بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ہر طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہی سزاوار ہیں جس نے یہ سب کائناتیں
صرف چھ۶ دن میں بنائیں اور اس عظیم ذات کو زرہ سی بھی تھکن نہ ہوئی،تیری
حمد ہو اتنی جتنے درختوں کے پتے ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے دن اور راتیں
ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے سب کائناتوں میں موجود ذرات ہیں، اور اللہ کی
رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پر آپ کی آل رضی اللہ عنہم
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر۔
نبی اکرم علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے بلا شبہ ہزاروں پہلو ہیں اور بنی نوع
انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے اعتبار سے ہر پہلو دوسرے پر سبقت لے جانے
والا ہے۔
نبوت سے پہلے بھی آپ ؑ یقیناً لوگوں کے لیے سرتا سر رحمت تھے مکہ میں صادق
اور امین کے لقب سے مشہور ہونا اس بات کی دلیل ہے۔پہلی وحی کے بعد جب رسول
اکرم ﷺ خوف کی حالت میں گھر تشریف لائے تو اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو
تسلی دیتے ہوئے فرمایا اللہ آپ ﷺ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا آپﷺ صلہ رحمی
کرتے ہیں،مصیبت زدہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں،بے سہاروں کا سہارا بنتے
ہیں،مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق والوں کو حق دلاتے ہیں۔
اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یہ گواہی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ نبوت سے
پہلے بھی آپ ﷺ لوگوں کے لیے سرتا سر رحمت تھے۔
منصبِ رسالت پر فائز ہونے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے اپنی اُمت تک دین پہنچانے
کے لیے جس صبر و تحمل، عفو و درگزر اور شفقت و رحمت کا طرز عمل اختیار
فرمایا وہ آپﷺ کی سیرت طیبہ کا ایک ایسا عظیم الشان پہلوہے جس کی رفعتوں
اور بلندیوں کا ادراک کرنا کسی انسان کی بس کی بات نہیں ہے۔
غور فرمایئے کہ چالیس سال کے بعد اللہ نے آپﷺ کو منصبِ نبوت سے سرفراز
فرمایا،عمر کا یہ وہ حصہ ہوتا ہے جس میں ہر انسان اپنی عزت اور احترام کے
معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے چالیس سال تک صادق اور امین کہلانے کے بعد جب
آپ ﷺ کو لوگ جھوٹا،مجنوں،شاعر،کاہن،اور جادوگر کہتے ہوں گے تو آپ ﷺ کے دل
پر کیا گزرتی ہوگی؟ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آپﷺ ان گالیوں اور طعنوں کے جواب
میں کبھی بھی ایک غلط لفظ تک زبان سے نہیں نکالا۔
تین سال تک خفیہ دعوت کے بعد آپﷺ نے علانیہ دعوت کا علان فرمایا تو رسول
اکرمﷺ نے تمام قبائل کو جمع فرما کر توحید کی دعوت پیش کی، آپﷺ کے چچا
ابولہب نے آپﷺ کی سخت توہین کی اور یہ کہہ کر ڈانٹ دیا تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں
کیا تو نے ہم کو اس لیے جمع کیا ہے‘‘‘آپ ﷺ نے چچا کے اس ہتک آمیز رویہ پر
مکمل خاموشی اختیار فرمائی لیکن قرآن میں اللہ نے اس کا جواب دیا’’’ تَبَّتْ
يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ Ǻۭابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود)
ہلاک ہوگیا ‘‘‘ کہہ کر دے دیا۔
امیہ بن خلف آپﷺ کو دیکھتے ہی گالیاں بکنا شروع کر دیتا تھا اور لعن طعن
کرتا تھا لیکن آپﷺ نے اس کے جواب میں ہمیشہ خاموشی اختیار کی حتیٰ کہ اللہ
نے قرآن مجید میں اس کا جواب دیا’’’وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ
Ǻۙ بڑی خرابی (اور تباہی) ہے ہر ایسے شخص کے لیے جو خوگر (و عادی) ہو منہ
در منہ طعن (و تشنیع) کا اور پیٹھ پیچھے عیب لگانے کا۔
جب رسول اکرم ﷺ کے صاحبزادے عبداللہ فوت ہوئے تو ابولہب،عاص بن
وائل،ابوجاہل وغیرہ نے آپﷺ کو ـ’’’جڑ کٹا‘‘‘ہونے کا طعنہ دیا لیکن آپ ﷺ نے
اس کا کوئی جواب نہ دیا اللہ نے قرآن میں اس کا جواب یوں دیا،’’’اِنَّ
شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ Ǽ یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بے نام و
نشان ہے ۔
مکی زندگی کے ۱۳ سال اسی طرح کی مشکلات میں گزرے ہر کوئی اہلِ اسلام کو
پریشان کرنے کا طریقہ سوچتا رہتا کوئی موقعہ ہاتھ سے خالی نہیں جانے دیتے
