گْل ناز

شاہد اور زاہد دونوں بھائی اپنے چچا جان کے گھر سے واپس آئے تو بہت خوش نظر آرہے تھے- آج کل ان کے گھر ان کی چچا زاد بہن کی شادی کی گہما گہمی تھی- وہ پندرہ بیس دنوں سے اس شادی کے کاموں میں لگے ہوۓ تھے- چچا کا ایک ہی بیٹا تھا جو ملازمت کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا ہوا
تھا اور باوجود کوشش کے اسے پاکستان آنے کی چھٹی نہیں مل سکی تھی-
چچا کا ہاتھ بٹانے کے لیے دونوں آگے آگئے تھے- دن بھر تو وہ اپنے کاموں پر ہوتے تھے- شاہد ایک بڑی ٹیلرنگ شاپ پر کٹنگ کا کام کرتا تھا- زاہد صابن کی ایک ایجنسی میں سیلز مین تھا- دونوں دل لگا کر اپنا کام کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی عزت بھی تھی اور انھیں اچھے پیسے بھی مل جاتے تھے-

شاہد زاہد سے دو تین سال بڑا تھا اور چھبیس سال کا ہوگیا تھا- وہ دونوں تھے تو بھائی مگر سوتیلے تھے- شاہد کے باپ کی پہلی شادی اس کی ماں سے ہوئی تھی- شادی کے کچھ عرصے کے بعد ہی دونوں میں ناچاقی رہنے لگی تھی، شاہد کی پیدائش کے بعد یہ ناچاقی اتنا بڑھی کہ بات علحیدگی تک جا پہنچی- شاہد کی ماں نے اسے اپنے ساتھ لے جانا بھی گوارہ نہیں کیا، اور جب شاہد محض سال بھر کا تھا، وہ اسے باپ کے پاس چھوڑ کر چلتی بنی- نئے سرے سے زندگی شروع کرنے والے کوشش کرتے ہیں کہ پچھلی زندگی کے تمام نشانات مٹا دیں، یہ کوئی نئی بات نہیں تھی- اس کی ماں نے بھی یہ ہی کیا تھا-

شاہد کچھ عرصے تو چچا کے گھر میں ہی پلتا رہا- اسے اس کی چچی سنبھالتی تھی- پھر اس کے بھائی نے یہ سوچ کر کہ اس طرح کب تک کام چلے گا، اپنے جاننے والوں کی ایک لڑکی سے اس کی شادی کردی- اس لڑکی کا نام زرینہ تھا اور وہ اچھی طبیعت کی ایک سیدھی سادھی عورت تھی-
رخصتی کے بعد جب وہ گھر آئ تو شاہد اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا- اب تک اس کا اٹھنا بیٹھنا خاندان کی ان عورتوں میں ہوتا تھا جو ہر وقت گھر کے کام کاجوں میں لگی رہتی تھیں- ان کے کپڑوں سے ہر وقت لہسن پیاز کی بو ہی آتی رہتی تھی- وہ بات بھی اتنی تیز آواز میں کرتی تھیں کہ بعض دفعہ تو ننھا شاہد سہم جاتا تھا-

اب جب اس نے اپنے گھر میں ایک اتنی صاف ستھری اور زرق برق لباس میں ایک ایسی عورت کو دیکھا جس کے پاس سے بہت اچھی خوشبو آرہی تھی، اور وہ اتنی دھیمی آواز میں بات کرتی تھی جو ٹھیک طرح سے سنائی بھی نہیں دیتی تھی تو اسے بہت اچھا لگا-

