جنوں ہے یا فسوں ہے ۔۔۔۔۔۔ یوں ہے!

حساس اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے انسان، کہاں جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔

نایاب کو میں نے جان بوجھ کے شادی کے لیے منع کر دیا، کیونکہ میں ایک کسان کا بیٹا،جسے چار بڑے بھائیوں نے والدین کی وفات کے بعد گھر سے نکال دیا،کیسے اُس کی زندگی چاند تاروں سے بھرسکتاتھا؟ بھائیوں نے علاقے کے بڑوں (مشران)نے فیصلے کا سہارا لیکر آبائی گھر اپنے پاس رکھ لیا اور مجھے ایک عدد کچا مکان جس میں صرف ایک کمرہ تھا،حوالہ کردیا۔ تقسیم کے نام پر سب اچھی زرخیز زمینیں اپنے لیے رکھ لیں اور میرے نام بنجر نما زمینیں منتقل کردیں،کیونکہ میں میٹرک کا طالب علم تھااور زمین جائیداد کے چکروں سے ناآشنا!۔بمشکل میٹرک پاس کرکے اپنی زمینوں کی دیکھ بھال سنبھال لی اور اپنے لیے سالانہ اناج اگانے لگا۔ بس یہی میرا گزر بسر، روزی روٹی اور کل اثاثہ تھا۔

نایاب کے والد ایک اچھے سرکاری ملازم اور اونچے خاندان سے تھے۔ میرے نئے مکان سے متصل ان کاخوبصورت اور عالیشان گھر تھا۔پانچ افراد کا یہ خوشحال گھرانہ،جس میں والدین سمیت دو بیٹے اور ایک چھوٹی بیٹی نایاب شامل تھی، میرے لیے باعثِ رشک تھا۔وقت گزرتا گیا اورپھرا نجانے میں، نایاب اور میری جان پہچان کے بعدہماری محبت کا آغاز ہوگیا۔۔۔ شاید قربِ مکان اصل وجہ تھی، ورنہ باقی تونایاب اور میری مثال سنگِ مرمر اور کچی مٹی کی سی تھی جسکا جوڑ کبھی بھی قابلِ برداشت اور دیر پا نہیں رہتا۔۔۔ لیکن محبت کے دس سال پلک جھپکتے گزر گئے۔نایاب نے اپنی تعلیم مکمل کرلی اور میری زندگی ان ہی شب وروز، زمینوں اور کھیتی باڑی میں رُکی رہی۔ لیکن ان دس سالوں اور تعلیم کے بعد بھی نایاب کی محبت اور توجہ میں کمی نہ آئی۔۔۔وقت گزرتا رہا اور پھر ایک دن نایاب کے لیے ایک بڑے سرکاری انجینئر کا رشتہ آگیا۔ دونوں گھرانے اس رشتہ کو جلد از جلدطے کرنے کے لیے پاگل ہورہے تھے،لیکن ابھی نایاب کی ہاں باقی تھی۔۔۔

