پاک مٹی کا قرض

’’ بیٹا کیا بات ہے ، آج اتنے اُداس کیوں ہو ؟ ‘‘ جب ایس پی یار محمد رات کو گھر آیا تو والد نے اُس کے چہرے پر پھیلی اُداسی دیکھ کر دریافت کیا۔
’’ ابا جان ! آج انسپکٹرجنرل آف پولیس کی زیر صدارت ایک اہم اعلیٰ سطحی اجلاس تھا ۔ ‘‘ یار محمد نے پی کیپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ دل کو اُداسی نے دبو چ لیا ہے۔ ‘‘
’’ ایسے کون سے انکشافات ہوئے کہ جس نے ہمارے شیردل بیٹے کو اُداس کر دیا ہے۔ ‘‘ والد نے حوصلہ باندھتے ہوئے کہا۔
’’ذرا میں یونیفارم تبدیل کر لوں پھر تفصیلاً بتلاتا ہوں۔ ‘‘یار محمد نے ڈریسنگ روم کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔
والد نے کہا۔ ’’ ٹھیک ہے ، اتنے میں ، میں کرمو چا چا سے کھانے کا بندوبست کرنے کا کہتا ہوں۔ ‘‘
جب کھانے کی میز پر باپ بیٹا بیٹھ گئے تو ایک دفعہ پھر وہی موضوع شروع ہوا۔ یارمحمد نے سارا احوال بیان کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ دونوں باپ ، بیٹا ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے دوست بھی تھے اور مشکل اوقات میں ایک دوسرے کے مسائل غور سے سنتے اور اُن کا حل تلاش کرتے۔ یار محمد اکلوتا تو نہ تھا لیکن لاڈلہ ضرور تھا۔ اُس کی والدہ کا انتقال اس کی پیدائش کے ایک سال بعد ہوگیا تھا۔ اس کا ایک بڑا بھائی تھا جس کی عمر اس وقت چار سال کے لگ بھگ تھی۔ آپ کے والد نے آپ کی پرورش میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آنے دی ، پس وہ ایک باپ ہونے کے علاوہ ایک ماں بھی تھا۔
وقت کا پنچھی محو ِ پرواز تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد یارمحمد نے کمیشن کا امتحان پاس کیا اور اسے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کا عہدہ ملا۔ اس نے اس اہم منصب پر فرض شناسی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا، وہ ہمہ وقت اپنی ذمہ داریاں نہایت مستعدی سے سرانجام دیتا۔ یہ سب اس کے شفیق والد کی پرورش ، تعلیم ، تربیت اور نصیحتوں کا اثر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آج اس نے تمام پریشانیاں اپنے دوست اور شفیق والد سے شیئر کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’ ابا جان ! آج کل ملک کو درپیش مسائل میں سرفہرست مسئلہ دہشت گردی ہے جس نے ملک میں امن و امان کی صورت حال ابتر کردی ہے۔ ایسی صورت حال میں ہمارے کاروباری لوگ ملک چھوڑ کر بیرونی ممالک کا رُخ کر رہے ہیں اور باہر دنیا کے سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگانے کا رسک نہیں لیتے ہیں۔ اس امن و امان کی ابتر صورت حال نے ہماری معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ ‘‘ یار محمد نے بات آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا۔ ’’ پہلے دشمن ملک کے ایجنٹ بڑے شہروں میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے لیکن اس بار انہوں نے ملک کے کسی شہر کو نہیں بخشا، تمام ملک میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے اور آج تک جن دہشت گردوں کو پکڑا گیا ہے وہ ۔۔۔۔۔۔ اپنے دیس کے باسی ہیں جو پیسوں کی لالچ میں ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں اور آنکھوں پر ناجائز دولت کی پٹی باندھ کر اپنے معصوم اور بے گناہ بھائیوں اور بہنوں کا بے دریغ قتل ِ عام کر رہے ہیں۔ آج گھر ، سڑکیں ، اڈے ، ہسپتال اور حتیٰ کہ مساجد تک ان دہشت گردوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ اپنے دیس کے باسیوں کو دشمن ملک کے ایجنٹ شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ ‘‘ یار محمد نے پانی کا گھونٹ کرکے گلاس رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ ابا جان ! آج کا اجلاس انہی مہروں کو چلانے والے ہاتھوں کو بے نقاب کرنے کے بارے میں تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ مہرے بھی شطرنج کے مہروں کی طرح روح سے خالی ہوتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کے چلانے والے ہاتھ کس کے ہیں۔ ‘‘