وہ جھٹ اس کی گود میں چڑھ کر بیٹھ گیا اور اس کے گلے میں بانہیں حمائل کردیں- اس کی اس معصوم حرکت پر زرینہ کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا- یہ سوچ کر کہ وہ اسے اپنی ماں سمجھ رہا ہے، اس کا دل بھر آیا- خود اس کی ماں کا اس کی بہت کم عمری میں انتقال ہوگیا تھا اور وہ اب تک اپنی ماں کو یاد کرتی تھی-
اس نے شاہد کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور اسے پیار کرنے لگی- اس کے بعد تو شاہد اس کی گود سے ہی نہیں اترا- اس کا باپ خوش تھا کہ وہ پہلے دن ہی سے زرینہ کو پسند کرنے لگا ہے- خاندان کی عورتیں بھی اس بات پر حیرت کر رہی تھیں کہ شاہد زرینہ سے ذرا بھی نہیں جھجکا- انھیں اس بات کی بھی خوشی تھی کہ بن ماں کے بچے کو اب ماں مل گئی تھی-

انسان کا خمیر تو خیر ہی سے اٹھا ہے- فطرتاً وہ نیک ہوتا ہے مگر اکثر لوگوں پر منفی عادتیں غالب آ کر انھیں ایک برا انسان بنا دیتی ہیں- کہنے کو تو زرینہ سوتیلی ماں تھی مگر اس میں منفی سوچیں ہرگز نہیں تھیں- اس کا رویہ شاہد کے ساتھ بالکل ماؤں جیسا تھا- ایسی ماؤں جیسا جو نہ تو سوتیلی ہوتی ہیں اور نہ سگی- وہ صرف ماں ہوتی ہیں-

شاہد اس سے بہت مانوس ہوگیا تھا- عام بچوں کی طرح وہ بھی اس سے ضد کیا کرتا- غصہ آجاتا تو چیزیں پھینک دیتا- زیادہ غصہ آجاتا تو اس کے چٹکی بھرنے سے بھی باز نہ آتا اور جب اس کے چٹکی بھرنے کی وجہ سے زرینہ گھٹنوں میں منہ دے کر رونے کی ایکٹنگ کرتی تو فوراً اسے چمکارنے لگتا اور ضد بھی چھوڑ دیتا-

اسے کھانے کی کوئی چیز پسند نہیں آتی تو وہ کہہ کہہ کر تھک جاتی، مگر وہ منہ زور سے بند کر کے بیٹھ جاتا- وہ اس کی ایسے ہی خوشامد کرتی جیسے کہ دوسری مائیں کرتی ہیں، پھر ہاتھوں میں منہ چھپا کر جھوٹ موٹ رونے بیٹھ جاتی- اس بات سے وہ پریشان ہوجاتا اور اس کے ہاتھ چہرے سے ہٹا کر اس کو دیکھنے کی کوشش کرتا- جب وہ منہ سے ہاتھ نہیں ہٹاتی اور بناوٹی سسکیاں بھرنے لگتی تو وہ بیٹھ جاتا اور کہتا- "لائیں کھلائیں"-

اس کا باپ پہلے تو ڈرتا تھا کہ سوتیلی ماں جانے اس کے بیٹے کے ساتھ کیسا سلوک کرے- مگر جب اس نے زرینہ کا دوستانہ اور محبّت بھرا رویہ دیکھا تو اسے بہت اطمینان ہوا- وہ زرینہ کے اس اچھے سلوک کی بہت تعریف کرتا اور اس کے بدلے اپنی پوری کوشش کرتا تھا کہ زرینہ کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھے-

اس کے دل میں ایک خوف اور بھی تھا- وہ سوچتا تھا کہ زرینہ کا یہ رویہ اس وقت تک نہ ہو جب تک اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہوجاتی- اس نے کئی لوگوں سے سن رکھا تھا کہ اپنی اولاد ہوجانے کے بعد ایسی عورتوں کو سوتیلی اولادیں بوجھ لگنے لگتی ہیں-

ایک سال بعد ان کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی- زرینہ کے کہنے پر اس بچے کا نام زاہد رکھا گیا- اس نام کے رکھنے کی اس نے یہ توجیح پیش کی کہ "شاہد کا بھائی زاہد- دونوں نام ملتے جلتے ہیں-"

