اقبالؒ نے درس و تدریس کے ابتدائی زمانے میں شاعری کے
ساتھ ساتھ نثر پر بھی کافی توجہ دی۔ ان کی نثری تحریروں کا آغاز 1902ء سے
ہوتا ہے۔ انہوں نے پہلے چند مضامین اردو رسالے ”مخزن“ کے لئے لکھے۔ مجموعی
لحاظ سے اقبالؒ کے ان اولین مضامین میں بھی سلاست و لطافت کے عناصر پائے
جاتے ہیں۔ اقبالؒ کا ذوق مختلف ہے۔ اقبالؒ کا ذہن دو عناصر سے مرکب ہے۔ اول
حقائق حکمہ سے اور دوم شدید جذباتی کیفیتوں سے وابستگی، حقائق کے بیان کے
سلسلے میں ان کا مقصد‘ مطلب کو عقلی انداز میں سمجھانا ہے اور ان کے بعض
مضامین میں یہی رجحان کارفرما ہے؛ لیکن اقبالؒ کے اکثر مضامین (خواہ وہ
علمی ہوں یا ادبی) تخیل اور جذبات کی مدد لئے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔ ان کا
اسلوب ایک حکیم کا اسلوب بھی ہے مگر ایسے حکیم کا جو حکمت میں شعر کا سارس
پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
اقبالؒ ایک بڑے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت میں ایک بڑے نثر نگار تھے۔ یہ
الگ بات ہے کہ ان کا ذوق نثراس طرح کھل کر سامنے نہیں آیا جس طرح ان کاذوق
شعر اپنی معرکہ آرائیاں دکھاتا ہوا منظر عام پر آتا ہے۔ بایں ہمہ اس بات سے
انکار ممکن نہیں کہ اقبالؒ کی نثر میں حکمت بھی ہے اور شیرینی بھی۔
اب ہم اقبالؒ کے ایک ایسے مضمون سے چند اقتباسات نظر قارئین کرتے ہیں جن سے
اقبالؒ کی زندگی کا ایک نیا رخ ہمارے سامنے آتا ہے۔ اور وہ ہے ”ماہر تعلیم
اقبال“ کیونکہ ان کا اولین مضمون جو رسالہ ”مخزن“ جنوری 1902ء میں شائع ہوا
وہ ”بچوں کی تعلیم و تربیت“ کے عنوان سے تھا۔ اپنے اس مضمون میں اقبالؒ نے
بچوں کی تعلیم و تربیت کس نہج پر ہونی چاہئے اور اس سلسلے میں ایک معلم کا
کردار کیا ہونا چاہئے؟ اور اسے کون کون سے طریقے اختیار کرنے چاہیں کہ جن
سے بچوں کی تعلیم و تربیت بتدریج ہو سکے اور وہ قوم کے لئے مفید بن سکیں‘
کی وضاحت و صراحت دلچسپ مثالوں سے کی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی
نثر میں نہ تو ابو الکلام آزاد جیسی مشکل پسندی ہے اور نہ ہی محمد حسین
آزاد کی سی انشاء پردازی‘ اقبالؒ کی نثر آسان فہم اور سلاست و لطافت کا
پیکر ہے۔ جسے قاری آسانی سے اپنی روح میں اتار سکتا ہے۔علامہ لکھتے ہیں:
”سچ پوچھئے تو تمام قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم ہے۔ اگر طریق تعلیم علمی
اصولوں پر مبنی ہو تو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام تمدنی شکایات کافور ہو جائیں
اور دنیوی زندگی ایک ایسا دلفریب نظارہ معلوم ہو کہ اس کے ظاہری حسن کو
مطعون کرنے والے فلسفی بھی اس کی خوبیوں کے ثناخواں بن جائیں …… حقیقی
انسانیت یہ ہے کہ انسان کو اپنے فرائض سے پوری پوری آگاہی ہو اور وہ اپنے
آپ کو اس عظیم الشان درخت کی شاخ محسوس کرے جس کی جڑ تو زمین میں ہے مگر اس
کی شاخیں آسمان کے دامن کو چھوتی ہیں۔ اس قسم کا کامل انسان بننے کے لئے یہ
ضروری ہے کہ ہر انسانی بچے کی تربیت میں یہ غرض ملحوظ رکھی جائے کیونکہ یہ
کمال اخلاقی تعلیم و تربیت ہی کی وساطت سے حاصل ہو سکتا ہے جو لوگبچوں کی
تعلیم و تربیت کے صحیح اور علمی اصول کو مدنظر نہیں رکھتے وہ اپنی نادانی
سے سوسائٹی کے حقوق پر ایک ظالمانہ دست درازی کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ تمام
