حکومت کی طرف سے دی گئی ایمنسٹی سکیم ختم ہوتے ہی فیڈرل
بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے بے نامی جائیداد رکھنے والوں کے خلاف
کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
|
|
ایف بی آر نے سابق صدر آصف زرداری اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے مسلم
لیگ نواز کے سینیٹر چوہدری تنویر سمیت متعدد عوامی عہدے داروں کے بے نامی
اثاثوں کی چھان بین شروع کر دی ہے۔
ترجمان ایف بی آر حامد عتیق سرور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے
کہ پہلے مرحلے میں عوامی عہدیداروں کے خلاف ’کریک ڈاؤن‘ کا آغاز کیا گیا ہے
کیونکہ ان کا ایمنسٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
عتیق سرور کے مطابق ’اب یہ شخصیات نہ تو اپنے بے نامی اثاثے فروخت کر سکتے
ہیں اور نہ ہی یہ کسی اور کے نام منتقل۔‘
گذشتہ ماہ وفاقی کابینہ نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی باضابطہ منظوری دی تھی اور
اس کا نفاذ صدارتی آرڈینینس کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا۔
حکومت کا موقف تھا کہ اس سکیم کا مقصد محصولات اکٹھے کرنا نہیں بلکہ بے
نامی جائیدادوں کو قانون کے دائرے میں لے کر آنا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے دنیا نیوز کے پروگرام میں اعلان کیا کہ
ایمنسٹی ختم ہونے کے بعد بھی بے نامی جائیدادیں رکھنے والے معمول کا ٹیکس
دے کر دو اگست تک اپنے اثاثے ظاہر کر سکتے ہیں اور یہ کہ ان پر کسی قسم کا
جرمانہ عائد ہو گا اور نہ ہی کوئی تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
شبر زیدی کے مطابق ’یہ بہت بڑی سہولت دے دی ہے۔۔۔ ہم دو اگست تک کوئی ایکشن
نہیں لیں گے۔ اس سکیم کا بنیادی مقصد مستقبل میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد
بڑھانا ہے اور معیشت کو ڈاکیومنٹ کرنا ہے۔‘
|
|
ترجمان ایف بی آر حامد عتیق سرور کا موقف مختلف ہے۔
’میری ذاتی رائے میں ایمنسٹی سکیم ختم ہونے کے بعد اب پارلیمان کے دونوں
ایوانوں سے پاس ہونے والے بے نامی ایکٹ کے تحت کوئی شخص بھی رعایت کا مستحق
نہیں ہے۔
’دو اگست تک ریٹرن تو فائل ہو سکتے ہیں تاہم بے نامی اثاثوں پر کارروائی
عمل میں لائی جا سکے گی۔‘
بے نامی اثاثوں کی قرقی کیسے ہو گی؟
ترجمان ایف بی آر کا کہنا ہے کہ بے نامی جائیداد بحق سرکار ضبط کرنے کے
مختلف مراحل ہیں۔
پہلا مرحلہ وہ ہوتا جس میں کوئی شخص بے نامی جائیداد کی ملکیت سے بے خبر
ہوتا ہے اور وہ ایف بی آر کو بینیفیشل آنرز (حقیقی مالک) کا نام بتا دیتا
ہے۔ ’ایسی صورت میں جائیداد کو 90 دن تک ہولڈ کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران ایف
بی آر کی تفتیش جاری رہتی ہے اور اگر مزید وقت درکار ہو تو ایف بی آر
متعلقہ محکموں سے مزید وقت کی بھی درخواست کر سکتا ہے۔‘
آصف زرادری اور سینیٹر تنویر کا معاملہ بھی پہلے مرحلے سے تعلق رکھتا ہے۔
ترجمان کے مطابق اگر بے نامی جائیداد کا شک ہو اور جس کے نام پر وہ جائیداد
رکھی گئی ہو وہ خود ملکیت تسلیم کرتا ہو تو پھر ایسے شخص کے تمام اثاثوں کی
چھان بین کی جاتی ہے تا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ جائیداد کا مالک ہو
بھی سکتا ہے یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے زیادہ وقت اور تفتیش کی ضرورت ہوتی ہے۔
ترجمان کے مطابق عوامی عہدیداروں کے خلاف کام پہلے سے جاری تھا کیونکہ وہ
اس سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ ترجمان کے مطابق فوج کے افسران بھی
اس سکیم سے مستفید نہیں ہو سکتے تھے۔
|
|
وزیر مملکت برائے محصولات حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ’سکیم ختم ہونے کے بعد