نایاب نے کچھ عرصہ ٹال مٹول سے کام لیا لیکن جب بلا سر سے ٹلتی نہ دیکھی،توایک شام گھر والوں کی نظروں سے بچ کر ملاقات کے لیے وقت نکالا۔۔۔اور شادی کی ضد کرنے لگی، میرے انکار پر وہ سسکیاں بھر کر رونا شروع ہوگئی، جس کی ہلکی سی ہچکی کی آواز جنوری کے دھندلے اندھیرے میں دور تک ارتعاش پیدا کرتی چلی جاتی۔۔۔۔ مُجھ سے کیوں پیچھا چھڑانا چاہتے ہو؟۔۔اُس کے سوال میں جواب طلبی سے زیادہ ایک بے بس التجا تھی۔۔۔۔۔ پیچھا نہیں چُھڑا رہا پگلی!۔۔ہماری حیثیت میں فرق ہے زمین آسمان کا فرق!۔۔۔ اُس نے پھرسے ہچکی لی۔۔۔اگر اپنانا ہی نہیں تھا تو پہلے دن ہی روک لیتے؟۔۔۔اُ س کے لہجے میں تلخی دھر آئی۔۔۔ اوردوپٹے کے پلو سے آنکھوں کے کونوں سے سرکتی ہوئی بوندیں صاف کیں۔۔۔تمہیں کیسے سمجھاؤں نیئی (نایاب کو میں اپنائیت اور بے تکلفی سے نیئی کہہ کر پکارتا تھا)۔۔۔سمجھنے کو کوشش کرو۔۔ اُس وقت میں بھی انجان تھا۔۔۔ اس سماج کے اصولوں سے، اونچ نیچ اور ذات پات کے بندھنوں سے۔۔۔میری مجبوریوں کو سمجھونیئی۔۔میری مجبوریوں کو سمجھو!۔۔ میں بھی نہیں جانتا تھا کہ انسان کا رتبہ، دولت،خاندان اور اچھی نوکری سے بنتا بگڑتا ہے!۔۔۔ لیکن ایک مرتبہ بابا سے بات تو کرو،وہ دل کے اچھے ہیں،نانہیں کریں گے۔۔بات کرنے میں کیا حرج ہے؟۔اُس نے پھر سے امید کی کٹی پتنگ کی ڈوری تھامتے ہوئے، مجھے ہمت دینے کی کوشش کی۔۔۔ نیئی میں بات کرچکا ہوں۔۔۔اپنے بھائیوں، بھابھیوں بلکہ اپنے خاندان کے بڑے بزرگوں سے بھی بات کی ہے۔سب نے مجھے دھتکارا ہے۔۔۔ اُن سب نے یہی کہا ہے کہ ایسا سوچنا بھی گناہِ کبیرہ ہے۔۔۔ اور ایسی بات منہ سے نکالنا اپنے پورے خاندان کو خود ہی قتل کرنے کے مترادف ہے۔۔۔ ہم غریب اس سماج کے شودر ہیں،نیئی!۔۔۔ہم کسانوں کی حیثیت تمہارے خاندان کے سامنے دوکوڑی کی بھی نہیں!۔۔۔ نیئی پاگل مت بنو!۔۔انجینئرتمہیں خوش رکھے گا!۔۔۔۔۔ اُس نے اپنی ہچکی روکتے ہوئے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں بھینچ لیا۔۔۔جیسے آتش فشاں کو پھٹنے سے روک رہی ہو۔۔۔ وہ کھل کر رونا چاہتی تھی،چیخنا چاہتی تھی،لیکن منہ بند تھا!۔۔۔ اُس کی آنکھیں کھولتے پانی کی طرح اُبل رہی تھیں، جس میں گزشتہ دس سالوں کی ساری ملاقاتیں اور پیا ر بھری باتیں،ایک ایک کرکے اُبھر آئی تھیں۔۔۔۔کچھ دیر خاموش بے حس و حرکت کھڑی مُجھے گھورتی رہی، اور پھربولنے کے لیے توانائی اور حوصلہ جمع کرکے مُنہ دوسری طرف پھیر ا،اور اپنے آخری الفاظ کمال بیگانگی اور گستاخی سے ادا کیے۔۔۔بے شک،خوش رکھے گا!۔۔ اور دوڑ کر دروازے سے نکل گئی۔۔۔۔

اس آخری ملاقات کے ایک ہفتے کے اندر اندر میں نے اپنا گھر اونے پونے داموں بھائیوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا،اور شہر سے دور ایک غیر آباد علاقے میں ایک مکان خریدا،جس کی تعمیر اور حالت پہلے والے مکان سے قدرے بہتر تھی، کیونکہ اس میں پکی اینٹوں سے بنے دوکمرے تھے،ایک کمرے کے ساتھ اٹیچ باتھ روم پلس واش روم اور ایک کنال کا صحن بھی تھاجس کی پکی چاردیواری تھی، لیکن ویرانے میں ہونے کی وجہ سے دام نہایت معقول تھے۔۔ایک کمرے میں اناج اور کچن کا سامان پڑا رہتا اور دوسرے کمرے میں، میں نے رہائش رکھ لی۔چند ماہ بعد نایاب کی شادی ہوگئی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ کسی بڑے شہر منتقل ہوگئی۔۔۔