چھوٹے بھائی کی پیدائش پر شاہد بھی بہت خوش تھا- وہ بستر پر چڑھا اپنے بھائی کے پاس ہی گھنٹوں بیٹھا رہتا- اسے اپنے کھلونے دینے کی کوشش کرتا- اگر وہ نیند سے بیدار ہوتا تو اس کے رونے سے پہلے ہی وہ جا کر زرینہ کو اس کے اٹھنے کی اطلاع دے دیتا تھا- وہ آکر اسے دودھ وغیرہ پلا دیتی- جب وہ زاہد کو گود میں لیتی تو شاہد اس سے جلن بھی محسوس نہیں کرتا تھا- زرینہ کے پاس ہی بیٹھا اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا- کبھی اس کے بالوں کو ہاتھ لگاتا اور کبھی گالوں کو- وہ اس کے کپڑے بدلواتی تو وہ اسے کپڑے نکال کر لا کر دیتا- زاہد کے ان کاموں کے کرنے میں اسے بڑا مزہ آتا تھا-

زاہد کی پیدائش کے بعد بھی زرینہ کی شاہد سے محبّت میں کمی نہیں آئ تھی- اس کی مصروفیات حالانکہ بڑھ گئی تھیں مگر وہ وقت نکال کر شاہد کے بھی کام پابندی سے انجام دیا کرتی- اس کو نہلانا دھلانا، روز اس کے کپڑے بدلنا اور ہر وقت صاف ستھرا رکھنا اس کا معمول تھا- وہ اب بھی زرینہ کے پاس اور زاہد کی برابر میں سوتا تھا-

اس نے گھر پر ہی ایک پڑھانے والی کی انتظام کر لیا تھا- بچوں کے اسکول کافی دور دور تھے، اس نے سوچا کہ جب تک یہ کچھ بڑا ہوجائے، گھر پر ہی کچھ پڑھ لیا کرے گا- دن گذرتے گئے، زرینہ کے رویے نے شاہد کے باپ کے دل و دماغ سے تمام خدشات نکال دیے تھے- اب تو اس کے ذہن میں یہ بات بھی نہیں آتی تھی کہ شاہد زرینہ کا سوتیلا بیٹا ہے- بعض دفعہ تو اسے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ شاہد کو زاہد پر ترجیح دے رہی ہے- وہ اس کے پرانے کپڑے اور جوتے وغیرہ جو چھوٹے ہوجاتے تھے زاہد کو پہناتی تھی- شاہد کے کپڑے یا تو ریڈی میڈ آتے یا پھر وہ درزی سے سلے ہوۓ کپڑے پہنتا تھا- دونوں بچوں کے لیے ایک ہی کھانا پکتا تھا اور وہ دونوں کو سامنے بیٹھا کر باری باری ایک نوالا اس کو اور ایک نوالا اس کو کھلایا کرتی- کھانا کھاتے ہوۓ دونوں ہی اس کو بہت تنگ کرتے تھے-

وہ کچھ بڑے ہوۓ تو انھیں ایک چھوٹے سے اسکول میں پڑھنے کے لیے بیٹھا دیا گیا- یہ اسکول ایک ایسے استاد کا تھا جو اپنی سروس کی معیاد پوری کرکے ریٹائر ہوگئے تھے اور اب یہ اسکول کھول کر بچوں کو پڑھانے لگے تھے- یہ مدرسہ پانچویں جماعت تک تھا- ان دونوں کو مدرسے چھوڑنے اور لانے کی ذمہ داری زرینہ کی تھی-

شاہد اپنے بھائی زاہد سے دو جماعتیں آگے تھا اس لیے وہ اس سے پہلے پانچویں پاس کر کے ہائی اسکول میں چلا گیا- اس کا اسکول گھر سے کافی دور تھا اس لیے زرینہ نے اس کی گاڑی بھی لگوا دی تھی-