تھے مکی زندگی میں اور بھی بہت سی مشکلات کا سامنا تھا مگر یہاں صرف وہ
واقعات پیش کرنے ہیں جس میں نبی علیہ السلام کی ناموس کو نشانہ بنایا گیا۔
تاریخ کے صفحات میں جہاں کفار کے گھناؤنے جرائم اور ظلم و ستم کی داستانیں
محفوظ ہیں وہاں یہ خیرت انگیز حقیقت بھی محفوظ ہے کہ آپﷺ نے ان مظالم سے
تنگ آ کر اپنی ناراضگی کا اظہار کتنی دفعہ فرمایا اور کن الفاظ میں فرمایا؟
تیرا ۱۳ سالہ طویل مکی زندگی میں صرف تین یا چار مواقع ایسے ملتے ہیں جب
رسول اکرمﷺ نے کفار کے ظلم و جور سے تنگ آ کر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا،
حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی ناراضی کا اظہار بھی آپﷺ کے کریمانہ اور شریفانہ
اخلاق کا اعلیٰ ترین مظہر ہے۔
پہلا واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے ہمسائے میں ابولہب،عقبہ بن ابی معیط وغیرہ
رہتے تھے جو شب و روز آپﷺ کے گھر غلاظت اور گندگی پھینک کر آپ ﷺ کو اذیت
پہنچاتے تھے جب آپﷺ زیادہ پریشان ہوتے تو دیوار پر چڑھ کر یا دروازے پر
کھڑے ہو کر بس اتنا فرماتے’’’’’اے بنو عبد مناف یہ کیسی ہمسائیگی ہے؟‘‘‘‘‘
یہ تھا آپﷺ کا ردِعمل اس تکلیف اور اذیت ناک بدتمیزی پر۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ مسجد حرام میں آپﷺ نماز پڑھ رہے تھے، ائمہ کفر نے
مشورہ کر کے سجدے کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی آپﷺ کی کمر پر رکھ دی اور خود
کھڑے ہو کر قہقہے لگانے لگے حتیٰ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع ملی
اور انہوں نے آکر اوجھڑی ہٹائی اس وقت آپ ﷺ نے تین بار فرمایا ’’اللھم علیک
بقریش‘‘ یعنی ’’’یا اللہ تو قریش سے نپٹ لے‘‘‘ مشرکینِ مکہ کے ظالمانہ اور
استہزایہ کرتوتوں پر یہ آپﷺ کا دوسرا ردِعمل تھا۔
تیسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک بار دورانِ طواف مشرکین نے آپﷺ کو لعن طعن کی اور
ڈانٹا تو آپﷺ نے یہ جواب دیا’’’’’میں تمہارے پاس ذبح کا حکم لے کر آیا ہوں‘‘‘‘اس
پر سارے مشرکین ساکت ہو کر رہ گئے۔
مصائب و مشکلات سے پُر آپ ﷺ کی تیرہ سالہ طویل مکی زندگی میں آپﷺکی زبان
مبارک سے نکلے ہوئے یہ ہیں سخت سے سخت الفاظ جو ہمیں تاریخ سے ملتے ہیں جس
میں کسی کو گالی دی نہ لعن طعن کیا،کسی سے بدتمیزی کی نہ کسی کا مذاق
اڑایا،کسی سے لڑائی جھگڑا مول لیا نہ کسی سے بحث کی، بلکہ انتہائی شائستہ
اور مہذب الفاظ میں معاملہ اللہ کے سپرد کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ آپﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ تسلیم کیئے بغیر چارہ
نہیں کہ آپﷺ اپنے اخلاق اور کردار کے اعتبار سے بالکل ویسے ہی تھے جیسا کہ
اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا’’’اے محمدﷺبےشک آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر
فائز ہیں‘‘‘سورۃ القلم آیت نمبر۴۔
اخلاق کا ایسا عظیم مرتبہ جس پر اس کائنات کا کوئی دوسرا انسان فائز ہے نہ
ہو سکتا ہے۔
یہ سب حالات تھے مکہ کے مدینہ میں جب ہجرت ہو گئی اور درالسلام بن گیا تو
اللہ نے جہاد اور قتال کا حکم نازل فرمایا مکہ میں صبر کرنے کا حکم ہم کو
ملتا ہے آلِ یاسر رضی اللہ عنہم پر جو ظلم ہوئے اس پر بھی صرف صبر کا حکم
آیا اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا کہ مسلمان ڈرتے تھے نہیں بلکہ اللہ کی اس
میں کوئی حکمت تھی جو ہر معاملے پر صبر کرنے کو کہا گیا۔
اب وہ آیات دیکھیں جس میں صبر کا حکم دیا گیا ہے۔
اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو
انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی
گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچی اور اللہ کی باتوں کا کوئی بدلنے
والا نہیں ، اور آپ کے پاس بعض پیغمبروں کی بعض خبریں پہنچ چکی ہیں ۔
سورۃ الانعام آیت نمبر۳۴۔
موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ تعالٰی کا سہارا حاصل کرو
اور صبر کرو، یہ زمین اللہ تعالٰی کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے وہ
مالک بنا دے اور آخر کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں ۔
سورۃ الاعراف آیت نمبر ۱۲۸
اور ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے اس سرزمین کے پورب
