رسکن نے یہ بات بالکل صحیح کہی
ہے کہ ” تم مجھے بتاﺅ کہ تمہیں کیا پسند ہے؟ اور میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ
تم کون ہو؟۔“ رولاں بارتھ نے بہت سی باتیں غلط کہی ہیں مگر ایک بات مجھے
اسکی پسند آئی ” جب ایک افسانہ یا [کہانی‘] لکھنے والا کہانی لکھ رہا ہوتا
ہے تو کہانی اسے لکھ رہی ہوتی ہے“ اسکی تشریح یہ ہے کہ لکھنے والا کونسا
موضوع منتخب کرتا ہے ،زندگی گزارنے کا کونسا طریقہ وہ پسند کرتا ہے؟۔۔۔خوشی،
غم، محرومیوں اور کامرانیوں ۔ کے بارہ میں اسکا رویہ کیا ہے ؟اسکا کوئی
اخلاقی فلسفہ ہے کہ نہیں۔ اور اسکے افسانوی کردار زندگی کی کشمکش ،۔
الجھنوں ۔تضادوں۔اور ماحول میں موجود آو یزشوں سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں
؟ کیسے کامیاب ہوتے ہیں ۔ یا ہار جاتے ہیں ،۔۔ اور اس ہار جیت کا ان پہ کیا
ردَ عمل ہو تا ہے؟ زندگی کی زندہ حقیقتوں کا احاطہ کرنا افسانہ نگار۔اور
ناول نگار کا کام ہے۔ کیا اسکے موضوعات صرف ذاتی غم کا رونا روتا ہے یا
ذاتی غم سے آگے بڑھ کر اس کے موضوعات خارجی دنیا کی بھی کچھ خبر رکھتے ہیں
، اگر لکھنے والا اپنے فن کی گرفت میں وقت کو اس طرح جکڑ لے نا کہ وہ اپنے
دور کی معاشرتی اور عمرانی تاریخ ہوجائے۔ وہ زندگی کے حقائق کو روح کی طرح
افسانے میں پرو دے ۔ ایسے کہ وہ تحریر ایک معاشرتی تاریخ سے زیادہ قابل ِ
اعتبار ہوجائے، اور اپنے عہد کے فکری نظر یو ں اور فلسفیانہ رحجانات کی سند
بن جائے۔ تو ایسا افسانوی ادب تعلیم و تربیت کا ذریعہ بن جاتا ہے،جو ادب کا
اولین مقصد ہے ۔یہی اچھے ادب اور، اوسط ، یا معمولی ادب کی شناخت بھی ہے۔
ایک کامیاب افسانے اور معمولی افسانے کی یہ بھی پہچان ہے کہ افسانے کے
کرداروں کے سامنے کونسے مقاصد ہیں اور وہ زندگی کی جنگ کس لئے کر ہے ہیں ؟اور
انھیں منزل کا کا کتنا ادراک ہے ؟۔ کرداروں کا دنیاوی زندگی میں کامیاب
ہونا ضروری نہیں جدوجہد اہم ہے۔اور منزل کا ادراک اہم ہے۔وہ مقصد اہم ہے جس
کے لئے جدوجہد کی گئی۔۔
افسانے اور کہانی میں لکھنے والے کی ز بان۔ بھی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔کہ وہ
کتنی پر تاثیر ہے؟۔۔ اور جو ادیب ۔تشبیہ استعاروں، علائم کنایوں،اور حوالوں
سے ترتیب دیتا ہے۔اسی کو طرز بیا ن کیتے ہیں ۔جو لکھنے والے یا والی کی
شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ بھی ہوتا ہے کہ کیا اسمیں
لکھنے والے یا والی کا کوئی پیغام ہے یاافسانہ محض ذا ت کا مرثیہ ہے ایک
بڑا افسانہ اپنے پیغام کی عظمت سے بڑا ہو تاہے۔ اس میں جب وہ انسانی تجربات
کی بازیافت کرتا ہے تو زیرِ سطح اپنا پیغام بھی دیتا ہے یا نہیں۔پیغام جسے
قاری۔۔موضوع ۔ تیکنیک، ہیئت سے پہچان سکتا ہے۔اور اس سے افسانہ نگار کا
مقام متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اچھے افسانے کی یہ بھی پہچان ہے کہ تحریر کے اندرونی اور بیرونی ساخت میں
مکمل نظم ضبط ہے۔اور اسمیں خیال کی اکائی موجود ہو۔ اور معانی کی کئی پرتیں
ہوں ۔ اچھے افسانے اور کہانی کا ایک معیا ر یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ ۔ا س
میں زندگی کی محبت آمیز قدروں کو،خطابت اور موعظت کے بجائے معروضی انداز
میں پیش کیا گیا ہے۔اسطرح کہ پڑھنے والا رو پڑے ۔ یہ انداز افسانہ نگارہ
اور افسانہ نگار کی گہری فکر کا ثبوت ہی نہیں دیتا افسانہ نگار کی گہری
شخصیت کی بھی نشاندہی کرتا ہے اور اسکے مقام کو بھی متعین کرتا ہے سب سے
اہم ۔۔۔کسی افسانے یا ناول کا مقبو ل عام ہونا نہ اسکی کامیابی کی دلیل ہے
نہ عظمت کی۔ اچھا ادب سمجھنے والوں اور پڑھنے والوں کی تعداد ہمیشہ دنیا
میں کم رہی ہے مگر باقی وہ ہی ادب رہتا ہے جسے خواص پڑھتے ہیں۔اخباری
رپورٹیں ایک دن سے زیادہ کی زندگی نہیں پاتیں۔مگر سماجی اجتماعی شعور کے
ساتھ لکھی جانے والی کتا بیں باقی رہ جاتی ہیں۔
اس تمہید کا مطلب اور مقصد ، صرف یہ ہے کہ قا رئین کو معلو م ،ہو کہ میں
افسانوں کا تجزئیہ ذاتی پسند و نا پسند سے نہیں کرہی بلکہ میرے سامنے کچھ
ٹھوس اصول ہیں جو میں نے نہیں بنائے ما ہرینِ نے وضع کئے ہیں اور بزعمِ خود
نقاد بن جانے والوں میں بھی نہیں ہوں۔میں نے تنقید پڑھنے پہ وقت صرف کیا ہے
اور میں ایک معمولی طالبعلم ہوں۔ ۔تما م لکھنے والی خواتین میری دوست ہیں
میں سب کو پسند کرتی ہوں ۔ اور میں عورتوں کے حقوق کی علمبردار ہوں میں ان
اصولِ تنقید کی روشنی میں ادیبوں کا تجزیہ کیا ہے۔ اور پوری دیانت داری سے
کیا ہے۔
برطانیہ میں سب سے پرانی لکھنے والی بزرگ خاتون انور نسرین ہیں۔انور نسرین
پنجاب کے مشہور شھر گجرات میں پید اہوئیں۔دو سال کی عمر تھی تو انکے نانا
دادا دونوں نے کشمیر میں رہائش کا فیصلہ کیا بارہ تیرہ سال کی عمر میں
ڈرامہ نویسی سے ادبی زندگی کی ابتدا کی۔پھر علیگڑھ اعلٰی تعلیم کے لئے
بھیجا گیا۔ کالج کے دورانِ قیام بھی کچھ ڈرامے لکھے۔جنھیں اسٹیج بھی کئے،
