غرورِ عشق کا بانکپن

سخی شہباز قلندر اپنی شعرہ آفاق غزل ہے میں عشق کے نئے پرت کھولتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں یار کی خاطر زیرِ خنجر بھی رقص کرتا ہوں، مقتل گاہ میں رقص کرتا ہوں ، لہو میں تر بتر رقص کرتا ہوں اور خودی میں دیوانہ وار رقص کرتا ہوں۔میرے لئے یار کی خوشنودی سے بڑھ کر دنیا کی کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ یار کی محبت مجھے دنیا سے نبرد آزما ہونے کی قوت عطا کرتی ہے۔جب یار قلب و نظر میں بس جاتا ہے تو انسان دنیا بھر کے جبروکراہ کوہنس کے سہہ جاتا ہے ۔ یار کی محبت در اصل ایک ایسی قوت کا نام ہے جس میں فرہاد دودھ کی نہر بہا کر دنیا کوور طہ ِ حیرت میں گم کر دیتا ہے ۔ انسانی نفسیات کا خاصہ یہ ہے کہ انسان جب اصولوں کوحرزِ جان بنا لیتا ہے تو پھر اس کے لئے ہر قسم کی صورتِ حال سے نمٹنا مشکل نہیں رہتا۔انسانیت ساز اصولوں کو اپنانا اور پھر ان کی خاطر جان جیسی متاع کو لٹا دینا غیر معمولی بات ہے جس کے مظاہرے ہم اکثرو بیشتر دیکھنے کی سعادت حاصل کرتے رہتے ہیں۔مصر کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی کمرہِ عدالت میں موت میرے لئے معمہ بنی ہوئی ہے ۔ اس دن ایک منتخب صدر کو ریاستی جبر سے موت کی وادی میں دھکیلا گیا تھا ۔ کیا سفاکیت کی اس سے بڑی مثال کوئی اور بھی ہو سکتی ہے کہ ایک منتخب صدر کو بھری عدالت میں موت کی آغوش میں دھکیل دیا جائے اور اسے قانون و انصاف کا نام دے دیا جائے۔اقتدار کی ہوس میں جب لوگ اندھے ہو جاتے ہیں تو ان کیلئے دوسروں کی زندگی کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی ۔ایسے انسانوں کیلئے پوری دنیا موت کی آغوش میں چلی جائے وہ پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے کیونکہ ان کی نظر میں ان کا ذاتی اقتدار پوری دنیا کی بقا اور امن سے زیادہ عزیز ہوتا ہے ۔ شام ،افغانستان،لیبیا،عراق اور یمن میں انسانیت جس طرح قتل ہو رہی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کیونکہ سپر پاور کی یہی منشاء ہے اور دنیا کو اس کی منشاء کے سامنے سرنگوں ہو نا ہے۔ان ممالک میں آمریت کا دور دورہ ہے،طالع آزما بر سرِ اقتدار ہیں یا پھر شہنشاہِ معزم تخت نشین ہیں لہذا انسایت کا جو حشر ہورہا ہے وہ ہر ایک پر بالکل عیاں ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی کی موت اور ذولفقار علی بھٹو کی موت میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے ۔ڈاکٹر محمد مرسی پہلے منتخب صدر تھے جبکہ ذولفقار علی بھٹو پہلے منتخب وزیرِ اعظم تھے ۔ ذولفقار علی بھٹو کے اقتدار پر شب خون جنرل ضیا الحق نے مارا تھا جسے انھوں نے خود نامزد کیا تھاجبکہ ڈاکٹر محمد مرسی کے اقتدار پر قبضہ بھی ان کے نامزد جرنیل فتح السیسی نے کیا تھا۔دونوں جرنیلوں کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی ۔ڈاکڑ محمد مرسی معزولی کے بعد جب عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو انھوں نے برملا اعلان کیا تھا کہ میں ہی مصر کا منتخب آئینی صدر ہوں جبکہ جنرل فتح السیسی ایک غاصب ہے جو آئین شکنی کا مجرم ہے۔اس کی آوازکو خاموش کرنے کی بڑی کوششیں ہو ئیں لیکن ڈاکڑ محمدمرسی نے جھکنے سے انکار کر دیا۔ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی ایسا ہی طریق اپنا یا گیا تھا لیکن انھوں نے بھی جھکنے سے انکار کر دیاتھا۔دونوں قائدین کو جیل میں انتہائی تکلیف دہ ماحول میں رکھا گیا ،انھیں ذہنی دباؤ میں رکھا گیا اور انھیں گندے ماحول میں رکھا گیا تا کہ وہ گھبرا کر طالع آزما ؤں کی منشاء کے مطابق اپنے اصولوں سے پھر جائیں لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔انھوں نے اصول پرستی کی جو نئی راہ اپنائی تھی پوری دنیا اس پر انھیں دادو تحسین سے نواز رہی ہے ۔(یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ راہ سیاہی لکھی گئی۔،۔ یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گے۔ )