پچھم کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی اور آپ کے رب کا نیک وعدہ بنی
اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا اور ہم نے فرعون کے اور
اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں
بنواتے تھے سب کو درہم برہم کر دیا ۔
سورۃ الاعراف نمبر ۱۳۷
ان آیات میں پہلے رسولوں کا ذکر کر کے ان کے صبر کا بتایا گیا ہےاور ان کے
صبر کی ہی برکت سے اللہ نے ان کو کفار پر غالب کر دیا۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جب مسلمان کمزور ہوں تو صبر اور استقامت سے کام لینا
چاہیے۔ صبر کفار کے ظلم پر اور استقامت اپنے دین پر قائم رہ کر۔
مدنی زندگی۔
ایک واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ۔۔۔۔۔۔
محمد بن یحیی بن فارس، حکم بن نافع، شعیب، زہری، عبدالرحمن بن عبد اللہ بن
کعب بن مالک، حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ وہ ان تین اشخاص میں سے ایک
ہیں جن کا گناہ (غزوہ تبوک) میں معاف ہوا تھا۔ اور کعب بن اشرف ایک یہودی
تھا جو (اپنے اشعار میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت کیا
کرتا تھا اور کفار قریش کو آپ کے خلاف بھڑکاتا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم (ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو یہاں مختلف مذاہب کے لوگ
تھے جن میں مسلمان بھی تھے۔ بت پرست مشرکین بھی اور یہودی بھی جو (اپنے
اشعار اور کلام کے ذریعہ) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو
ایذا پہنچاتے تھے اس پر اللہ تعالٰی نے مکہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو صبر اور درگزر کا حکم فرمایا آیت نازل ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے
تم ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اس موقعہ پر اگر
تم صبر کرو اور تقوی اختیار تو بیشک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔
پس جب کعب بن اشرف نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچانے سے باز نہ
آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ کو حکم
فرمایا کہ وہ اس کو قتل کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجیں پس انھوں نے محمد
بن مسلمہ کو بھیجا۔ اور راوی نے اس کے قتل کا قصہ ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب
انھوں نے کعب بن اشرف کو قتل کر ڈالا تو یہودی اور مشرکین سب خائف ہو گئے
اور یہ سب لوگ صبح کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور
بولے چند لوگوں نے ہمارے سردار کو قتل کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے اس کی وہ باتیں ان کے سامنے نقل کیں جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی مذمت میں کہا کرتا تھا اس کے بعد آپ نے ان سے فرمایا اب ہمارے
اور تمہارے درمیان ایک قرارداد لکھی جانی چاہئیے جس پر دونوں فریق رک جائیں
(اور اس سے تجاوز نہ کریں) پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے
ان کے اور تمام مسلمانوں کے درمیان ایک قرارداد لکھی۔
سنن ابوداؤد:جلد دوم: باب : مدینہ سے یہودیوں کااخراج
دوسرا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ۔۔۔۔۔۔
احمد بن عثمان، شریح بن مسلمہ، ابراہیم بن یوسف اپنے والد یوسف بن اسحاق سے
روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت براء بن عازب کو کہتے ہوئے
سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع کے مارنے کے لئے عبد اللہ بن
عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کئی
آدمیوں کو روانہ فرمایا یہ لوگ جب اس قلعہ کے قریب پہنچے تو ابن عتیک نے
ساتھیوں سے کہا کہ تم سب یہیں ٹھہرو میں جا کر موقعہ دیکھتا ہوں ابن عتیک
کہتے ہیں کہ میں گیا اور دربان کو ملنے کی تدبیر کر رہا تھا کہ اتنے میں
قلعہ والوں کا گدھا گم ہوگیا اور وہ اسے روشنی لے کر تلاش کرنے نکلے میں
ڈرا کہ کہیں مجھ کو پہچان نہ لیں لہٰذا میں نے اپنا سر چھپا لیا اور اس طرح
بیٹھ گیا جس طرح کوئی رفع حاجت کے لئے بیٹھتا ہے اتنے میں دربان نے آواز دی
کہ دروازہ بند ہوتا ہے جو اندر آنا چاہے آجائے چناچہ میں جلدی سے اندر داخل
ہوگیا اور گدھوں کے باندھنے کی جگہ چھپ گیا قلعہ والوں نے ابورافع کے ساتھ