علی گڑھ سے انھوں نے بی۔ اے کیا۔ شادی دہلی کے ایسے خاندان میں ہوئی جہاں
مرد تو پڑھے لکھے تھے مگر عورتوں کےلئے تعلیم ضروری نہیں سمجھی جاتی تھی
شادی کے بعد دہلی میں قیام رہا کہ سسرال دہلی میں تھا وہیں انھوں نے مسلم
لیگ میں شمولیت کی اور مسلم لیگ کی خواتین کی مقامی شاخ کے ساتھ پاکستان کے
قیام کے لئے کام کیا جو اس پردے کے دور میں بڑی ہمت کی بات تھی سسرال والے
ضرور آزاد خیال ہوں گے ورنہ ممکن نہ ہوتا۔سسرال والے تجارت پیشہ لوگ
تھے۔قیامِ پاکستان کے بعد سسرال والے مشرقی پاکستا ن چلے گئے جہاں تجارت
ترقی کرتی رہی۔ بیٹیوں کی شادیاں بنگالیوں میں ہوئیں گویا اتنا بھائی چارہ
ہونے کے باوجود بنگلادیشی تحریک چلی تو وہاں سے نکلنا پڑا۔ اور کراچی اور
لندن جائے قیام ٹھہرا۔زیادہ تر لندن میں رہتیں کئی برس قبل انکے شوہر کا
انتقال ہوگیا تو مستقل قیام لندن ہو گیا۔ مصوری اور سیاحت ان کا مشغلہ تھا۔
ان دونوں تجربوں کا عکس ان کی تحریر میں نظر آتا ہے۔وہ مدتوں سے لکھ رہی
ہیں مگر کتاب چھپوانے میں کوئی چیز حائل ضرور رہی ہوگی جو انکے دونوں
مجموعے اکیسویں صدی میں چھپے، ایک افسانوی مجموعہ انگلش میں بھی چھپا ہے،
شوہر کا انتقال ہوچکا ہے بیٹا ہے کوئی نہیں کراچی میں کوئی رشتہ دار نہیں
یہاں چھپنے والے ا یک اردو رسالے کے مالک کے ذریعے جو اپنا رسالہ کراچی سے
چھپواتے ہیں انور نسرین نے اپنی کتابیں چھپوانے کے لئے کہا۔ وہ بخوشی اس کے
لئے تیار ہوگئے۔ مگر اسکا انجام انور نسرین کی غمی مایوسی اور انسانیت اور
اخلاق پہ بد اعتمادی پہ ہوا ۔
اسلئے کہ پبلشر نے انکو خوب لوٹا۔رسالے کی انتظامیہ نے انکی کتا بیں اس طرح
چھپوائیں کہ آخری کتاب کے لئے انور نسرین صاحبہ سے £700.00 لئے اور ادو
کتابیں ہوائی جہاز سے بھیجی گئیں اس وعدہ کے ساتھ کہ بقیہ پانچ سو کتابیں
جلد بھیجی جائیں گی سمندری ڈاک سے ۔مدتیں گزر گئیں۔ کتابیں نہیں آئیں پھر
انکا جواب ہوا کہ کتابیں بھیج دی گئیں ۔ کوئی ثبوت نہیں بھیجنے کا۔ کوئی
کاغذ رسید کا نہیں دیا۔ کوئی حوالہ نہیں دیا ۔ان سے لئے ہوئے سات سو پونڈ
.£700.00 کا کوئی حساب نہیں۔ اب انھیں اس اعتماد سے پونڈ پکڑا دینے کی یوں
سزا دی جارہی ہے کہ کئی سال گزر گئے بیچاری انتظار کرتی رہیں اب وہ فون
کرتی ہیں، تو بد تمیزی کا گستاخانہ جواب آتا ہے۔ اور فون بند کردیا جا تا
ہے، یہ اردو کے ادب نواز ہیں۔جو ایک بے بس خاتون کا ا ستحصال کر رہے ہیں
اور انکا ضمیر کچھ نہیں کہتا ،میں بے انصافی پہ دکھی ہو جاتی ہوں اسلئے
مجھے ذکر کرنا پڑا۔
مشرقی پاکستان میں وہ سماجی انجمنوں کی سرپرستی کرتی تھیں ۔ باقی وقت مصوری
میں صرف کرتیں۔پھر سقوطِ ڈھاکہ میں اگرچہ جانی نقصان نہیں ہوا تاہم مالی
نقصان بہت ہوا، نفسیاتی دھچکہ بھی لگا ۔اور ایک شاندار زندگی گزار کر لندن
میں محنت طلب ۔ جد وجہد پہ مجبور ہئیں۔لندن میں انکا گھر ۔کبھی پہلے چھٹیاں
گزارنے کے لئیے خریدا گیا تھا۔وہی آخر کو ٹھکانہ ٹھہرا۔پھر بنگلا دیش میں
بھی حالات معمول پہ آگئے۔ تو انکی چھوٹی بیٹی بیماری کے بعد معذوری کا شکار
ہو گئی یوں نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں مجبوراّّ لندن میں رہ جانا پڑا،اس دکھ
نے انھیں توڑ پھوڑ دیا۔دکھ اظہار کے لئے راستہ چاہتا ہے۔انور نسرین نے
پرانے فن کو زندہ کیا۔اور دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ وہ بھی جنگ کے ادبی صفحے
اور راوی میں لکھتی رہیں، خواتین کی ادبی انجمن ”برگِ گل“ کی ماہانہ ادبی
نشست میں بھی افسانے انشائے اور ڈرامے پڑھتی رہی ہیں۔۲۰۰۱ کے بعد انکے تین
افسانوی مجموعے شائع ہوئے جنکے نام ہیں ” تما شہ شب و روز “ا ”گزرگاہِ خیال“
”محبت کی اذیت “ وہ کتاب ہے جس کے لئے پبلشر نے رقم وصول کرلی اور صرف دو
کتابیں دیں۔ باقی پبلشر نے ہضم کرلیں۔ ایک کتاب انگلش میں بھی لکھی ہے۔لندن
میں وہ ماہانہ ادبی نشست کا اہتمام کر تی تھیں دو ڈھائی سال قبل وہ کیمبرج
چلی گئی ہیں۔
انور نسرین نے زندگی کے زندہ واقعا ت کی بازیافت کی ہے انتہائی المیوں پہ
بھی انکے ہاں سستی جذباتیت نہیں ۔ انکی معروضیت برقرار رہتی ہے ۔ وہ بہت
پختہ کاری سے ہر مقام سے گزر جاتی ہیں،انکے موضوعات میں تنوع ہے۔ اور انھوں
نے گونا گو مسائل اٹھائے ہیں ،مثلاّّ بیرونی ممالک میں لڑکیوں کی شادی او ر
اس میں دھوکے فریب ،متوسط طبقے کی مجبوریاں عزت کے لئے عورتوں کا قتل۔عرب
ممالک میں اونٹوں کی دوڑ میں استعمال ہونے والے بد نصیب بچے۔عورتوں کی خرید
و فروخت۔ معاشرہ کی قدم قدم منافقت،اور پھر ہٹلر کی قید کے ایک قیدی کی
کہانی۔انکی کہانیاں صرف اپنے لوگوں کی نہیں ہیں انسانیت کی ہیں انمیں ہر
قومیت کے لوگ ہیں ، عہد کی ترجمان ہی نہیں انکی نقاد بھی ہیں مگر انکا مبا
لغے سے دور کا تعلق بھی نہیں انکا ٹھہرا ہوا لہجہ نہیں بدلتا۔انکی نظر بین
ا لاقوامی حالات پہ بھی ہے۔۱۹۴۰ سے لے کر ۲۰۰۰۔ تک کی زندگی اور تاریخ ان
