مثبت رویوں کے بچوں پر اثرات
(Dr-Muhammad Saleem Afaqi, Peshawar)
تحریر: ڈاکٹر محمد سلیم آفاقی
*مثبت رویوں کے بچوں پر اثرات*
بلا شبہ بچے کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور اپنی قوم کے عکاس ہوتے ہیں لیکن یہ بچے فطرتاً مختلف مزاج، ذہنی ساخت، ماحول، عادات، سوچ اور اخلاق رکھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ "بچہ جیسا دیکھتا ہے ویسا ہی کرتا ہے"، یہ اصول کبھی بھی غلط ثابت نہیں ہوا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے کامیاب، باشعور اور مہذب شہری بنیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں اچھے رویے، مثبت انداز فکر اور روشن خیال سوچ کے ساتھ پروان چڑھائیں۔۔یاد رکھیں بچے دوسروں کی نقل کرنے میں بہت تیز ہوتے ہیں، والدین اور اساتذہ کی ہر حرکت اور انداز اُن کے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں۔ اگر والدین ایک دوسرے سے حسن اخلاق سے پیش آئیں گے، بڑوں کا احترام کریں گے، معاف کرنا اور ایثار کرنا سکھائیں گے تو بچے بھی یہی عادات اپنائیں گے۔ جب بچے دیکھتے ہیں کہ والدین اور اساتذہ چھوٹوں کو عزت دیتے ہیں، اُن کو اپنے فیصلوں میں شامل کرتے ہیں اور اُن کے خیالات کو اہمیت دیتے ہیں، تو ان میں خود اعتمادی اور مثبت رجحانات پروان چڑھتے ہیں۔ یہ بچے نہ صرف گھر اور سکول میں بلکہ معاشرے میں بھی بہترین کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر بچوں کو بار بار غصے، تلخی اور بدکلامی کا سامنا کرنا پڑے تو وہ احساس کمتری، خوف اور گمراہ کن راستوں پر چل پڑتے ہیں۔
تحقیقی اعتبار سے دیکھا جائے تو بچے کی ابتدائی سات سالہ زندگی میں سب سے زیادہ والدین کے رویے اور ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ بچوں کی شخصیت پر سب سے زیادہ اثر تب پڑتا ہے جب والدین یا سرپرست ان کے ساتھ بھرپور وقت گزارتے ہیں، ان کے سوالات کے جواب دیتے ہیں اور ان کو زندگی کے نشیب و فراز سے روشناس کرواتے ہیں۔ ایسے بچے آگے چل کر نہ صرف خود مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ دوسرے بچوں کے لیے بھی مثال بنتے ہیں۔
اساتذہ کا کردار بھی بچے کی تربیت میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک اچھا استاد بچوں کے ساتھ خوش اخلاقی، ہمدردی اور شفقت سے پیش آتا ہے۔ کلاس روم میں ہر بچے کو یکساں توجہ ملنا، اس کی رائے کا احترام ہونا اور اس کی غلطیوں پر نرمی سے سمجھانا بچے پر بہت مثبت اثر ڈالتا ہے۔ اس کے برعکس سختی، طنز اور سزا بچوں کی صلاحیتوں کو دباتی ہے اور ان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے ۔
اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے معاشرے میں مثبت اور کامیاب انسان کے طور پر ابھریں تو انہیں چاہیے کہ اپنے رویوں کو بہتر بنائیں۔ بچوں کی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو سراہیں، ان کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی لیں اور انہیں ہر معاملے میں اعتماد دیں۔ یاد رکھیں، بچوں کی شخصیت سازی صرف نصاب تعلیم اور ڈگریوں پر منحصر نہیں بلکہ اصل کردار والدین و اساتذہ کے رویے اور ماحول پر ہے۔
مزید برآں، والدین اور اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی کمزوریوں پر غصہ کرنے یا انہیں کمتر محسوس کروانے کی بجائے ان میں خود اعتمادی پیدا کریں اور ہر مشکل میں ان کی سنیں اور سمجھیں۔ جب کسی بچے کی کوشش کو سراہا جاتا ہے تو اُسے اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور وہ دلجمعی کے ساتھ زیادہ محنت کرتا ہے، جبکہ منفی رویے یا بار بار سرزنش بچوں کو بددلی اور احساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
اسی طرح معاشرتی ماحول بھی بچوں کی تربیت میں بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ اگر محلے، سکول اور خاندان میں محبت، اتحاد اور اخلاقی اقدار کی فضا ہو تو بچے کے رویے میں بھی یہی رنگ ظاہر ہو گا۔ مثبت مثالیں، اچھی عادات اور سچائی بچوں کے کردار کا مستقل حصہ بن جاتی ہیں، جو انہیں زندگی کے ہر قدم پر آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہیں۔
والدین اور اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی کمزوریوں پر غصہ کرنے یا انہیں کمتر محسوس کروانے کی بجائے ان میں خود اعتمادی پیدا کریں اور ہر مشکل میں ان کی سنیں اور سمجھیں۔ جب کسی بچے کی کوشش کو سراہا جاتا ہے تو اُسے اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور وہ دلجمعی کے ساتھ زیادہ محنت کرتا ہے، جبکہ منفی رویے یا بار بار سرزنش بچے کو بددلی اور احساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
اگر والدین سلام کرتے ہیں تو بچے بھی سلام کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ اگر بڑے آپس میں بیٹھ کر غیبت کرتے ہیں تو یہ بچے بھی منفی انداز ہی سیکھتے ہیں لہذا والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کے سامنے رول ماڈل بن کر رہیں |
|