اس نئے گھر میں رہتے ہوئے مجھے ایک سال ہوچکا تھاکہ اچانک کچھ عجیب سے واقعات رونما ہونے لگے۔۔۔ پہلے پہل جب میں باتھ روم کے اندرجا کر پانی کا نل کھولتا،تو مجھے اُس گرتے پانی میں سے نسوانی فریاد کی آوازیں سُنائی دینے لگتیں۔۔لیکن پانی کا نل بند کرنے پر وہ آوازیں خود بخود ختم ہوجاتیں۔ میری راتوں کی نیند کم ہونے لگی اور جب آنکھ لگتی، تو کوئی بہت ہی ڈراؤنا خواب دیکھ کر آنکھ کھل جاتی، دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں، حلق میں خشکی کی وجہ سے کانٹے چبھنے لگتے،اور باقی رات جاگتے ہوئے گزرتی۔۔۔ دن کے وقت بھی وہی خوفناک چہرے میرے ذہن میں تصویروں کی شکل میں ابھر ابھر کر سامنے آتے اور بے چینی میں اضافہ کرتے۔۔۔ میں تنہائی کا عادی تھا،اور غیر مرئی طاقتوں کا ڈر کبھی بھی دل میں نہیں بٹھایا۔۔۔ اعلیٰ تعلیم نہ ہونے کے باوجود بھی جن بھوت،بدروح یا کسی غیر مرئی مخلوق پر اعتقاد نہ تھا۔۔۔ جو کچھ آنکھوں سے دیکھتا اسی کو زندگی سمجھتا۔۔۔ زندگی میں کبھی نماز روزہ کا اہتمام نہ کیا اور نہ کبھی کسی پیرفقیر کے ڈیرے یا کسی ولی کے مزار،یا درگاہ پر حاضری دی،کیونکہ ان سب باتوں کی میرے ہاں کوئی اہمیت نہ تھی۔۔۔ لیکن نسوانی آوازیں آہستہ آہستہ تیز ہونے لگیں،اور پانی کے کھلے نل کے بغیر بھی سُنائی دینے لگیں۔۔ شام ڈھلتے ہی گھر کے تاریک کونوں سے ابتسام۔۔۔۔ابتسام۔۔۔کی صدائیں اُٹھنی شروع ہوجاتیں، اور صبح کی آذان تک وقفے وقفے سے جاری رہتیں۔۔۔ ہر رات میرے لیے ایک اذیت اور کرب کا پیغام لیکر آتی۔۔لیکن دن کچھ آرام سے گزرجاتا۔۔

پھر کچھ عرصہ بعد گھر کے مین گیٹ پر دستک کا سلسلہ شروع ہوا،میں دن میں سو سومرتبہ بڑے گیٹ تک جاتا،لیکن کسی دستک دینے والے کو نہ پاتا۔۔۔ میرے بھائی، میرے بھتیجے مجھ سے کیوں ملنے آتے۔۔میرا کون تھا جو میرے جینے مرنے کی فکر کرتا۔۔نیئی کو تو میں نے خود اپنے ہی ہاتھوں کھودیا تھا۔۔۔کیونکہ اگر اُس کا باپ راضی بھی ہوجاتا،تب بھی میں اُسے نہ اپناتا۔۔۔ میں اُس سے بے پناہ محبت کرتا تھااور اب بھی کرتا ہوں،اس لیے اپنی غربت، بے بسی اور نیچ خاندان کی کالک سے اُس کی روشن زندگی کیوں تاریک بناتا؟میں اتنا خودغرض نہیں تھا۔۔۔ نیئی کے علاوہ باقی کسی کو کیا پرواہ تھی میرے ہونے نہ ہونے کی!۔۔۔۔ لیکن میں جب دستک کے جواب میں گیٹ نہ کھولتا، تو اس پر پڑنے والے ضربات شدید سے شدید تر ہوتے جاتے اور برداشت سے باہر ہو جاتے اس لیے گیٹ کھول کر باہر جھانکناپڑتا۔۔

