اسلام میں شرم وحیاء کا مقام

حیا اور پاک دامنی کا چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ“حیا ”ان فحش امور اور منکرات کے انجام دینے میں“سدراہ” بنتی ہے جو انسان کے دامن عفت کو داغ دار کرتی ہیں ۔ اور اچھے وپسندیدہ کاموں پر آمادہ کرتی ہے ۔

امام راغب لکھتے ہیں :۔
الحیاء انقباض النفس عن القبائح وترکہ لذالک [1]
“قبیح چیزوں سے نفس کے انقباض کرنے اور اس بناء پر انہیں چھوڑ دینے کا نام حیا ہے۔”

“حیا ”سے مراد وہ جھجک یا نفسیاتی رکاوٹ نہیں ہے جس کا باعث عام طور پر ہمارا خارج ہوتا ہے، بلکہ “حیا ” انسان کے اندر پائی جانے والی وہ خوبی یا صفت ہے جس کی وجہ سے وہ غیر معروف اعمال سرانجام دینے میں انقباض (گھٹن)محسوس کرتا ہے ۔

حضرت آدمؑ وحضرت حواء سے غلطی سرزد ہوجانے کے نتیجے میں جب ان پر ان کا ستر عیاں ہوا تو وہ اسی فطری“حیا ”ہی کی وجہ سے خود کو پتوں سے ڈھانکنے لگے ۔

ارشاد باری تعالی ہے :
﴿ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ﴾[2]
“پھر جب ان دونوں نے درخت کو چکھا تو ان پر ان کی شرم گاہیں کھل گئیں اور اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑنے لگے ۔”

شرم گاہوں کو چھپانے کا یہ اضطراری عمل اس فطری حیا ہی کا ظہور تھا، اس لیے کہ انسان فطری طور پر یہ جانتا ہے کہ شرم گاہیں چھپانے کی چیز ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے کنویں پر جن دو لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلایا تھا، ان میں سے ایک جب انھیں اپنے باپ کے پاس لے جانے کے لیے بلانے آئی تو اس وقت اس کے آنے میں “حیا ”کی جو صفت نمایاں تھی۔

قرآن مجید نے درج ذیل الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے:
﴿ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِيْ عَلَي اسْـتِحْيَاۗءٍ ۡ قَالَتْ اِنَّ اَبِيْ يَدْعُوْكَ لِيَجْزِيَكَ اَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا ﴾[3]
“پس ان میں سے ایک شرماتی ہوئی آئی، کہا کہ میرے والد آپ کو بلاتے ہیں تاکہ جو پانی آپ نے ہماری خاطر پلایا ہے، اس کا آپ کو صلہ دیں۔”

قرآن کریم نے یہاں ایک کنواری عورت کی اس فطری “حیا ” کا ذکر کیا ہے جو اسے کسی غیر محرم مرد سے بات کرتے ہوئے محسوس ہو سکتی ہے۔

اسی طرح ایک کریم النفس آدمی دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے بعض اوقات اس سے اپنا حق وصول کرنے میں بھی “حیا”محسوس کرتا ہے۔
[1] الاصفہانی ،راغب،امام ،المفردات،مصطفی البابی ،صفحہ40،مصر
[2] الاعراف:22
[3] القصص:25

قرآن مجید میں ہے :
﴿وَلٰكِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْـتَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ ۭ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيٖ مِنْكُمْ ۡ وَاللّٰهُ لَا يَسْتَحْيٖ مِنَ الْحَقِّ ۭ﴾ [4]
“لیکن جب تمہیں بلایا جائے تب داخل ہو پھر جب تم کھا چکو تو اٹھ کر چلے جاؤ اور باتوں کے لیے جم کر نہ بیٹھو کیونکہ اس سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتا ہے اور حق بات کہنے سے اللہ شرم نہیں کرتا۔”

