گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہونے والی ہماری تین میٹنگز
کراچی شھر کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی بحث پرتمام ہوئیں. کافی دوستوں کا
ماننا تھا کے یہ بات سمجھ سے بالا ہےکہ درجہ حرارت تو چالیس ہے پر محسوس
اڑتالیس کیوں ہوتا ہے؟ موسم کی پیشن گوئی کرنے والے اکثر ادارے بھی اب درجہ
حرارت اور وہ اُس کے احساس کو مختلف درجہ بندیوں سے ناپتے ہیں. ہم کو گو کے
اِس مضمون سے ذیادہ واقفیت نہیں پھر بھی اِس پر یقین کرنے میں ہم کو کوئی
تَامل نھیں ہے.
ہمارے بچپن میں تو رات کے خبرنامے کے آخر میں موسم کی خبریئں آتی تھیں جِن
کو اکثر کوئی بھی نھیں سنتا تھا. موسم چونکہ آج کل جیسا سخت کبھی بھی نھیں
ہوتا تھا کے لُوگ انسانوں کے ساتھ ساتھ پالتو جانوروں کوگرمی لگنے کی
علامات اور اُن کے تدارک کے نُسخوں پربات چیت کرتے ہوں لہذا موسم کی پیشن
گوئی اور حیثیت ثانوی تھی. یہ تاہم ہم کو ضرور یاد ہے کے ملک میں بارشیں
خوب ہوتی تھیں اور گرمیوں کی چھٹیوں میں سیلاب ضَرور آتا تھا. سرکاری
اِسکولوں میں پڑھنے والے طلباء اِس لئے بھی سیلاب کا انتظار کرتے تھے کے
اکثر اُن کے اِسکول سیلاب ذدگان کے کیمپ بَن جاتے تھے اور گرمیوں کی چھٹیاں
مذید طویل ہو جاتی تھیں.
گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلوں یا موسمیاتی بحران جیسے الفاظ ہم نے اپنی
زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارنے کے باد سنے، تاہم اِس پر ہم کُو کوئی غم نہیں
ہے. مغربی مُمالکوں نے موسمیاتی تبدیلوں کے مضر اثرات کے بارئے میں خاصہ
عرصہ قبل متنبہ کرنا شروع کردیا تھا تاہم ہمارے جیسے ممالک جہاں سائنس سے
بِلعموم اور مظاہر فطرت کے علوم سے بلخصوص واقفیت اور آگاہی کا یہ حال ہے
کہ نہ صرف عوام بلکہ ٹی وی چینلز اور حکومتی عہدیداران بھی اِس بات پر یقین
کرتے ہوں کے پانی سے موٹرکار چلائی جاسکتی ہے اور اِس عظیم کارنامے پر نوبل
انعام کا نہ ملنا یقینی طور پر ایک ذیادتی بلکہ سازش ہے.
سائنسدان موسمیاتی تبدیلوں کی کئ وجوہات بیان کرتے ہیں جِن میں جنگلات یا
درختوں کا کم ہونا بھی اِس کی ایک وجہ ہے. اعدادوں اور شماریات سے واقفیت
رکھنے والے اداروں کے مطابق جنگلات پاکستان کے رقبے کا صرف ۲.۲ فیصد ہیں.
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کے اقوام متحدہ کے مطابق، کسی بھی ملک کئے
لئے اُس کی کُل زمین کا کم از کم ۲۵ فیصد پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے.
اِس صورتحال میں ہم کو درختوں کی اشد ضرورت ہے اور اِس صورتحال کو کسی
سیاسی نعرے یا پیسے کمانے کے کسی نئے ذریعے سے نہ جوڑا جائے. درخت لگانے پر
نہ صرف ہم کو اپنی توجہ مرکوز کرنی ہوگی بلکہ اِس پر سرمایہ کاری بھی کرنی
ہوگی. درخت ہمارےماحول کا ایک لازمی حصہ ہیں، بدقسمتی سے درختوں کی اک بڑی
تعداد کراچی سے غائب ہوگئ ہے اوراُن کی جگہ ہم نے کنکریٹ کا ایک ایساجنگل
بَسا لیا جو دن رات تپتا ہے. اِسی شھر کے ایک چُھوٹے مگر انتہای کثیر آبادی
والے علاقے میں رہنے والی خاتون کل شام ہم کو بتا رہیں تھیں کہ اِس گرمی
میں ٹین کی تپتی چھت والے مکان میں جہاں دِن میں بجلی بھی کم از کم دس
گھنٹے غائب رہتی ہے ایک لحاظ سے فائدے مند ہے. ہم نے قدرے حیرت سے وجہ
دریافت کی تو اُنہوں نے بتایا کے روٹی گرم کرنی نہیں پڑتی ہے.
جیسا کے ہم سب کو علم ہے کے پانی کی کراچی میں کمیابی ہے اور اب تو یہ حال
ہے کہ نہ صرف متمول علاقوں کے مکین بلکہ کچی آبادیوں میں بھی رہنے والے
پانی خرید کر پیتے ہیں. اِس صورتحال میں درخت لگاتے ہوے تھوڑا سا سوچ
لیجئے. کراچی شہر کے لئے وہ درخت بہترین ہیں جو کم پانی میں اُگ جاتے ہیں
اور ہمارے ماحول سے مطابقت رکھتے ہیں. ہمارے ایک دوست جوپیشے کے لحاظ سےایک
آرکیٹیکٹ ہیں اُن کا خیال ہے کے نیم، گلموہن، املاتاس یا لگیگ کراچی کے
لئےماحول دوست درخت ہیں.
اگر آپ کے پاس درخت لگانے کی جگہ نہیں ہے تو کچھ پودے لگا لیں، کوئی سبزی
اُگالیں یا فلیٹ کی بالکونی میں کوئی بیل چڑھا دیں. گھر کے اندرونی حصوں
میں بھی پودے لگا سکتے ہیں یا کم از کم منی پلانٹ ہی بوتلوں میں لگا لیں.
اگر کوئی خوبصورت بوتل درکار ہے تو شھر میں واقع بُوتل گلی کا چکر لگالیں.
گھر کے، جاننے والوں کے اور گلی محلے کے بچوں کو پودوں اور درختوں کی اہمیت
سے آگاہ کریں اور اُن کو سمجھائیں کہ درخت اور پودوں میں ہی ہماری بقا ہے.
کراچی شھر کی سیاسی وراثت آج کل کچھ بٹ سی گئ ہے. وفاق سے کیا گرانٹ ملی یا
صوبے کی سرکار شھر کو کیا دیتی ہے ہمارے نہ علم میں ہیں نہ اِس بات کی
جستجو ہے. عرض صرف یہ ہے کے شھر کی بہتری کے لئے کچھ اتنا ہی کردیں کہ ٹین
کی چھت والے چھوٹے سے گھرمیں بنی روٹی ٹھنڈی ہو جایا کرے.
|