لوٹے ٹھاہ

لوٹے کا نام آتے ہیں ذہن میں فوراً واش روم گھوم جاتا ہے۔ گھومنا بھی چاہیے کہ اس کے بغیر واش روم میں آپکا کام جو ادھورا ہے۔ آپ واش روم جائیں اور لوٹا نظر نہ آئے تو آپ فوراً گھر والی پر چلانا شروع کر دیتے ہیں اور اسکی یہی اہمیت اسے ممتاز کر تی ہے۔ جدید دور کے مطابق آجکل تو واش روم میں لوٹے بھی واش روم کی ٹائلوں کے کلر کے ساتھ میچ کر کے رکھے جاتے ہیں تاکہ خوشنما لگیں۔ پہلے پہل لوٹا مٹی کا بنا ہوتا تھا، پھر پیتل ، پھر سلور اور اب پلاسٹک کے خوشنما کلرز میں دستیا ب ہے۔ لوٹے سے بہت سی باتیں منسوب کی جاتی ہیں ، مثلاً: کوئی اکڑوں بیٹھا نظر آئے تو فوراً کہہ دیا جاتا ہے کہ اینوں لوٹا دیو۔ یعنی اسے لوٹا دے دو۔ باتھ روم میں نہیں لوٹا تو گھر تیرا کھو ٹا۔ کچھ عامل حضرات بھی اپنے الٹے سیدھے کاموں کے لیے لوٹا گھما دیتے ہیں ، کسی کا محبوب دوسرے کا ہو جائے تو لوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ غرضیکہ یہ لوٹا بیچارہ ہر جگہ بد نام ہے ۔ اگر چہ یہ لوٹا ہمارے بہت کام کی چیز ہے مگر انگریزوں نے اس کی بد نامگی کو پہلے سے محسوس کر تے ہوئے اس کا استعمال قبل از صدی ہی ترک کر کے اسے اپنے واش روم سے بے دخل کر دیا تھا۔ اس مقصد کے لیے اب یہ لوگ دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہیں۔؟؟ اور بعض دفعہ بغیر کوئی ذریعہ استعمال کیے ضروری فراغت کے بعد ایویں ہی واش روم سے باہر آجاتے ہیں۔

و یسے تو لوٹا ایک بہت ہی اچھی اور کام کی چیز ہے ، تا ہم اگر بیچارہ کوئی سیاستدان ضرورت ایجاد کی ماں کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ، اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈ لینے کے لیے حکومت سے مل جائے یا پارٹی بد ل لے تو اسے بد نام کر کے لوٹا لوٹا کے نعرے شروع کر کے لوگ اسکا جینا حرام کر دیتے ہیں اور یوں سیاست بد نام ہوجاتی ہے (منی بدنام کی طرح)۔ ایک بار ایک پبلک واش روم میں جانا ہوا تو لوٹے پر ق لیگ لکھا پایا تو دل کو بہت رنج ہوا کہ ہمارے اتنے اچھے اچھے باریش ، پیارے پیارے قابلِ احترم سیاستدان کیا اب باتھ روم کے قابل ہو گئے ہیں؟۔ ویسے بھلا ہو الیکشن کمیشن کا کہ فلور کرا سنگ پر پابندی لگاکر سیاستدانوں کو لوٹا ہو کر ذلیل ہونے سے بچالیا۔ مگر یہ لوگ باز پھر بھی نہیں آتے اور فاروڈ بلاک ، ہم خیال ، یونیفیکیشن بلاک اور حقیقی گروپ وغیرہ کے سے نعروں اور گروپوں میں بٹ کر پھر سے لوٹا گیری شروع کر دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک خاتون ایم پی اے لوٹی ہو گئی تھی ، بہت ہنسی آئی کہ یار لوٹا تو سمجھ میں آتا ہے، یہ لوٹی کیا چیز ہوئی کہ ہمیں اردو کی کسی ڈکشنری میں اسکا ترجمہ نہ ملا ؟ ویسے جسطرح آجکل عوام باشعور ہو رہے ہیں اور میڈیا لوٹوں کے کرتوت سامنے لارہا ہے، ہمیں ان بیچارے سیاسی لوٹوں کا مستقبل تاریک ہوتا نظر آرہا ہے۔ پچھلی چند حکومتوں میں یہ لوٹے عوام کو کھوٹے سمجھتے ہوئے جس کھرلی میں اچھا چارہ نظر آتا تھا وہیں منہ مارنا شروع کر دیتے تھے، تا ہم عوام کے باشعور ہونے اور کچھ عدلیہ کے بولڈ فیصلوں کی وجہ سے یہ لوگ ایک ہی کھونٹے سے بندھے رہنے پر مجبور رہے۔ تا ہم آجکل یہ لوگ پھر رسہ تڑاکر بھاگنے کے چکر میں ہیں، تاہم ہوتا یہ ہے کہ رسہ چھڑا کر بھاگنے والا جس کسی کے ہاتھ لگے اسی کا ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اسمیں خواتین بھی شامل ہیں!۔