کے افسانوں میں سمائی ہوئی ہے ۔
سحاب قزلباش۔۔۔سحاب ایک مشہور ریڈیو اور ٹی وی آ ّرٹسٹ ہونے کے باعث
انڈیا،پاکستان میں معروف شخصیت رہی ہیں ۔بڑی کھری اور مخلص خاتون تھیں ادبی
حلقوں میں وہ شاعرہ، نعت خوان ، نوحہ خوان کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں ”
روشن چہرے“ اپنی کتاب میں ۔ انھوں نے پاکستاں کی مشہور شخصیات کے خاکے لکھے
ہیں۔ خاکے لکھنے کے لئے محبت بھرا دل درکار ہوتا ہے۔محبت کی سحاب کے دل میں
کمی نہیں تھی۔دوسری کتاب انکی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ریڈیو پاکستان لا ہور۔
ریڈیو کراچی میں انکے ساتھ کام کرنے والوں کی شخصیات۔ انکی عادتیں محبتیں
وغیرہ کی تفصیلات ہیں ،انمیں تعلقات کی چاشنی بھی ہے اور دلچسپ معلومات بھی
ہیں اسمیں عینی آپا پہ بڑا تفصیلی مضمون ہے جو انھوں نے پڑھ کر سنایا بھی
تھا، میرا جی کا بھی خاکہ دلچسپ اور حیران کن ہے۔۔سحاب ایک شفیق انسان تھیں
انھوں نے پاکستان جاکر بسنے کی کوشش کی کئی برس رہیں بھی۔ مگر دل بڑھ گیا
تھا، انھیں واپس آنا پڑا، سحاب نے میرے اوپر آخری دم تک شفقت رکھی۔ اور
انکے انتقال کے بعد میں نے ایک خلا محسوس کیا۔
انکی کتا بیں ہیں۱۔روشن چہرے۔ خاکے۔۲میرا کوئی ماضی نہیں خود نوشت۔۳ملکو ں
ملکوں شہروں شہروں۔ سفر نامہ۔ ایک مجموعہ کلام ’لفظوں کا پیرہن‘ فیروز
مکرجی۔۔۔برطانیہ میں پی۔ایچ ۔ڈی۔ کرنے آئی تھیں، فیروز باجی بھی عینی آپا
کی دوستوں میں تھیں۔ انکا ذکر عینی آپا نے اپنی کسی ناول میں کیا ہے۔ فیروز
باجی کب سے لکھ رہی ہیں؟ مجھے نہیں معلوم۔ کہاں چھپتی تھیں یہ بھی نہیں
معلوم۔وہ بھی ادبی انجمن برگِ گل میں افسانے پڑھتی تھیں ، میں نے پہلی بار
اسی وقت انھیں دیکھا تھا۔ انکے افسانوں کا ایک۔ ”مجموعہ دور کی آواز “ کے
نام سے سات آٹھ برس قبل آیا تھا۔ اسوقت میں پاکستان میں تھی، اور جب انکا
انتقال ہوا تب بھی میں یہاں نہیں تھی۔انکے بار ہ میں ہر قسم کی معلومات کا
دروازہ بند ہو گیا ، ہم سب جہدِ بقا کے مارے ہوئے لوگ بنیادی اسلامی اخلاق
کو بھی نہیں نباہ پاتے۔انکی بیماری کی خبر سنی ارادہ کرتی ہی رہ گئی اور وہ
چل بسیں مجھے خبر بھی بہت دنوں بعد ملی۔انکے شوہر مکرجی تھے ۔وہ پہلے ہی
فوت ہو چکے تھے بیٹے سے رابطہ کیا تو اسنے ٹکا سا جوب دے دیا کہنے لگا کتا
بیں کہیں گیراج میں پڑی ہوں گی۔بہر حال، کتاب نہ مل سکی،میں صرف ان افسانوں
کے حوالے سے بات کر رہی ہوں جو میں نے رسالوں میں پڑھے ہیں مخزن میں۔ اور
کچھ جو انھو ں نے سنائے انکی پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ” سرشار کی دنیا“ بھی کتابی
صورت میں آگیا ہے اور انگریزی میں ہے ۔فیروز باجی نے خود مجھے دیا تھا،
افسانوں میں انکے موضوعات سنجیدہ اور اہم ہیں ،افسانوں کی بنت میں پختگی ہے۔
موضوع کو برتنے میں گہرائی اور گیرائی دونوں ہیں۔ انکا افسانہ ”صداقت حسین
کی کہانی انکی اپنی زبانی“ صداقت حسین کا مسئلہ افسانے کے نام سے ہی واضع
ہوجاتا ہے کہ برعکس نہند نامِ زنگی کافور، صداقت حسین جھوٹا اورا ذیت
رساں’[سیڈست] ہے ، وہ بیوی کو ذلیل کرنے اور اذیت دینے کو فرضِ شوہری
سمجھتا ہے۔افسانے میں طنز کی کاٹ بہت گہری ہے۔اسمیں جنسی الجھنیں۔مرد کی
اپنی احساسِ کمتری کو احساسِ برتری میں بدل کر بیوی کو کرب دینے کا
انداز۔عورت کی بے چارگی خود آزاری ۔خوف۔ جبر ی خود سپردگی ۔باطنی و خارجی
نا آسو دگی کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔لندن میں ہی نہیں خود پاکستان میں
بھی یہ ہر دوسری عورت کی کہانی ہے ،مگر فیروز باجی نے ان کو اشاروں کنایوں
سے اہم لاشعوری گرہیں کھولی ہیں ۔افسانے کی بندش چست ہے ۔کہانی اگرچہ جدید
تیکنیک میں نہیں ہے بیانیہ ہے۔مگر لفظوں کے صحیح استعمال اور افسانہ نگار
کی چابک دستی نے اسے فنی طور پہ کامیاب بنا دیا ہے،افسانے کی تھیم اور
اکائی نے ہر حصے کو مضبوطی سے باندھ رکھا ہے۔پھر کتھا ر سس کی منزل بھی
آجاتی ہے عورت پہ اپنی ذات کے اندروں کی طاقت کا انکشاف ہوتا ہے اور وہ ۔
شوہر سے علیحید گی کا اعلان کر دیتی ہے جبکہ وہ بے وقوف اسے مذاق سمجھتا
ہے۔فیروز مکرجی خود کو کرداروں سے الگ رکھنے کا فن جانتی ہیں۔ وہ انکی اپنی
کہانی نہیں بنتی۔
عطیہ خان۔۔عطیہ خان بھی نثر نگار ہیں انکا ایک افسانوی مجموعہ”تجرباتَ
حوادث“ اور ایک انشائیوں کا مجموعہ چھپ چکا ہے۔مجھے علم نہیں کہ انھوں نے
کب لکھنا شروع کیا، میں نے انکے کچھ افسانے ”تخلیق“ میں پڑھے تھے،جن کا
عرصہ آٹھ دس برس سے زیادہ نہیں ہوا ،انکے کچھ افسانوں میں بڑی پختگی ہے
انھیں کہانی کو لکھنے اور سمیٹنے کا فن آتا ہے ۔انکے انشائیوں کی بھی ایک
کتاب آئی ہے مگر ابھی مجھ تک نہیں پہنچی، انشایئے اوسط درجے کے ہیں۔کامیاب
انشائیہ لکھنا ایک مشکل فن ہے۔اسمیں انکے کچھ مذاحیہ مضا مین بھی
ہیں۔تجرباتَ حوادث میں البتہ کچھ کامیا ب افسانے بھی ہیں۔