چند سالوں بعد دونوں بھائیوں نے میٹرک کرلیا- زرینہ کے لاکھ کہنے پر بھی دونوں میں سے کسی ایک نے بھی آگے پڑھنے کی حامی نہیں بھری اور تھوڑی سی تگ و دو کے بعد انہوں نے نوکری کر لی- باپ بے چارہ تعلیم کی اہمیت سے ناواقف تھا، اس کے لیے یہ ہی بہت تھا کہ اس کے دونوں بیٹوں نے میٹرک کرلیا ہے اور پوری دس جماعتیں پڑھ گئے ہیں-

وہ پابندی سے اپنے کاموں پر جاتے تھے اور وہاں بہت محنت اور دیانتداری سے کام کرتے تھے- یہ زرینہ کی اچھی تربیت کا ہی اثر تھا کہ وہ ساری تنخواہ اپنی ماں کے ہاتھ پر لاکر رکھتے تھے اور انھیں گھر کی دوسری ذمہ داریوں کا بھی بہت احساس تھا- کام پر آنے جانے کا خرچہ وہ ہر روز ان کو دیا کرتی- زرینہ ان کی کمائی کے پیسے سنبھال کر رکھتی تھی- وہ پوری کوشش کرتی تھی کہ گھر کا خرچہ ان کے باپ کے دیے ہوۓ پیسوں سے ہی چلتا رہے- وہ سبزیوں کا آڑھتی تھا اور اس کی آمدنی اچھی خاصی تھی- دونوں بیٹوں کی تنخواہوں کے پیسے وہ ان کی شادی کے لیے جمع کر رہی تھی- اسے بس یہ ہی ارمان تھا کہ دونوں کی شادی ہوجائے اور وہ بہوؤں اور پوتے پوتیوں والی ہو جائے-

یہ دونوں بھائی صبح کے نکلے رات کو گھر آتے تھے- رات کھانے کے بعد باہر نکل کر پان سگریٹ کی دکان کا چکر لگاتے، کسی یار دوست سے ملتے اور پھر آکر سوجاتے- ان مصروفیات سے اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کی کسی لڑکی سے دوستی نہیں ہے جیسا کے اکثر دوسرے لڑکے اس عمر میں کر لیتے ہیں- اسے لگ رہا تھا کہ ان کی شادی کے لیے لڑکیاں بھی اسے ہی ڈھونڈنا پڑیں گی- اس نے پاس پڑوس میں اور چند ایک رشتے داروں کی لڑکیوں کے بارے میں سوچا مگر کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی-

پھر اس کے دیور کی بیٹی کی شادی کا سلسلہ نکل گیا- چچا زاد بہن کی شادی کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے اس نے شاہد اور زاہد سے کہہ دیا تھا اور انھیں اچھی طرح تاکید کردی تھی کہ جب تک یہ شادی نہیں ہو جاتی وہ لوگ کام پر سے جلدی آکر اپنے چچا کا ہاتھ بٹایا کریں- ان دونوں نے حامی بھر لی اور جس جگہ وہ لوگ کام کرتے تھے، بتا دیا کہ ان کی چچا زاد بہن کی شادی ہے اس لیے وہ شادی ہونے تک روز جلدی چھٹی کیا کریں گے-

دونوں بھائی تین چار بجے تک چچا کے پاس پہنچ جاتے- ان کی وجہ سے انھیں بڑی آسانی ہوگئی تھی اور وہ بھاگ دوڑ سے بچ گئے تھے- دونوں بھائی چونکہ آنکھ کھولتے ہی کاروباری لوگوں سے منسلک ہوگئے تھے- انھیں بھاؤ تاؤ اور اچھی چیزوں کی پہچان تھی- ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا شادی کی ایک ایک چیز کا بڑے بہتر طریقے سے انتظام ہوگیا-

