جدید سائنسی ایجادات نے جہاں انسانی زندگی کو سہل تر
بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا تو کچھ ایجادات کے نقصانات ان کی افادیت پر
حاوی نظر آتے ہیں۔ ان اشیاء میں سرفہرست پلاسٹک ہے جو ماحول تباہ کرنے والا
سب سے خطرناک عنصر ہے۔ چونکہ دیگر اشیاء کے برعکس پلاسٹک زمین میں تحلیل
ہونے کیلئے 1سے 2ہزار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اس لئے پلاسٹک کا کچرا
طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ماحولیاتی آلودگی و نکاسی آب کے مسائل
کے ساتھ ساتھ کینسر جیسی مہلک بیماریوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ ترقی یافتہ
ممالک میں نہ صرف پلاسٹک سے بنی اشیاء کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے بلکہ بیشتر
ممالک میں اس کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ تحقیق کے مطابق
این اے ایف ٹی اے ممالک یعنی امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو جیسے ممالک میں
پلاسٹک کا فی کس سالانہ استعمال 139 کلوگرام، مغربی یورپ میں 136کلو گرام،
جاپان میں 108کلوگرام، وسطی یورپ میں 48کلوگرام، افریقہ میں 16کلوگرام اور
پاکستان میں فی کس سالانہ 5کلوگرام پلاسٹک کا استعمال ہوتا ہے۔ رپورٹ کے
مطابق اس وقت پاکستان میں کوڑا کرکٹ سے سیوریج کے شدید قسم کے مسائل پیدا
ہو رہے ہیں۔ کیونکہ کوڑا کرکٹ میں 65 فیصد حصہ پلاسٹک کا ہے، جس میں شاپنگ
بیگز، پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر اشیا ء شامل ہوتی ہیں۔ اعداد و شمار کے
مطابق پاکستان میں شاپنگ بیگ یا پلاسٹک بیگ بنانے کے رجسٹرڈ کارخانے آٹھ
ہزار سے زائد ہیں اور مجموعی طور پر ان کی یومیہ پیداوار پانچ سو کلو گرام
ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق روزانہ 55 بلین شاپنگ بیگ استعمال کئے جاتے ہیں
اور ہر سال ان کے استعمال میں پندرہ فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ ان اعداد و شمار
کے علاوہ شاپنگ بیگ بنانے والے سینکڑوں کارخانے گلی محلوں میں قائم ہیں، جو
رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ہر قسم کے شاپنگ بیگ ماحولیات کیلئے تباہ کن ہیں۔
ماحولیاتی حفاظتی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 1960ء میں پلاسٹک کا تعفن 1فیصد
سے بھی کم تھا لیکن 2012ء میں اس کی شرح 12فیصد بھی زیادہ تھی۔ پاکستان میں
ماحولیاتی تبدیلیوں ٗ تباہیوں کا آغاز 22 برس پہلے 1997 ء میں بلوچستان کی
شدید ترین سات سالہ خشک سالی سے ہوا تھا اس خشک سالی کا پھیلاؤ سنٹرل
ایشیاء کی کچھ ریاستوں کے ساتھ افغانستان، ایران، بلوچستان، تھر اور بھارتی
علاقہ راجستھان سے تھا۔ 2002-03 ء میں نوبت لاکھوں مویشیوں کی ہلاکت کے بعد
انسانوں تک پہنچنے لگی اس صورتحال میں دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ ایک بڑا سبب
پلاسٹک کے بیگ بھی تھے۔
ماحولیات کے لحاظ سے اس وقت دُنیا بھر میں شہری آبادی زیادہ متاثر ہورہی ہے
کیو نکہ اب دُنیا میں شہری آبادی کا تناسب دیہی آبادی کے مقابلے میں زیادہ
