ان مشکل معاشی حالات میں جبکہ روزگاربھی نہیں ہے۔ ایک
روشنی نظر آئی تھی۔ بختیاری یوتھ سنٹر کے بورڈ آفس سے معذوروں کے کوٹے میں
نائب قاصد کی جاب کیلئے انٹرویو کی کال آئی تھی۔ کرائے کیلئے پیسے جمع کیئے
صبح دس بجے حاضری کیلئے۔ صبح چھ بجے سے تیّاری شروع کی اور اللہ کی مدد سے
آخر پہنچ بھی گئے۔ مگر وائے ناکامی وہاں ایک نوٹس لگادیا گیا تھا کہ
انٹرویو کینسل کر دیا گیا ہے۔ دوبارہ انٹرویو کی اطلاع کا لیٹر بھیج دیا
جائے گا۔ ہم اپنی محرومی اور مایوسی کا اظہار کس طرح کریں۔ پھر دماغ میں یہ
خبریں گونجنے لگیں کہ نوکریاں بکتی ہیں۔ مگر بھلا نائب قاصد کی معمولی
ملازمت کو کون فروخت کرے گا۔ مگر ماضی میں یہ کام ہوتا رہا ہے۔اور ان چھوٹی
نوکریوں پر بھی بھاری بولیاں لگتی رہی ہیں۔ عدالت نے کہا تھا کہ نوکریاں دو
اور ہم کو رپورٹ بھی کرو۔ شائد اس وجہ سےاشتہار بھی آگیا۔ اور کسی معذوروں
پر ترس کھانے والے نے انٹرویو لیٹر بھی جاری کر دیا۔اس طرح آدھا کام تو ہو
ہی گیا ہے۔اب دوبارہ کون نوٹ کرے گا۔ اسی میں کہیں کھانچہ نکل آئے گا۔
میں مانتا ہوں کہ یہ میری بد گمانی ہو گی۔مگر ہم کیا کریں، ایسا ہوتے دیکھا
بھی ہے۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ پھر یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ
ہماری شکائت سنی بھی جائ۔ یہ تو ایک عجوبہ ہی ہوگا۔ کہ جن کے بارے میں لکھا
ہے۔ وہ ہی دیکھ لیں۔ ورنہ ہماری قلمی سوچ ہے۔ شائد کہ ہمیں درد میں کچھ
افاقہ ہو۔
ادیب کی خوبی یہی تو ہوتی ہے۔کہ اپنے اور اپنےجیسوں کے خیالات کی ترجمانی
کرتا ہے۔کسی مجبور نے اپنی بے بسی کو اس طرح کہا ہے۔ جو چپ رہے گی زبانِ
خنجر لَہو پکارے گا آستیں کا۔
کسی کو دارِفانی سے جاتے دیکھ کر کوئی عبرت نہیں پکڑتا۔ بلکہ بلند آواز میں
سوچتا ہے۔یہ مر گیا ہم تھوڑاہی مر رہے ہیں۔ اور ابھی بہت وقت ہے۔ احتساب سر
پر آگیا ہے۔دلیل یہ ہے کہ ہم نے کچّی گولیاں نہیں کھیلیں ہیں۔ ہمیں کون
پکڑے گا۔مجھ سے پوچھو تو میں کہوںگا شیر کے منہ میں سَر دینا سرکس میں تو
شائد ٹھیک ہو۔ مگر شیر کا کیا بھروسہ کہ اسے کب مزہ آجائے۔
جَائے عِبرت سَرائے فَانی ہے۔۔۔مورِدِ مرگِ نا گہَانی ہے
کل جہَاں تھا بلبلوں کا ہجوم آج ہے وہاں آشیانہ بوم
ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر
کْرسِیوں کے چند کیڑے ملْک سَارا کھَاگئے
|