ڈاکٹر محمد ریاض انجم : قصور ماضی و حال

 تبصرہ نگار:ڈاکٹر غلام شبیر ر انا
عالمی ادب میں مختلف شہرو ں کے بارے میں لکھی جانے والی تحقیقی کتب کو قارئینِ ادب نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھاہے۔دنیا کے ممتاز مورخین نے اس امر کی کوشش کی کہ ان وقیع تصانیف میں وہ تمام تاریخی واقعات جن کا تعلق فن تعمیر،آثار قدیمہ،علم بشریات،عمرانیات ،ادب اور فنون لطیفہ سے رہا ہے انھیں ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہونے سے بچا کر زیبِ قرطاس کر دیا جائے۔قدیم اور تاریخی شہروں کی جانب جانے والے دشوار گزار اور کٹھن راستوں کا احوال قاری کو حسن وجمال کی وادی ٔ خیال میں پہنچا دیتاہے جہاں وہ مستانہ وار گھومنے کے بعد لوح ِ جہاں پر ثبت وقت کی تحریروں اورفطرت کی تعزیروں کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔عمرانیات کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ وہ جہاں بیں مستغنی جو تاریخ کے مسلسل عمل پر گہری نظر رکھتے ہوئے اپنے حال میں مگن رہتے ہیں اورمظاہر ِ فطرت پر اپنی نگاہیں مرکوز کر دیتے ہیں انھیں جدید دورکے پر تعیش ماحول کی سہولیات اوربڑے شہروں کی چکا چوند ہر گزمتاثر نہیں کر سکتی۔اپنی جنم بھومی کی محبت ان کے قلب و روح میں سرایت کر جاتی ہے ۔ قصور شہر کے نواح میں واقع باغات،کھنڈرات، اور تاریخی مقامات کی رنگین تصاویر سے مزین ’’ قصور ماضی و حال ‘‘میری نظر سے گزری ۔ افادیت سے لبریز یہ تحقیقی کتاب قصور میں مقیم ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے حال ہی میں مرتب کی ہے ۔اس کتاب کے مطالعہ کے بعد مجھے علی گڑھ تحریک کی روح رواں سر سید احمد خان (1817-1898)کی دہلی شہر کے بارے میں اہم تصنیف ’’ آثار الصنادید ( مطبوعہ 1847)یاد آئی۔سر سید احمد خان اور ڈاکٹر محمد ریاض انجم کے اسلوب میں جو باتیں مشترک ہیں اُن میں اپنے محبوب شہروں کے قدیم تاریخی اورقابل دید مقامات کا احوال،فن تعمیر کا جائزہ،آثار ِ قدیمہ کا تاریخی تناطر میں مطالعہ،پرِ زمانہ کی برق رفتاریوں کا تاریخی ،تحقیقی اور تنقیدی تجزیہ شامل ہیں۔جہاں تک تاریخی واقعات نویسی کا تعلق ہے دونوں تصانیف میں مشرقی انداز فکر ،ارض ِ وطن سے قلبی وابستگی ،والہانہ محبت،مقصدیت اور قلب و روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی کاکرشمہ د امنِ دِل کھینچتا ہے ۔سر سید احمد خان نے اپنی تصنیف’’ آثار الصنادید ‘‘میں دہلی شہر کے تاریخی مقامات کی لفظی مرقع نگاری اور نقشوں پر انحصار کیا ہے جب کہ ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے اقتضائے وقت کے مطابق جدید کیمرے کے استعمال سے اہم تاریخی مقامات کی رنگین تصاویرکو اپنی کتاب میں شامل کیا ہے ۔ کتاب ’’ قصور ماضی و حال‘‘ کے عمیق مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جزئیات نگاری میں ڈاکٹر محمد ریاض انجم کو خلاقانہ دسترس حاصل ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر پیش کر کے ید بیضا کا معجزہ دکھانے پر قادر ہیں۔ ڈاکٹر محمد ریاض انجم کے اسلوب کی اس انفرادیت سے اس کتاب کے صوری اور معنوی حسن کو چا ند لگ گئے ہیں۔
ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے اپنی کتاب میں اس امر کی صراحت کر د ی ہے کہ قصور ایسا شہر ِ بے مثال ہے جس کی خاک سے بابا کمال چشتی، بلھے شاہ ،پنے شاہ،رحمت علی شاہ ،شاہ تاجہ ،شاہ شریف،شیخ علم دین،عباس علی شاہ ،عبدالخالق،لاٹ شاہ،لال شاہ،متو شاہ،مٹھو شاہ اورنیک مردجیسی ہفت اختر شخصیات نے جنم لیا۔ان نابغۂ روزگار ہستیوں کے علم و عرفان کی ضیا پاشیوں سے اکنافِ عالم کا گوشہ گوشہ منور ہو گیا ۔دلِ بینا رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ بامِ فلک سے مَلک بھی اس تاریخی شہر کی چکا چوند کوتحسین بھری نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہشہر قصورکی نیرنگیوں کی اوج ِثریا سے تا سمک دھوم ہے ۔قصور شہر اس کے مضافات اور اس کے گرد و نواح میں پائے جانے و الے کھنڈرات کو دیکھ کر ماہرین آثار ِ قدیمہ کا قیاس ہے کہ یہاں طوفانِ نوح ؑ سے قبل بھی آبادی کے آثار پائے جاتے تھے۔ یہ دھرتی زمانہ قبل از تاریخ کی تہذیب و ثقافت اور معاشرت و تمدن کی امین ہے ۔ ڈاکٹر محمد ریاض انجم کے اسلوب کا اہم پہلو یہ ہے کہ اپنی جنم بھومی کے مختلف ورائے حقیقت مقامات کی محبت ان کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے ۔اسلوب میں قوس ِ قزح کا جو سماں ہے اس میں رنگ ،خوشبو ،حسن،خوبی،رومان اور پیمان ِ وفا کے سبھی استعارے سمٹ آ ئے ہیں۔مصنف کے دل و دماغ کا محور ایک ہی سوچ ہے کہ اس شہر بے مثال پر سد اابر کرم برستا رہے ۔فکر و خیال کا یہ انتہائی دل کش،حیران کن اور اطمینان بخش پہلو ہے کہ جنم بھومی کی محبت وہاں کے باشندوں کے لیے ملک سلیماں سے بھی کہیں بڑھ کرہے ۔مصنف نے اپنی کتاب میں جن چشم کشا صداقتوں کو الفاظ اور تصاویر میں محفوظ کیا ہے ان کے سوتے ان کی چشمِ بینا سے پُھو ٹتے ہیں ۔قاری کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ مصنف نے مٹی کا قرض اتارنے کی جو کشش کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائق تحسین ہے ۔قصور کے گرد و نواح میں جذب و مستی اور وجدانی کیفیت سے سرشار ہو کر گھومنا اور تاریخی حقائق کی گرہ کشائی کرنا مصنف کا معمول ہے ۔ عالمی ادب میں دنیا کے مشہور شہروں کے بارے میں جن ممتاز ادیبوں نے اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں ان میں جین جیکبس(Jane Jacobs) ،اتالو کیلونیو(Italo Calvino)، ایڈورڈ گلیسر (Edward Glaeser)،لیوس ممفورڈ(Lewis Mumford)،ولیم کر ونن(William Cronon)،کیتھرین بو (Katherine Boo)،جھمپا لاہری(Jhumpa Lahiri)،این پچٹ (Ann Patchett)اورجان سٹو(John Stow) شامل ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے عالمی ادب کے ان شہ پاروں کا ضرور مطالعہ کیا ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب کی ندرت ،جاذبیت اور انفرادیت مسلمہ ہے جو سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتاہے ۔ مصنف نے اپنی اس تصنیف میں رجائیت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے نا سٹلجیا سے گلوخلاصی کی راہ دکھائی ہے ۔ان کا خیال ہے کہ عظمت رفتہ کی نوحہ خوانی کے بجائے زمانہ حال کی بہتری اور روشن مستقبل کی منصوبہ بندی پر توجہ مرکوز کرناہی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اپنے فکر و خیال کو محض تاریخی عوامل اور جغرافیائی حدود تک محدود نہیں رکھا بل کہ اپنے بیاں کو مزید وسعت دیتے ہوئے قصور شہر کے مکینوں کے مزاج ،رہن سہن ،آداب معاشرت ،مشاغل ،طرز ِعمل،عمرانی مسائل، روزگار کے مسائل ،صنعت و حرفت ،وسعت نظر اور خوابوں کی خیاباں سازیوں کا بھی جائزہ لیا ہے ۔ قصور سے ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی بے پناہ محبت اس وقت معصومیت کی صور ت اختیار کر لیتی ہے جب وہ یہاں کی کسی بے اعتدالی یا تضاد کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ۔اس قسم کی وفاداری بہ شرط استواری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہی تو ایمان کی اصل حقیقت ہے ۔اس کتاب میں مصنف نے قصور شہر کی جس دل کش انداز میں مرقع نگاری کی ہے اسے چشم تصور سے دیکھ کر بھی اس شہر اور کتاب کے مصنف کے بارے میں کلمۂ خیر نہ کہنے والے کی سوچ کاقصور ہے ۔ قصور میں مقیم ممتاز نقاد اور محقق پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے ایک بار اپنے رفقا کو بتا یا سچ تو یہ ہے کہ قصور کاحسن بہت ہی سخت گیر ہے ۔ ملک بھر کے ماہرین عمرانیات کو معلوم ہے کہ جو شخص ایک بارقصور شہر کے مسحور کن حسن کا اسیر ہوا پھر اس کی رہائی کا امکان معدوم ہے ۔ بڑے شہروں کے قصر و ایوان کوللچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے والوں کو قصور شہر کے قدیم قصور اور ان کے مکینوں کے احوال کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے جن سے گزشتہ صدیوں کی تاریخ کے متعدد سلسلے ملتے ہیں۔

قصور کے باشندوں کو قدرت کاملہ کی طرف سے جذبۂ انسانیت نوازی اور انسان شناسی کی جو صلاحیت ودیعت کی گئی ہے وہ انھیں معاشرے میں ممتاز مقام عطا کرتی ہے ۔ چار سو سال پرانے اس شہرسے میری کئی تلخ و شیریں یادیں وابستہ ہیں ۔عالمی شہرت کے حامل رجحان ساز تخلیق کار، یگانۂ روزگار دانش ور ،محقق،مورخ ،نقاد،ادیب ،فلسفی ،ماہر نفسیات ،ماہر علم بشریات اور ماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی جنھیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منھ کو آتا ہے میرے دیرینہ کرم فرما تھے۔قصور کے اس نامور سپوت کی گل افشانی ٔ گفتار کا ایک عالم گرویدہ تھا ۔ایک نشست میں انھوں نے احباب کو بتایا کہ گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے میں جامۂ ابو جہل میں ملبوس شیخ چلی قماش کا ایک مسخرہ قصور آ دھمکا ۔چو رمحل میں جنم لینے والے مشکوک نسب کے اس یورپ زدہ ابلہ نے چور دروازے سے گُھس کر یہاں شیخ مکتب کے منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کے بعد رونما ہونے والے اس جان لیوا سانحہ کو دیکھ کر قصور کے اہلِ درد اور حساس دانش ور انگشت بہ دنداں رہ گئے کہ وقت کے اس حادثہ کو کس نام سے تعبیر کیا جائے۔ فلسفی کا سوانگ رچانے والے اس بہروپیے نے ارسطو کے اس تصور طربیہ پر لاف زنی کا سلسلہ شروع کر دیا جو ارسطو نے کبھی لکھا ہی نہ تھا۔اس چربہ ساز ،سارق ،کفن دزد اور جعل ساز نے یہ بے پر کی اُڑا دی کہ ارسطو کے تصور طربیہ کامخطوطہ کئی نسلوں سے اس کے خاندان کا مملوکہ ہے جس کو وہ ہوا بھی نہیں لگنے دے گا۔