عوام مہنگائی سے پریشان،بجٹ پر نظرثانی کی جائے

باسم تعالی
نعیم صدیقی
تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا پہلا باقاعدہ بجٹ پیش کیا ہے جو کہ عمران خان کے سیاسی منشور سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔یہ بنیادی طور پر پچاس فیصد خسارے کا بجٹ ہے۔ جس کا کل تخمینہ70کھرب 22ارب روپے لگایا گیا ہے اس میں خسارہ 31.3کھرب روپے ہے۔ حکومت کی جانب سے اس بجٹ کی تعریف میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ11کھرب روپے کے نئے ٹیکسوں کے ساتھ یہ بجٹ عوام کے لیے عذاب جان بن گیا ہے۔اور عام آدمی کے لئے بنیادی ضروریات کی فراہمی کے حوالے سے زندگی مشکل ترین ہو گئی ہے۔جس نئے پاکستان کے بارے میں عمران خان اور ان کے ساتھی ایک مدت سے شور کر رہے تھے اس نئے پاکستان میں نئے ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے مہنگائی اور ڈالر کو وہان پہنچا دیا جہاں کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا کہ اتنے مشکل دن آئیں گے پاکستان میں۔نئے ٹیکسوں میں آٹا،چینی،کوکنگ آئل،مشروبات،سگریٹ،خشک دودھ اور کھانے پینے کی تقریبا تمام اشیاء شامل ہیں۔عوام نے جس امید کے ساتھ تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا کہ ملک اور قوم کے حالات بہتر ہوں گے آج وہ سخت مایوسی کا شکار ہیں۔اگر دیکھا جائے تو امیر جماعت اسلامی نے بجا فرمایا تھا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ خسارے والا بجٹ ہے۔جس میں لوگوں کے لیے گھر کے لازمی اخراجات پورے کرنا مشکل ترین ہو گیا ہے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ ناکافی ہے۔مہنگائی کے تناسب سے تنخواہ پیشہ طبقے کو ریلیف نہیں دیا گیا۔بڑھاپے کی زندگی گذارنے والے لاکھوں پنشنرز کیلیے اس بجٹ میں کوئی آسانی پیدا نہیں کی گئی جس کی وجہ سے وہ بھی ناامیدی کا شکار ہیں۔تجارت اور کاروبار سے وابستہ برادری بھی اس بجٹ کو ملک و قوم کے لیے شدید نقصان کا پیش خیمہ قرار دے رہی ہے۔اس بجٹ کو عوام اور صنعت و زراعت سب کے لئے مایوس کن قرار دیا جا رہا ہے۔اگر عوام نے بجٹ کو مسترد کر دیا تو حکومت کہاں گھڑی ہوگی۔آپ اندازہ کیجیے کہ یہ پہلا بجٹ ہے جس میں قابل ٹیکس آمدنی رکھنے والوں کو ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے پر قابل سزا مجرم قرار دیا گیا ہے۔اگر گوشوارے جمع کرانے میں تاخیر ہوتی ہے تو 20ہزار روپے تک جرمانہ کیا جا ئے جائے گا۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ عمران خان کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے یہ ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح ایک روائتی بجٹ ہے جس میں ٹیکسوں کا سارا بوجھ عوام پر لاد دیا گیا ہے اور ظلم یہ ہوا ہے کہ کسی بھی سطح پرعوام کی بہتری کے لئے کوئی امید افزا بات نہیں کی گئی۔حکومت نے بار بار بالخصوص عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی بات کی ہے اور بعض مقامات پر گھروں کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔لیکن بجٹ میں اس بارے میں تفصیل کے ساتھ بات نہیں کی گئی جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ یہ بجٹ تحریک انصاف کا نہیں ہے۔حیدرآباد کی یونیورسٹی ہے۔کراچی کے ہسپتال ہیں۔