شادی والا گھر تھا- ہر وقت رونق لگی رہتی تھی- لڑکیاں بالی گھر میں اور لڑکے گلی میں ہلا گلا کرتے رہتے- شاہد اور زاہد نے پہلی مرتبہ ایسا ماحول دیکھا تھا- وہاں ان کی کئی لڑکوں سے دوستی بھی ہوگئی- انھیں بہت مزہ آنے لگا- دونوں لڑکے خوش شکل اور خوش لباس تھے- بہت سی لڑکیاں بہانے بہانے سے ان سے باتیں کرتیں اور یہ کوشش بھی کہ زیادہ سے زیادہ ان کے قریب رہیں- چند ایک تو انھیں دل و جان سے چاہنے لگی تھیں- جو لڑکی شاہد میں دلچسپی لیتی وہ زاہد کو بھائی کہہ کر مخاطب کرتی اور زاہد جس لڑکی کا منظور نظر ہوتا، وہ لڑکی شاہد کو بھائی کا درجہ دے دیتی-

جس روز بارات آنی تھی، اس روز شاہد اپنے سیٹھ سے گاڑی مانگ کر لے آیا تھا- اس گاڑی میں وہ لوگ شادی ہال پہنچے- شادی ہال میں بڑی گہما گہمی تھی- لڑکیاں خود بھی دلہنوں کی طرح سجی سنوری پھر رہی تھیں- ہر لڑکی کو یہ احساس تھا کہ وہ بہت خوب صورت لگ رہی ہے- خود کو خوبصورت سمجھنے کا احساس مصنوعی پن طاری کردیتا ہے- انسان کا اپنا انداز رخصت ہوجاتا ہے اور اس کی چال ڈھال میں اور بولنے چلنے میں ایک تبدیلی آجاتی ہے- جس جس کو بھی اپنی اس خوبصورتی کا احساس ہو رہا تھا وہ فخر و غرور سے ہال میں گھوم پھر رہی تھی-

بڑی عمر کی عورتیں ان لڑکیوں کو بغور دیکھ رہی تھیں- ان شادی کی تقریبات میں ایسی خواتین اپنے لڑکوں کے لیے دلہنیں ڈھونڈنے کی کوشش میں مصروف ہوتی ہیں- یہ بات تو اب اتنی مشہور ہوگئی ہے کہ لڑکیوں کی مائیں خاص طور سے اپنی بیٹیوں کو بنا سنوار کر ان تقریبات میں لاتی ہیں تاکہ ان کی شادی کا بھی سلسلہ شروع ہو سکے-

زرینہ کو بھی یہ چمکتی دمکتی، یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آتی ہوئی کئی لڑکیاں بہت اچھی لگیں- وہ کسی کو پسند کرتی تو اس سے بھی اچھی کوئی دوسری لڑکی نظر آجاتی- بہت دیر تک یہ ہی ہوتا رہا- آخر کو وہ جھنجلا گئی- اس نے شاہد اور زاہد کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو وہ قاضی صاحب کے ہمراہ نظر آئے- وہ نکاح کے لیے لڑکی کی رضامندی اور فارم پر اس کے دستخط کروانے کے لیے خواتین کے پنڈال میں آئے تھے- دونوں کو دیکھ کر زرینہ کے ہونٹوں پر ایک پیار بھری مسکراہٹ دوڑ گئی- دونوں بہت ہی اچھے لگ رہے تھے-

نکاح کے بعد جلد ہی کھانا شروع ہوگیا تھا کیونکہ ہال کی انتظامیہ کی ہدایت پر دس بجے تک شادی ہال کو خالی کر دینا تھا- سارے کام بڑی خوش اسلوبی سے ہوگئے تھے- ادھر روتی دھوتی دلہن رخصت ہوئی ادھر یہ بھی اپنے گھر کو روانہ ہوگئے-

اگلے روز چھٹی تھی- زاہد کسی کام سے گھر سے باہر گیا ہوا تھا- شاہد بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا- اس کا شوہر بھی باہر نکلا ہوا تھا- ہنڈیا کو چولہے پر چڑھا کر وہ شاہد کے پاس آ کر بیٹھ گئی- اس نے بڑے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی- "شاہد بیٹے- کل شادی کی تقریب کی رونق دیکھ کر میرا بھی دل چاہ رہا ہے کہ ہمارے گھر بھی اتنی رونق ہو- میں نے سوچا ہے کہ اب تم دونوں کی بھی شادی کردوں-"