صفیہ صدیقی۔۔۔شادی سے قبل پڑھنے لکھنے سے دلچسپی تھی ، لکھنے کے خیال کو
عملی جامہ پہنانے سی پہلے لندن آگئیں ،پھر زندگی کی دوڑ میں ہانپتے
ہانپتے،تقریباُُ دوقرن بیت گئے،لندن میں جنگ اخبار شروع ہوا تو اس سے منسلک
ہوگئیں یوں رفتہ رفتہ کچھ نہ کچھ لکھتی رہیں۔ پھر” راوی “ میں لکھنے کا
آغاز کیا اور افسانے لکھنے لگیں، انکا فن آہستگی کے ساتھ ارتقا کی جانب
رواں ہے،وہ زندگی کی کشمکش کو اپنے باطن میں جذب کر کے پنی ذات کو کشید
کرتی ہیں انھیں اجتماعی شعور کا گہرا ادراک بھی ہے اور بین الاقوامی
صورتحال پہ بھی انکی نظر ہے۔وہ اپنے ماحول سے باخبر،ہیں ،وہ خارجی اور
اجتماعی شعور اور کشمکش کو اپنی ذات میں جزب کر کے اپنی ذات کے ادراک سے
کہانی لکھتی ہیں انکی نظر غمِ ذات کے ساتھ غمِ کائنات پہ بھی ہے۔ان کا فن
بھی سادہ حقیقت نگاری کا فن ہے، پھر بھی انکے افسانوں میں کشمکش پائی جاتی
ہے ،۱)پہلی نسل کا گناہ(۲)چھوٹی سی بات(۳)چاند کی تلاش(۴)اور ناویلٹ(۵) وا۔
”وادیِ غربت میں“ناول فنی لحاظ سے کمزور ہے۔کیونکہ وہ رپورتاژ ۔ یا آپ بیتی
معلوم ہوتی ہے یہ کتاب ناول کی تعریف پہ پوری نہیں اترتی ۔ موضوع بھی بڑا ۔اہم
یا آفاقی نہیں ہیے ۔ تاہم ابھی انکا قلم رواں ہے اور ہم ان سے ابھی توقعات
رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ دوسرا ناول اس انداز کا ہوگا جن میں انھوں نے
کچھ کامیاب افسانے لکھے ہیں۔صفیہ نے ۔ اپنی ہم عصر خواتین کے ایک ایک
افسانے کا نگریزی میں تر جمہ بھی کیا ہے جسکا نام Golden cage ہے۔صفیہ نے
اردو کی بہت خدمت کی ہے اور اچھا ادبی ذوق رکھتی ہیں ۔
فیروزہ جعفر۔۔۔۔فیروزہ جعفر کا تعلق کراچی سے ہے ۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی
کی ابتدا۔اخبارِ خواتین سے کی۔ شروع میں جہدِ بقا میں مصروف رہیں۔پھر ذرا
اطمینان ہوا تو انھوں نے محسنہ جیلا نی کی قائم کردہ ادبی انجمن ” برگِ گل
“میں افسانے پڑ ھنے شروع کئے اور رفتہ رفتہ ان کا فن ارتقا کی طرف بڑھنے
لگا۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ۱۹۸۷ ” پہلی بوند سمندر“ ۔کے نام سے آیا
فیروزہ کی طرزِ تحریر میں ندرت ہے ۔ اس مجموعے میں کچھ افسانے ہیں ، کچھ
تحریریں تحریریں۔ نِثر لطیف کی تعریف میں آتی ہیں ،کچھ کہانیاں ہیں۔مگر ہر
تحریر اپنے آپ میں ایک خوبصورت مرقع ہے۔اور جمالیاتی حس رکھنے والے قاری کو
متاثر کرتی ہیں،بعض تحریریں تاثراتی اور استعاراتی انداز رکھتی ہیں۔جن سے
معانی اور مفا ہیم کو عیاں گیا ہے۔فیروزہ کے اندر ایک حساس اور حسیں روح ہے،
جسکا ثبوت، انکی خود کلامی ۔۔”سرپھریَ“۔۔۔ ہے۔ وہ کہانی کے دکھ کو احساس کے
تانے بانے میں پرو دیتی ہیں ۔ جس سے وہ خود کو عیاں طور پہ سستی جذباتیت سے
بچالیتی ہی، دکھ کی دھیمی لہر قاری کے اندر سرایت کرتی ہے۔انکی زبان
الجھاوے سے پاک ہے۔اور تراکیب دلکش ہیں اورایک شاعرانہ انداز رکھتی ہیں۔
انکے بعد کے چند افسانے جو افکار اور تخلیق میں آئے ان میں کافی پختگی آگئی
تھی، ایک افسانہ مجھے یاد ہے ۔۔۔مریم اور مریم۔۔افسوس فیروزہ کی زندگی نے
وفا نہ کی ۔ ورنہ ان میں اپنے وقت اور ہم عصروں سے آگے بڑھ جانے کی صلاحیت
تھی۔انکی تحریر کا انداز دیکھئے۔۔
” تم نے سچ کہا زمانہ سب سے بڑا ہیرو ہے۔زندگی کے اسٹیج پہ ہم سب اسکے
ہاتھوں میں کٹ پتلیاں ہیں، اسکے اشاروں پہ ناچتے رہتے ہیں اپنے ذہن و اعصاب
کی باگیں اسکے سپرد کر کے،اسکے اشاروں پہ ناچتے رہتے ہیں ،یہاں تک کہ ناچتے
ناچتے ہمارے پاﺅں تھک جاتے ہیں۔ہم زندگی کے اسٹیج پہ تھک کر گر جاتے ہیں بے
حس وبے حرکت۔۔۔یوں ہی فیروزہ ۔۔، تھک کر بے حس وحرکت ہم سے بہت دور جا
چکیں،“یہ الفاظ پیش گوئی کرتے محسوس ہوتے ہیں۔۔۔ رولاں بارتھ بہت جھوٹا تھا
جس نے کہا تھا فنکا ر تحریر قاری کے سپرد کر کے مرجاتا ہے۔نہ لفظ مرتے ہیں
نہ تحریر نہ ۔ہی فنکار۔۔
بانو ارشد۔ کے دو مجموعے۔۔شائع ہوچکے ۔ ہیں”بانو کی کہانیاں “ ”بانو کے
افسانے“ بانو کے مضامین کا بھی ایک مجموعہ آیا ہے۔بانو کی کہانیاں دلچسپ
ہیں اور اکثر کہانیاں ہی ہیں افسانے کم کم ہیں۔ انکی کہانیاں سادہ اور آسان
ہیں۔انکی کہانیاں واقعات کے سہارے آگے بڑھتی ہیں اور قاری انجام تک پہنچ جا
تا ہے۔کچھ کہانیوں میں خود کلامیاں بھی ہیں۔ بانو نے جو کچھ لکھا ہے وہی ہے
جو انھوں نے تارکِ وطن کی حیثیت سے سہا ہے۔وہ نئی لکھنے والی نہیں ہیں بلکہ
مدتوں سے لکھ رہی ہیں۔وہ حسینہ معیں اور نیر جھاں کی کلا س فیلو تھیں ۔
انھوں نے بھی دوسری ادیب خواتین کی طرح پدری نظام کی زیادتیاں برداشت کی
ہیں جو بیرون ِ ملک آکر بہت ز یا دہ محسوس ہوتی ہیں کہ نہ یہاں ماسی کا
سہارا ہے۔ جو مشرق کا رواج ہے نہ ہی شوہر کی مدد حاصل ہوتی ، جو مغرب کا
طریقہ ہے۔اور جسکی معاشی مدد کے لئے عورت جو تیاں چٹخاتی ہے اور ہمدردی کے
دو بول کے لئے تر ستی ہے، بانو حقیقت نگار ہیں۔وہ سیدھے سادے الفاظ میں
اپنا مافی ضمیر واضع کر دیتی ہیں۔ انکے افسانوں میں کوئی اہم تیکنیک