ابا جان نے بیٹے کی بات کی تائیدکرتے ہوئے کہا۔ ’’ کبھی انسان دولت کی لالچ میں آکر اندھا ہوجاتا ہے اور کبھی اس کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اسے اندھا کردیا جاتا ہے ۔ ‘‘
**********
صبح جب ایس پی یار محمد دفتر پہنچا تو اُس نے اپنے ضلع کے تمام تھانوں کے ایس ایچ او کی میٹنگ بلائی۔ جس میں اُس نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کئی اہم اقدامات کیے۔ مصروف بازاروں ، اڈوں ، مسجدوں اور سینماگھروں میں سادہ کپڑوں میں ملبوس سپاہی تعینات کیے اور شہر کو ملانے والی تمام شاہ راوں پر قائم چیک پوسٹوں پر نفری بڑھا دی۔ تا کہ کسی قسم کا بارودی مواد شہر میں داخل نہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ یہ بھی خصوصی ہدایت دی کہ وہ غیر قانونی اسلحہ اور بارودی مواد لانے والوں کو ڈھیل دیں اور ان کی کڑی نگرانی کریں اور دہشت گردوں یا ان کے سہولت کاروں کو یہ شک تک نہ ہونے پائے کہ اُن کی نگرانی کی جا رہی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ وہ یہ تخریبی مواد کہاں لے جانا چاہتے ہیں اور اس طرح پورے گروہ کو پکڑا جا سکے۔
**********
تین دن بعد یارمحمد کی منصوبہ بندی اس وقت کامیاب ہوئی جب اندرون شہر کے سینماگھر میں بم دھماکے کی سازش ناکام ہوئی۔ یہ سادہ لباس میں ملبوس سپاہی کی وجہ سے ممکن ہوا۔جس کی عقابی نظروں نے سینما ہال میں رکھے ہوئے ٹائم بم کا تاڑ لیا اور بم ڈسپوزل عملے کو اطلاع دی جنہوں نے بروقت کاروائی کرکے بم کو ناکارہ بنا دیا۔
اس واقعے کے قریباً دو گھنٹے بعد جب ایس پی یار محمد اپنے دفتر میں مشغول ِ کار تھا کہ وائرلیس سیٹ پر ٹوں ٹوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ ’’ ایس پی یار محمد اٹنڈنگ ! ‘‘ یار محمد نے وائرلیس سیٹ کا بٹن دباتے ہوئے کہا۔
’’ سر ! فیصل روڈ پر قائم چیک پوسٹ سے اے ایس آئی نذیر بات کر رہا ہوں۔ ‘‘ دوسری جانب سے مؤدبانہ لہجہ اُبھرا۔ ’’ابھی ابھی ایک پک اَپ بارودی مواد لے کر شہر میں داخل ہو گئی ہے۔ ڈیٹیکٹیو میٹر نے بارودی مواد کی نشان دہی کر دی تو ہم نے اسے شہر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی اور پک اَپ کے تعاقب میں حوالدر شریف حسن اور لطیف شاہ کو روانہ کردیا ہے ۔ ‘‘
’’ ویری گڈ ! جونہی پیش رفت ہو ، مجھے فوری اطلاع دیں ـ۔ ‘‘
’’ یس سر !‘‘
’’اوور اینڈ آل ۔‘‘
اس کے ساتھ ہی رابطہ منقطع ہو گیا۔
یار محمد نے ایک ضخیم فائل کھولتے ہوئے سوچا۔
ہوں ! یہ تھی دشمن کی چال۔ ایک تیر سے دو شکار کھیلنا چاہتے تھے، یعنی سینما گھر میں دھماکے سے فقط تخریبی کاروائی ہی ان کا مقصد نہ تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ اس طرح پولیس اور دیگر ایجنسیوں کی توجہ بم دھماکے کی طرف مبذول ہو جائے گی اور دوسری طرف بارودی مواد بغیر کسی رکاؤٹ کے شہر میں داخل ہو جائے گا۔
**********
’’ ہیلو! نوری اسپیکنگ ـ‘‘۔ فون کی گھنٹی بجتے ہی نوری نے جھپٹ کر فون کا ریسیور اُٹھایا اور مؤدبانہ لہجے میں کہا۔ کیوں کہ اسے اُمید تھی کہ باس کا فون ہوگا۔
