چور۔۔۔۔ شیخ رشید۔۔۔۔۔جانے دو!۔۔۔۔۔

مرغی، چارہ، انڈے اور دھنیا چور کو تو پاکستان کا قانون چھوٹ نہیں دیتا، پانچ سو روپے جرمانہ بروقت ادا نہ کرنے پر سزا سنا دی جاتی ہے۔ یا پانچ دن کی مہلت کی تاریخ پانچ سال بعد کھلتی ہے۔ کئی سالوں بعد قانون انصاف سزایافتہ کو بری قرار دیتا ہے جبکہ وہ جیل میں مرچکے تھے یا پھانسی گھاٹ پر لٹک چکے تھے ۔ لیکن وفاقی وزیر شیخ رشید صاحب کہتے ہیں ملکی اور انٹرنیشنل مافیا کو اپنے انداز میں رہائی کا پیغام دیتا ہے کیا کبھی ایسے وزا اور مشیروں نے عام آدمی کے لیے بھی کچھ کیا ان کی سزاوں کی معافی کے لیے کتنا ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔

جب سے دنیا آباد ہوئی ہے اس وقت سے سنتے آرہے ہیں کہ قانون مکڑی کا جالا ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ اندھا قانون ہے۔ قانون کی ایک آنکھ کام نہیں کرتی اگر کام کرتی ہے تو اس میں صرف غریب، شرفاء اور عام آدمی ہی نظر آتے ہیں اور وہ کسی ناکردہ گناہ کی سزا پاتے ہیں۔ اس جہالت کو دور کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے معاشرے کی اصلاح کے لیے انبیاء کرام کا سلسلہ شروع کیا۔ قانون سب کے لیے برابر کرنے اور عملی طور پر سمجھانے کے لیے آقائے دو عالم سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لیے اسوہ حسنہ ایک بہترین نمونہ ہے اور مکمل ضابطہ حیات بھی ۔ لیکن باوجود اس کے ہم قانون کوسب کے لیے برابر کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ قانون اور انصاف امیر زادے اور وڈیرے کے گھر کی لونڈی بن کر رہ گیا ۔ جب کسی کرپٹ مافیا ، ملکی چور اور غدار وطن کو سزا دینے کا وقت آیا تو بڑے بڑے سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ کبھی یہ سننے میں آیا کہ ہم وکیل نہیں کرتے بلکہ جج کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا جج کو یا بلیک میل کیا جاتا ہے یا پھر اس کو مراعات ہی اتنی دے دی جا تی ہیں کہ وہ سیاستدانوں کے ہر جائز اور ناجائز کام کو خوش اسلوبی سے نمٹانے میں فخر محسوس کرتا ہے لیکن اس روز محشر کوبھول جاتا ہے۔ دنیا کے مکتبہ فکر، ملک اور معاشرے میں ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی جس میں ہمیشہ ایک عام آدمی ہی سزا اور قصور وار ٹھہرا۔پاکستان کی ترقی پذیر رہنا ہی دنیا کی سب سے بڑی مثال ہے ، یہ وہ ملک ہے جو دونظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا۔ اسلامی جمہوریہ کہلایا لیکن افسوس اسلامی قانون نافظ نہ ہو سکا کیونکہ پھر تقسیم دولت ، قانون اور انصاف سب کے لیے ایک ہوگا۔

پاکستان کی بڑی دو پنچائتوں (صوبائی اور قومی ) سب نے ملک کرہر وہ قانون اور شق کی بنیاد رکھی جس میں انہی کو سہولت میسر ہو۔ یہ تقریباسب وہ ایسے مافیا ہیں جو کسی نہ کسی طور پرلاقانونیت ، کرپپشن، چور بازاری ، اختیارات کا ناجائز استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ قانون ان کے گھر کے لونڈی ہے۔ آج صبح گرفتاری اور شام میں پروڈکشن آرڈر ، پریس کانفرنس ، مرنے والے کی جنازے پر جانا جبکہ اس کے برعکس وہ ایک عام شریف آدمی چند منٹ کی ملاقات کے لیے بھی ترستا ہے۔

اب جبکہ ملک پاکستان میں لنگڑا لولا احستاب شروع ہوا ۔ سیاسی اور کرپٹ لوگوں کی پکڑ دکڑ شروع ہوئی ہے تو ساتھ ہی دیگر سیاستدانوں کے پیٹ کے ان کو مراعات دینے کے لیے مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ بس جی پیسہ دیں اور باہر چلے جائیں ایسا کیوں جبکہ مرغی چور اسی پاکستان میں انہی جیلوں میں کئی کئی سال جیل کاٹتا ہے تو ان بڑے چوروں ، کرپٹ مافیا کو ایسی سہولت کیوں دینا چاہتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید اور دیگر لوگ کیوں ایسا راگ الاپتے ہیں جس سے ان چوروں کو ریلیف دیا جانا مقصود ہے۔ معاشرہ ایسے کرپٹ لوگوں کو پاکستان میں ہی ایسی سز ا دی جائیں جو نشان عبرت بن جائے اور لوگوں کے لیے سبق آموز اور نصیحت پکڑنے کی طرف راغب کیا جائے نہ کہ ملک کو کھاوں جب پکڑے جاو تو دے لے کر بیرون ملک چلے جاوں۔ حکومتی اور دیگر سیاسی لوگوں کی طرف سے ایسی بیان بازی سے عام پاکستانی کتنے ذہنی طور پر پریشان اور ڈپریشن شکا ر ہوتے ہیں آپ سوچ نہیں سکتے۔ مختصر کرتے ہوئے بس دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لو گوں کو ہدایت دے جو قانون کو برابری کی سطح پر نہیں دیکھنا چاہتے اور ایک کی بجائے دو پاکستان ہی بنانا چاہتے ہیں۔ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو سامنے رکھ کر سوچا کریں کہ اگر ۔۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔ بھی چوری کرتیں تو ان کے لیے بھی وہی قانون تھا جو دوسروں کے لیے ۔۔۔تو ہم کون ہوتے ہیں قانون کو یکطرفہ بنانے والے۔ اللہ کریم ہم سب کو ہدایت دیں آمین ۔ ذرا سوچیں ہم کہاں کھڑے ہیں اور کتنے بلندو بالا دعوے کرتے ہیں۔
 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 173880 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More