افراد سوسائٹی کے لئے انتہا درجے کا مضر ہوتا ہے۔“
علامہ اقبالؒ نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں ہماری توجہ بعض اہم
امور کی جانب مبذول کرائی ہے جسے سطور ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
-1 اس ضمن میں پہلی بات جو ہر مطالعہ کرنے والے کو صاف دکھائی دیتی ہے وہ
یہ ہے کہ بچوں میں ایک قسم کی اضطراری حرکت کا میلان ہوتا ہے جو نہ صرف
انسان کے ساتھ خاص ہے بلکہ ہر حیوان میں پائی جاتی ہے۔دیکھئے بلی کا بچہ
کیا مزے سے خود کھیلتا ہے۔
-2 بچپن کا ایک اور خاصہ یہ ہے کہ اس عمر میں کسی شے پر مسلسل توجہ نہیں ہو
سکتی جس طرح اس کے جسمانی قویٰ کو ایک جگہ قرار نہیں ہو سکتا اسی طرح اس کے
قوائے عقلیہ بھی ایک نقطہ پر ایک عرصہ کے لئے قرار پذیر نہیں رہ سکتے……لہذا
ہر طریق تعلیم میں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ سبق طویل نہ ہوں اور
چھوٹے چھوٹے حصوں میں منقسم ہوں تاکہ پڑھتے وقت بچے کے مختلف قویٰ کو تحریک
ہو۔
-3 بچے کو جس شے کے متعلق سبق دیا جائے اس کو بچے کے سامنے رکھو اور جب سبق
ختم ہو جائے تو شے مذکور اس کے ہاتھ میں دے دو۔ مشاہدہ سے حس بصری کی تربیت
ہوتی ہے۔ چھونے سے قوت لمس مستعد اور فروغ پاتی ہے۔ گفتگو اور راگ وغیرہ سے
قوت سامع ترقی کرتی ہے۔
-4 بچے کی توجہ صورت شے سے زیادہ رنگ شے کی طرف لگتی ہے۔ بول چال میں بچہ
لفظ سرخ‘ نیلا وغیرہ تو پہلے سیکھ جاتا ہے لیکن مربع‘ تکون وغیرہ کہیں بعد
میں جاکر سیکھتا ہے۔ اس سے یہ اصول قائم ہواکہ بچے کے ابتدائی سبق رنگین
اشیاء کے متعلق ہونا چاہیں۔
-5 بچے میں بڑوں کی نقل کرنے کا مادہ خصوصیت سے زیادہ ہوتا ہے۔ ماں ہنستی
ہے تو خود بھی بے اختیار ہنس پڑتا ہے۔ باپ کوئی لفظ بولے تو اس کی نقل
اتارے بغیر نہیں رہتا۔ ذرا بڑا ہو جاتا ہے اور کچھ باتیں بھی سیکھ جاتا ہے
تو اپنے ہم جولیوں سے کہتا ہے آؤ بھئی! ہم مولوی بنتے ہیں تم شاگرد بنو۔ اس
وقت بڑا ضروری ہے کہ استاد اپنی مثال بچے کے سامنے پیش کرے۔
-6 قوت متخیلہ بچوں میں بڑی نمایاں ہوتی ہے۔ شام ہوئی لگا ستانے ماں کو
اماں جان! کوئی کہانی تو کہہ دو۔ ماں چڑیا‘ کوے کی کہانی سناتی ہے تو خوشی
کے مارے لوٹ جاتا ہے۔ استاد کو چاہیے کہ قوت متخیلہ کی نمو کی طرف بالخصوص
خیال رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ قوت بے قاعدہ طور پر بڑھ جائے اور اس سے قوائے
عقلیہ میں نقص پیدا ہو۔
-7 تجربے اور مشق سے بچے کی جبلی قوت بڑھ جاتی ہے۔ ابتداء میں اوروں کے غم
سے متاثر ہوتا معلوم ہوتا ہے۔ استاد کو چاہئے کہ اسے ہمدردی سے متعلق عمدہ
عمدہ کہانیاں سنائے اور یاد کرائے تاکہ اس کی یہ صلاحیت مثبت انداز میں
پروان چڑھے۔
8 - الفاظ یاد رکھنے کے لئے بچے کا حافظہ حیرت ناک ہے۔ معلم کو لازم ہے کہ
اپنے شاگردوں کو عمدہ عمدہ اشعار اور نظمیں یاد کرائے اور پڑھے ہوئے سبقوں
کے مضامین کی طرف بار بار اشارہ کرے۔
-9 اس عمر میں قوت متمیّزہ کمزور ہوتی ہے۔ لہذا ابتداء میں ظاہر اختلاف کی
طرف اسے توجہ دلانی چاہیے۔
-10 بچے سے ایسی فہمید کی توقع نہ رکھو جو ابھی تجربے اور علم سے بڑھنی ہے۔
ان قویٰ کے مدارج ترقی کا لحاظ استاد کے لئے نہایت ضروری ہے۔ دو عام اشیاء
