔اس ملک میں یہ حال ہے کہ
سرکاری ہسپتالوں کو پتہ چل جائے کہ ایچ آئی وی وائرس سے متاثر مریض ہے اسے
رجسٹرڈ ہی نہیں کیا جاتا ۔
حکمرانوں کو جہاں ان مریضوں کا فکر نہیں وہاں دوسرے لوگوں سے بھی کوئی
ہمدردی نہیں ہے ۔اس موذی مرض سے متاثر افراد ملک میں موت کے فرشتوں کے
مانند ہیں ۔وہ جانے انجانے میں اپنی موت کا سبب دوسروں کو بھی تقسیم کر رہے
ہیں ۔غربت اور نا خواندگی نے ایسے بہت سے مسائل جنم دے رکھے ہیں ،جن کا
ازالہ کرنا بھی چاہیں تو کوئی نہیں کر سکتا ۔ہمارے کسی حکمران کے دل میں
عوام کا درد نہیں۔انسانیت ان کے قریب سے نہیں گزری ۔انہیں اپنے اقتدار اور
مفادات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ہر طرف جھوٹ ،فریب اور یو ٹرن کا مقابلہ
ہے ۔عوام چکی میں پس رہی ہے کسی کو احساس نہیں ۔ڈھٹائی سے عوام کو استعمال
کرنا اورپھر انہیں ٹشو پیپر سمجھ کر پھینک دینا، سیاستدانوں کی فطرت میں
شامل ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ میرے پاس عوامی سٹریٹ پاور ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ
مجھے پکڑا گیا تو میں عوام کو سڑکوں پر لے آؤں گا۔کوئی کہتا ہے کہ میں ملین
مارچ کروں گا اور حکومت کو ہلا کر رکھ دوں گا۔غرض عوام کو بیوقوف بنا کر
اقتدار حاصل کرنے کا جرم قبول کر لیتے ہیں ۔لیکن عوام سے وعدے اور دعوے
کرنے کے بعد بیانیہ یکسر تبدیل کر لیا جاتا ہے ۔
ایچ آئی وی کے وائرس زدہ لوگوں پر توجہ اور دوسرے لوگوں کو اس بیماری کے
اثرات سے بچانے کے لئے ایمرجنسی صورتحال سمجھ کر عملی کام کرنے کی ضرورت ہے
اور اس میں حکومتی کوتاہی قاتلانہ جرم کے مترادف ہے۔ یہ حکومتی غفلت ہو رہی
ہے ۔ایڈز کا مرض صوبہ پنجاب میں ایمرجنسی کی صورت حال میں ہے ۔اسے روکنے
،اس مرض سے دوسرے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لئے آگاہی مہم شروع کی جائے اور
اس کے بڑھنے کے محرکات کی ریسرچ انتہائی ضروری عمل ہے،جسے پنجاب حکومت کو
ترجیحی بنیادوں پر کرنا چاہیے ۔لیکن جس حکومت نے پی کے ایل آئی جیسے منصوبے
کو برباد کر کے رکھ دیا وہ اس مرض کے لئے ریسرچ سنٹر کیسے بناسکتی ہے،مگر
امید پر دنیا قائم ہے ۔شاید کہیں تو خدا کا خوف آ جائے ۔
|