کھانا کھایا اور پھر کچھ رات گئے تک باتیں کرتے رہے جب سب چلے گئے اور ہر
طرف سناٹا چھا گیا میں نکلا اور دربان نے جہاں دروازہ کی چابی رکھی تھی
اٹھالی اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا تاکہ آسانی سے بھاگ سکوں اس کے بعد میں
قلعہ میں جو مکانات تھے ان کے پاس گیا اور باہر سے سب کی زنجیر لگا دی اس
کے بعد میں ابورافع کی سیڑھیوں پر چڑھا کیا دیکھتا ہوں کہ کمرے میں اندھیرا
ہے مجھے اس کا مقام معلوم نہ ہو سکا آخر میں نے ابورافع کہہ کر پکارا اس نے
پوچھا کون ہے؟ میں نے بڑھ کر آواز پر تلوار کا ہاتھ مارا وہ چیخا مگر وار
اوچھا پڑا میں تھوڑی دیر ٹھہر کر قریب گیا اور دریافت کیا کہ اے ابورافع
کیا بات ہے! اس نے سمجھا کہ شاید میرا کوئی آدمی میری مدد کو آیا ہے اس لئے
اس نے کہا: ارے تیری ماں مرے کسی نے میرے اوپر تلوار سے وار کیا ہے۔ یہ
سنتے ہی میں نے پھر وار کیا مگر ہلکا لگا اس کی بیوی بھاگی اور وہ چیخا میں
نے پھر آواز بدل دی اور مددگار کی حیثیت سے اس کے قریب گیا وہ چت پڑا تھا
میں نے تلوار پیٹ پر رکھ کر زور سے دبا دی اب ہڈیاں کوکھنے کی آواز میں نے
سنی اب میں اس کا کام تمام کرکے ڈرتا ہوا گھبراہٹ میں چاہتا تھا کہ نیچے
اتروں مگر جلدی میں گر پڑا اور پاؤں کا جوڑ نکل گیا میں نے پیر کو کپڑے سے
باندھ لیا اور پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے ساتھیوں سے آکر کہا کہ تم سب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے قتل کی خبر سناؤ میں اس کی موت کی
یقینی خبر سننے تک یہیں رہتا ہوں آخر صبح کے قریب ایک شخص نے دیوار پر چڑھ
کر کہا کہ لوگو! میں ابورافع کی موت کی خبر سناتا ہوں ابن عتیک کہتے ہیں کہ
میں چلنے کے لئے اٹھا مگر خوشی کی وجہ سے کوئی تکلیف محسوس نہیں کی میں
تیزی سے چلا اور ساتھیوں کے رسول خدا کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ان کو پکڑ
لیا اور پھر خود ہی آپ کو یہ خوشخبری سنائی آپ نے پنڈلی پر ہاتھ پھیرا اور
میں بالکل تندرست ہوگیا۔
کتاب صحیح بخاری جلد 2
محمد بن علاء، زید بن خباب، عمرو بن عثمان بن عبدالرحمن، حضرت سعید بن
یربوع مخزومی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے
دن فرمایا تین ایسے شخص ہیں جن کو میں امان نہیں دیتا نہ حل میں اور نہ حرم
میں اس کے بعد آپ نے ان تینوں افراد کے نام لئے۔ راوی کا بیان ہے کہ ان تین
میں مقیس بن ضباعی کی دوباندیاں بھی تھیں (یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی شان میں گستاخانہ کلام پڑھا کرتی تھیں) ان میں سے ایک قتل کی گئی اور
ایک بھاگ گئی اور بعد میں مسلمان ہوگئی۔
سنن ابوداؤد:جلد دوم:
جب ہم مکی اور مدنی زندگی کا موازنہ کرتے ہیں تو ہم کو محکومی اور آزادی کا
فرق پتا چلتا ہے مکہ میں صرف صبر کا حکم ملتا ہے جب اسلامی حکومت بن جاتی
ہے تو جو کوئی بھی ایسی گھٹیا حرکت کرتا ہے تو اُس کا جواب اس کی حرکت کے
مطابق دے دیا جاتا ہے۔
میں نے ایک چیز نوٹ کی ہے کہ جب بھی کبھی مسلمان کمزور ہوئے تو ہی کفار نے
ایسے گندے ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں کیونکہ جب مدینہ میں مسلمان مضبوط ہو گے
تو ایسے واقعات ہم کو کہیں نہیں ملتے, اب بھی اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو
وجہ ہماری کمزوری ہے اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم متحد
نہیں ہیں اور دوسرا پوری دنیا میں کہیں بھی اسلامی خلافت کا نظام موجود
نہیں ہے ایک حدیث میں امام)خلیفہ( کو پوری امت کا سر)ہیڈ( کہا اور دوسری
حدیث میں پوری اُمت کو ایک جسم کی مانند کہا گیا ہے کہ جس کا سر امام)خلیفہ(
ہوتا ہے اب آپ ہی بتائیں اگر جسم سے سر کو علیحدہ کر دیا جائے تو کیا جسم
مردہ نہیں ہو جاتا اس کے بعد پورے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو وہ اپنا دفاع
نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں جان ہی نہیں ہے، آپ خود نوٹ کر سکتے ہیں کہ اس
وقت پوری امت ایک مردہ جسم کی مانند نہیں ہے کیا؟؟؟
ایک گٹیا انسان اُٹھ کر ہماری جان نبی علیہا لسلام کی شان میں گستاخیاں
کرتا ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے سوائے احتجاج سے، کیا کبھی احتجاج
سے دشمن کو ختم کیا جا سکا ہے؟ یا نبی علیہ السلام نے مشرکین مکہ کے ظلم کے