’’ کیا پوزیشن ہے ، کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہے۔ ‘‘ دوسری جانب سے بارعب آواز میں پوچھا گیا۔
’’نو باس ! کوئی گڑبڑ نہیں ہے ۔ میں نے رضوان کے ذمے کام لگادیا ہے ۔ وہ بم رکھ کر آرہا ہو گا۔ ‘‘ نوری بولا۔’’ فلم کا آخری شو رات دس بجے شروع ہوتا ہے اور ٹائم ساڑھے گیارہ بجے ایڈجسٹ کیا ہے۔ ـ‘‘
’’ ویری گڈ نوری ! ‘‘ باس نے شاباش دیتے ہوئے کہا۔ ’’ انعام کی رقم فی لاش بیس ہزار اور فی زخمی پانچ ہزار ہو گی جو تصدیو ہوجانے کے بعد تمہارے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جائے گی۔ ‘‘
’’ شکریہ باس ! ‘‘ نوری نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔
’’ نیا مال رات بارہ بجے تک پہنچ جائے گا ۔ ‘‘ باس نے مزید اطلاع دیتے ہوئے کہا ۔ ’’ دیٹس آل ۔ ‘‘
نوری نے فون کا ریسیور رکھتے ہوئے خوشی سے ایک فاتحانہ قہقہ بلند کیا۔ لپک کر الماری سے شراب کی بوتل نکالی۔ غٹا غٹ حلق میں انڈیلی اور نیم دراز صوفہ کے کُشن پر گر پڑا۔
قریباً ڈیڑھ گھنٹہ بعد فون کی گھنٹی ایک بار پھر بجنے لگی۔ ’’ ہیلو نوری اسپیکنگ ! ‘‘ نوری نے غنودگی کی حالت میں ریسیور اُٹھا کر کہا۔
’’ سر ! غضب ہوگیا، ٹائم بم ابھی تک نہیں پھٹا۔ ‘‘ دوسری جانب رضوان کی بوکھلائی ہوئی آواز سنائی دی ۔
’’ کیا بھونک رہے ہو؟ دماغ تو ٹھیک ہے ۔ ‘‘ نوری نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے غصے سے کہا۔ ’’ کیا ساڑھے گیارہ بج چکے ہیں ؟ ‘‘
’’ سر ! گیارہ بج کر پینتالیس منٹ ہونے کو ہیں۔ ‘‘ رضوان نے وقت بتاتے ہوئے جواب دیا۔
’’ فوراً ، مکمل معلومات کے ساتھ رپورٹ دو۔ ‘‘ نوری نے دھاڑتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی زور سے ریسیور کریڈل پر رکھا۔
نوری بے چینی کے عالم میں ادھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔ اس کا سارانشہ اتر چکا تھا۔ دل ہی دل میں خدشات جنم لے رہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مال بھی پکڑا جائے لیکن نوری کا انتظار اس وقت ختم ہوا جب ٹھیک بارہ بجے کال بیل چیخ اُٹھی ۔ مین گیٹ سے پک اَپ کو اندر آتے ہوئے دیکھ کر نوری کے جسم میں اطمینان کی لہر دوڑ پڑی۔
**********
رات کے بارہ بج کر دس منٹ پر ایس پی یار محمد کے وائرلیس سیٹ پر ایک بار پھر ٹوں ٹوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ ’’ ایس پی یار محمد اٹنڈنگ ! ‘‘
’’سر ! ابھی حوالدر شریف حسن نے اطلاع دی ہے کہ پک اَپ ڈیفنس کالونی کی کوٹھی نمبر ۲۰ میں داخل ہوگئی ہے۔ وائرلیس سیٹ کے دوسری جانب سے آواز ابھری۔
’’ میں مزید نفری بھیجتا ہوں اور حوالدر کو اطلاع دو کہ کوٹھی کی مکمل نگرانی رکھیں اور ہر آنے جانے والے افراد کا پیچھا کریں۔ لمحہ لمحہ کی اطلاع دیں۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے سر ! ‘‘
’’ اوور اینڈ آل ‘‘۔
رابطہ منقطع ہوتے ہی، یار محمد نے محکمہ مواصلات کے ایس ڈی او ریاض احمد کا نمبر ملایا جو کہ اس کے والد کا گہرا دوست تھا۔ اکثر کیسوں میں یار محمد کی مدد کر چکا تھا۔
’’ہیلو ! ریاض احمد بات کر رہا ہوں ۔ ‘‘ رابطہ قائم ہوتے ہی دوسری جانب سے آواز ابھری۔
’’ السلام علیکم انکل ! ‘‘
’’ وعلیکم السلام ! کیسے ہو بیٹا؟ ‘‘
’’انکل ! میں ٹھیک ہوں اور آپ کیسے ہیں ؟ ‘‘
’’ میں بھی ٹھیک ہوں۔ ابو کا کیا حال ہے ؟ ‘‘
’’ اﷲ شکر ہے، اکثر آپ ذکر ِ خیر ہوتا رہتا ہے۔ ‘‘
