دین اسلام دنیا کے سامنے ہمیشہ ایک نمونے کے طور پر پیش
کیا جاتا ہے۔ آج بھی اگر ہم اسلام کو بطورِ ایک نمونہ کے پیش کرنا چاہیں تو
ہمیں بے حجابی، عریانی، عورتوں اور مردوں کے اختلاط اور فحاشی و گناہوں کے
تمام ذرائع سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔ اُمتِ مسلمہ اگر خلوصِ دل سے اِن
تقاضوں کو پورا کرے تو غلبہ اسلام کا غروب نہ ہونے والا سورج ایک بار پھر
اس آسمان پر چمکے گا اور پوری دنیا اِس کی ضیاء پاشیوں سے منور ہو گی انشاء
اﷲ۔ بے راہ روی کی ایک وجہ بے پردگی بھی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے پردہ کو ترقی
کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر اِس کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے فیشن
پرستی اور دوسروں کی نقالی میں آجکل مسلمان بہت آگے نکلنے کی کوشش میں ہیں
اور اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ اِس سے ایک طرف تو اسلامی اقدار مجروح ہوئی
ہیں اور دوسری طرف یہی لوگ معاشرے میں بگاڑ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ دوسروں کی
نقالی کرنے والے احساسِ کمتری میں مبتلاء ہوتے ہیں۔نقالی نہ صرف لباس، رہن
سہن اور کھانے پینے کی چیزوں میں کی جاتی ہے بلکہ مردزنانہ لباس اور عورتیں
مردانہ لباس میں خود کو دیکھنا قابلِ فخر سمجھتی ہیں۔ آج معاشرہ بدامنی، بے
چینی کے دور سے گزر رہا ہے۔ قتل و غارت گری، چوری، ڈاکے، راہزنی، نسل کشی،
تعیش پسندی اور بے راہروی کا بازار گرم ہے۔ شرعی احکام کی پابندی کے بجائے
اس پرمذاق کیا جا تا ہے۔ ایسے میں اس کی اصلاح کے لئے اسلامی احکامات کو
بحیثیت نظام زندگی غالب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ عصمت کی حفاظت اور بے
حیائی کا سدِ باب کرنے کے لئے اسلام نے عورتوں کے لئے پردہ لازم قرار دیا
اور ساتھ ہی مردوں کو غیر محرم عورتوں کی طرف بُری نظر وں سے دیکھنے سے منع
کیا گیا ہے بلکہ نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی قسم
کی بداعمالیاں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں تو پہلے خدا کی صنعت و رحمت اور
قانون اِسے مہلت دیتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کر لے۔ جب اِس پر بھی وہ اپنی
روش نہ بدلے تو خدا کا قانوں حرکت میں آتا ہے اور عذابِ آخرت کے علاوہ دنیا
ہی میں اِسے ذلت اور پستیوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لئے زندگی
کا سرچشمہ اور نصب العین دینِ اسلام ہے۔ مسلمانوں کو دنیاوی عروج اِسی کے
ذریعے حاصل ہوا اور آئندہ بھی اِس کے سہارے زندہ رہنا ممکن ہو سکتا ہے۔
ایمان و عمل کی اُصولی روح اﷲ کی ذات پر اعتماد، توکل سعی و عمل، اِیثار و
قربانی، اخلاص و صداقت، سادگی اور جفا کشی وغیرہ وہ اوصاف ہیں جو اخلاقی
فاصلہ پیدا کرتے ہیں اور جو دین کی ترقی کے ساتھ دنیوی ترقی کے بھی سب سے
بڑے وسائل ہیں۔ جو قومیں اِن اوصاف سے متصف ہوتی ہیں اِن کو دنیا کی کوئی
طاقت نہیں دبا سکتی کیونکہ ملک و قوم کی صحیح خدمت بھی دین ہی کے ذریعے ہو
سکتی ہے۔
|