ایک علمی مباحثے میں پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی نے اس عادی دروغ گو بزِ اخفش کی ایسی درگت بنائی کہ وہ قصور سے ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔قحط الرجال کے اس دور میں حادثے سے بڑ ا سانحہ یہ ہوا کہ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا ہوش و خرد سے تہی وہی دائم الخمر شیخ چلی اپنی جہالت کا انعام ہتھیانے میں کامیاب ہو گیا اورکچھ عرصہ بعد ملک کے ایک بڑے شہر میں شیخ الجامعہ بن بیٹھا۔عقابوں کے نشیمن جب بُوم و شپر اور زاغ و زغن کے تصرف میں آنے لگے تو پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کو بہت قلق ہوا۔ پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی اپنے احباب کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ شہر سنگ و خشت کے چمکتے ہوئے ایوانوں کا نام نہیں بل کہ یہاں زندگی کی درخشاں اقددار و روایات کو پروان چڑھنے کا موقع ملتا ہے ۔ دنیا میں ہر شہر در اصل اس کے محب وطن مکینوں کی روح اور جسم سے متشکل ہوتا ہے ۔جس طرح ہر باغبان اپنے گلستان کی احتیاط کرتا ہے اسی طرح شہر کے مکین بھی اپنی جنم بھومی کو عفونت و سڑاند سے محفوظ رکھنے کی مقدور بھر کوشش کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی یہ بات درست ہے کہ قصور کی سوغات ’’قصوری میتھی‘‘ پوری دنیا میں مقبول ہے ۔اس کے استعمال سے کھانوں کی لذت بڑھ جاتی ہے ۔ یہاں میں اپنی کتاب زیست کی ایک یاد کا حوالہ دوں گا۔ آج سے پچاس سال قبل ماچھی وال کی ایک کنجڑن جس کا نام قفسوتھاقصور کی میتھی فروخت کرنے جھنگ آتی تھی۔ پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں خشک میتھی کے پیکٹ فروخت کرنے والی کریہہ شکل کی یہ کنجڑن دراصل ایک بد نام نائکہ تھی جو اپنی پروردہ رذیل طوائفوں مس بہی کھانم، سمی ،شباہت ،شعاع،پونم اور شگن کو ساتھ لے کر گھر گھرمیتھی فروخت کرنے کی آڑ میں جنس و جنوں کا قبیح دھندہ کرتی تھی اور نہایت عیاری سے سادہ لوح لوگوں کے گھروں کا صفایا کر کے اپنی را ہ لیتی ۔ان طوائفوں کا تعلق ٹھگوں کے ایک رسوائے زمانہ گروہ اور انڈر ورلڈ سے تھا جس نے اس علاقے کے کئی گھر بے چراغ کر دئیے اور مظلوم لوگوں کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر اور آہیں بے اثر کر دیں ۔میتھی کے ان پیکٹوں میں بدھوانہ ،بُڈھی ٹھٹھی ،چھانگا مانگا اور ساہجھووال کے جنگلات سے لائے گئے کریروں،جنگلی پودینہ،پوہلی،دھتورا،لیہہ اور السی کے پتوں کا سفوف بھر دیا جاتا۔ایک مرتبہ جب اس کٹنی نے گلی میں ’’ قصور ی میتھی لے لو ‘‘ کی صدا لگائی تو شفیع ہمدم کی اہلیہ نے بھی جعل سازقفسو ، مس بہی کھانم اور اس کی ہم نوا طوائفوں سے قصوری میتھی کے چند پیکٹ خریدنے کی خواہش ظاہر کی ۔اس موقع پر سجاد رانا ،میاں اقبال زخمی ،اقتدار واجد ،ارشاد گرامی ،فیروز شاہ،اسحاق ساقی اور امیر اختر بھٹی بھی ایک دعوت کے سلسلے میں شفیع ہمدم کے ہاں موجود تھے ۔ذیابیطس کے علاج کے سلسلے میں اپنے کھانوں میں اسحاق ساقی قصوری میتھی کا کثرت سے استعمال کرتا تھا اس لیے اسے قصور ی میتھی کی مہک کی خوب پہچان تھی۔اس نے جب جعلی میتھی کا پیکٹ کھولا تووہاں موجود سب افرادکو چھینکیں آنے لگیں ۔اس نے شفیع ہمدم کے ہاں موجود احباب کو بتادیاکہ یہ ٹھگ طوائفیں میتھی کی آڑ میں اپنا جسم اورضمیر بیچ رہی ہیں۔ اس قماش کے صبح خیزیے منھ اندھیرے اپنے سر پر اپنے مردہ ضمیر کی گٹھڑی باندھ کر اسے بیچنے کے لیے نکلتے ہیں۔