یہ شرمانا دراصل دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے اس کا لحاظ کرنا ہے ۔چنانچہ اس حوالے سے بھی ایک کریم النفس آدمی کئی جگہوں پر شرم محسوس کرتا ہے ۔اللہ تعالی ٰ انسان کا خالق ومالک ومعبود ہے ،چنانچہ وہ ان تمام باتوں سے بالاتر ہے کہ کسی انسان کی عزت نفس اسے اپنا یا کسی دوسرے کا حق بیان کرنے سے روک دے ۔

دین کے نزدیک“ حیا ” بڑی قدر کی حیثیت رکھتا ہے۔

چنانچہ نبی کریمﷺ نے اپنے بے شمار ارشادات عالیہ میں “ حیا ”کی اہمیت کو بیان کیا ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً وَالْحَيَائُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ )) [5]
“ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔”

نیز آپﷺ نے فرمایا:
((اَلْحَيَاءُ کُلُّهُ خَيْرٌ))[6]
“حیا تو خیر ہی خیر ہے۔”

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((مَا کَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْئٍ إِلَّا شَانَهُ وَمَا کَانَ الْحَيَائُ فِي شَيْئٍ إِلَّا زَانَهُ))[7]
“بے حیائی جس چیز میں آتی ہے اسے عیب دار بناتی ہے اور حیا جس چیز میں آتی ہے اسے مزین کر دیتا ہے۔”

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت حیادار تھے۔

حدیث میں آتا ہے :
((کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَيَائً مِنْ الْعَذْرَائِ فِي خِدْرِهَا فَإِذَا رَأَی شَيْئًا يَکْرَهُهُ عَرَفْنَاهُ فِي وَجْهِهِ ))[8]
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردے میں بیٹھنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھےاور جب کوئی ایسی چیز دیکھتے جو آپ کو ناگوار گزرتی تو ہم آپ کے چہرے سے پہچان لیتے تھے ۔”
[4] الاحزاب:53
[5] البخاری ،الجامع الصحیح ،جلد اول، صفحہ 12
[6] المسلم ،الصحیح ،جلداول،صفحہ64
[7] الترمذی،السنن، جلد۴،صفحہ 349
[8] البخاری ، الجامع الصحیح ،جلدپنجم ، صفحہ 2263


اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات انسان کی فطرت مسخ ہوجاتی ہے یا بعض صورتوں میں وہ بالکل بے حس ہوجاتی ہے چنانچہ پھر وہ کوئی شرم وحیا محسوس نہیں کرتا ۔بہرحال، اصولی بات یہ ہے کہ ایک سلیم الفطرت انسان تمام غیر معروف اعمال سرانجام دینے میں فطری طور پر“حیا”محسوس کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے شرم وحیاء کا جو مادہ انسان کی فطرت میں رکھا ہے دوسرے حیوانات میں نہیں رکھا ،اس لیے حیوانات ،اپنے جسم کے کسی حصے اور اپنے کسی فعل کو چھپانے کا ایسا اہتمام اور کوشش نہیں کرتے ،جیسا اہتمام وکوشش انسان کرتا ہے ۔

چونکہ عورتوں کی ذات باعث کشش ہے اس لیے ان میں“حیا” کا مادہ بھی مردوں سے زیادہ رکھا گیا ہے۔ چنانچہ شریعت نے خواتین کے لیے عام مردوں سے شرم وحیا کے اظہار کا قانونی طریقہ “حجاب” کا حکم دیا ۔ اسی لیے عورت کے لیے “حجاب” ایک بنیادی ضرورت اور فطری تقاضاہے ۔اور مردوں کو خواتین کے احترام میں نظریں جھکانے کا حکم دیا ہے۔
ghazi abdul rehman qasmi
About the Author: ghazi abdul rehman qasmi Read More Articles by ghazi abdul rehman qasmi: 31 Articles with 284498 views نام:غازی عبدالرحمن قاسمی
تعلیمی قابلیت:فاضل درس نظامی ،الشہادۃ العالمیہ،ایم اے اسلامیات گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان،
ایم فل اسلامیات بہاء الدی
.. View More

islam mein sharm o haya ka muqam - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read islam mein sharm o haya ka muqam and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as islam mein sharm o haya ka muqam.