خلاف کوئی احتجاجی جلوس نکالا تھا؟
ایک اور حدیث میں امام)خلیفہ( کو مجاہدین کی ڈھال کہا کہ مجاھدین اس کے
پیچھے ہو کر کفار سے جہاد کرتے ہیں، جب ڈھال ہی نہ ہو تو کیا ہم اپنا دفاع
کر سکیں گیں؟؟؟
اس وقت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ۵۶ اسلامی ممالک کی حکومتیں ہیں اور خلیفہ
نہیں ہیں بلکہ اسلام میں ایک وقت میں صرف ایک ہی خلیفہ ہوتا ہے جو مسلمانوں
کی امارت کرتا ہے اگر اسلامی مملکت پوری دنیا میں بھی کیوں نہ پھیل جائے تو
بھی خلیفہ ایک ہی رہے گا۔
اور جو آجکل ۵۶ ممالک کے حکمران ہیں وہ کسی نہ کسی طرح یہود اور نصاریٰ کے
ایجنٹ ہیں کہ یہ ان کے آگے کس منہ سے احتجاج کریں یا اس طرح کے بیہودہ
الفاظ اور الزامات لگانے والوں کے خلاف کوئی گوریلہ کاروائی کروائیں
حالانکہ مسلمانوں کے پاس کروڑوں کی تعداد میں فوج موجود ہے مگر وہ چند ایک
بدزبانوں کی زبان کاٹنے کی ہمت نہیں رکھتی وجہ یہی ہے کہ ان ایجنٹوں میں وہ
دینی غیرت نہیں ہے جو کہ ایک مسلم کی پہچان ہوتی ہے۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔۔
(ان سے) کہو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور
تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں
اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور
تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو
اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو،
یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم، اور اللہ نور ہدایت سے نہیں نوازتا بدکار
لوگوں کو، سورۃ التوبہ آیت نمبر ۲۴
نبی علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔۔
انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک
اس کے والد اور اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
صحیح بخاری جلد 1: کتاب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھنا
ایمان کا ایک جزو ہے
صحیح مسلم جلد 1 :
سنن نسائی جلد 3:
سنن ابن ماجہ جلد 1:
مراد اس سے یہ بھی ہے کہ جس طرح ہم اپنے والدین اور اپنی اولاد کی عزت کا
دفاع کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے اسی طرح ہم
مومن نہیں بن سکتے جب تک ہم نبی علیہ السلام کی عزت کا بھی دفاع نہ کریں،
کہ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا تھا حدیث اوپر گزر گئی ہے۔
مگر افسوس اس وقت ہم نبی علیہ السلام کی عزت کا دفاع نہیں کر پا رہے وجہ یہ
نہیں کہ ہم میں ایمان کی کمی ہے بلکہ جو اس طرح کی گٹیا حرکتیں کرتے ہیں وہ
ہماری پہنچ سے دور ہیں اگر وہ ہمارے سامنے ایسی حرکت کر کے اپنی جان بچا
جائے تو پھر ہم مومن ہرگز نہیں ہیں، مگر ہمارے حکمرانوں کے پاس ہر طرح کے
وسائل ہونے کے باوجود ان ظالموں کے خلاف قدم نہ اُٹھانہ ایمان کی کمی نہیں
تو اور کیا ہے؟
یہود اور نصاریٰ اپنے اس گٹیا پن کو آزادی رائے یا آزادی تحریر کا نام دے
کر اپنا دامن پاک رکھنا چاہتے ہیں جب کبھی کوئی ان نام نہاد مہذب لوگوں سے
اعتراض کرتا ہے کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی
ہے ان کے جذبات مجروع ہوتے ہیں آپ ایسی باتیں لکھنے اور نازیبہ الفاظ اسلام
کے خلاف اخبارات میں لکھنے پر پابندی لگائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک
میں آزادی تحریر ہے جو کوئی مرضی لکھے۔
وہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اپنے خود ساختہ اصول
آزادی تحریر سے کرتے ہیں مگر جب کوئی بندہ یہود کے خلاف یا کسی پادری کے
خلاف اپنی رائے کا اظہار کرے تو اُس پر پابندی عائد کردی جاتی ہے یہ آزادی
رائے وہ صرف مسلمانوں کے دین ان کے نبیﷺ اور قرآن کے خلاف ہی استعمال کرتے
ہیں اور اسی کو آزادی رائے کہتے ہیں۔
میں وہ باتیں لکھنے کی ہمت نہیں رکھتا جو یہ کفار نبی صلی اللہ علیہ وسلم
اور دینِ اسلام کے خلاف لکھتے ہیں اور یہ ایک دو واقعات نہیں ہیں بہت زیادہ
ہیں تقریبا پورے یورپ میں نازیبہ خاکے اخبارات میں بنائے گے ہیں اور ابھی
حال میں یہود کی ویب سائٹ فیس بک پر بقائیدہ مقابلہ کروایا گیا ہے، ہمارے
حکمران اتنے بزدل اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ ہیں کہ صرف چند دن ہی فیس بک
بلاک کی گئی جب ان حکمرانوں کے باس(BOOS)نے حکم دیا کہ اس سائٹ کو کھول دیا
