تخلیقِ آدم ؑ سے دورِ موجود تک انسان کئی ادوار سے گزرا
ہے اور مختلف طریقوں سے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ زمانہ
قبل از تاریخ سے تمدنی دور تک آتے آتے اس نے رنگ رنگ اور قسم قسم کے علوم
وفنون سے آگہی حاصل کی۔ پتھر کے دور سے نکل کر انسان جب تہذیب وتمدن سے
واقف ہوا تو قدیم یونان اور اہلِ مصر تک پہنچتے پہنچتے اس نے نہ صرف علمی
ترقی کی بلکہ شعوری طور پر بھی ممتاز ہوگیا۔ علوم وفنون کا مرکز یہ تہذیبیں
ماہرینِ علوم وفنون کا مرکز بن گئیں۔ ارسطو، سقراط اور افلاطون جیسے عظیم
فلسفی پیدا ہوئے اور علم وفن انسان کا زیور بن گیا۔انسان نے فنونِ لطیفہ کے
ایسے ایسے فن پارے تخلیق کیے کہ انہیں دیکھ کر آج بھی عقلِ انسانی دنگ رہ
جاتی ہے۔اس فنی سفر کو جاری رکھتے ہوئے بڑے بڑے نابغہئ روز گا ر پیدا ہوئے
جنہوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا اور اس دنیا سے کوچ کر نے کے باوجود آج
بھی زندہ ہیں۔فنونِ لطیفہ میں مصوری اور خطاطی کی اہمیت اور حیثیت کو کسی
طورنظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس فن کو زندہ رکھنے والوں کی طویل فہرست ہے؛
تاہم پاکستان میں دورِحاضر میں اس فن میں نام کمانے والوں میں ایک بڑا نام
محمد شفیق فاروقی کا ہے۔
محمدشفیق فاروقی کے فنِ مصوری پر قلم اٹھانے سے پہلے اس بات کا علم ہونا
بہت ہی ضروری ہے کہ یہ فن کن کن ادوار سے گزر کا آج کے دور میں داخل ہوا
ہے۔یہ فن ایسا ہے کہ اس پرانسان نے زمانہ قبل از تاریخ سے لے کر دورِ
جدیدتک مختلف انداز میں کام کیا اور کئی نادر نمونے آنے والی نسلوں کے لیے
چھوڑے۔ فنِ مصوری کا پہلا دورپتھر کا دور کہلاتا ہے۔اس دور(stone age
art)کی مصوری بنیادی طور پر تین ادوارPaleolithic، Mesolithic اور
Neolithicمیں تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ دور2.5 ملین سے 3000 قبلِ مسیح تک مانا
جاتا ہے اور اس کے نشانات وسطی ہندوستان میں پائے گئے ہیں۔ اس کے بعد کا
دور تاریخ میں کانسی کے دور (bronze age art) کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے
جو 3000 سے1200قبلِ مسیح پر محیط ہے۔اس دور میں مصراور ایران کے علاوہ
سومیری اور منآن آرٹ پر بہت کام ہوانیز دھاتی نمونہ جات بھی قابلِ ذکر
ہیں۔ایک اور دور لوہے کادور(iron age art) کہلاتا ہے۔ یہ دور 1500 قبلِ
مسیح سے 350ء تک کا ہے۔ اس دور میں مسینین آرٹ، یونانی آرٹ، سیلٹک اور رومن
آرٹ نے خوب ترقی کی۔اس کے بعد آرٹ قرون ِ وسطیٰ350) ء سے 1300ء (،
نشاۃثانیہ 1300)ء سے 1600ء (اور نشاۃ ثانیہ کے بعد کے دور 1600) ء سے 1850
ء (سے ہو تا ہوا دور جدید 1850) ء سے1970 ء (میں داخل ہوا۔اس دور میں
ایمپریشن ازم، کلرازم، ایکسپریشن ازم اور کیلی گرافی کے بہترین نمونے
دیکھنے کو ملتے ہیں۔1970 ء سے شروع ہونے والا دور آج تک جاری ہے۔یہ بات ذہن
نشین کرنے کی ہے کہ ان ادوارکی تقسیم مغربی ہے جب کہ اسلام کی آمد کے ساتھ