اب قانون کا اطلاق سب پر ہو گا چند مخصوص شخصیات یا سیاستدانوں کے خلاف
نہیں۔ جہاں جہاں شک ہو کہ یہ پراپرٹی بے نامی ہے ایکشن لیا جائے گا اور اس
کی قانون اجازت دیتا ہے چاہے وہ پی ٹی آئی کا ہو یا کوئی اور۔‘
البتہ ٹی وی پروگرام میں شبر زیدی کا موقف تھا کہ 2 اگست تک بغیر جرمانہ
ادا کیے ہر طرح کے اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق ایک دروازہ اب بھی کھلا ہے،
گذشتہ برسوں سے متعلق بھی غیر ضروری تفتیش نہیں ہو گی۔
سب سے کامیاب ایمنسٹی سکیم کے حکومتی دعوے
جمعرات کو چیئرمین ایف بی آر اور وزیر مملکت برائے محصولات حماد اظہر کے
ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے اعلان
کیا کہ ایمنسٹی سکیم سے ایک لاکھ 37 ہزار لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور
اپنے آپ کو رجسٹر کروایا۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ’پاکستان کی تاریخ میں یہ
سب سے زیادہ کامیاب سکیم ثابت ہوئی۔‘
مشیر خزانہ کے مطابق اس سکیم کے تحت دیے جانے والے ٹیکس لگ بھگ 70 ارب روپے
ہے جبکہ تقریباً 3000 ارب روپے مالیت کے اثاثے ڈکلیئر کیے گئے جبکہ 137000
میں سے بڑی تعداد نئے ٹیکس دینے والوں کی ہے جو پہلے نان فائلر تھے جو ٹیکس
کے نظام میں تھے ہی نہیں۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا ’اب ہماری کوشش ہو گی کہ ایف بی آر کے نظام کو بہتر
کیا جائے تاکہ 5500 ارب روپے کی ٹیکس اکٹھا کرنے کی کوشش کو پورا کیا جا
سکے۔‘
چیئرمین ایف بی آر کے مطابق صرف 25 دن کی سکیم سے ہماری امیدوں سے بہتر
کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے گذشتہ دور حکومت میں جب ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا
اعلان کیا گیا تھا تو عمران خان سمیت پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے نہ
صرف اس سکیم کی مخالفت کی تھی بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ جو لوگ اس سے مستفید
ہوں گے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے پر ان کے خلاف قانونی کارروائی
عمل میں لائی جائے گی۔
تاہم برسر اقتدار آ کر تحریک انصاف نے بھی ایسی ہی ایمسنٹی سکیم کا اعلان
کر دیا۔
گذشتہ دورِ حکومت میں شروع کی گئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے تحت 98 ارب روپے
اکٹھے کیے گئے تھے۔ جن میں 36 ارب روپے بیرون ملک جائیدادوں کی مد میں جبکہ
61 ارب روپے پاکستان میں موجود بے نامی جائیدادوں کی مد میں اکٹھے کیے گئے
تھے۔
|
|
چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے مطابق پچھلی سکیم میں زیادہ افراد فائلر تھے
یعنی وہ پہلے سے ہی ٹیکس دے رہے تھے۔ ان کے اثاثے باہر تھے، وہ بڑے لوگ تھے
انھوں نے پیسے دیے لیکن اب حکومت نے اس سکیم میں کیش وائٹ کرنے کی اجازت ہی
نہیں دی ہے۔
شبر زیدی کا کہنا تھا کہ اس سکیم میں 80 ہزار تک ایسے افراد سامنے آئے ہیں
جو نان فائلر تھے یعنی وہ پہلے ٹیکس ہی نہیں دیتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ
’اب پاکستان میں ٹیکس کا نظام آرہا ہے، عمران خان کی حکومت ٹیکس کے معاملے
میں سنجیدہ ہے۔ یہ ٹرینڈ خوشگوار ہے۔‘
شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ان کے پاس مکمل ڈیٹا ہے۔ اس وقت 345000 انڈسٹریل
کنزیومر ہیں جبکہ 31 لاکھ کمرشل کنزیومر ایسے ہیں جن کو کہا جائے گا کہ
ریٹرن فائل کریں۔ ’سب سے پہلے ہم انڈسٹریل کنزیومر سے شروع کریں گے۔‘
حماد اظہر کے مطابق گذشتہ سکیم میں ایسے افراد سے، جنھوں نے اپنی دولت
ڈیکلئیر کی مگر کسی ملکی بینک میں جمع نہیں کروائی، کوئی پوچھ گچھ نہیں
ہوتی تھی جبکہ موجودہ حکومت کی سکیم میں اس شخص پر لازم ہوگا کہ اس نے جو
رقم ڈیکلئیر کی ہے اس کو کسی بینک میں جمع کروائے اور اس پر ٹیکس بھی دے۔
|