اردو شاعری میں اولیت کا تاج تو امیر خسرو ؔکے سرپر
موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود اردو شاعری کا باوا آدم ولیؔ کو کہا گیا۔محمد
حسین آزاد کے مطابق:
ــ’’نظم اردو کی نسل کا آدم جب ملک ِ عدم سے چلا تو اس کے سر پر اولیت کا
تاج رکھا گیا۔‘‘
ولی ؔ سے پہلے اردو شاعری قریب تین سو سال کا سفر طے کر چکی تھی لیکن اس کو
وہ عروج میسر نہ آسکا جوولیؔ کے بعد ملا۔ ڈاکٹر وحید قریشی رقم طراز ہیں
کہ:
’’ولی ؔ سے پہلے کم از کم غزل کے دو ادوار گزر چکے تھے ۔ان ادوارکے شعرا کے
کچھ نمونے بھی ملتے ہیں۔پہلادور حضرت امیر خسروؔ سے شروع ہوتاہے۔جس میں دس
شعرا ہیں۔دوسرا دور قلی قطب شاہ سے شروع ہوکرمیراں ہاشمی تک چودہ شاعروں پر
مشتمل ہے۔اس کے بعد ولیؔ کے معاصرین کا زمانہ ہے۔‘‘
ولی ؔدکنی کے سوانح ابھی تک محققین کو دعوتِ تحقیق دے رہے ہیں۔ولی ؔ کے اصل
نام کے حوالے سے بھی کئی طرح کے مسائل ہیں ۔’’آبِ حیات‘‘ میں آزاد نے’’ شمس
ولی اﷲ‘‘لکھا۔کئی تذکرہ نویسوں نے شاہ ولی اﷲ،محمد ولی،ولی محمد ،لکھا۔یہاں
یہ بات غور طلب ہے کہ لفظ’’ولی‘‘تمام میں مشترک ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے
تمام حقائق سے استفادہ کرتے ہوئے ’’ولی محمد‘‘کو درست تسلیم کیا ہے جب کہ
نصیر الدین ہاشمی نے بھی "ولی محمد" ہی لکھا ۔ا س لحاظ سے ہم بھی ’’ولی
محمد ‘‘کو درست تسلیم کرتے ہیں۔ولیؔ ۱۶۶۸ء میں احمد آباد گجرات میں پیدا
ہوئے اور ۱۷۲۵ء میں وفات پائی۔وفات کے حوالے سے بھی اختلاف نظر آتا ہے۔کئی
لوگوں نے ۱۷۰۷ء کو وفات کا سال بتایا لیکن حقائق سے پتا چلتا ہے کہ ولی ؔ
۱۷۲۰ء کے بعد تک زندہ رہے۔اس لیے قرین قیاس کے مطابق ان کی وفات کا سال
۱۷۲۵ء نکالا گیا ہے۔ولی ؔ نے شاعری میں تمام بحروں کو استعمال کیا۔اپنے دور
کی اعلیٰ ادبی زبان ولی ؔ کے ہاں ملتی ہے۔ اردو کی کلاسیکی شاعری میں ولی ؔ
کو چوسر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ولیؔ نے نہ صرف اردو شاعری کی روایات ترتیب
دیں بل کہ مضامین کے اندر جدت بھی انھی کے مرہونِ منت ہے۔ولیؔ کی شکل میں
اردو غزل کو پہلی دفعہ ایسا شاعر میسر آیا جس نے صحیح معنوں میں زبان کے
نہاں گوشوں کو بھی وا کیا۔انھوں نے اپنے زمانے کی تمام ادبی و فکرروایات کو
اپنی شاعری کا حصّہ بناتے ہوئے اظہار کی لذت اور زبان کی تعمیر کا معجزہ
بھی دکھا دیا۔ولیؔ کے ہاں ان موضوعات کا بھی اظہار موجود ہے جو ان سے قبل
نہیں ملتا ۔ولی ؔ کی فراہم کردہ موضوعات کی یہ بنیاد اس قدر پختہ ثابت ہوئی
کہ صدیوں تک اس پر شعرا ئے اردو نے محل اوسارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ولیؔ نے
اردو غزل کے اظہار کے جو سانچے مرتب کیے وہ بھی جدید اردو غزل کے لیے آج
بھی کارآمد ہیں۔مختلف صورتوں میں ولی ؔ کا شعری سرمایہ اردو زبان اور ادب
کے لیے محسن بنا۔ولیؔ دکنی نے صحیح معنوں میں اردو ادب اور بالخصوص غزل کا
ایسا پودا کاشت کیا جس کا ثمر نسلوں نے کھایا۔ولیؔ کا شعر کسی معجزے اور
کرامت سے کم نہیں ۔کلام ِ ولی ؔ سے پتا چلتا ہے کہ ان کو خود بھی اس بات کا
احساس تھا کہ ان کا کلام غیر معمولی ہے۔
آبرو شعر ہے ترا اعجاز پر ولیؔ کا سخن کرامت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھ مثل اے سراج بعد ولیؔ کوئی صاحبِ سخن نہیں دیکھا