نہ میراکوئی پڑوسی تھا اور نہ آس پاس کوئی گھر بلکہ ایک ویران سامیدان تھاجس میں ریت اور خود رو جھاڑیاں تھیں۔۔۔گرمیوں کی دوپہر میں ہر روز،عین تین بجے میرے کمرے کا دروازہ ایک دھکے سے کھلتا اور ہوا کا ایک بگولا اندر گھاس پھونس تنکے اور خشک پتے چھوڑ کر تحلیل ہوجاتا۔۔۔ میں ان چیزوں کو سمجھنے سے قاصر تھا لیکن،مجھے کوئی ڈر نہیں تھا کیونکہ میرے تکیے کے نیچے میرا پستول ہر وقت پڑا رہتا تھا۔۔اور جب حوصلہ پست ہونے لگتا تو پستول ہاتھ میں لیکرخود اعتمادی اور قوت حاصل کرلیتا۔۔۔

کبھی کبھی خواب میں ایک ہیولاسیاہ ماتمی لباس میں منہ دیوار کی طرف پھیر کر بین کر تا نظر آتا اور،باالکل نایاب کی آخری سسکیوں سی سسکیاں بھرتا۔۔۔ جب ان خوابوں کو ایک مہینہ گزر گیا تو مجھے میرے گھر میں اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی چھاپ سُنائی دینے لگی،جب میں چلتا تو میرے پیچھے کوئی چلنے لگتا،جب میں رُکتا تو وہ بھی رُک جاتا،جب میں مُڑکے دیکھتا تو کوئی بھی تو نہ ہوتا۔۔ میں اکثر اندھیرے میں پیچھے دیکھے بغیرصحن سے بھاگ کرگزرتا ہوا، اپنے کمرے میں داخل ہوجاتااور کنڈی لگا کر اپنے پستول پر ہاتھ رکھ لیتا۔ کسی کے ہونے کا ایک قوی احساس میرے اندر گھر کر چکا تھا۔۔۔اب تو میں اُس کی چلتی ہوئی سانسیں بھی محسوس کرنے لگا تھا۔۔۔۔ میں کب تک اُسے وہم سمجھتا۔۔۔ کیونکہ کوئی میرے ساتھ تھا۔۔۔واقعی کوئی میرے ساتھ رہ رہا تھا!۔۔۔ میں ایک عجیب سی الجھن کا شکار تھا۔۔میرے حواس کسی چیز کا ادراک کر رہے تھے، لیکن میری آنکھیں اُس کی تصدیق سے عاری تھیں۔۔۔جس نے میرے سارے جسم کو ایک اذیت اور ایک کرب میں مبتلا کر رکھا تھا۔۔ مجھے بے سبب اپنا زندہ رہنا بوجھ لگ رہا تھا۔۔۔اور مجھ میں مرنے کی ایک شدید خواہش جنم لے رہی تھی۔۔۔ میں اپنے پستول کو دیکھتا اور سوچتا،کتنا اچھا ہوتا اگر اس کی ایک گرم سنسناتی گولی میرے دماغ کے پار ہو جائے یا میرے بے چین دل کے پار۔۔۔اور سارے مسائل ختم ہوجائیں۔۔۔ کتنی اچھی نیند ہوگی۔۔۔مرنے کے بعد!۔۔۔ نہ بڑے گیٹ پہ دستک ہوگی اور نہ کوئی ابتسام کا نام زور زور سے پکارے گا۔کیونکہ مجھے اپنے نام سے نفرت ہوچکی تھی۔۔۔میں خود کو اس دھرتی کا بوجھ سمجھ رہا تھا۔میری زندگی بے فائدہ تھی۔۔۔میں کیوں زندہ تھا۔۔۔؟