جائے تو اُسی وقت اسلام کے ابدی دشمنوں کی بات مان کر فیس بک کو بحال کر
دیا گیا حالانکہ جو رائے شماری نیٹ پر کی گئی تھی اُس میں ۷۰ فیصد
پاکستانیوں نے اس سائٹ کو ہمیشہ کے لیے بلاک کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
اب میں وہ واقعات لکھتا ہوں جس میں یہود اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا
تو ان پر پابندی لگی یا اس کو معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔
نمبر1- ۲۰۰۴ میں ڈنمارک کے اسی اخبار کہ جس میں نبیﷺ کے خاکے شائع کیے گئے
تھے )میلنڈزپوسٹن( میں کوکرسٹوفرزیلر کارٹونسٹ نے عیسیٰ علیہ السلام کے
بارے میں کارٹون شائع کرنے کے لیے دیے گئے لیکن اخبار کی انتظامیہ نے یہ
کہہ کر کارٹون شائع کرنے انکار کر دیا کہ ان کارٹونوں سے عیسائیوں کے جذبات
مجروع ہونے کا خدشہ ہے۔
نمبر 2-۔ یورپی ممالک میں یہودیوں کے جرمنی میں قتلِ عام کی خودساختہ تاریخ
کے خلاف کوئی بات تحریر کرنا قانونا جرم ہے تاکہ یہودیوں کے جذبات مجروع نہ
ہوں، یہودی مقتولین کی تعداد ۵۰ لاکھ سے کم تحریر کرنے پر ۲۰ سال قید کی
سزا ہے۔
نمبر 3- اسرائیل نے جب لبنان پر جارحانہ حملہ کیا تھا تو امریکی وزیرخارجہ
کنڈولیزارائس نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا اور کہا کہ اب نیا مشرق وسطیٰ
)یعنی گریٹراسرائیل(جنم لے رہا ہے۔اس پر ایک فلسطینی اخبار نے رائس کا ایک
کارٹون شائع کیا جس میں اسے اس طرح حاملہ دکھایا کہ اس کے پیٹ میں مسلح
بندرہے، نیچے لکھا ہوا ہے’’نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش‘‘ اس کارٹون پر امریکی
محکمہ خارجہ کے ترجمان نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ
گھناؤنے حملے ہیں۔
نمبر ۴۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے پرویز مشرف کے خلاف اپنے۹نومبر
۲۰۰۷ کے ادارئیے میں سخت زبان استعمال کرنے پر معافی مانگ لی۔ یہ نہ سمجھے
گا کہ پاکستان نے احتجاج کیا تھا یا معافی مانگنے کا کہا تھا بلکہ خود ہی
اس اخبار نے معافی مانگی کیونکہ مشرف صاحب ناراض نہ ہو جائیں ورنہ بعد میں
ہمارے مفادات کی حفاطت کون کرے گا؟
نمبر5- ۱۹۸۹میں برطانوی سنسر بورڈ نے ایک فلم کو محض اس لیے نمائش سے روک
دیا کہ اس میں چرچ)یا عیسائی مذہب(کی توہین پائی جاتی ہے جس سے عیسائیوں کے
جذبات مشتعل ہونے کا امکان ہے۔
ان رپورٹ کے علاوہ اور بھی بہت سی رپورٹس ہیں اگر لکھوں تو مضمون مزید لمبا
ہو جائے گا، مقصد لکھنے کا یہ تھا کہ یہود اور عیسائیوں کے جذبات کی قدر ہے
مگر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی بقول شاعر۔۔۔
وہ ایک بھی لڑھک جائے تو آجاتا ہے بھونچال
ہم ہزاروں بھی قتل ہو جائیں تو چرچہ نہیں ہوتا۔
مہذب،شائستہ اور بااخلاق مغرب کی دوسری تصویر یہ ہے کہ جیسے ہی ان کے سامنے
اسلام اور نبیﷺ کا نام مبارک آتا ہے تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا
ہے،منہ سے جھاگ بہنے لگتا ہے، چہرہ سرخ ہو جاتا ہے،ہوش وہواس قائم نہیں
رہتے درندگی اور سفاکی غالب آ جاتی ہے، سارے اخلاقی ضابطے،تہذیب اور
شائستگی دھری کی دھری رہ جاتی ہے،صرف اور صرف ایک ’’ضابطہ اخلاق‘‘ باقی رہ
جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’نبیﷺ کو گالیاں دینے کی ہمیں آزادی حاصل ہے،نبیﷺ
پر بہتان باندھنے کی ہمیں آزادی حاصل ہے،نبیﷺ کی توہین اور گستاخی کرنے کی
آزادی حاصل ہے اور اس آزادی کو ہمارے تمام قومی مفادات پر اولیت حاصل ہے
اور ہم ہر قیمت ہر اس آزادی کی حفاظت کریں گے،کس قدر غلیظ اور قابلِ نفرت
ہے یہ تصویر امریکہ اور اہلِ مغرب کی، اس تصویر میں امریکہ اور مغرب روئے
زمین پر بسنے والی ساری مخلوق سے زیادہ ذلیل اور جانور نظر آتے ہیں جیسے
اللہ کا ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔ )جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی گے گزرے
ہیں،(القرآن)
اہلِ مغرب کا یہ دُہرا کردار روزے روشن کی طرح واضح ہو چکا ہے، آزادی تحریر
محض دھوکہ اور فریب ہے اصل حقیقت اسلام اور نبی ﷺکے ساتھ عداوت اور دشمنی
ہے جو ان کے رگ و پے میں اس طرح رچ بس چکی ہے جس طرح ان کے آباؤ اجداد کے
رگ و پے میں رچی بسی تھی، کاش ہمارا فریب خوردہ حکمران طبقہ بھی اس کا
ادراک کر سکے۔