استعمال نہیں ہوئی ہے مگر دلچسپی کہانی میں باقی رہتی ہے۔افسانوں میں زندگی
کے تضادا ت ا ور کشمکش میں کوئی اہم پیغام نظر نہیں آتا اسلئے میں انھیں
کہانیاں ہی کہوں گی۔ بانو کا ایک افسانہ عمدہ ہے وہ ہے” پانوں کی ڈبیا“
امید ہے بانو ایسے اور افسانے اردو ادب کو مرحمت کریں گی۔ بانو مغرب میں
تعلیم حاصل کرنے اور مدتوں سے لکھتے رہنے کے باوجود افسانوں کی نئی تیکنیک
سے بے خبر ہیں اور یہ مسئلہ یہاں کی اکثر خواتین کا ہے۔
محسنہ جیلانی نے بھی لکھنے کی ابتدا بچوں کے رسالوں سے کی۔ساٹھ کی دہائی
میں لندن آئیں اور محمود ہاشمی کے ا خبار مشرق سے متعلق ہوگئیں ۔”جنگ
“اخبار شائع ہونا شروع ہوا تو وہ اسمیں لکھنے لگیں۔ اس دوران وہ لیل و نہار
، بیسویں صدی،شمع، ا فکار، ا وراق۔وغیرہ میں لکھتی رہیں۔متنوع تجربات اور
مشاہدات محسنہ کو صحافت کے تجربے نے عطا کئے،انکا افسانہ لمحہ موجود کا
افسانہ ہے۔وقت کا ایک مخصوص حصہ وڈیو سین کی طرح سامنے آتا ہے اور اپنی چھب
دکھا کر چلا جاتا ہے۔منظر آنکھوں میں دیر تک رہتا ہے ۔
محسنہ مختصر افسا نے کی ماہر ہیں۔قاری کی توجہ کی ڈور افسانے کے ہاتھ میں
ہوتی ہے اور وہ آخیر تک توجہ کو قائم رکھتا ہے۔برطانیہ میں رہنے والی
خواتین کے مشاہدے میں وسعت پاکستاں میں رہنے والی خواتین سے زیادہ ہے، مگر
اس ملک میں رہنے والی اکثر خواتین ادب میں جدید رویوں اور تحریکوں سے کٹی
ہوئی ہیں ان کے افسانوں میں آفاقی صداقتوں کا ادراک بھی نظر نہیں آتا
ہے،مگر محسنہ اس لحاظ سے نسبتاُُ باخبر خاتون ہیں۔برطانیہ میں رہنے والے
تارکینِ وطن کے بدلتے ہوئے سماجی و معاشرتی ڈھانچے کے اذ یتناک پہلووؤں سے
انکی کہانی کے کردار ابھرتے ہیں وہ مختصر افسانوں کے ذریعے اہم اور بڑے
المیوں کو وجود میں لاتی ہیں جہاں زر ا اور استحصٓالِ محنت نے رشتوں کا
تقدس پائیمال کیا ہے۔انکی تحریروں میں تہہ دا ری بھی ہے اور وہ موسم۔ فضا
اور تشبہات کے ذریعے کردار کی باطنی ٹوٹ پھوٹ سے قاری کو کردار کے دکھ اور
داخلی کیفیت سے آگا ہ کرتی ہیں ،افسانوں میں معانی اور مفا ہیم کی تہہ داری
ہے جنھیں وہ لفظوں کی تراکیب۔ تشبیہات اور موسموں کی شدت سے واضع
کرتی ہیں وہ کردار کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کو اسی طرح پیش کرتی ہیں انکی زبان
رواں ہے اورافسانے میں جزباتیت سے گریز کیا گیا ہے ۔اور معاشرہ کو معروضی
انداز میں دیکھا گیا ہے چونکہ محسنہ مختصر نویسی کی عادی ہیں اسلئے ناول
میں جو حقیقت میں ناولیٹ ہے انکا فن نکھر نہیں سکا ” میں دہشت گرد ہوں“
انھوں نے ایک بے حد اہم موضوع پہ قلم اٹھا یا ہے،اسکا کینویس بہت وسیع ہے
اسمیں بہت کچھ آسکتا تھا جیسے۔ ، دہشت گردی کی وجہ ۔سیاسی یبچینی ، معاشرتی
ناانصا فی ، نفسیاتی وجوہات، عالمی، صورتِ حال اجتماعی شعور۔تضادات۔مغربی
قو موں کی نو استعماریت۔ بےکاری، داخلی اور خارجی دونوں طرح کی بے اطمنانی
ا اور اندرونی و بیرونی تصادم کو شامل کر کے یہ ناول اپنے وقت کی ایک اہم
دستاویز بن سکتی تھی ۔ اور اسکی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ بھی ہوتا
معاشرتی تاریخ کی دستاویز کی حیثیت بھی ہو سکتی تھی۔ مگر محسنہ کی مختصر
نویسی کی عادت یہاں آڑے آگئی۔ا نکے افسانو ی مجموعے ہیں”عذابِ بے زبانی“
اور ”بکھرے لوگ “ محسنہ شاعری بھی کرتی ہیں اور بہت اچھی نظمیں کہتی ہیں۔
چاند کرن۔لندن کے ادبی حلقوں میں جانی پہچانی خاتون ہیں ۔ وہ لا ہور میں
پیدا ہوئیں اور پرائمری تک تعلیم وہیں حاصل کی پھر پاکستان بننے کے بعد
انڈیا چلی گئیں۔وہ بھی ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں شادی کے بعد یہاں آئی
تھیں ایک بچے کے بعد شادی ختم ہوگئی۔بڑی جدوجہد سے زندگی گزاری بی۔۔بی۔۔سی
کے۔ٹی ،وی پروگرام میں ایکٹینگ بھی کرتی رہیں، بیٹا جوان ہوکر سیٹ ہوگیا تو
وہ واپس انڈیا چلی گئیں شاعری ہندی اردو دونوں میں کرتی تھیں،افسانے بھی
لکھتی تھیں، سنا ہے انڈیا میں ایک افسانوی مجموعہ چھپا ہے، میری بد قسمتی
مجھ تک نہیں پہنچا وہ بھی سادہ حقیقت نگاری میں سادہ کہانیاں لکھتی تھیں۔
شاہدہ احمد۔۔کا تعلق لاہور سے ہے وہ ستر کی دہائی میں آئیں شاہدہ احمد کو
لکھنے کا شوق بھی تھا اور وہ لکھتی بھی رہیں لیکن اپنی تخلیقات کو کسی
رسالے میں چھپنے کے لئے نہیں بھیجا ۔یوں و ہ معاشرتی مسائل پہ اخباروں میں
لکھتی رہیں ،اسی کی دہائی تک وہ ڈرامہ نگار، تجزیہ نگار۔ صحافی اور افسانہ
کے علاوہ ایک ادبی انجمن ”سمن زار“ کی ناظم بھی رہ چکی تھیں۔اس حیثیت میں
انھوں نے ہم عصر خواتین سے ایک ایک افسانہ لے کر یک مجموعہ بھی چھپوایا۔
۱۹۸۸ تک انکی صحت تیزی سے گرنے لگی تو وہ۔پاکستان چلی گئیں وہاں بھی انھوں
نے معذوروں کے لئے ایک رسالہ آدرش نکالا۔ شاہدہ احمد کی پہلی کتاب آئی تو
پاکستان ا انڈیا کے ادبی حلقوں کے لئے انکا نا م نا ما نو س تھا یہ کتاب