گنجان آباد شہروں میں جب ہو س پرست جنونیوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جائے تو گلستانوں کی حدود و قیود کا احسا س ختم ہو جاتاہے تب ویرانوں کی پہچان عنقا ہو جاتی ہے ۔ یہ لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ فطرت کی سخت تعزیروں کی صورت میں بجلیوں کو ان کے آشیانوں کی خبر ہو چکی ہے ۔ اشیائے خوردنی میں اس قسم کی جعل سازی اور ملاوٹ کی خبر جب پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کو ہوئی تو انھوں نے ڈاک کے پارسل کے ذریعے اپنے مخلص احباب کو خشک قصوری میتھی کی بلاقیمت ترسیل کا اہتما م کر دیا۔

کتاب ’’ قصور ماضی و حال ‘‘ میں قصور کے لوک ادب کا ذکر کم کم ملتا ہے ۔ ضلع جگت اور پھبتی کو قصور اور جھنگ کا مشترکہ اثاثہ سمجھا جاتا ہے ۔نو آبادیاتی دور میں قصور میں جفت سازی کی صنعت کی دُھوم تھی ۔ پورے بر صغیر میں قصوری جُوتی اس قدر مقبول تھی کہ یہاں کی الہڑ مٹیاریں اسے پہن کر جب خراماں خراماں چلتیں تو ان کی چال کڑی کمان کے تیر کے مانند محسوس ہوتی تھی ۔قصور کے جفت ساز پاؤں کا ناپ لے کر اس کے مطابق کھسے تیار کرتے تھے ۔بعض اوقات قصوری جوتی پہننے والی مٹیار کے پاؤں میں پُوری نہ ہوتی تو دشتِ جنوں میں پیدل چلتے وقت وہ پاؤں کے آبلوں سے گھبرا کر ہر طرف بکھرے خار ِمغیلا ں سے بے ساختہ انداز میں یہ کہتی کہ وہ سر ِہر خار کو تیز تر رکھیں شاید اس کے بعدکسی اور آبلہ پا کا اس جانب سے گزر ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنی دُھن میں مگن یہ لوک گیت بھی گنگناتی چلی جاتی تھی :
جُوتی قصوری پیریں نہ پُوری
ہائے ربا وے سانوں ٹُرنا پیا
جہاں راہا ں دی میں سار نہ جاناں
اُنھیں راہیں وے مینوں ٹُرنا پیا

کہاوتوں اور ضرب الامثال کی اختراع میں قصور کے باشندوں کا ذوقِ سلیم مسلمہ ہے ۔یہاں کے باشندوں کی حاضر دماغی ،بذلہ سنجی اور گل افشانی ٔگفتار سے محفل کشتِ زعفران بن جاتی ہے ۔اس قسم کی کچھ مثالیں پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی نے بتائیں:
ذات کی کوڑھ کرلی اور شہتیروں پر چڑھائی : میر ے خالق تیری دہائی
نسل کی پِدی اور عقاب سے مقابلہ ٔ پرواز : خود کشی کے ہیں یہ سب انداز
باپ نہ ماری پِدی اور بیٹا تیر انداز : مسخروں کی بڑاُن کی اصلیت کی غماز

کتاب کااسلوبیاتی مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ گل دستۂ معانی کو روح پرور آ ہنگ اورنئے ڈھنگ سے آراستہ کرنے اور ایک گل نو خیز کے مضمون کو سو رنگ میں پیرایۂ اظہار عطا کرنے میں ڈاکٹر محمد ریاض انجم کو جو مہارت حاصل ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔ اس کتاب میں مصنف نے اپنی جنم بھومی کے بارے میں کوئی بات نا گفتہ نہیں رہنے دی ۔اس کتاب کا ہر لفظ گنجینۂ معانی کا ایساطلسم بن گیا ہے جس میں زیرک مصنف کے قلبی و روحانی جذبات و احساسات،معاشرتی زندگی کے تجربات و مشاہدات،کارگہِ فکر کے ارتعاشات،ذہنی صلاحیتوں کی منہاج ،فکر و خیال کی کیفیات،تاریخ اور اس کے پیہم رواں عمل کے بارے میں اندیشہ ہائے دُور دراز اور معاشرے میں سرگرمِ عمل افراد کے تاثرات پُوری تابانی کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ وادیٔ خیال میں الفاظ کے قصر و ایوان سجا کر ان میں قناعت و انکسار کے زندگی بسر کرنے والے اس درویش منش ادیب نے جس شان استغنا کے ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اس سے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہوتا ہے ۔