بھوک ،بیماری اور افلاس سے تنگ کچرے کے ڈھیر پر پڑے ہوئے معصوم لخت جگر

علماؤں، دولت مندوں، سیاستدانوں، جاگیرداروں،سرمایہ داروں ، منصفوں اور حکمرانوں کے ضمیروں جھنجوڑتے ہوئے بھوک ،بیماری اور افلاس سے تنگ کچرے کے ڈھیر پر پڑے ہوئے معصوم لخت جگر

تڑپتی اور سسکتی ہوئی انسانیت آج خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام نہاد چند بکاؤ ملاؤں،اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیکر ڈھٹائی سے مال پانی بنانے والے اسلام کے ٹھیکیداروں،قوم کو لوٹ کر کھانے والے سرمایہ داروں، مزارعوں کو غلام بنا کر رکھنے والے جاگیرداروں، آٹا مافیا، چینی مافیا، معاشرے کے وہ ناسور جنہوں نے گندم سمگلنگ کرکے پاکستان کے غریب عوام کو بھوک سے دوچار کیا ، ذخیرہ اندوزوں، مقدس انصاف کے نام پر بکنے والے چند بدبو دار منصفوں، قانون کی عملداری کی آڑ میں چند سکوں کی خاطر اپنی عاقبت ، آخرت اور عزت کو داؤ پر لگانے والے وہ سودے باز جو قانون کو پامال کرکے عوام کو ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل کر غیر انسانی اور غیر اسلامی فعل کے مرتکب ہوتے چلے آرہے ہیں اورملک کو لوٹ کر اربوں روپے کا دھن مختلف اندرونی اور بیرونی بینکوں میں ارتکاز کئے ہوئے ہیں تقاضہ کرتی ہے اور انہیں چیلنج کرتے ہوئے یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ لوگ انسانیت کے نام پر غلیظ دھبہ ہیں اورر مسلمان ہونے کے ناطے سرا سر اسلام کے منافی گھناؤنا کردار ادا کر رہے ہیں جسکی نہ ہی انسانیت اجازت دیتی ہے اور نہ ہی کوئی انسانی نظام۔ بھوک، ننگ و افلاس اور بیماریاں جب عام ہو جائیں اور حاکم وقت سرف نظر کرتے ہوئے اپنی عوام کے دکھ درد اور تکالیف کو جان بوجھ کر محسوس کرنا چھوڑ دے توایسے معاشرے کے انسان جنگل کے درندوں اور جانورں کیطرح اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے شیر پر حملہ آور ہونے سے بھی نہیں چوکتے اور وہ ہر حال میں اپنے بچوں کو مرنے سے بچانے کیلئے دوسرے طاقتور جنگلی جانوروں اور درندوں پر جھپٹ پڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔انگریزی کی ایک کہاوت ہے کہ بھوکے خرگوش کے نزدیک نہ ہی کسی سرحد کی کوئی اہمیت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کسی عقیدے کا پابند ہوتا ہے ۔ بھوکے خرگوش کو تو جہاں سے بھی اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے کچھ کھانے کو ملیگا وہ وہیں جائیگا اور دوسرے خرگوش اس بھوکے خرگوش کے راستے کو روکنے کیلئے کوئی ٹینک لاکر کھڑے نہیں کیا کرتے۔ہمارے ملک میں جسے ہم مسلم معاشرہ کہتے ہوئے نہیں شرماتے چند عشروں سے دل ہلا دینے والے تواتر سے عمل پذیر ہونے والے واقعات جن سے انسانیت کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو چکا ہے ان سے ہمارے سر نہ صرف شرم سے جھک جانے چاہئیں بلکہ ہمارے معاشرے میں دولت کے گنجینوں میں اسکا ارتکاز کرکے اسکی پوجا کرنے والوں کو ڈوب کر مر جانا چاہئے کہ انکی اکٹھی کی ہوئی دولت کے ہوتے ہوئے مائیں اپنے بھوکے بچوں کو ننگ و افلاس اور بیماری سے تنگ آکر کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے پر مجبور ہیں، اپنے لخت جگروں کو صرف بھوک ،افلاس اور بیماری سے تنگ آکر کچرے کے دھیر پر پھینک جانا، کراچی میں آٹھ بچوں کو اپنے سینے سے علیحدہ کرکے روتا اور بلکتا ہوا ایدھی سینٹر میں چھوڑ جانا، اسی طرح لاہور میں ایک ماں کا اپنے بچوں کو حالات سے مجبور ہو کر انہیں بازار میں لے آنا، فٹ پاتھ پر برائے فروخت کا بورڈ آویزاں کرکے اپنے لخت جگروں کا بیچنا ، بھوک اور بیماری سے تنگ اپنے بچوں سمیت ماؤں کا خود کشیاں کرنا، بیمار بچے کو ادویات کی عدم دستیابی کیوجہ سے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک کر چلے جانا اور اس بچے پر کیڑوں اور چیونٹیوں کا حملہ کرکے اسکے جسم کو زخمی کر دینا ۔آج انسانیت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ کہاں ہیں وہ انصاف کے نام پر عدالتوں کو بحال کروانے والے وکلاء اور سیاستدان جو ہماری بھوک، افلاس ، بیماری اور ننگ سے نظریں چرا کر ہمیں حالات کی بھینٹ چڑھا کر خود عیاشی کے نشے میں مخمور ہیں؟ کیا ہمارے معاشرے کے تمام صاحب ثروت اور دولت مند لوگ بے حسی کا شکار ہو چکے ہیں؟ ، کیا ہمارا آئین چپ سادھے ہوئے صرف اور صرف آئین کی کتابوں میں چھپا بیٹھا رہیگا کیا یہ آئین ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے ایسے ہی محروم رکھے گا؟؟، کیا جمہوریہ اسلامی مملکت پاکستان میں انسانیت دم توڑ چکی ہے ؟ کیا یہ بھوک سے بلکتے ہوئے بچے اور افلاس کی چکی میں پستے ہوئے ماؤوں کے معصوم لخت جگر کوڑے اور کچرے کے ڈھیروں پر پھینکے جاتے رہینگے؟، کیا فلاح کے نام پر معرض وجود میں آنے والی تنظیمیں یونہی خاموشی سے انہیں بکتا ہوا اور ذلیل و خورا ہوتا ہوا دیکھتی رہینگی؟ کیا ان باعث شرم حالات میں ہمارے حکمران ہمیں نظر انداز کرکے یونہی اپنے اللے تللوں میں مصروف رہینگے اور و ہ سب اچھا کی رٹ لگا کربلکتی ہوئی عوام کو دھوکے میں رکھتے رہینگے؟۔ کہاں ہیں وہ منصف جو ہمیں انصاف فراہم کرتے ہوئے ہمیں ہمارے بنیادی حقوق دلوائینگے؟