”بھنور میں چراغ “ ہے دوسری کتاب” ہجرتوں کے بھنور“ہے انھوں نے کچھ ڈرامے
لکھے بھی ہیں اور سٹیج پہ پیش بھی کئے ہیں۔
شاہدہ نے لکھا عورت کے دکھ۔ ذلت بے انصافی ۔زیادتیوں اور ظلم نے مجھے قلم
اٹھانے پہ مجبور کیا ہے جہاں دکھ ہے وہاں میں ہوں۔“انکے افسانے،گھٹے ہوئے
ماحول،سماجی ومعاشرتی عوا مل کی چکی میں پستی ہوئی عورت کے پس منظر سے
ابھرتے ہیں جہا ں عو رت کو یہ احساس بھی نہیں رہ جاتا کہ وہ در اصل انسانیت
کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ ایک انسان کے پیدا کرنے کا کرب اٹھا کر
اٹھتی ہے اور اسے بچے کو دودھ پلانے کی اجازت بھی نہیں کہ اس میں وقت ضائع
ہوتا،کپاس کم اکٹھے ہوگی، مزدوری کم ملے گی۔ اور شوہر اسے جوتے لگا ئے گا
جو دن بھر پیڑ کے نیچے بیٹھ کر حقہ پینے کی عیا شی کرتا ہے۔مغرب میں فیمنزم
کی تحریک صرف افسانہ و افسوں نہیں ہے یہاں حقوق حاصل کئے گئے ہیں مگر مشرق
میں فیمنزم ۔ ڈرامہ بازی کے سوا کچھ نہیں ہے۔عور تیں زندہ دفن کر دی جاتی
ہیں ، کسی کو ان پہ آنسو بہانے کا بھی وقت نہیں۔
شاہدہ احمد ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں، مگر انکے بعض افسانے اپنی تھیم
کے لحاظ سے ترقی پسندوں سے بھی آگے ہیں ، و ہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہ
سہی حقیقت پسند ضرور ہیں ۔ شاہدہ کی اچھی بات یہ ہے کہ وہ نہ تو کرداروں کے
ساتھ ملکر مرثیہ پڑھتی ہیں، نہ سستی جزباتیت ہی بروئے کار لاتی ہیں، انکا
ٹھہرا ہوا لہجہ اور۔ معروضی انداز۔ الفاظ وطرزِ بیان کا زور پہ قاری کو جکڑ
لیتاہے، البتہ انکے ہاں مکالموں کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے، بیان طویل
ہوتا ہے۔اور کہانی الجھ جاتی ہے ۔کہیں کہیں نامانوس الفاظ افسانے کے فطری
بہاﺅ میں رکاوٹ پید اکرتے ہیں۔تشبیہات طرزِ تحریر کے حسن میں اضافہ کے لئے
استعما ل ہو تی ہیں یا زیرِ سطح پیغام کے لئے بھی استعمال ہوسکتی ہے۔شاہدہ
نے قدم قدم غیر ضروری تشبیہات و استعا رات کو استعمال کر کے۔ قاری اور
کہانی کے در میان رکاوٹ پیدا کردیتی ہیں۔ ادبی محفلوں میں میں نے ا نکے بعد
والے جو افسانے سنے وہ بہتر نظر آئے۔شاہدہ کی دوسری کتاب یقینی بہتر ہوگی
وہ ایک ذہین اور باشعور خاتون ہیں ، اور انکا فن رو بہ ترقی ہے۔خدا انھیں
ہمت اور صحت دے۔وہ ویسے بھی ایک باہمت خاتوں اور ایک مثالی شوہر کی بیوی۔
نجمہ عثمان۔۔۔نجمہ عثمان گزشتہ تیس برس سے شاعری کرہی ہیں مگر انکی شاعری
کسی ادبی پر چہ میں ۱۹۸۹ تک نظر نہیں آئی اسلئے پاکستان کے ادبی حلقے ان سے
بے خبر رہے ویسے بے خبر رہنا اردو کے نقادوں کی ادا ہے۔ جو شاعر ادبی پرچوں
میں چھپتے رہتے ہیں انکا بھی یہی حال ہے ۔ انکا بھی خال خال ہی ذکر ہوتا ہے
۔ سود وزیاں کو مد نظر رکھ کر تبصرہ لکھا جاتا ہے ۔ ایسے میں برطانیہ کے
لوگوں کو تو ویسے بھی ۔۔۔
نجمہ کی شاعری کی مختصر پہلی کتاب ۱۹۸۸ میں شائع ہوئی اور اس پہ تخلیق میں
تبصرہ بھی آیا تھا۔ البتہ راوی میں انکی شاعری پابندی سے چھپتی تھی،راوی سے
ہی انھوں نے نثر نگاری کی ابتدا کی، انکا پہلا افسانہclasification کے نام
سے راوی میں چھپا۔پھر پرواز لندن میں بھی لکھتی رہیں انکا ایک افسانہ۔
اوراق۔۔میں بھی چھپا۔نجمہ مزاجاُُ بے حد حساس اور زود رنج ہیں اور انکی
تحریروں میں یہی عنصر بہت نمایاں ہے ۔ انکی تحریریں افسانے کے
بجائے۔کہانیاں ہیں۔یا ترتیب سے لکھے واقعات اور ، یا خاکے ہیں۔وہ اپنی
تحریروں میںبےحد اضافی مو ضوعی رویہ رکھتی ہیں۔ اور ہر واقعہ ذاتیا ت کے
درد میں ڈوبا ہوتا ہے۔انکا کینویس محدود ہے وہ اپنے کرداروں کو جانتی اور
پہچانتی ہیں ۔معاشرتی عمرانی اور سماجی توڑ پھوڑ کی وجوہات اور انکے نتائج
کا تجزیہ نہیں کرتیں بلکہ کرداروں پہ اسکے اثرات کا ذکر کرتی ہیں۔اور
واقعات کی زمانی تر تیب کے مطابق اسکو بیان کردیتی ہیں سانحوں کے وجو
ہات۔اور۔ نتائج، کے تجربوں سے انھیں دلچسپی نہیں ہوتی۔ کرداروں کی باطنی
صورتِ حال اوراس کی نفسیاتی توجیہ بھی نہیں کرتیں، بلکہ صرف ۔غم اور حزن
وملال کے قریب رہی ہیںاسلئے اسکو حزنیہ لہجے میں بیان کر دیتی ہیں اس طرح۔
انکی تحریر کرب میں ڈوب کر ذاتی روئداد ہوجاتی ہے۔ اور با شعور قاری جو خا
رج میں ہوتا ہے اس احساس میں انکا شریک نہیں ہوپاتا ۔بیانیے ۔ غم کی
دستاویذ بن جاتے ہیں۔ذاتی غم کو کائناتی ہو نا ضروری ہے ۔ افسانے کی شرائط
ہیں ۔آغاز ،انجا م ،ابتلا ،کشمکش ، کتھارسس اور انجام۔ جو مرکزی خیال کے
ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوں، اسکے علاوہ۔ فرد اور معاشرہ کے تضادات کی کشمکش
بھی ہو، تحریر ذات اور کائنات کو ضم کر دے ۔ نجمہ کی کہانیوں میں المیوں کا
ذکر ہوتا ہے وجوہات، ونتائج سے بحث نہیں ملتی نہ سماجی زندگی کی تہیں
کھنگالی گئی ہیں ۔شعور او تلا زمہَ خیال کی رو کی جدید تیکنیک ،کہانی کو
افسانے کی منزل تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے۔ انھیں شخصی احساس۔ اور اجتماعی