ہی اسلامی آرٹ کا بھی آغاز ہو گیا تھاچنانچہ اسلامی عقائد کے زیرِ اثر
فنونِ لطیفہ کے ماہرین نے بیش بہا نادر نمونے تخلیق کیے۔ ان میں مساجد کے
محرابوں کے اندر آیات قرآنیہ کی کیلی گرافی اور دیگر بیل بوٹے شامل ہیں۔
عربوں نے جلال الدین رومیؒ کے افکار کو پینٹ کیا اور ایرانیوں نے قالینوں
پر نقش و نگار سے منفرد مقام حاصل کیا جو آج تک جاری ہے۔ پاکستان میں
صادقین نے فنِ مصوری کوعروج دیا اور اسلامی اقدار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے
کئی نادر فن پارے تخلیق کیے۔
پاکستان کے مایہ ناز مصور محمد شفیق فاروقی سے میری شناسائی تو بہت قدیم
نہیں ہے، لیکن میں ان کے حسنِ اخلاق اور فنی مہارت کی بدولت ان کا گرویدہ
ہوں۔لاہور کے ایم۔اے۔او کالج میں ”کلامِ اقبال میں مظاہرِ فطرت“ کے موضوع
پر میرا لیکچر تھا اس میں جناب فاروقی صاحب بھی تشریف لائے۔ انہوں نے میری
باتوں کو نہایت انہماک سے سماعت کیا اور بعد از لیکچر ان سے گفتگو کرکے
ایسا لگا جیسے ایسے درویش سے ملاقات ہوگئی ہو جوتصنع، بناوٹ اور ریاکاری سے
مبراہو۔ اندازِ گفتگو نہایت سلیس اور سادہ لیکن اپنے فن میں ایسے ماہر کہ
دور دور تک کوئی ثانی نہ ملے۔
میری کتاب”در برگِ لالہ وگل“ کے سلسلے کی تقاریب میں جناب شفیق فاروقی صاحب
کی شرکت سے ان کی حکیم لامت علامہ اقبالؒ سے عقیدت اور محبت صاف عیاں
تھی۔مجھے ان کی درویش گاہ میں بھی جانے کا اتفاق ہوا اور ان کی زیرِ نظر
کتاب”درخت درویش“ دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ کتاب ان کے فن کی منہ بولتی
تصویر ہے جس میں انہوں نے دو سو کے قریب اسکیچز شامل کیے ہیں۔ بنیادی طور
پر اس کتاب میں کیکر اور شیشم کے درختوں پر فوکس کیا ہے اور یہ اسکیچزایسے
ہیں جو پکار پکار کر کہہ رہے ہوں کہ ہم نے تمہیں (انسان)بہت کچھ دیا لیکن
تم نے توہمیں صفحہ ئ ہستی سے ہی مٹا دیا۔
شفیق فاروقی صاحب کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور وہ اب لاہور میں مقیم ہیں لیکن
ان کا دونوں شہروں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ فاروقی چونکہ ایک درویش منش
انسان ہیں اس لیے انہیں انسانوں کے ساتھ ساتھ درختوں سے بھی بے انتہا محبت
اور عقیدت ہے۔فاروقی کے بقول جب وہ لاہور سے سیالکوٹ سفر کرتے ہیں تو ان کی
آنکھیں ان درختوں کو تلاش کرتی ہیں جو کبھی سڑک کے دونوں جانب کھڑے ہوتے
تھے۔ایسے میں ان کے لب حرکت کرنے لگتے ہیں اور وہ بر ملا پکار اٹھتے ہیں:
کیتھے گیاں پنڈ دی ٹالیاں تے بیریاں
کیتھے ساڈے پیپلاں دی چھاں گئی
شفیق فاروقی بھی حکیم لامت علامہ اقبالؒ کی تقلید میں درختوں سے اظہارِ
محبت کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ علامہؒ کے کلام اگر بنظر غائر مطالعہ کیا
جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ انہیں درختوں سے خاص لگاؤ تھا۔چنانچہ علامہؒ کے
کلام میں درختوں کا ذکر جا بجا مل جاتا ہے۔نظم’ہمالہ‘ میں انہوں نے منظر