اس وقیع تصنیف کے محاسن قاری کو نہ صرف شہر قصور کے متعلق اہم معلومات سے متمتع کرتے ہیں بل کہ یہ مصنف کی شخصیت کی تفہیم میں بھی چراغ ِراہ ثابت ہوتے ہیں ۔اسلوب میں پائی جانے والی دریا کی سی روانی اس حقیقت کی غماز ہے کہ کتاب کی تدوین سے قبل مصنف نے ہزاروں بنیادی مآخذسے استفادہ کیا ۔مصنف نے اپنے غیر جانبدارانہ انداز میں عصری آ گہی پروان چڑھانے کی جو سعی کی ہے وہ لائق صد رشک ہے ۔قصور سے وابستہ متعدد تاریخی حقائق کی تشریح و توضیح کرتے وقت مصنف نے جہاں احساسِ ترفع کی حامل کڑی تحقیق کو زادِ راہ بنایا ہے وہاں ان حقائق کو صداقت کا ایسا منفرد رُوپ عطاکیا ہے جو قارئین کے دلوں کو مسخر کرلیتا ہے ۔یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ کسی ایسے بے قصور شخص کو جس نے کبھی کوئی کتاب ہی نہ پڑھی ہو یہ بتایا جائے کہ قصور ایک قابل دید مقام ہے ۔میری رائے ہے کہ جدید دور میں قصور سے نا واقف رہنے والے شخص کو قصور وار قرار دینے سے پہلے اسے ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا جائے ۔مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ کتاب ’’ قصور ماضی و حال‘‘کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ شخص قصور دیکھنے کے لیے بے چین ہو جائے گا ۔قصور کی محبت اسے کشاں کشاں قصور پہنچا دے گی ۔

ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی خطر پسند طبیعت نے ادب میں شہر نامہ کے سلسلے میں کو ہ کنی کا جو منفرد انداز اپنایا ہے وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔وطن اور اہل ِ وطن کے ساتھ درد کا رشتہ مصنف کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔ اس کے شہرِ دِل میں کھلنے والے وطن کی گوٹھ و گراں کی مرقع نگاری کے آئینہ دار گل ہائے رنگ رنگ کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو جاتاہے ۔اس مستعد تخلیق کار نے سفا ک ظلمتوں کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع فروزاں کرتے وقت اپنادِل جلا کر سرِ عام رکھ دیا ہے ۔ اس باکمال محقق کی ادبی کامرانیوں کی بنا پر تاریخ ہردور میں اس کے نام کی تعظیم کرے گی ۔ کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے مصنف کے اسلوب سے یہ معلوم ہوا کہ وہ سوہنی دھرتی کو قدم قدم آباد دیکھنے کے آ رزومند ہیں ۔پاک سر زمین کا ایک ایک ذرہ انھیں اپنی جان سے بھی پیارا ہے ۔قصورشہرتو ایک علامت ہے اس نفسیاتی کُل کے پس پردہ ارض پاکستان ہے ۔ ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی اس کتاب کے مطالعہ کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ احمد ندیم قاسمی کی یہ دعا مصنف کے دل میں سما گئی ہے :
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کِھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
خدا کرے کہ نہ خم ہو سرِ وقار ِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اِک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جُرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 680002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.