سماجی شعور کے تانے بانے سے ایک فکری رویہ پیدا کرنا ہوگا۔۔اور داخل اور
خارج کو ہم آہنگ کر کے تلاش و تجسس کی نئی دنیا کا سرا غ لگانا اور ،نیا ّ
آہنگ تلاش کرنا ہے اس طرح وہ جلد افسانوں کی دنیا میں اہم مقام حا صل کرلیں
گی،فی الحال انکی اکثر تحریریں ۔ چونکہ موضوعی ہیں اسلئے خود نوشت،اور
صحافتی رنگ رکھتی ہیں اسکے علاوہ کہانیوں میں بعض دفعہ کرداروں کی حرکات
وسکنات و ا قدامات ناقابلِ یقین بھی معلوم ہوتی ہیں انھیں اس پہلو پہ توجہ
دینے کی ضرورت ہے۔۔۔کہانی میں استعاروں کنایوں سے دہرے معانی ڈھونڈنے کا
بھی انھیں دھیان رکھنا ہوگا۔ نجمہ کی زبان رواں اور اردو با محورہ ہے۔
پروین لا شا ری ۔۔۔۔پروین لا شاری کا تعلق ذرائع ابلاغ سے ہے وہ بچپن سے
ریڈیو پاکستان میں بچوں کے پروگرام کے لئے جاتی تھیں ساٹھ کی دہائی کے
اوائل میں بی اے کے بعد شادی ہوئی اور لندن آگئیں ۱۹۷۲۷۳ میں نے انھیں
بی۔بی۔سی۔میں دیکھا تھا ان دنوں میں بھی عارضی طور پہ وہاں کام کرہی تھی۔
وہ کئی پروگراموں میں تھیں کبھی کبھی ریکارڈنگ اکٹھے ہوتی ۔ تو ملاقات
ہوجاتی اگرچہ ہمارا پروگرا م بالکل مختلف تھا ۔۔۔تب وہ چھوٹے چھو ٹے
افسانچے پڑھتی تھیں۔جن میں کہانی ضرور ہوتی تھی اور وہ دلچسپ بھی ہوتے
تھے۔۔پانچ برس بعد جب میں جنوبی سمندر سے واپس آئی تو وہ ایک انجمن سجا چکی
تھیں۔ جسمیں مجھے انکے چند افسانے سننے کا اتفاق ہوا۔انکی زبان مزیدار،
مکالمے چست اور خود کلامیاں دلکش ہوتی تھیں۔لگتا تھا کہ وہ محنت سے افسانہ
لکھتی ہیں۔ غالباُُ وہ گھریلو ۔۔ وجوہات سے بہت کم لکھتی تھیں اور اکثر میں
نے انکا ایک ہی افسانہ کئی کئی ادبی محفلوں میں سنا،کراچی اور انڈیا کے کچھ
رسالوں میں انکے افسانے شائع بھی ہوئے ۔انکے دو افسانے مخزن میں پڑھے ایک
افسانہ افکار کے” برطانیہ میں اردو نمبر “ میں بھی پڑھا انھوں نے اپنے
افسانوں کی سی۔ ڈی بنوائی ہے اس کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ میری طرح کے صحتمند
قاری خود پڑھنا پسند کرتا ہے۔بچوں کے لئے فائدہ مند ہوسکتی تھی مگر انکی
دہلی کی با محاورہ، چٹپٹی زبان لندن کے بچے سمجھ ہی نہیں سکتے۔
میں ا ن دوچار افسانوں کی بنیا د پر جو کچھ ہو سکتا ہے تجزیہ کردوں گی کہ
شکایت نہ رہے۔مخزن میں انکے دو افسانے ۔ ”دو بول “ اور ” منتر“ ضرور پڑھے
ہوں گے نہ پڑھے ہوں تو پڑھے جا سکتے ہیں۔
برطانیہ میں لکھنے والی اکثر افسانہ نگار خواتین کی طرح پروین نے بھی
افسانے کی جدید تیکنیک استعمال نہیں کی، نہ کردار کا نفسیاتی جائزہ لیتی
ہیں۔ زیر بحث افسانہ دلچسپ ہے مگر خود کلامی کو مرکزی کردار کے باطنی کوائف
اور نفسیاتی الجھنوں کے اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا گیا افسانہ نگار ،کردار
کا صرف خار جی مشاہدہ کرتی ہے۔ لیکن کہانی کہنے کا ہنر انھیں آتا ہے اور
تیز طرار عصمت چغتائی کی اردو مزہ دیتی ہے اس افسانے میں انھونے کردار کی
زبان سے اس کے طبقے کی نمائیندہ دکھائی ہے ،اپنے طور پہ یہ بھی فن ہے۔
افسانے کی واحد متکلم ایک زندہ کردار ہے۔اسی طرح۔ انکا افسانہ منتر بھی
ہے۔اسمیں جہاں ا ٓج کے بدلتے ہوئے معاشرہ میں ا خلاقی انحطاط کی داستان
ہے۔وہاں بڑھاپے کی بےچارگی بھی ہے،جسے تہذ یبوں کے متضاد پس منظر یعنی دہلی
کی تہذیب ،مروتیں ،کنبہ پروری ،محبتیں،اور آج کی تہذیب کی بے مروتی۔خود
غرضی،اور اولاد کے وجود کی بے فیضی کا ستم کھل کر سامنے آیا ہے۔افسانہ
اکہرے پلاٹ کا ہے مگر دھیمی درد کی لہر۔ رونے پیٹنے کے بجائے ٹھہرا ہوا
انداز ، اور سادگی ہے فنکار کے اندرتجربے کی داخلی سچائی کے باوجود،فنکا ر
کا خارجی معروضی چلن ۔قابلِ تعریف ہے۔کہانی کہنے کافن قاری کے قدم روک لیتا
ہے،افسانہ نہ ہونے کے باوجود اس میں افسانوں کے کچھ اجزا ہیں جو نہ بھی ہو
تے توکہانی کی حیثیت سے بھی تحریر میں خوبی ہے۔ جیسے داستان۔
کوثر علی۔۔۔۔کوثرعلی کا تعلق معلمی کے باعزت پیشے سے ہے۔انکی بھی اردو کی
ایک کتاب اسی سال چھپی ہے ۔یہ کتاب ا ن کی گزشتہ چالیس برسو ں کی کاوش کا
نتیجہ ہے دوسری خواتین کے مقابلے میں کوثر علی نے ایک علیحدہ طرزِ اظہار
منتخب کیا ہے، انھوں نے ڈرامے لکھے ہیں جو انھوں نے ، اپنے اردو کے طلباء
کے لئے لکھے اور سٹیج کئے تھے۔ تاکہ بچے اردو سیکھیں ۔ تعلیم کے شعبے کی
طرف سے ایک مقابلہ منعقد کیا گیا تھا یہ مقابلہ Multilingual programme تھا
اور غیر ملکی زبا ن کے طلباو طالبات کے لئے تھا اس مقابلہ میں انھیںاور
انکے ٹین ایج طلباء کو پہلا انعام ملا اور انکی اردو تعلیم کی کا وشوں کو
سرا ہا گیا۔ اس سے میں ہر گز یہ ثابت نہیں کرنا چاہتی کہ کوثر علی۔ شیکسپیر
ہو گئی ہیں، صرف یہ بتا نا ہے کہ صنفِ اظہار کے دوسرے ذرائع کو بھی بروے
کار لایا جا رہا ہے۔ اور کوثر نے ڈرامے کو مسائل کے اظہار کا ذریعہ بنایا
ہے مجموعے کا نام ہے ” آئینہِ حیات ۔“