ان کے لئے رقم کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بجٹ پاکستان تحریک انصاف کا نہیں ہے بلکہ آئی ایم ایف کی ضروریات اور شرائط کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ابھی بجٹ کو پیش ہوئے ایک ہفتہ سے زیادہ کا وقت گذر چکا ہے لیکن حکومت کی جانب سے اس پر بحث نہ تو پارلیمنٹ میں ہو رہی ہے اور نہ ہی عوامی سطح پر ایسا کچھ سننے کو مل رہا ہے کہ حکومت معاشی ماہرین اور اپوزیش کی قابل عمل تجاویز پر توجہ دے گی۔جہاں کہیں بھی ممکن ہے عوام کو ریلیف دیا جائے گا۔لیکن اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شدید ترین تناؤ ہے جو کہ ملک اور قوم کے لیے نقصان کا باعث ہے۔اگر ملک میں جمہوریت ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہئے۔سب کی بات توجہ اور صبر کے ساتھ سننی چاہئے۔اس مرتبہ پاکستان کی فوج نے اپنے بجٹ میں اضافہ نہیں کیا اور کہا گیا ہے کہ یہ ساری رقم جو کہ 152 ارب روپے فاٹا میں خرچ کی جائے گی تاکہ وہاں ترقیاتی کام ہو سکیں۔جنوبی پنجاب سندھ اور بلوچستان کی ترقی کے لئے 50ارب روپے رکھے گئے ہیں۔اس وقت پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق کل ۔380کمپنیاں کل ٹیکس کا ۔85فیصد حکومت کو دے رہی ہیں۔اس لحاظ سے تو سب سے زیادہ ان کی اہمیت ضروری ہے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھا تے ہوئے ملک اور قوم کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ہماری ٹیکسٹائل کی مقامی سیل اندازے کے مطابق 1200۔روپے ہو رہی ہے لیکن اس سے جو ٹیکس ملتا ہے وہ صرف600سے800ارب روپے ہے جو کہظلم ہے اس میں اضافہ ہونا چاہئے جو خرابیاں ہیں دور کی جائیں۔ہمارے ملک کے امیر ترین اور شاہاہانہ زندگی گذارنے والے طبقے کو ملک اور قوم کا خیال کرنا ہوگا۔پاکستان میں ٹیکس کی شرح کو بڑھانا لازم ہے۔معاشی صورت حال میں بہتری کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا قوم خوشحال نہیں ہو سکتی اس لیے حکومت ہو یا اپوزیشن ہم میں سے ہر ایک کو خدمت کرنی چاہئے۔معیشت پر سیاست ملک و قوم کی تباہی ہے۔سماجی شعبے کے تحفظ کے لیے بجٹ کو100ارب سے بڑھا کر191ارب روپے کردیا گیا ہے۔300 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے سبسڈی کی مد میں216 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ان ساری باتوں کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟ سیدہی سی بات ہے پاکستان نے قرضے اس لیے لیے کہ قرض اتارنا تھا۔اگر ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہوتا۔گی ڈی پی کے حساب سے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوتا۔اس وقت ٹیکس وصولی کی شرح مجموعی پیداوار کے دس فیصد ہے جو کہ ہماری معاشی ناکامی اور بدحالی کی بنیادی وجہ ہے۔ہمیں اس پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم عمران کہتے ہیں کہ2008 تک ملک کا قرضہ6000 ارب روپے تھا یہ دس سالوں میں30000ارب روپے کیسے ہو گیا؟ اب ان سے کوئی پوچھے کہ جناب آپ کو آئے11ماہ ہو گئے ہیں اور قرضہ 3400ارب روپے ہو گیا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ جب آئے تو ملک کے ذخائر10 ارب ڈالر تھے۔حکومت نے9.2ارب ڈالر چین،سعودی عرب اور متحدہ عرب عمارات سے قرض میں لیے۔