اس کے سامنے رکھو اور ان کے بڑے بڑے اختلافات بیان کرو۔ اسی طرح مقابلہ
کرتے تصدیق پیدا کرو مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تصدیق بغیر تصورات کے محال
ہے۔ کیونکہ یہ اصل میں دو تصورات کے مقابلہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے جو مختلف
مدرکات کا مقابلہ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔
-11 آخری خاصہ بچے کا یہ ہے کہ اخلاقی محرکات سے یا تو بچہ متاثر ہی نہیں
ہوتا یا اگر ہوتا ہے تو نہایت اقل درجہ پر کیونکہ اس قسم کی تحریکوں سے
متاثر ہونا اور اس اثر کو عملی زندگی کے دائرہ میں ظاہر کرنا ایک ایسا امر
ہے کہ جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے معلموں کا فرض ہے کہ
ابتداء سے ہی بچے میں اخلاقی تحریکوں سے متاثر ہونے کی قابلیت یدا کرنے کی
کوشش کریں۔ دراصل علامہ اقبالؒ معماران قوم کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ
اپنے اندر اعلیٰ کردار پیدا کریں تاکہ بچے کی شخصیت پر استاد کی شخصیت کا
اچھا اثر پڑے۔ اچھی شخصیت کے لئے لازم ہے کہ استاد کا ظاہر اور باطن ایک
ہو۔ بچے چونکہ استاد کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے استاد کی وضع قطع
پرکشش اور مثالی ہونی چاہئے۔ اسے خوش اخلاق اور ملنسار ہونا چاہئے اور اپنے
شاگردوں کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لینی چاہئے۔ ایک استاد کو آسان سے
آسان اور مشکل سے مشکل ذمہ داری خندہ پیشانی سے قبول کرنی چاہئے اور اپنے
شاگردوں کو اسی بات کی تلقین اور تاکید کرتے رہنا چاہیے تاکہ ان کے اندر
یہی صلاحیت پروان چڑھ سکے۔ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کے اندر
قائدانہ صلاحیتیں پیدا کریں لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ یہ صلاحیتیں خود
ایک استاد میں موجود ہوں۔ بچہ مختلف مسائل کا شکار ہو سکتا ہے اور مسائل کا
شکار ہو کر اس کی شخصیت کے مسخ ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ استاد کی یہ ذمہ
داری ہے کہ وہ بچے کے مسائل جاننے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرے۔ مجموعی
طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک استاد کو چاہیے کہ اپنے شاگردوں کے سامنے
اپنی اعلی سیرت و کردار‘ پرکشش شخصیت‘ خوش اخلاقی‘ مجلس پسندی‘ غیر معمولی
احساس ذمہ داری‘ قائدانہ صلاحیتیں‘ معاملہ فہمی‘ قوت فیصلہ‘ شفقت و ہمدردی‘
جذبہ تعاون‘ قوت بیان‘ خود اعتمادی‘ غیر جانبداری‘ صحت و توانائی‘ خوش
پوشی‘ صفائی پسندی، انتظامی صلاحیت‘ مردم شناسی‘ مطالعے کی عادت‘ مشاہدے کا
شوق‘ سبق کی تیاری‘ طریقہ ہائے تدریس پر عبور‘ تعلیمی نفسیات کا مطالعہ اور
نظم و ضبط ایسی خوبیاں پیش کرے اور یہی خوبیاں اپنے شاگردوں میں یدا کرنے
کی کوشش کرے۔
علامہ اقبالؒ کے ان الفاظ کے ساتھ میں اپنے مضمون کا اختتام کرتا ہوں:
”معلم حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو
ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہی کی قدرت میں ہے۔ سب محنتوں میں اعلی درجہ
کی محنت اور سب کارگزاریوں سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی
کارگزاری ہے۔ اگرچہ بدقسمتی سے اس ملک میں اس مبارک پیشہ کی وہ قدر نہیں جو
قدر ہونی چاہئے“
|