کتاب کے نام سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی اور مشرقی ماحول سے تصادم اور
انکے ٹوٹنے کے المئے سے کون سے نئے مسائل سا منے آئے ہیں ۔
امیر زہرا رضوی۔۔۔وہ بھی لندن میں ہی رہتی ہیںاور تحقیقی مضامین اور افسانے
لکھتی ہیں انکے مضامین جنگ، اردو ٹائمز ،رسالوں وغیرہ میں چھپتے رہے
ہیں۔ایک سفر نامہ۔”ذکرِ شا م “ کے نام سے شائع ہوا ہے کتاب مجھے پڑھنے کو
مل نہیں سکی۔یک خاتون شمسہ مسعود بھی ہیں۔وہ خواتین ڈائیجسٹ میں لکھتی رہی
ہیں، اسی انداز کے ناولٹ لکھتی ہیں۔جیسے خواتیں دائیجسٹ والے چھاپتے ہیں۔
سعیدہ شریف۔بھی نثری نظم نثرِ لطیف وغیرہ لکھتی تھیں گزشتہ ایک قرن سے وہ
بوزنیہ میں رہ رہی ہیں ، اور اردو کے ساتھ ہم سبھی سے ناطہ ٹوٹ چکا ۔قیصر
تمکین کی بیگم صبیحہ علوی بھی افسانے لکھتی ہیں مگر مجھے پڑھنے کا اتفاق
نہیں ہوا ۔ اسی طرح جمشید مرزا کی بیگم، شوکت برجیس قدر نے بھی افسانے
لکھنے کا آغاز کیا ہے۔ ابھی تک وہ صرف شاعری کرتی تھیں۔۔اجنوبی
انگلستان۔۔میں کچھ اور خواتین نثر میں اظہارِ خیال کر ہی ہیں مگر انکی
تحریروں کی کوئی واضع شکل نہیں ہے نہ صنف کی نہ معیار کی ۔اور یقینی یہ
خواتین بھی پاکستان میں پیدا ہوئی ہیں اور وہیں تعلیم حاصل کی ہے۔انکے
اسمائے گرامی ہیں۔ فرخندہ رضوی ۔۔ مسرت جبیں۔۔ نرگس جمال منزہ شاہ ۔جو
’ساحل‘ ‘اور دوسرے مقامی اخباروں میں لکھتی ہیں گیا۔
شمالی بر طا نیہ کی افسانہ نگار۔میں صرف ان خواتین کا ہی ذکر کروں گی جو
۱۹۶۰ کی دہائی میں شادی ہوکر آ ئیں اور زندگی کی جدو جہد کے باوجود اپنا
رشتہ قلم سے باقی رکھا ہے۔
طلعت سلیم ۔۔۔انھوں نے اپنی اد بی زندگی کی ابتدا پاکستان میں کی پہلے بچوں
کے رسالوں میں لکھتی تھیں برطانیہ آکر نعتیں لکھنے لگیں ان کے ایک نعتیہ
مجموعہ ۱۹۹۰میں چھپ چکا ہے ، یا نبی،یانبی، یا نبی اسکا نام ہے۔غزلیں اور
نظمیں بھی کہتی ہیں (۸) تاہم شاعری چونکہ میرا مضمون نہیں اسلئے میں انکے
افسانوں کا ہی ذکر کروں گی۔انکے افسانوں کا کوئی مجموعہ نہیں چھپا، لیکن ا
ن کے افسانے جرائد اور اخباروں میں پڑھے ہیں ، جن کا معیار اچھا ہے اور
محسوس ہوتا ہے کہ وہ کہانی کہنا جانتی ہیں۔مخزن میں بھی ایک افسانہ پڑھا
تھا۔ اچھا تھا۔
رضیہ اسماعیل ۔۔۔ انکی شخصیت ہشت پہل ہے،ان کے مذاحیہ مضامین کا مجموعہ
”چاند میں چڑیلیں“ شائع ہوچکا ہے۔۔ و ہ تحقیق وتجزیہ بھی کرتی ہیں، اور بہت
سے رضاکارانہ کام میں بھی مصروف ہیں ۔ انکی کئی غیر افسانوی کتابیں زیرِ
تالیف ہیں،گھروں میںتشدداور انکے تباہ کن اثرات پہ انھوں نے اپنا پی،ایچ
،ڈی کا مقالہ لکھا ہے۔وہ ۔ جو ماہیا نگاری بھی کر تی ہیں ۔۔خواتین کے مسائل
سے باخبر، اور عملی کام کرنے والی خاتون ہیں۔ مجھے انکی کتاب نہیں مل سکی۔
ستارہ لطیف خانم۔۔۔ستارہ لطیف خانم کالج کے زمانے سے اد ب لکھنے پڑھنے میں
مصروف تھیں، شادی کے بعد برطانیہ ساٹھ کی دہائی میں آئیں وہ وقتاّ فوقتاّ
افسانے لکھتی رہیں بچوں کی تربیت میں مصروفیت کے باعث مجموعہ چھپوانے پہ
توجہ نہیں دی نوے کی دہائی میں انکی صحت خراب رہنے لگی غالباّّ ڈپر یشن کی
شکایت تھی اور اس سے نجات ملنے میں وقت لگتا ہے۔انکو خوش کرنے اور طبیعت
بحال کرنے کے لئے۔ انکے شوہر نے انکا افسانوی مجموعہ چھپوا یا تھا جسکا
یقینی خاطر خواہ ا ثر ہوا ہوگا ، مجھے انکے شوہر سے شکریہ کہنے کو دل چاہتا
ہے جنھوں نے نسائی قبیلہ کی ایک فرد کی قدر دانی کی۔ مجموعہ کافی مقبول ہوا
اور جلد ہی ختم ہوگیا ،اس پہ محمود ہاشمی نے بہت اچھا تبصر ہ لکھا تھا میں
نے انکے افسانے مخزن میں پڑھے ہیںمیں اتنا ضرور کہ سکتی ہوں کہ وہ قاعدے کے
افسانے تھے۔
سعدیہ سیٹھی۔۔۔ کا ایک شعری مجموعہ آچکا ہے ۔ انکی غزلیں میں نے ادبی
رسالوں میں بھی پڑھی ہیں ، اور انھوں نے ا مجھے اپنا شعری مجموعہ بھی بھیجا
تھا میں اسوقت کل وقتی ملازمت کی وجہ سے بہت مصروف تھی، پھر چھوٹے بیٹے کے
یونورسٹی میں داخلے کی بھاگ دوڑ میں تھی۔ شکریہ کا فون کر دیا تھا کچھ لکھ
نہ سکی تھی ۔ اپنے انگریزی کے مضمون ”برطا نیہ کی اردو شا اعرات “ میں میں
نے خصوصیت سے انکا ذکر کیا تھا۔ بحرحال۔ اب انکا ایک افسانوی مجموعہ”رشتوں
کے بھنور“ کے نام سے آیا ہے۔چونکہ میں نے پڑھا نہیں نہ اسکے علاوہ کوئی
افسانی پڑھا ہے اس لئے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں، ذکر کرنا میر ا اخلاقی
اور ادبی فرض تھا سو ذکر کردیا۔
آ خر میں میں پھر کہنا چاہوں گی،کہ اہم یہ نہیں ہوتا کہ فن پارہ کے بارہ
میں کیا کہا گیا ہے ؟ بلکہ اہم یہ ہے کون کہہ رہا ہے۔؟اور میں نے جو کچھ
کہا وہ ما ہرین کے دئے گئے اصولوں کے مطابق کہا اور انھیں کی روشنی میں
تجزیہ کیا جس طرح ادیب کا مقصد کسی کو خوش کرنا ہے نہ ناراض کرنا ہے۔ اسی
طرح تجزیہ نگار کا کام بھی فنی اصولوں کے مطابق ادب پارہ کے معیا ر کو
پرکھنا ہے۔مضمون کے شروع میں ان اصولوں اور ادبی معیار کا کا خاکہ میں نے
دے دیا ہے۔ |