شاہد نے پیار سے اس کا ہاتھ تھام کر کہا- "امی ہم بھی یہ ہی چاہتے ہیں مگر شرم کی وجہ سے آپ سے اب تک نہیں کہہ سکے"-

"اتنے شرم والے کہیں ہو ہی نہ جاؤ"- زرینہ ہنس کر بولی- "کل میں نے تم دونوں کے لیے بڑی اچھی اچھی لڑکیاں دیکھی ہیں- تم کہو تو بات چلاؤں- میں تصویر بھی لے آوں گی- تم پسند کرلینا"-
"میں نے تو امی خود ایک لڑکی دیکھ لی ہے"- شاہد شرارت سے مسکرا کر بولا-
"کون ہے وہ- کیا نام ہے اس کا- کیسی ہے وہ؟" زرینہ نے حیرانی سے پوچھا-
"مجھے تو بہت اچھی لگی تھی وہ- آپ دیکھیں گی تو آپ کو بھی بہت پسند آئے گی- نام تو میں نے اس کا معلوم کرلیا ہے- باقی کھوج لگانا آپ کا کام ہے- وہ چچی جان کی کسی سہیلی یا ان کے دور پرے کی کوئی رشتے دار لگ رہی تھی- میں نے تو جب بھی دیکھا ان کے ہی ساتھ دیکھا"-
"تم نے اس سے کوئی بات وات کی تھی؟" زرینہ نے پوچھا-
"اتنے لوگوں میں موقعہ ہی نہیں ملا-" شاہد نے مایوسی سے کہا-
"اچھا تم مجھے اس کا نام بتاؤ- میں کل تمھاری چچی سے اس کے بارے میں معلوم کروں گی"- زرینہ بول-
"اس کا نام گل ناز ہے"- شاہد نے بتایا - "ماں کل صبح ہی صبح چچا جان کے گھر چلی جانا- ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور اس کی شادی کسی اور جگہ ہوجائے"-
اس کی بیتابی پر زرینہ ہنس پڑی-

اتنی دیر میں شاہد کا کوئ دوست آگیا اور اسے آواز دے کر اپنے ساتھ لے گیا- اسے گھر سے گئے ہوۓ کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ زاہد گھر میں داخل ہوا- زرینہ بہت خوش اور مطمئن نظر آ رہی تھی- اسے خوشی تھی کہ اب اس کے گھر میں بھی خوشیوں کے شادیانے بجیں گے- اسے خوش دیکھ کر زاہد اس کے قریب آ کر بولا- "امی- آپ تو بہت خوش نظر آرہی ہیں- کیا بات ہوگئی ہے؟"

"میں تم دونوں بھائیوں کی شادی کرنے کا سوچ رہی ہوں- بہوؤں کے آجانے سے گھر کے جھنجھٹ سے میری جان چھوٹ جائے گی- میں تو بس پوتے پوتیوں کو ہی کھلایا کروں گی- گھر بار وہ لوگ سنبھالیں گی- اگر تمھاری نظر میں کوئی لڑکی ہو تو بتا دو ورنہ میں خود ڈھونڈ لوں گی"-

"اگر یہ ہی بات ابّا پوچھتے تو میں کبھی نہیں بتاتا- ان سے مجھے بہت شرم آتی ہے- مگر یہ سوال آپ نے پوچھا ہے- اس لیے آپ کو تو میں ضرور بتاؤں گا- آپ سے کیسی شرم- ایک لڑکی ہے- میں نے اسے شادی کے دوران چچی کے گھر میں دیکھا تھا- بہت ہی خوبصورت اور سیدھی سادھی- آپ بھی دیکھیں گی تو حیران رہ جائیں گی"-