کشی میں اپنا ہنر کمال کی حد تک پیش کیا ہے۔یہ بات وہ لوگ بخوبی سمجھ سکتے
ہیں،جوسوچ و فکرسے آگہی رکھتے ہیں کہ سرِ شام درخت واقعی ایسے نظر آتے ہیں
جیسے کسی گہری سوچ میں گم ہوں اور اسی بات کو علامہؒ نے شعر کی صورت اور
شفیق فاروقی نے اسکیچ کی شکل میں پیش کر دیا ہے۔
وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا
وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا
علامہ اقبال ؒ کی نظم و نثر کے گہرے مطالعے سے یہ بات اہلِ علم پر عیاں ہو
جاتی ہے کہ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ درخت بھی کلام کرتے ہیں؛ چنانچہ
ایک جگہ پرندے اور درخت کی گفتگوبیان کرتے ہوئے اشیا کے کردار اور ان کی
افادیت کو موضوع بناکر انصاف اور ظلم وستم کا فرق واضح کیا ہے۔
کہا درخت نے اک روزمرغِ صحرا سے
ستم پہ غمکدہئ رنگ وبو کی ہے بنیاد!
بعینہ شفیق نے اپنے اسکیچز میں درخت کو کچھ اس انداز سے پیش کیا ہے کہ ان
کے جاندار ہونے اور کلام کرنے کا احساس روح میں اتر جاتا ہے اور زبان سے
بلا تامل واہ! نکل جاتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ بات بھی ہمارے تجربے میں ہے کہ
درخت ماحول کو نہ صرف پرکشش بلکہ صاف رکھنے میں بھی نمایاں کردار ادا کرتے
ہیں،وہ درخت آج زمانے کی نام نہاد ترقی کی نظر ہوگئے ہیں۔ ان درختوں کی عدم
موجودگی شفیق کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالتی ہے تو ان کے ہاتھوں کی
انگلیاں گردش میں آجاتی ہیں اور وہ ان درختوں کے نقش کاغذ پر اتارنا شروع
کردیتے ہیں۔وہ ان درختوں کو درویش مانتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ درخت
ایسا درویش ہے جو انسان کو بس دیتا ہی دیتا ہے، اس سے کسی شے کا تقاضا کرنا
اس کی فطرت نہیں۔درخت انسان کو آکسیجن مہیا کرتے ہیں جو انسانی زندگی کی
اساس ہے، درخت انسان کو پھل دیتا ہے جو اس کی غذا کا لازمی جزو ہے، درخت
انسان کو اپنے برگ و بار دیتا ہے، درخت انسان کو کڑی دھوپ میں سایہ فراہم
کرتا ہے، درخت زمیں کو زرخیز بناتا ہے اور نہ جانے درخت انسان کے لیے کیا
کیا کرتا ہے؛ لیکن انسان اسے بڑی بے رحمی سے بنا کسی قصور کے کاٹ دیتا
ہے۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ قدرت نے اگر ان درختوں کو اگایا ہے تو ان کے
رزق کا بھی بند و بست کر رکھا ہے۔فاروقی اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ
اربابِ اخیتار کو چولستان میں درخت لگانے چاہیں تاکہ وہاں کے باسی بھی ان
درویشوں سے مستفید ہو سکیں۔
یہ حقیقت ہر کس ناکس پر اظہر من الشمس ہے کہ سر زمینِ پاک درختوں کی دولت
سے مالا مال ہے اور ایسے ایسے نایاب درخت اور پودے یہاں اگتے ہیں کہ جن کے
فوائد اتنے ہیں کہ بیان کے لیے الگ کتب خانہ چاہیے۔مثلاً: کیکر، شیشم،
املتاس،ارجن، سمبل،فراش یا گز،سکھ چین، کنیر، کچنار، بیری، توت،نیم،
دھریک،پیپل، سفیدہ اور بہت سے دیگر درخت پاکستان میں پائے جاتے ہیں، ان میں