ہمارے معاشرے کے انتہائی دگرگوں حالات اور بچوں کی فروخت اور بچوں کو اپنے سینوں سے جدا کرکے انہیں ہمارے ہی پیدا کردہ حالات کے تھپیڑوں کے سہارے چھوڑ جانا پاکستان کے جھوٹے معززین اور نام نہاد مسلمان علماء کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ مگر تا حال نہ ہی کسی اسلام کے ٹھیکیدار ملا نے غیرت میں آکر انکے حق میں اپنی زبان کھولی اور نہ ہی کسی جاگیردار ا ور سرمایہ دار نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر انہیں بکنے یا پھربھوک اور بیماری سے مرنے سے بچایا ۔ جبکہ اﷲ تعالیٰ نے دولت مندوں اور صاحب ثروت لوگوں کے مال میں غریبوں کا حصہ رکھ دیا ہے ۔ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔ کہتے ہیں کہ دولت انسان سے اسکی انسانیت چھین لیتی ہے اور وہ درندہ اور جانور بن جاتا ہے اسلام میں دولت کے ارتکاز سے سختی سے منع کیا گیا ہے مگر وہ دولت مند جو تن پر صرف ایک شلوار قمیض کے علاوہ تیسرا کپڑا نہیں پہن سکتے اور دو سے تیسری روٹی کھائیں تو بیمار ہوجاتے ہیں یہ غریب قوم ان سے سوال کرتی ہے کہ کیا یہ بے بہا دولت تمہیں بکتی ہوئی اور دم توڑتی ہوئی انسانیت کے ہوتے ہوئے قبر میں چین سے سونے دیگی ؟ آج قوم کے بکتے ہوئے اور بلکتے ہوے یہ معصوم بچے ملک کے علماء، انسانی حقوق کی تنظیموں ، حکمرانوں، سیاستدانوں ، دولت مندوں اور منصفوں کے ضمیروں کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر با آواز یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ا پنے والدیں سے علیحدہ ہونے اور بچھڑنے سے بچا لو، ہمیں بھی اس معاشرے کا ایک فرد سمجھتے ہوئے ہمارے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرو کیونکہ ہم بھی جینے کا حق رکھتے ہیں۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.