زرینہ اسے گھورنے لگی- "تم لوگ اپنے چچا کے گھر کام میں ان کا ہاتھ بٹانے گئے تھے یا لڑکیاں دیکھنے- شاہد نے بھی لڑکی دیکھ لی- اب تم بتا رہے ہو کہ تمہیں بھی کوئی پسند آگئی ہے- خیر میں تو یہ ہی چاہتی ہوں تم دونوں بھائیوں کی ایک ساتھ ہی شادی کردوں- دونوں کی شادی ایک ساتھ ہوگی تو کچھ خرچہ بھی بچ جائے گا- کون ہے وہ لڑکی- کیا نام ہے اس کا؟"

" میں نے اسے چچی جان کے گھر میں ہی دیکھا تھا-" زاہد نے بتایا- اس کا نام گل ناز ہے- "

اتنی دیر میں دروازہ کھلا اور اس کا باپ اندر داخل ہوا- باپ کو دیکھ کر زاہد اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا-

زاہد کے منہ سے بھی گل ناز کا نام سن کر زرینہ کو ایک دم سے چکر آنے لگے تھے اور اس کا منہ پیلا پڑ گیا تھا- اس کی یہ حالت دیکھ کر زاہد کا باپ جلدی سے اس کے قریب آیا- "کیا ہوا؟ تمھاری طبعیت تو ٹھیک ہے؟"

شوہر کے سوال پر وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی- "ٹھیک ہوں- بس چکر سا آگیا تھا-" وہ مطمئین ہوگیا اور اندر چلا گیا-

اتنی دیر میں بظاہر تو وہ اپنی حالت پر قابو پا چکی تھی مگر اس کے دل اور دماغ کی بری حالت تھی- شاہد اور زاہد نے اسے ایک مخمصے میں ڈال دیا تھا- دونوں نے شادی کے لیے گل ناز کا نام لیا تھا- کون تھی یہ گل ناز جو اس کے دونوں بیٹوں کو پسند آگئی تھی- دونوں ہی اس سے شادی کے خواہشمند تھے- اس کا نام لیتے ہوۓ دونوں کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں اور چہرے کھل اٹھے تھے-

اس نے زندگی بھر ان دونوں میں کوئی تفریق نہیں کی تھی، مگر اب حالات نے اسے ایک ایسے موڑ پر لاکھڑا کیا تھا کہ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے- رات وہ بستر پر لیٹی تو سوچوں نے اسے گھیر لیا- اس سے پہلے اس نے دونوں کو الگ الگ بٹھا کر کریدا تھا کہ اگر ان کی شادی گل ناز سے نہ ہوسکی تو ان پر کیا اثر ہوگا-

اس کا سوال سن کر دونوں ہی بہت سنجیدہ ہوگئے تھے- شاہد نے تو کہا تھا کہ وہ پھر زندگی بھر شادی نہیں کرے گا- زاہد کا ارادہ تھا کہ اگر گل ناز سے شادی نہیں ہوئی تو وہ گھر بار چھوڑ کر کسی دوسرے شہر چلا جائے گا-

شاہد کے ساتھ اس کا شروع سے ہی ایسا رویہ رہا تھا کہ نہ تو خاندان میں اور نہ ہی جاننے والوں میں کسی کو یاد تھا کہ وہ اس کا سوتیلا بیٹا ہے- شاہد کا برتاؤ بھی اس کے ساتھ عام بچوں کی طرح رہا تھا، دل چاہا تو ماں کی بات مانی، دل نہ چاہا تو نہ مانی- وہ اس کا خیال بھی ماؤں کی طرح ہی رکھتا تھا- اس کی ذرا سی تکلیف اور بیماری پر بے چین ہوجاتا تھا- اس کا باپ حالانکہ بہت غصے والا تھا مگر اس کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ شاہد کی موجودگی میں زرینہ سے کوئی برا سلوک کرے یا اس کی کسی بات پر غصہ دکھائے- وہ فوراً اس کی حمایت میں آ موجود ہوتا تھا-