ہے۔ 2015 ء کے مطابق دُنیا کی کل آبادی میں سے شہری آبادی کا تناسب 54% اور
دیہی آبادی46% تھی یعنی 2015 ء میں دُنیاکی کل آبادی 7 ارب 34 کروڑ سے
زیادہ تھی اور اس میں شہری آبادی 3 ارب 96 کروڑ سے زیادہ تھی۔ 1980 ء میں
دُنیا کی کل آبادی 4 ارب 43 کروڑ 90 لاکھ تھی اور اس میں سے شہری آبادی 1
ارب 73 کروڑ 10 لاکھ تھی۔ایشیاء میں اب بھی شہری آبادی کا تناسب 48% ہے جب
کہ اس کے مقابلے میں شمالی امریکہ میں یہ تناسب 82 فیصد لاطینی امریکہ میں
80% یورپ میں 74% آسٹریلیا میں 71% اور شمالی افریقہ میں 52 فیصد ہے مغربی
ترقی یافتہ ممالک میں شہری آبادی کا تناسب زیادہ ہے لیکن یہ شہر مجموعی طور
پر ہمارے شہروں کے مقابلے میں زیادہ آبادی کے اور گنجان آبا د شہر نہیں۔
پلاسٹک سے بنی پانی کی بوتلوں کے صارفین میں امریکہ کے باشندوں کی تعداد سب
سے زیادہ ہے۔جو کہ سالانہ ایک کھرب ڈالر پانی کی بوتلوں پر خرچ کرتے ہیں۔ان
بوتلوں کا 70سے 80فیصد زمینی آلودگی اور انسانی بیماریوں کا باعث بنتا
ہے۔نیو یارک یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اس آلودگی کی وجہ سے شعبہ
صحت کو 340کھرب ڈالرکا سالانہ خرچ دینا پڑتا ہے۔
رچرڈتھامسن نے 2004ء میں یونیورسٹی آف پالی متھ یو،کے پلاسٹک کے اجزاء کی
ریسرچ کی۔جس کے بعد تھامسن نے سمندر کی سطح پر 300000/km2جبکہ زیر سمندر
100000/km2پلاسٹک اجزاء کی پیش گوئی کی تھی۔سمندر میں پلاسٹک کی وافر مقدار
کی وجہ سے پلاسٹک کی بوسیدگی کا عمل کا بھی کا فی سست ہوتا ہے۔ سمندری
حفظان صحت کی پیش گوئی کے مطابق پلاسٹک فوم کپ کو تحلیل ہونے میں پچاس
سال،ڈسپوزیبل ڈائیپر کو چارسو پچاس سال جبکہ ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے
والے اوزار کو تحلیل ہونے میں چھ سو سال درکار ہیں۔
پلاسٹک نہ صرف میدانی علاقوں کو خراب کر رہا ہے بلکہ سمندروں، ندی نالوں،
دریاؤں کو بھی آلودہ اور سیوریج سسٹم کو بھی بلاک کرتا ہے جس کی وجہ سے نہ
صرف پلاسٹک سمندر میں زہریلا مواد چھوڑ جاتا ہے۔ جس سے آبی حیات جس میں
مچھلیاں اور دوسرے جاندار شامل ہیں کیلئے نقصان دہ ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں
کہ پلاسٹک ایک ہزار سال بعد مٹی میں مٹی ہو کر ختم ہو جاتا ہے مگر ان
1000برسوں میں پلاسٹک سے مسلسل زہریلا مواد پانی اور زمین میں شامل ہوتا ہے
جو آبی حیات اور زمین کی زرخیزی کو تباہ وبرباد کرتا ہے۔س وقت جہاں تک
آلودگی کا تعلق ہے تواس آلودگی کی بڑی وجہ دھواں، تیل، پیٹرول،ڈیزل اور
معدنی کوئلے کا استعما ل ہے۔ جہاں تک دھوئیں کا تعلق ہے تو اس میں کچرے اور
پلاسٹک کو جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں زیادہ خطرناک ہے اس لیے اب شہروں
میں رہنا اور سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے اس کے لیے ماحولیات کے ماہرین
نے فضائی آلودگی کی پیمائش کے پیمانے بنائے ہیں۔
اگر کسی علاقے کی فضا میں پی ایم 2.5 کی سطح 50 سے زیادہ ہو تو وہ انسانی
صحت کے لیے خطرناک ہوتی ہے اور پی ایم 10فضا میں 200 سے زیادہ ہوں تو صحت
کے لیے نقصان کا سبب بنتے ہیں، یوں نومبر 2017 ء کے مطابق بھارت کے شہر