میں رات کو اپنی چارپائی پرگھٹنے موڑ کر اور گول ہوکر لیٹتا کیونکہ جب بھی میرے پیر ادوائن کے پاس جاتے یا چارپائی سے لمبے ہونے لگتے تو کوئی بلی اپنی ٹھنڈی،گیلی ناک سے میرے تلوؤں پر گدگدی کرنے لگتی،لیکن کمرے میں بلی کا دور دور تک نام و نشان نہ ہوتا۔۔ اُس رات بھی جب میں سیدھا لیٹ کر سونے کی کوشش کر رہا تھا تو میرے پیر چار پائی سے لمبے ہوگئے اور ابھی پلکیں بھاری ہونے لگی تھیں کہ بلی کی ٹھندی نرم ناک میرے تلوؤں کو گدگدانے لگی۔۔۔میں نے جلتی لالٹین کواُٹھا کر بلی کو تلاش کرنا چاہا،تو چارپائی کے ادوائن سے ایک سُرخ آنکھ مجھے گھورنے لگی۔۔۔ میں نے اُچھل کر لالٹین چارپائی کے نیچے رکھ لی۔۔۔ اور آنکھ تلاش کرنے لگ گیا۔۔۔ یکایک پیچھے سے وہی مدھرنسوانی آواز گونجنا شروع ہوگئی۔۔۔۔ابتسام۔۔۔او۔۔ابتسام۔۔۔ادھر آؤ نا۔۔۔ میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہی سیاہ پوش کاندھوں پر سیاہ زلفیں بکھیرے دیوار کی طرف منہ کرکے مجھے آوازیں دے رہا تھا۔۔۔ میں واقعی ڈر گیا،کیونکہ کمرے کا دروازہ اندر سے مقفل تھا۔۔۔اس کی آواز میرے لیے مانوس تھی۔۔۔لیکن میرا ذہن اُسے دیکھنے کے بعد کچھ سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔ میرے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے اور ڈر کے مارے میرا ذہن مفلوج ہورہا تھا۔۔۔میرے پیروں کے ساتھ منوں وزن بندھا محسوس ہو رہا تھا،کہ اچانک میرا لرزتا ہوا ہاتھ میرے سرہانے کے نیچے پڑے ٹھنڈے پستول کی طر ف اُٹھ گیا۔۔۔ دوسرے ہاتھ نے پستول کا اوپری کور کھینچ کر گولی چیمبر میں لوڈ کی اورمیں نے پستول انجان سیاہ پوش پر تان لیا۔۔۔۔ اُسکی مدھر آواز پھر سے کمرے کی خاموش فضا میں گونجی۔۔ابتسام۔۔۔یہ کیا؟۔۔۔ کوئی اپنوں کو مارتا ہے بھلا؟۔۔۔کیا مجھے مارنا چاہتے ہو؟۔۔۔ کیا مجھے ماردو گے؟۔۔۔کیا تم مجھے ماروگے؟۔۔۔میں نے ٹریگر پر انگلی رکھی اور پستول اُس کے کاندھے سے مس کرنی چاہی۔۔۔کہ یکا یک اُس نے ایک پُر ہیبت چیخ مار کر اپنا رُخ میری طرف پھیر لیا۔۔۔ حیرت اور وحشت سے میری انگلی نے ٹریگرپر دباؤ بڑھایا اور ایک دھماکے کے ساتھ چنگاریاں چھوڑتا ہوا شعلہ اُس کے سینے میں گھس گیا۔۔سیاہ پوش میرے اورپر گرپڑا۔۔لیکن اُس کا چہرہ تو ہوبہو میرے جیسا تھا۔۔۔وہ تو میں تھا۔۔۔ میں ہی اپنے نیچے پڑا تڑپ رہاتھا۔۔۔اُس کے سینے سے خون کے قطرے اُچھل اُچھل کر میرے سینے پر گرنے لگے۔۔۔میں نے اس لاش کو خود سے پرے دھکیلااور پستول وہیں کمرے میں پھینک کر، گرتا پڑتا دروازے اور بڑے گیٹ کو کھولتا ہوا، میدان میں نکل آیا۔۔۔۔ میرے سینے میں درد کی ٹھیسیں اُٹھ رہی تھیں اور اسکی شدت سے ٹھنڈی ریت پر دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا۔۔۔میرا سینہ گیلا ہو رہا تھا۔۔شاید اُس لاش کا خون ابھی تک میرے سینے پر رینگ رہا تھا۔۔۔ دور کسی مسجد سے آذان کی آواز آنے لگی۔۔۔اصلوٰت خیرم من النوم۔۔۔اصلوٰت خیرم من النوم۔۔۔ درد کی شدت سے میری آنکھیں بند ہورہی تھیں۔۔۔ دماغ سن ہو رہا تھا۔۔۔ میں نیند کا بھوکا تھااس لیے اصلوٰت خیرم من النوم کی نصیحت سُن کر بھی ٹھنڈی ریت پر اوندھے منہ گر کر سوگیا۔۔۔