اب دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف آخر کیوں ایسے گٹیا ہتھکنڈے استعمال کیے
جاتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟
مکی دور میں بھی شروع شروع میں اتنا سخت رویہ نہیں دیکھنا پڑا مگر جب کفار
نے دیکھا کہ دن بدن مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور ہمارے اپنے ہمیں
چھوڑتے جا رہے ہیں تو پھر ائمہ کفر نے نبی علیہ السلام کے خلاف لوگوں کو
بھڑکانا شروع کیا کبھی کہا جاتا کہ محمدﷺ جادوگر ہیں جو بھی اُن سے بات کرے
وہ انہی کا ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ کچھ واقعات پہلے لکھ چکا ہوں، لیکن ان
کفار کی کوئی بھی چال نہ چل سکی آخر دینِ اسلام غالب ہو کر رہا، اب بھی
معاملہ کچھ ویسا ہی ہے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے جو ڈرامہ
رچایا گیا تھا اسی ڈرامے کی وجہ سے اسلام تیزی سے پھیلنے لگا ہے امریکہ میں
ایسے بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں کہ جو لوگ حق شناس تھے یا وہ حکمرانوں کی
بات پر یقین نہیں کرتے تھے، کو تجسس ہوا کہ دین اسلام کے خلاف آخر اتنا کچھ
کیوں کیا جا رہا ہے کیا اسلام واقعی ایسی تعلیمات رکھتا ہے؟ تو انہوں نے اس
دین کو سمجھنے کے لیے اس کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو وہ خود اسلام کی
تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمان ہوگئے ایسے ہزاروں لوگ ہیں جو ۹۔۱۱ کے بعد
مسلمان ہوئے اس کے اوپر چند ایک رپورٹ دیکھتے ہیں۔
نمبر ۱۔ جدہ سے شائع ہونے والے جریدے’’حج و عمرہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق
اسلامک فاؤنڈیشن برطانیہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد مناظر احسن نے ایک
انٹرویو میں بتایا کہ ۹۔۱۱ کے بعد برطانیہ میں قرآن مجید کی فروخت سات گُنا
بڑھ گئی ہے، قبول اسلام کی شرح میں ۵ سے ۱۰ فیصد اضافہ ہوا ہے،۹۔۱۱ کے بعد
اب تک نومسلموں کی تعداد ۱۳ ہزار کے قریب ہے جن میں ۳۰ فیصد کا تعلق اعلیٰ
اور بااثر گھرانوں سے ہے،نومسلوں میں خواتین کی شرح مردوں سے دگنی ہے جبکہ
امریکہ میں یہ شرح ایک اور چار ہے۔ دوماہی برطانوی جریدہ ’’ایمل‘‘ کی مدیرہ
سارہ جوزف کے مطابق ۲۰۲۰ میں عملاً برطانیہ کا سب سے بڑا دین اسلام
ہوگا۔ہفت روزہ تکبیر،کراچی ۱۱ اگست ۲۰۰۴
نمبر ۲۔ ممتاز امریکی جریدہ کرسچن سائنس مانیٹر )۲۷دسمبر۲۰۰۵( کی تجزیاتی
رپورٹ کے مطابق ۱۱ستمبر کے بعد اسلام کے بارے میں ابھرنے والے تجسس کی
بناٍء پراسلام کا پیغام زیادہ سے زیادہ یورپی باشندوں کو اپیل کرنے کا باعث
بن گیا ہے کہ ہر سال کئی ہزار مرد و خواتین اسلام قبول کرتے ہیں۔مجلہ
الدعوۃ،لاہور،محرم الحرام۱۴۲۷ھ
نمبر ۳۔ امریکہ میں اس وقت مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ ہے جن میں ہر سال ۲۰
ہزار نومسلموں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ نوائے وقت۔کراچی، ۷فروری۲۰۰۵
نمبر ۴۔ ڈچ اسلامک سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں
دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں ۱۰ گنا)۱۰۰۰ فیصد(اضافہ ہوا
ہے۔ نیون ہیچ کالج کیمبرج کی ۳۰ سالہ گریجوایٹ لیوشی بشمل میتھیوز نے اسلام
کا مطالعہ بدنیتی سے شروع کیا، لیکن بعد میں وہ اس قدر متاثر ہوئی کہ خود
اسلام قبول کر لیا۔
سہ روزہ دعوت،دہلی،۱۰۔اپریل۲۰۰۴
نمبر ۵۔ برطانوی خاتون صحافی ریڈلی کے قبولِ اسلام کا واقعہ پورے یورپ کے
لئے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ریڈلی نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہا ہے کہ
’’اگرچہ۹۔۱۱ کا واقعہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ایک لاٹھی کے طور پر
استعمال کیا جا رہا ہے،تاہم اس کے نتیجہ میں ایک حیرت انگیز بات یہ ہوئی ہے
کہ مجھ جیسے کم علم لوگوں نے اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے
لیے قرآن اور دیگر اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرنا شروع کردیا ہے،اس کا نتیجہ
یہ ہے کہ اب اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا دین بن گیا ہے۔
ماہنامہ ترجمان القرآن،لاہور،جولائی ۲۰۰۴
اب جو چال یہود نے اسلام یا مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے چلائی تھی اللہ نے