دہلی کو مجموعی طور پر دُنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر قرار دیا گیا، اس کے
بعد PM-2.5 کے اعتبار سے فضائی آلودگی کے لحاظ سے ٹاپ ٹونٹی شہروں کی
صورتحال یوں ہے، نمبر ایک پر ایران کا شہر زابل ہے۔
جہاں پی ایم 2.5 کی تعداد فضا میں217 ہے، دوسرے نمبر پر بھارتی شہر گوالیار
ہے جہاں یہ 176 ہے، تیسرے نمبر پر بھی بھارتی شہر الہ آباد ہے جہاں یہ 170
ہے، چوتھے نمبر پر سعودی عرب کا شہر ریاض ہے، جہاں156 ہے پا نچویں پر بھی
سعودی عرب کا شہرالجبائل 152 ہے، نمبر 6 پر پٹنہ بھارت 149، نمبر7 پر رائے
پور 144، نمبر 8 پر132 کے لحاظ سے کیمرون کا شہر بامانڈا نوٰن، نمبر9 پر پی
ایم 2.5 کے اعتبار سے چین کا شہر زنگٹائی ہے، نمبر10 پر چین ہی کا شہر
باؤڈنگ126 ہے، نمبر11 پر بھارتی شہر دہلی ہے جہاں 122 پی ایم 2.5 ہے، نمبر
12پر بھارتی شہر لدھیانہ 122 کے ساتھ، نمبر13 پر سعودی عرب کا شہر داما
م121 پی ایم2.5 کے ساتھ ہے، نمبر چودہ پر چین کا شہر شی جیانگ زونگ ہے جہاں
پی ایم 2.5 کی صورتحال 121 ہے۔
اس کے بعد بھارتی شہر کانپور، فیروزآباد، لکھنو چین کا شہر ہونڈان اور آخر
میں پاکستان کا شہر پشاور ہے۔ پاکستان کی 65 فیصد آبادی دیہی اور 35% شہری
آبادی ہے اس طرح اگر 22 کروڑ آبادی میں سے کل شہری آبادی 7 کروڑ 70 لاکھ ہے
مگر اس شہری آبادی کے اس تناسب اور اعدادوشمار کوکراچی سمیت دیگر شہروں کے
بہت سے لوگ درست تصور نہیں کرتے۔ ہمارے دو ہمسائے ممالک چین اور بھارت جو
دُنیا میں آبادی کے لحاظ سے پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں، 2014 ء کے مطابق
چین میں کل شہری آبادی 758 ملین یعنی 75 کروڑ 80 لاکھ تھی جو 2050 ء میں 1
ارب 5 کروڑ ہوگی، اسی طرح 2014 ء میں بھارت کی شہری آبادی 41 کروڑ ہے جو 32
سال بعد 2050 ء میں81 کروڑ 40 لاکھ ہوجا ئے گی اور ہماری شہری آبادی جس کو
اگر8 کروڑ تسلیم کرلیا جائے تو یہ آبادی 32 سال بعد 2050 ء میں 16 کروڑ
ہوگی۔
رپورٹ میں ہی ان ملکوں کے ٹاپ ٹو ینٹی ملکوں کی فہرست بھی دی گئی ہے جہاں
فضائی آلودگی مثالی طور پر بہت ہی کم ہے۔ نمبر 1 پر آسٹریلیا میں PM-2.5
صرف 5.7 ہے۔نمبر 2 برونائی 6.6، نمبر 3۔ نیوزی لینڈ میں PM-2.5 کی سطح 6.8
ہے، نمبر 4۔اسٹونیا 7.2، نمبر5۔ فن لینڈ 7.3، نمبر6۔کینیڈا 7.5، نمبر7۔ آئی
لینڈ 8.2، نمبر8۔ سوئیڈن 8.7، نمبر9۔آئر لینڈ8.8، نمبر10۔لیبریا 9.3،
نمبر11۔ جاپان 10، 12۔بھوٹان 10۔ 13۔ ناروے10.9، نمبر14۔ مالٹا 12۔ نمبر
15۔ پرتگال 12.3، نمبر16 اسپین12.4، نمبر17۔ امریکہ 12.9، نمبر18۔مناکو13،
نمبر19۔ ملائیشیا 13.2، یوں اگرچہ ان میں سے چند ممالک کو ترقی یافتہ ملک
نہیں کہا جا سکتا مگر یہاں فضائی آلودگی کی سطح بہت ہی کم ہے اور یہ ٖفضا
صحت کے لیے بہت ہی موزوں ہے۔2010 ء سے 2016 ء تک مرتب ہونے والی دنیا کے
گنجان آباد شہر وں کی فہرست 99 شہروں پر مشتمل ہے مگر اس فہرست میں دُنیا
کے 42 شہر ایسے ہیں جن کی آبادیا ں 3 کروڑ78 لاکھ سے ایک کروڑ تک ہیں ان
شہروں میں سے چین کے 15 شہر بھارت کے 4 شہر اور پاکستان اور جاپان کے دو دو