سے ایک کثیر تعداد ادویات بنانے کے کام آتی ہے۔پودوں سے محبت رکھنے والے
دنیا کے مشہور و معروف محقق ڈیوڈ ایٹن برا(David Attenborough)اپنی کتاب
(The Private Life of Plants)میں لکھتے ہیں کہ پودے ایک دوسرے کی باتیں
سنتے اور سمجھتے ہیں۔وہ ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں اور حیران کن حد تک وقت کا
ادراک رکھتے ہیں۔
”درخت درویش“میں شفیق نے انہی درختوں کے اسکیچز شامل کیے ہیں، جو کبھی اس
سڑک کے دونوں جانب کھڑے ہمارے ماحول کو آلودگی سے بچاتے تھے۔ بنیادی طور پر
انہوں نے اس ایک علاقے کی مثال دے کرہر خطے کی بات کی ہے اور اس بات کی
آگہی دلائی ہے کہ ہمارے ماحول کو بہتر بنانے میں درختوں کا کردار کتنا اہم
ہے۔ پس یہ کہا جاسکتا ہے کہ فاروقی کے اسکیچز میں ایک نئی دنیا آباد
ہے۔فاروقی جب land scaping کی بات کرتے ہیں تو وہ یہ بات کبھی فراموش نہیں
کرتے کہ درخت اس کا بنیادی جزو ہیں۔وہ دائیں ہاتھ سے پینٹنگ اور ڈرائینگ
کرتے ہیں۔ ان کی پینٹنگز کی ایک اور نمایاں بات یہ ہے کہ وہ کسی بھی قسم کا
برش استعمال نہیں کرتے بلکہ قدرت نے ان کی انگلیوں اور انگلیوں کے پوروں
میں کمال فن عطا کیا ہے کہ ان کے استعمال سے تخلیق پانے والے فن پارے برش
سے بننے والے فن پاروں سے کہیں نفیس اور منفردہیں۔ شفیق فاروقی کی ”درویش
گاہ“ جائیے تو ان کے ساتھ ان کی صاحبزادی بھی اسی انمول فن میں اپنا نمایاں
کردار ادا کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔وہ بھی اپنے والد کی طرح ایک نفیس، ملنسار
اور فنِ مصوری کی دلدادہ اور اس فن کی گہرائی کو سمجھنے والی فن کارہ
ہیں۔میں ذاتی طور پر ان دونوں سے مل کر بے حد متاثر ہوا اور جب فاروقی صاحب
نے مجھے ”درخت درویش“ پر چند جملے لکھنے کی فرمائش کی تو میرے پاس انکار کی
گنجائش نہ تھی۔میں نے ایک مصور نہ ہوتے ہوئے بھی اس فرمائش کو بسر وچشم
قبول کر لیا اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ شفیق ایک ایسا مصور ہے جس کے دل و
دماغ سے نکلنے والی ہرآہ اثر رکھتی ہے۔”درخت درویش“ کے صفحات پلٹتے جائیے
اور ہر صفحے پر ایک نئی داستان سے واقفیت حاصل کرتے جائیے۔
قبل ازیں فاروقی مولانا روم کے افکار پینٹ کر چکے ہیں اور مستقبل میں ان کی
تین کتابیں بعنوان اللہ جلہ جلالہ، رسولﷺاور اقبالؒ زیورِ طباعت سے آراستہ
ہو کر منصہ شہود پر آنے والی ہیں۔میری دعا ہے کہ اللہ انہیں ان کے اس مشن
میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے۔
آخر میں مَیں جناب محمد شفیق فاروقی صاحب کو ان کی اس نئی کاوش پر مبارک
باد پیش کرتا ہوں کہ جس کے توسط سے انہوں نے درختوں کی اہمیت، افادیت اور
ان کی حفاظت کی مہم سے ہمیں آگہی دلائی ہے۔ واقعی ”درخت درویش“ آنے والے
زمانوں میں ایک نایاب فن پارہ گردانی جائے گی۔مجھے یقین ہے کہ ”درخت درویش“
کے بعد ان کی اسی موضوع پر اور کتابیں بھی منظرِ عام پر آئیں گی۔
|