گھر میں لوٹے ختم ہونے پر بیگم نے للو میاں کو درجن بھر لو ٹے لانے کا آرڈر دے دیا۔ للوم میاں نے حیرانگی سے پوچھا کہ بیگم کیا لوٹوں کا صدقہ دینا ہے ؟، تو چڑ کر بولیں کہ نہیں جی دونوں باتھ روم کے لوٹے خراب ہیں، کائی جمی پڑی ہے، وہ بدلنے ہیں۔ دو لوٹے ایمرجنسی کے لیے، اور دو چھوٹے لوٹے بچوں کے لیے تاکہ انہیں لوٹا اٹھانے میں آسانی رہے۔ للو میاں نے پوچھا کہ بچوں کی بات تو سمجھ میں آگئی یہ ایمرجنسی کے لوٹے کی بات سمجھ میں نہیں آ ئی ، تو بولیں کہ میرے ابا آجائیں تو بڑی تنگی ہوتی ہے کہ انہیں دوسروں کے لوٹوں کو استعمال کر نا اچھا نہیں لگتا۔ للو میاں نے کہا کہ بھئی بیگم اگر ایسی بات ہے تو وہ اپنا لوٹا گھر سے ساتھ لے آیا کریں ۔ اسپر بیگم ناراض ہو گئیں۔ ( پھر اگلے دس روز تک روٹی سالن میں نمک تیز پایا گیا)۔ پھر جب دوسرے ایمرجنسی لوٹے کے بارے میں دریافت کیا تو بولیں کہ میرے بھائی بہن جب بھی بمعہ درجن بھر بچوں کے مہینہ بھر رہنے کو آتے ہیں تو لوٹوں کا مسئلہ رہتا ہے، لہٰذا کچھ بچے باتھ روم کی لائن میں لگنے سے بچنے کے لیے لوٹا لیکر گلی میں چلتی نالی پر بیٹھ کر فراغت حاصل کر لیتے ہیں اسلیے منگا رہی ہوں ۔ پھر للو میاں کو پوری بات سمجھ میں آئی اور وہ پھر سے بیگم کی ذہانت کے قائل ہوگئے۔

للو میاں گھر سے لوٹے خریدنے کا قصد کر کے نکلے تو راستے میں ایک دوست مل گئے پوچھا تو بتایا کہ ہم لوٹے لینے جارہے ہیں۔ دوست بڑے خوش اور حیران ہوئے، پوچھا کہ آپ کب سے اتنے امیر کبیر ہوگئے کہ لوٹے خریدنے لگے؟ اور مزید پوچھا کہ لوٹے خریدنے بس سے جارہے ہیں ، ہوائی جہاز سے یا گاڑی سے؟ اور یہ کہ اتنے روپے لیکر اکیلے جارہے ہیں ، کسی کو ساتھ لیتے جائیں۔ آخر 350 کروڑ روپے کوئی کم تو نہیں ہوتے۔ للو میاں بڑے حیران ہوئے کہ یہ لوٹوں کا بس ، گاڑی ، ہوائی جہاز اور 350 کروڑ سے کیا تعلق ؟ اس سے پہلے کہ للو میاں کوئی سوال داغتے دوست نے مزید پوچھا کہ بھیا بکنگ وغیرہ کرالی ہے یا یوں ہی خوار ہوتے جاﺅ گے بس یا گاڑی میں؟ للو میاں انکی بات پھر بھی نہ سمجھ سکے ۔ اور وہ دوست انکی سادگی پر ہنس رہے تھے کہ کتنے بھولے ہیں کہ انہیں دورِ جدید کے نوٹوں کے لیے بنے لوٹوں کے بارے میں ہی نہیں معلوم! ۔ بہرحال !دوست صاحب سے مزید تفتیش پر پتہ چلا کہ موصوف دراصل یہ سمجھ رہے تھے کہ للو میاں شاید اسلام آباد اور لاہور کے سیاسی لوٹے خریدنے جا رہے ہیں۔