تمام تر محققینِ ادب نے بلا شبہ ولیؔ دکنی کو اردو کا پہلا باقاعدہ غزل گو
تسلیم کیا ہے۔نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں:
’’یہ بات بالکل صحیح ہے کہ شمالی ہند میں ولیؔ کے بعد اردو شاعری کا عام
طور سے آغاز ہوا اور پھر اب تک جو شاعری دکن میں مروّج تھی اس کی بھی اصلاح
ہوئی۔مثنوی کی بجائے غزلوں کی طرف زیادہ توجّہ کی گئی۔اس لحاظ سے ولیؔ کے
سر مجدّدی کا سہرا ضرور باندھا جا سکتا ہے۔‘‘
ولیؔدکنی نے ریختے کا آغاز تو قدیم رنگ میں کیا لیکن ۱۷۰۰ء میں دہلی کے
سفر اور سعد اﷲ گلشن سے ملاقات پر انھوں نے ایسی کروٹ بدلی جو اردو کی ادبی
تاریخ میں ایک مثال بن گئی۔یہی تبدیلی اردو شاعری میں نئے باب کا اضافہ
کرتی ہے جہاں سے ولیؔ کی علمیت اور عظمت کا بھی پتا چلتا ہے۔ڈاکٹر سید
عبداﷲ لکھتے ہیں کہ:
’’یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ولی ؔ عالم گیر کے آخری زمانے میں ایک
مرتبہ دلّی آئے اور دلّی کے بڑے بڑے ادیبوں،عالموں اور شاعروں سے ملاقات
کی۔ان میں ایک سعدا ﷲ گلشن بھی تھے۔جنھوں نے ولیؔ کو مشورہ دیا کہ وہ فارسی
کے مضامین کو بھی کام میں لائیں۔۔۔اس طرح ولی نے یہ سب اثرات اپنی شاعری
میں جذب کیے۔‘‘
ولیؔ کی شاعری میں موضوعات کا تنوع دیکھیں تو ان کا بڑا موضوع حسن و جمال
ہے۔ان سے پہلے کسی شاعر کے ہاں حسن و جمال کا تصور اتنا واضح اور صاف نہیں
ملتا ۔ڈاکٹر افتخار ؔ مغل ولیؔ کی جمال دوستی کی تائید ان الفاظ میں کرتے
ہیں۔
جمال دوست ہیں ہم بھی مگر ولی تو نہیں
ولیؔ کی طرز اڑا لیں تو اس کی باتیں ہوں
ولیؔ دکنی کی جمال پرست شاعری ہی کے اعتراف میں ڈاکٹر سید عبداﷲ کو کہنا
پڑھا کہ ولیؔ جمال دوست شاعر ہیں۔
معنٔی حسن و معنٔی خوبی
صورت یار سوں ہویدا ہے
ولی ؔ کی حسن پرستی میں سرمستی اور وارفتگی کی اک فَضادکھائی دیتی ہے۔اس
فَضا میں جو بلبلیں چہلیں کرتی ہیں وہ سر مستی اور سر خوشی کے دل فریب نغمے
گنگناتی ہیں۔حسن و معنی کے اس تجرِبے سے ولیؔ نے اردو غزل کو وہ دولت عطا
کی جس نے آگے چل کر اردو کے دامن کو مزید وسعت بخشی۔ولیؔ کی حسن پرستی میں
جنسی پہلو نہیں ملتا ان کے یہاں نفسانی خواہشات عنقا ہیں۔لکھنوی شعرا کے
ہاں جو حسن و عشق کا تصور ہے اس میں عامیانہ پن جھلکتا ہے۔لیکن ولی ؔ کے
ہاں حسن کے احساس سے روح کی سرشاری اور من کا سرور ملتا ہے۔ یہ شاید ان
بزرگوں کی صحبت کا اثر ہے جن کے ہاں ولیؔ نے عمر گزاری۔
سجن نے یک نظر دیکھا نگاہ مست سوں جس کوں خراباتِ دو عالم میں سدا ہے وہ
خراب اس کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیؔ مجھ دل میں آتا ہے خیالِ یار بے پروا
کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ
ولی ؔ کے حسن و جمال میں بھی زندگی اور کائنات کے خوب صورت گوشے ملتے
ہیں۔جہاں وہ کسی دکھ اور غم کا اظہار نہیں کرتے بل کہ کائنات کی ہر شے میں
جمال تلاشتے ہیں ۔ان کے کلام میں زندگی کے تلخ پہلوؤں کو بھی خوشی ،امید
اور مسرت کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ان کی آنکھ کائنات کے تاریک پہلوؤں کو
نظر انداز کرتے ہوئی روشن پہلوؤ ں کو ہی دیکھتی ہے۔ولیؔ کی شاعری میں زندگی
اور کائنات کا حسن واضح نظر آتا ہے۔
رات دن تجھ جمال روشن سوں