ذولفقار علی بھٹو پر کرپشن کاکوئی الزام نہیں تھا اور ڈاکٹر محمد مرسی پر بھی کرپشن سے پاک صاف تھے ۔ ڈاکٹر محمد مرسی پر غداری کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا جبکہ ذولفقار علی بھٹو پر اپنے سیاسی حریف کے قتل کامقدمہ قائم کیا گیاتھا ۔دونوں قوم پرست راہنما تھے اور غیر ملکی مداخلت کو نا پسند کرتے تھے ۔ ان کی نظر میں عوام کی رائے مقدم تھی۔ وہ جمہوریت نواز تھے اور ووٹ کی قوت سے بر سرِ اقتدار آئے تھے لیکن ان کی جیت کئی حلقوں میں قابلِ قبول نہیں تھی ۔وونوں نے قوم کو نئے دساتیر دئے اور خودی کی نئی سوچ عطا کی۔ ذولفقار علی بھٹو کو ہندوترا کے توسیع پسندانہ عزائم کا سامنا تھا جبکہ ڈاکٹر محمد مرسی کو یہودیت کی سازشوں سے پالا پڑا ہوا تھا ۔عالمی منظر نامے پر بھارت اور اسرائیل یک جان دو قالب ہیں اور ایک دوسرے کو تھپکی دیتے رہتے ہیں۔امریکہ انھیں یک جان دو قالب بنائے ہوئے ہے کیونکہ اسی میں اس کی چوہدراہٹ کا راز پنہاں ہے ۔ ذولفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر محمد مرسی بے خوف،نڈر اور بہادر راہنما تھے لہذا کسی اتحاد سے خوفزدہ نہیں تھے ۔ وہ تو امریکہ جیسی سپر پاور کو سرِ عام للکارتے تھے لہذا کسی دوسرے سے خوفزدہ ہونا چہ معنی دارد۔امریکہ کے خلاف ان کی یہی لکار ان کا جرم تھا جس کی رو سے ان کا اقتدار سے ہٹایا جانا ضروری تھا ۔امتِ مسلمہ سے اظہارِ یکجہتی ،اس کی نشاۃ ِ ثانیہ اور عوام کی فلاح وبہبود د ا ان کا مشترکہ اثاثہ تھا جس سے وہ کسی بھی صورت میں دست بردا ر ہونے کو تیار نہیں تھے ۔ وہ تو بر ملا کہتے تھے کہ موت سے خوف زدہ ہو کر سر نگوں ہونے والے کوئی اورہوں گے لوگ لہذا ہم سے جھک جانے کی امید نہ رکھنا۔انھیں اشاروں کنائیوں سے بہت سمجھایا گیا تھا کہ وہ یہ روش ترک کر دیں لیکن انھوں نے سنی ان سنی کر دی۔ انھوں نے جو مائنڈ سیٹ بنا رکھا تھا اس میں قومی مفادات کا سودا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔وہ بڑے ہی سچے قائدین تھے لہذا سچ کی خاطر کسی بھی قسم کا سودا کرنے سے معذور تھے۔(جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔،۔ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں )

۔ ۱۹۵۴؁ میں قادیانیوں کے خلاف تحریکِ ختمِ بنوت میں مولا ناسید ابو اعلی مودودی کو بھی سزائے موت سنائی گئی تھی لیکن انھوں نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔وہ پوری جرات سے موت کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھے کیونکہ وہ حق پر تھے۔ان کی جرات مندی نے کئی کاغذی شیروں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔انسان جب حق کے ساتھ کھڑا ہوجا تا ہے تو پھر بے خوف ہو جاتا ہے بشرطیکہ وہ سچائی کی تپش کو محسوس کرتا ہو۔نیلسن منڈیا لا کو۲۸ سالوں تک جیلوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں رکھا گیا لیکن نسلی امتیاز کے جس بت کو پاش پاش کرنے کا اس نے اعلان کر رکھا تھا ۲۸ سالوں کی جیل بھی اسے اپنے عظیم مقصد سے باز نہ رکھ پائی ۔اس کی رہائی کا جب پروانہ جاری ہوا تو اس نے جیل سے رہا ہونے سے انکار کر دیا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ جب تک تم میری جماعت کے سب قائدین کو رہا نہیں کروگے میں تمھاری رہائی کو قبول نہیں کروں گا۔وہ رہائی جس کی خاطر لوگ سودے بازی کرتے اور این آر او کا سہارا لیتے ہیں نیلسن مینڈیلا نے اس رہائی کو اپنے رفقائے کا ر کی خاطر ٹھکرا دیا تھا۔وہ جیل سے نکلا تو نسلی امتیاز کا بت یوں پاش پا ش ہوا کہ اب افریکہ نسلی امتیاز کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی اخوت،محبت اور یگانگت کے زمزمے گانے والے ملک کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں چلی گئی ۔سچ تو یہ ہے کہ ذولفقار عل بھٹو اور ڈاکٹر محمد مرسی کو رات کی تاریکی میں دفنا یا گیا اور ان کی نمازِ جنازہ میں کسی کو شرکت کی اجازت نہیں تھی ۔ایک طرف ریاستی جبر سے عوام کو جنازے میں شرکت سے محروم رکھا گیا تو دوسری طرف عوام نے پوری دنیا میں غائبانہ جنازوں سے اپنے لیڈروں کے ساتھ اظہاررِ یکجہتی کیا ۔جو عوام کا ساتھ دیتے ہیں عوام انھیں کبھی فراموش نہیں کرتے۔لوگ مٹی میں مل جاتے ہیں لیکن ان کی قربانی انھیں سدا زندہ رکھتی ہے۔ڈاکٹر محمد مرسی اور ذولفقار علی بھٹو نے حریتِ فکر کی جس شمع کو اپنے لہو سے سینچا ہے وہ سدا رروش رہے گی(کرو کج جبیں پہ سرِ کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو ۔ کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا)
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515216 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.