خیر جناب ! للو میاں نے بازار میں دکاندار سے اپنی آمد کا قصد بیان کیا تو موصوف بہت خوش ہوئے۔ بولے کہ لوٹا پیتل کا ہو، سلور کا ہو، مٹی کا ہو، پلاسٹک کاہو، چائنا کو ہو یا پاکستانی، ہلکا یا بھاری، کم قیمت یا اعلیٰ کوالٹی کا۔ اتنے سارے سوالات سنکر للو میاں تو بوکھلا ہی گئے اور دکاندار سے کہا کہ بھیا ہمیں سیدھا سادھا پلاسٹک کا سستا سا لوٹا دکھائیں نہ کہ مہنگا والا۔ دکاندار نے پھر پوچھا کہ بھئی دو کلو والا یا تین کلو والا۔ للو میاں نہ سمجھے کہ اس دو اور تین کلو سے کیا مطلب؟۔ پھر اسنے سمجھایا کہ چھوٹے بچے عموماً چھوٹا دو کلو پانی والا لوٹا استعمال کرتے ہیں اور بڑوں کو فراغت کے لیے بڑے یعنی تین کلو والے لوٹے کی ضرورت پڑتی ہے۔ لوٹے پسند کرنے کے بعد قیمت پوچھی تو جان ہی نکل گئی کہ ایک لوٹا پچاس روپے کا۔ یعنی چھ لوٹے تین سو روپے کے۔ للو میاں نے بڑی مشکل سے دو سو روپے دیکر جان چھڑائی۔ گھر آتے ہی دو لوٹے تو بچوں نے فوراً قابو کر لیے اور باتھ روم میں اپنی اپنی جگہ پر سجا دیے اور ایک دوسرے کو تڑی لگا کر سختی سے منع بھی کر دیا کہ خبردار جو میرے لوٹے کو ہاتھ لگایا تو ۔

اگر ہم سیاسی لوٹے اور گھریلو لوٹے کا موازنہ کریں تو بہت سی متضاد چیزیں نظر آتی ہیں مثلاً: گھریلو لوٹے کی قیمت صرف ایک بار دی جاتی ہے ، جبکہ سیاسی لوٹے ہر چار پانچ سال بعد بکنے لگ جاتے ہیں۔ گھریلو لوٹا اتنا وفادار ہوتا ہے کہ جہاں رکھ دو وہیں پڑا رہتا ہے، مگر سیاسی لوٹا کبھی کسی کا وفادار نہیں ہوتا، جس نے زیادہ نوٹ دکھائے ووٹ اسی کو دیتا ہے۔ گھریلو لوٹا ایک سے زیادہ لوگ استعمال کرتے ہیں، مگر سیاسی لوٹا بکنے کے بعد اگلی بولی تک صرف ایک ہی کے کام آتا ہے۔ گھریلو لوٹے میں اگر زیادہ پانی ڈالو تو باہر نکلنا شروع ہو جاتا ہے، سیاسی لوٹے میں جو کچھ بھی ڈال دو پتہ نہیں چلتا کہ کہاں گیا۔ گھریلو لوٹا بیچارہ شرافت اور سادگی کی عمدہ مثال کہ جہاں رکھ دیا وہیں پڑا رہا ، جبکہ سیاسی لوٹے عیاری ، مکاری، چالاکی، خودغرضی، دھوکہ دہی، فراڈ اور لوٹ مار کرنے میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ گھریلو لوٹے مختلف کلر اور اور ماڈل میں دستیاب ہوتے ہیں، جبکہ تمام سیاسی لوٹوں کی کھال ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔ گھریلو لوٹا بے زبان ہوتا ہے، سیاسی لوٹے کی گز بھر زبان اردو اور انگریزی کے علاوہ سب کچھ بولتی ہے۔ اسکول میں استاد نے بچوں سے پوچھا کہ سب سے اچھے اور مہنگے لوٹے کہاں پائے جاتے ہیں۔بچوں نے ایک زبان ہو کر جواب دیا کہ اسلام آباد اور لاہور میں!استاد نے کہا کہ لوٹے کو جملے میں استعمال کرو۔ ایک بچے نے لکھا کہ ؛؛ میں ہر روز ٹی وی پر نت نئے لوٹے دیکھتا ہوں؛؛! استاد صاحب جو کہ صبح سے لوٹے کے بارے میں پڑھا پڑھا کر تھک چکے تھے، غصے میں آکر بچے کو لوٹا بنا کر پاﺅں سے اسکی درگت بنانا شروع کردی اور اسوقت تک حجامت کر تے رہے جب تلک بچے نے یہ نہ کہا کہ ؛؛ میں صبح ، شام باتھ روم میں لوٹا استعمال کرتا ہوں؛؛!۔

آجکل سیاسی لوٹوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ کے زمانے میں اس اصلی لو ٹے کی اہمیت اور بھی دو چند ہوگئی ہے کہ بجلی نہ ہو تو نلکے سے پانی کے دو چار لوٹے بھر کر واش روم میں ایڈوانس میں ر کھ لیے جاتے ہیں ، تاکہ فراغت میں آسانی رہے۔ تاہم اگر آپ بھی انگریزوں کی طرح اس لوٹے سے گلو خلاصی چاہتے ہیں تو اپنے واش روم کو انگریزوں کی طرح جدید بنوا کر اور دیگر دوسرے ذرائع استعمال میں لاکر اس سے خلاصی حاصل کر سکتے ہیں؟؟۔ تاہم سیاسی لوٹوں سے چھٹکارا پانا بہت مشکل کام ہے کہ یہ ہم عوام کو آئے روز نت نئی سیاسی چالوں اور سیاسی کرتبوں میں الجھا کر اپنا کام جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 234795 views self motivated, self made persons.. View More