فضلِ پروردگار شامل ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشک سوں تجھ لباں کی سرخی پر جگرِ لالہ داغ داغ ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جاؤں صحنِ گلشن میں کہ خوش آتا نہیں مج کوں بغیر از ماہ رو ہر گز تماشا
ماہ تابی کا
ولیؔ کے ہاں محبوب کے حسن کی جو تصویر ملتی ہے وہ یقینا ولیؔ ہی کا خاصا ہو
سکتی ہے۔محبوب کے جسم کو یو ں لفظوں کے لبادے سے تراشتے ہیں کہ اس کا پیکر
قاری کی آنکھ میں واضح ہو جاتا ہے۔ ولیؔ کا محبوب اسی دنیا کی مخلوق ہے جو
ان کے آنکھوں میں بستا ہے۔ وہ جب چاہیں اپنے محبوب کے دیدار سے اپنی آنکھوں
کی پیاس بجھا سکتے ہیں۔ولیؔ کے محبوب کی بابت ڈاکٹر سید عبداﷲ یوں بیان
کرتے ہیں:
’’ولیؔ نے جس انداز میں اپنے محبوب کا ذکر کیا وہ حقیقی اور واقعی معلوم
ہوتا ہے۔‘‘
اپنے محبوب کے سراپا کو لفظوں میں یوں بیان کرتے ہیں۔
ترے دو نین دیکھوں جب نظر بھر مجھے تب نرگستاں یاد آوے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھ چشم سیاہ مست کے دیکھے ستی، زاہد تجھ زلف کے کوچے منیں ایماں بسر آوے
ولی ؔ کے ہاں سراپا نگاری بہ درجۂ اتم موجود ہے۔ولیؔ نے اپنے کلام میں جس
محبوب کا سراپا بیان کیا ہے وہ اردو غزل میں ولی ؔ ہی کی خصوصیت ہے اس سے
پہلے اور بعد بھی یہ ارود شاعری میں نہیں ملتا۔انھوں نے واقعیت اور تخیل کے
بل بوتے پر اپنے محبوب کو اس دل کشی اور ندرت سے بیان کیا کہ جس کے سامنے
دنیا کا تمام حسن ہیچ نظر آتا ہے۔ولیؔ اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہوئے نہایت
سرشاری اور لطف محسوس کرتے ہیں۔
ہوتا ہے جیوں مرا شاد اس کی ہنسی سوں
اگر جو ہنس کے نہ کہے بات گل عذار چہ حظ
ولی ؔ کے محبوب کے حوالے سے یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان کے ہاں ہندی
الفاظ سے اپنے محبوب کو پکارا گیا ہے۔ان کا محبوب کبھی’’ساجن‘‘کبھی’’
پیتم‘‘ کبھی’’لالن‘‘تو کبھی ’’من موہن‘‘بن جاتا ہے۔ان القابات کو دیکھتے
ہوئے قاری کے لیے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ وہ اپنے محبوب کو کس
قدر چاہتے ہیں۔ولیؔ ایک زیرک شاعر تھے جن کی علمی استعبداد ان کے کلام سے
عیاں ہوتی ہے۔انھوں نے اپنی انھی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا اور ایک
ایسی زبان میں شاعری کی جو اپنے وقت کی مقبول ترین زبان تھی۔ان کی غزل میں
استعمال شدہ الفاظ خالصتا ً شعری الفاظ ہیں۔شعری زبان اور غیر شعری زبان
میں جو فرق ہے ولی ؔ اس سے بہ خوبی آگاہ ہوں گے ۔ان کے سامنے جو شاعری کے
نمونے تھے ان کی زبان اتنی شعریت کی حامل نہیں جو شعریت ولیؔ کے ہاں دیکھنے
کو ملتی ہے۔ولیؔ نے زبان کے سانچوں کو خود مرتب کرتے ہوئے اس میں مقامی اور
فارسی الفاظ کی چاشنی لائی۔یوں ان کی زبان میں سلاست و شگفتگی اور دل کشی
کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ولی ؔ دکنی کی ان تمام خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے
ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ولی ؔ حقیقی معنوں میں اردو غزل کا باوأ آدم
بھی کہلانے کے حق دار ہیں اور صحیح معنوں میں کلاسیکل روایت کا بھی اولین
شاعر ہونے کا تاج انھی کے سر سجتا ہے۔
ولی ؔ تو بحر معنی کا ہے عواص ہر اک مصرع ترا موتیاں کی لڑی
|