زرینہ سوچ رہی تھی کہ بیٹوں کے انتخاب نے اسے ایک دوہرائے پر لا کھڑا کیا ہے- اگر اس نے اس معاملے میں زاہد کا ساتھ دیا تو شاہد کو احساس ہوگا کہ اگر اس کی سگی ماں ہوتی تو وہ کبھی بھی ایسا نہ کرتی- اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے- ایک مرتبہ اس کے دل میں آئ کہ ان کے باپ سے اس سلسلے میں مشوره کرے، مگر اسے پتہ تھا کہ اس الجھے ہوۓ معاملے میں نہ تو وہ پڑنا پسند کرے گا اور نہ ہی کوئی مشوره دے گا-

رات بھر وہ بے چین رہی- اسے ٹھیک سے نیند بھی نہ آسکی- صبح اس کی طبیعت عجیب سی ہو رہی تھی- بیٹوں کی شادی کا سوچ سوچ کر وہ خوش ہوا کرتی تھی مگر اب فکر سے اس کا برا حال تھا- اسے بیٹوں پر بھی غصہ آنے لگا جنہوں نے گل ناز کو پسند کر کے ایک نئی مصیبت کھڑی کر دی تھی- "یہ اتنے بڑے بڑے ہوگئے ہیں مگر عقل نام کو نہیں"- اس نے تلملا کر سوچا اور بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی-

اس نے بڑی بے دلی سے دونوں بیٹوں کو اٹھایا اور ناشتے کی تیاری شروع کردی- خلاف توقع دونوں خوش تھے ورنہ عام دنوں میں تو وہ اٹھائے جانے پر جھنجلا جاتے تھے- شاہد جلدی تیار ہوگیا تھا، وہ جانے لگا تو زرینہ سے بولا- "آپ چچی جان کے گھر جائیں گی تو رکشہ کر لیجیے گا- میں کوشش کروں گا کہ کسی طرح آج بھی جلدی آجاؤں اور آپ کے منہ سے خوش خبری سنوں"-

زرینہ نے سر جھکا لیا اور کوئی جواب نہیں دیا- اس نے ایک فیصلہ کرلیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، وہ گل ناز کی شادی شاہد سے ہی کروائے گی- وہ نہیں چاہتی تھی کہ دنیا والے اور خود شاہد بھی یہ کہے کہ اس نے اپنے سگے بیٹے کا ساتھ دیا ہے-

شاہد کے جانے کے بعد زاہد اس کے پاس آکر بیٹھ گیا- اس نے ناشتہ اس کے سامنے رکھا- وہ خاموشی سے کھانے میں مصروف ہوگیا- پھر اچانک اس نے کہا- "امی آج آپ کو وہاں بھی تو جانا ہے- شاہد بھائی نے بھی آپ کو اس لڑکی کے متعلق بتا دیا ہوگا جو انھیں پسند آئ تھی؟"-

زرینہ حیرت سے اس کا منہ تکنے لگی- اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ زاہد کی اس بات کا کیا مطلب ہے- وہ سوچ ہی رہی تھی کہ زاہد سے اس بارے میں استفسار کرے کہ اتنی دیر میں اس نے ناشتہ ختم کرلیا اور اٹھتے ہوۓ بولا- " بس امی- ہماری شادی کے بعد آپ کو ایک پریشانی ضرور رہا کرے گی- اتفاق ہی کی بات ہے لڑکیاں تو دونوں الگ الگ ہیں مگر نام ان کے ایک ہی ہیں- آپ میری والی گل ناز کو آواز دیا کریں گی اور آ جایا کرے گی شاہد بھائی والی گل ناز-"

(ختم شد)

Mukhtar Ahmad
About the Author: Mukhtar Ahmad Read More Articles by Mukhtar Ahmad: 70 Articles with 132662 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.