میری آنکھ کھلنے لگی تو کچھ سائے میرے اردگرد پھر رہے تھے۔۔۔ کوئی خاتون مجھ پر بار بار جھک کر کہہ رہی تھی آنکھیں کھولیں آپ ٹھیک ہیں۔۔آنکھیں کھولیں۔۔۔اور پھر اُس نے ساتھ کھڑے کسی شخص کو آواز دی،اللہ کا شکر ادا کریں مریض کو ہوش آگیا۔۔کمرے کی دیواریں کبھی مجھ سے دور بھاگتیں تو کبھی سب کے چہرے میرے قریب آجاتے۔۔۔اور پھر میرے حواس بحال ہوگئے۔۔۔ میرے بھائی بھتیجے اور باقی رشتہ دار مغموم کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے۔۔۔میرا بایاں ہاتھ سفید پٹیوں میں لپٹا میرے ساتھ بے حس و حرکت پڑا تھا اور میرے سینے پر روئی کا ایک بڑا گالا پٹیوں سے باندھا گیا تھا۔۔۔میری قمیص اتارلی گئی تھی، اور خون کی ایک بوتل کیل سے لٹک رہی تھی جو قطرہ قطرہ میرے جسم میں داخل ہورہا تھا۔۔۔۔کسی نے پولیس والے کو آواز دی جو ایک عدد امتحانی گتہ جس پر سفید کاغذ چڑھے ہوئی تھے بغل میں دبائے میرے بیڈ تک آیا اور ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔مجھے میرے ہاتھوں قتل ہونے والے میرے ہم شکل سیاہ پوش کی لاش کی فکر اور قاتل بننے کی ندامت نے گھیر لیا تھا۔۔۔پولیس والے نے زبان کھولی۔۔۔ شکر کرو!۔۔خانہ بدوش کاروان نے بروقت ہسپتال پہنچا دیا ورنہ قبر میں ہوتے آج!۔۔میں ٹکٹکی باندے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ گتے پر کاغذ درست کرکے نئے بال پوائنٹ پین کی نِب کو زبان سے گیلا کرکے کاغذ کے کونے پر چیک کیا۔۔اور پھر سے گویا ہوا۔۔۔ بتاؤ ابتسام۔۔خودکشی کی کوئی خاص وجہ۔۔؟ اور حیرت سے میرا منہ کُھلے کا کھلا رہ گیا۔۔۔کیا۔۔۔خودکشی۔۔۔۔؟۔۔۔۔نہیں تو۔۔۔؟

وسیم خان عابدؔ

23جون2019

نوٹ: جملہ حقوقِ اشاعت بحقِ مصنف محفوظ ہیں

٭٭٭٭٭٭
 

Wasim Khan Abid
About the Author: Wasim Khan Abid Read More Articles by Wasim Khan Abid: 27 Articles with 35821 views I am a realistic and open minded person. .. View More