اس کے باوجود آج ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو کر8 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو اگر معیشت کے بنیادی اصولوں کی سمجھ نہیں ہے تو وہ خاموش رہیں اس میں بھی بہتری ہو سکتی ہے کیونکہ اس وقت پاکستان میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے لوگ موجود ہیں اور حکومت اپنی مرضی سے ان کو لیکر آئی ہیاس لیے ملک اور قوم کے مفادات کو مدنظر رکھ کر انھیں نہایت سنجیدگی سے فیصلہ کن اقدامات کرنے ہیں۔ساری دنیا قرضے لیتی ہے صرف پاکستان ہی مقروض ملک نہیں ہے جس کے قرضے پچاسی فیصد کے برابر ہیں وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ دس برس کے قرضوں کیلئے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو کہ شدید اختلافات کا باعث بن سکتا ہے۔جاپان اور امریکہ سمیت کئی ترقی یافتہ ملک ایسے ہیں کہ ان کے قرضے مجموعی پیداوار سے بھی زیادہ ہیں لیکن وہاں پر ٹیکس وصولی کی شرح 50 سے 60 فیصد سے زائد ہے۔وہاں پر حکومتیں عوام کی فلاح بہبود بھی کرتی ہیں۔حکمران دن رات ملک اور قوم کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہیں۔پوانئنٹ سکور نہیں کرتے بلکہ پالیسیوں کا تسلسل ہوتا ہے جس کے فائدے ملک اور قوم کو ہوتے ہیں۔سرمایہ کاری بھی ہوتی ہے۔ان کی ایکسپورٹ ساری دنیا کے لیے ہے۔وہاں ہنر مند لوگ ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ہمارے ہاں ایک مخصوص اشرافیہ ہے جو کمائی کے لحاظ سے سب سے آگے ہے لیکن ٹیکس اور ملک کی تعمیر ترقی میں ان کا کردار عملی سطح پر نہیں ہے۔اگر سیالکوٹ، فیصل آباد،گجرانوالہ اور گجرات کے تاجر اور صنعتکار اپنی مدد آپ کے تحت ترقی کر سکتے ہیں۔ہمارا کراچی400ارب روپے کے ٹیئکس دے سکتا ہے تو پھر ملک کے باقی شہروں میں بھی ہماری گھریلو اور چھوٹی بڑی صنعتیں ملک کی تعمیر ترقی میں فعال کردار ادا کر سکتی ہیں تاہم لازم ہے کہ حکومت ان کی سرپرستی کرے لوگوٓں کو روزگار اور کاروبار کے آسان ترین ذرائع مہیا کرے۔ہماری زراعت دنیا میں اہم مقام رکھتی ہے لیکن اس پر توجہ نہیں دی جا رہی۔پاکستان کا نہری نظام دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں اس میں تنزلی آ رہی ہے توجہ نہیں دی جا رہی۔اپ گریڈ نہیں کیا جا رہا۔ کسان کو سہولیات نہیں دی جا رہی۔جدید ترین طریقہ کاشت پر توجہ نہیں دی جا رہی۔جس کی وجہ سے ہم اپنی سونا اگلنے والی زمینوں اور افرادی قوت سے کام لینے میں ناکام ہیں۔ چھوٹی انڈسٹری بند پڑی ہے۔جو کام کر رہی ہے اس کے لیے کاروبار جاری رکھنا مشکل ہے۔ابھی حکومت عوام کو تسلیاں نہ دے۔کیونکہ مہنگائی اور بیروزگاری نے جہاں ایک طرف پاکستان کے عام لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے وہاں ہمارا کاروباری طبقہ بھی شدید متاثر ہو رہا ہے۔اگر حکومت نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی،افراط زر میں اضافے کو اعتدال پر لانے کی کوشش نہ کی تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔ایک فارسی کہاوت جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ۔جتنی دیر میں عراق سے تریاق آئے گا سانپ کا ڈسا ہوا تو مر جائے گا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قومی اور ملکی مفادات کا تحفظ حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری ہے اور اس کو اولیت دینی چاہئے انتقام اور مقابلہ بازی کی سیاست کرنے سے ملک اور قوم کا بھلا نہیں ہوگا
 

Malik Ansar Mehmood
About the Author: Malik Ansar Mehmood Read More Articles by Malik Ansar Mehmood: 11 Articles with 8709 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.