اپنی حکمت سے ان کی اسی چال کو اسلام کے مفاد میں کر دیا اور اسلام دنیا
میں تیزی سے پھیلنے لگا الحمدللہ، اب کفار کے پاس وہی گٹیا ہتھکنڈا رہ گیا
ہے جو ان کے آباؤ اجداد اس سے پہلے استعمال کرتے رہے تھے کہ مسلمانوں کے
دین اور ان کے نبیﷺ کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کی جائے تاکہ لوگ ان کے
قریب ہی نہ جائیں، میرا ایمان ہے کہ اللہ ان ظالموں کی اس چال کو بھی اسی
طرح خاک میں ملا دیں گے جس طرح پہلی بہت سی چالوں کو خاک میں ملایا ہے،
انشاءاللہ۔
ہمارے کرنے کا کام:۔
اگر ہم لوگ واقعی اس دنیا میں اور آخرت کی زندگی میں بھلائی چاہتے ہیں تو
اس کے لیے ہم کو اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کرنا ہوگا اور اس پر اللہ کا
حکم بھی ہے کہ۔۔۔۔۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا
۠وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً
فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا ۚ
وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا ۭ
كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِھٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ ١٠٣
اللہ تعالٰی کی رسی کو سب ملکر مضبوط تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو
اور اللہ تعالٰی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے
تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی
ہوگئے اور تم آگ کے گھڑے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچالیا اللہ
تعالٰی اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت
پاؤ۔سورۃ آلِ عمران۳:۱۰۳
آج بھی ہم ایک کلمہ کو پڑھنے والے آپس میں بھائی بھائی بن سکتے ہیں ہمارے
دلوں میں نفرتیں محبت میں اللہ بدل سکتا ہے اگر ہم آج بھی صرف اللہ کی
رسی)قرآن و سنت( کو مضبوطی سے تھام لیں تو،اور دوسرا ایک ایسی اسلامی حکومت
قائم کرنی ہوگی جس کی بنیاد نبیﷺ کا اسوہ حسنہ ہو نہ کے جمہوریت،سوشلازم،یا
کیمونیزم ہو یہ سب باطل نظام ہیں اور اسلام کے نظامِ خلافت کے مقابل بنائے
گئے باطل نظام ہیں جو کہ جاہل لوگوں نے بنائے ہیں، اور خلافت کا نظام اللہ
نے اپنے نبیﷺ کے ذریعے انسانوں کی بھلائی کے لیے بنایا ہوا ہے یہ نظام آج
بھی اتنا ہی کارآمد ہے جتنا کے ۱۴۰۰ سال پہلے تھا، کیونکہ یہ نظام اللہ کا
بنایا ہوا ہے اس میں کوئی کمی ہوہی نہیں سکتی، ہم کو نئے نئے آئین اور نظام
بنانے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی اگر ہم اسلام کے نظام حیات کو اپنی زندگیوں
میں لاگو کر لیں تو، جو عدل و انصاف اسلام میں ہے وہ دنیا کے کسی بھی نظام
میں نہیں ہے۔
ایک بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ عمل کے بغیر اللہ کسی کا
دعویٰ ایمان قبول نہیں کرے گا، عمل شرط ہے ایمان کی قبولیت کے لیے، اللہ کا
ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔۔۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ
اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ
يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا
بِهٖ ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا 60
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایمان رکھتے ہیں
اس کتاب پر بھی جو اتاری گئی ہے آپ کی طرف، اور اس پر بھی جو اتاری گئی آپ
سے پہلے، (مگر اس کے باوجود) وہ چاہتے ہیں کہ اپنا مقدمہ لے جائیں طاغوت کے
پاس فیصلہ کے لیے، حالانکہ ان کو حکم یہ دیا گیا تھا کہ یہ اس)طاغوت(
کیساتھ کفر کریں، اور شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بھٹکا کر ڈال دے بہت دور کی
گمراہی میں،)یعنی کفر و شرک میں( سورۃ النساء آیت نمبر ۶۰
اگر ہم چاہتے ہیں کہ دوبارہ کوئی بھی کافر نبیﷺ کی شان کے خلاف بکواس نہ کر
سکے تو ہم کو ایک جماعت بننا ہوگا اور اسلامی خلافت کا نظام قیام میں لانا
لازمی ہوگا ورنہ اسی طرح ہم کو کفار کی چیرا دستیاں برداشت کرتے رہنا ہوگا
اور ہم دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود اسی طرح گاجر مولی کی
طرح کٹتے رہیں گے اور کفار ہمارے دین اور نبیﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتے
رہیں گے اور ہم اُن کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے۔ |