شہر شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ماہرین کہتے ہیں کہ انٹارکٹیکا یعنی بحر منجمد
جنوبی جہاں پر کوئی انسان نہیں اور وہاں پر کوئی گند نہیں ہوتا وہاں بھی
برف کے 20فٹ اندر پلاسٹک کے کیمیکل پائے جاتے ہیں جس سے چرند پرند کی اقسام
پلاسٹک سے خارج ہونے والے کیمیکلز کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ پلاسٹک میں
ایسے کیمیائی مواد ہوتے ہیں جو ہمارے انڈو کرائن سسٹم یعنی ہارمونز پیدا
کرنے والے نظام میں نقصان پیدا کرتے ہیں۔ پلاسٹک سے نکلے ہوئے کیمیکلز
انسانوں میں موٹاپا اور بانجھ پن کو پیدا کرتے ہیں۔ پلاسٹک ہر سال جانداروں
کی ہزاروں اقسام کو تباہ وبرباد کرتا ہے۔ سمندر کے ایک مربع میل میں پلاسٹک
کے 40 سے لیکر 50ہزار ٹکڑے تیر رہے ہوتے ہیں۔ پلاسٹک میں جو کیمیکل بس
فینول (Bisphenol) ہوتا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ ماہرین ماحولیات اس کوشش
میں ہے کہ عام لوگ اس زہریلے کیمیکل جو پلاسٹک کے بیگ اور دوسری چیزوں کے
بنانے میں استعمال ہوتا ہے اس کے منفی اثرات کے بارے میں آگاہ ہوں گے۔
پلاسٹک سے انسانی جسم کے جو ہارمونز خراب ہوتے ہیں ان میں انسانی جسم کی
نشو ونما اور بڑھوتری کے ہارمونز، میٹابالزم یعنی جسم میں موجود کیمیکلز جو
انسانی جسم کی سرگرمیوں کو قائم اور قابو رکھتے ہیں یہ ہارمونز بھی پلاسٹک
سے خراب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ نظام انہضام کی خرابی، سانس اور نظام تنفس
کی بیماریاں، خون کے گردشی نظام والے ہارمونز بھی پلاسٹک سے متاثر ہوتے
ہیں۔پلاسٹک کے جلانے سے زہریلی گیسیں پیدا ہوتی ہیں جن سے عورتوں کے چہروں
پر بال کا نکلنا‘ سانس کی تکلیف، الرجی کی بیماری پیدا ہوتی ہیں۔ اب ضرورت
اس امرکی ہے کہ ہمیں پلاسٹک کے بیگ اور پلاسٹک برتنوں کے بجائے سٹیل، مٹی،
شیشے، چینی مٹی کے برتن استعمال کرنے چاہئے اور شاپنگ بیگ کی جگہ ہمیں
کپڑے، کاعذ کے تھیلے اور (Biodegradable) یعنی خود سے ختم ہونے والی اشیاء
کے شاپنگ بیگ استعمال کرنے چاہئیں۔ہمیں چاہئے کہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ اور
ان کی صنعتوں کو ختم کیا جائے اور ان کو روزگار کا متبادل نظام مہیا کریں۔
ملک میں شاپنگ بیگ، برتن اور پلاسٹک کے میڈیکل آلات بنانے والے حد سے زیادہ
خراب پلاسٹک استعمال کرتے ہیں جس کا تدارک بہت زیادہ ضروری ہے۔ ہمیں ایک
دفعہ دوبارہ فطرت کی طرف آنا پڑے گا کیونکہ فطرت کے بغیر جتنی بھی چیزیں
ہیں وہ ہمارے لئے نقصان دہ ہیں۔ ہم فطری اور قدرتی چیزیں استعمال کرکے بہت
ساری بیماریوں اور نقصانات سے بچ سکتے ہیں اور ایک لمبی صحت مند زندگی پا
سکتے ہیں -
پلاسٹک کو زندگی سے ایک دم تو ختم تو نہیں کیا جاسکتا، مگر اس میں بہتری
لائی جاسکتی ہے، جیسا کہ دُنیا کے دیگر ممالک نے کیا ہے۔یوں اندازہ کیا جا
سکتا ہے کہ آئند ہ 31 برسوں میں یعنی2050 ء تک اس دُنیا میں شہری آبادیوں
کی صورتحال کیا ہوگی اور اس کے نتیجے میں آلودگی کی صورتحال کیسی ہوگی اور
ہمیں ان خطرات کے پیش نظر ابھی سے کس طرح کی پیش بندی کرنی چاہیے۔
|