’’ بیٹا ! آج فون کیسے کیا ہے؟ ‘‘ریاض احمد نے فون کرنے کا مقصد دریافت کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ انکل! ہمارا تو ایک ہی کام ہوتا ہے ، یعنی مجرموں کو تلاش کرنا۔ ‘‘ یار محمد نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ ’’ اَب کے بار چند مجرموں کو ٹریس کرچکا ہوں، فی الحال ان پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ میرا مقصد ہے کہ ان کے پیچھے لانبے ہاتھوں کو بھی کیفرِ کردار تک پہنچاؤں۔ میں نے سوچاکہ کیوں نہ اس نیک کام میں آپ کو شریک کرلوں۔ ‘‘
’’ نیکی اور پوچھ پوچھ ، میں تو ہر وقت تیار ہوں۔ ہمارے آباو اجداد نے پاکستان اس لئے تو حاصل نہیں کیا تھا کہ دہشت گرد یہاں دندناتے پھریں۔ اُن کا مقصد ایک ایسے خطے کا حصول تھا کہ جہاں صرف اور صرف اسلام کا بول بالا ہو اور اس خطے کے باشندے اسلامی قوانین کے مطابق زندگیاں بسر کریں۔جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی تو سب کی زبانوں پر ایک ہی نعرا گونجتا تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا ، لا الہ الا اﷲ۔اَب اس دہشت گردی سے مقابلہ کرنا اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہم پر اس مٹی کا قرض ہے۔ ‘‘ ریاض احمد نے مدد کی ہامی بھرتے ہوئے کہا۔
’’ انکل ! ڈیفنس کی کوٹھی نمبر ۲۰ کے فون پر آبزرویشن لگوانی ہے ۔‘‘ یار محمد نے مقصد بیان کرتے ہوئے کہا۔
’’ تھیک ہے بیٹا ! ‘‘
’’ انکل ! خدا حافظ ‘‘
’’خدا حافظ ‘‘۔ دوسری جانب ان الفاظ کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگیا۔
اس کے یار محمد نے مزید نفری ڈیفنس کالونی روانہ کردی۔
**********
مغرب کی نماز کے بعد ایس ڈی او ریاض انکل کی کال موصول ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک مشکوک کال ٹریس ہوئی ہے جو کہ کوٹھی نمر ۲۰ والے شخص کو نوری کے نام سے پکارا رہا تھا اور جب کہ کوٹھی نمبر ۲۰ والا شخص اسے باس کہہ رہا تھا۔ پہلے باس نے نوری کو بم دھماکے کی ناکامی پر خوب سنائیں، بعد میں بتایا کہ کوٹھی کی نگرانی ہو رہی ہے اور آدھی رات کو کوٹھی کے عقبی راستے سے فرار ہونے کی ہدایت دی۔
یہ اطلاع ملتے ہی یار محمد فوراً تھانے پہنچ گیا اور دو درجن سے زائد پولیس اہلکاروں سمیت ڈیفنس کالونی کی مطلوبہ کوٹھی کا چاروں اطراف سے محاصرہ کیا۔
’’ نوری ! پولیس نے چاروں طرف سے کوٹھی کو گھیرے میں لے رکھا ہے ۔ اس لئے خود کو پولیس کے حوالے کردو۔ ‘‘کوٹھی کے گھیراؤ کے بعد اعلان ہوا لیکن دوسری طرف سے کوئی ردِّ عمل سامنے نہیں آیا۔کچھ توقف کے بعد اعلان دہرایا گیا۔ اس بار بھی نتیجہ صفر نکلا۔
’’ نوری! اگر دس تک گنتی کے بعد خود کو ہمارے حوالے نہ کیا تو بھرپور کاروائی کی جائے گی۔ ‘‘ تیسرا اور آخری اعلان ہوا اور اُلٹی گنتی شروع ہوئی۔
۱۰، ۹ ، ۸، ۷، ۶، ۵، ۴، ۳، ۲ ، ۱ اور صفر۔۔
اس کے ساتھ ہی چاروں اطراف سے فائرنگ شروع ہوئی۔ ایک دستی بم سے کوٹھی کا مین گیٹ اُڑا دیا گیا۔ پولیس اہلکار پوزیشنیں سنبھالتے ہوئے آہستہ آہستہ کوٹھی کے اندر داخل ہونے لگے۔ اندر سے بھی جوابی فائرنگ شروع ہو چکی تھی۔ کافی دیر تک دونوں اطراف سے فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ جب کوٹھی کے اندر سے فائرنگ کی شدت میں کمی واقع ہوئی تو یار محمد کوایک انسانی ہیولہ کوٹھی کی عقبی دیوار پھلانگتا ہوا دکھائی دیا۔ دیوار پھلانگتے ہی ہیولہ زمین پر لیٹ گیا اور آہستہ آہستہ پیٹ کے بَل حرکت کرنے لگا۔ ہیولے کی شکل و صورت صاف نظر نہیں آرہی تھی لیکن جب دور سے کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی روشنی گلی میں پھیلی تو ہیولے کی اصل شکل واضح نظر آنے لگی۔ جس کو دیکھتے ہی ایس پی یار محمد کے جسم میں سردی کی اک باریک لہر دوڑ گئی۔
وہ انسانی ہیولہ ۔۔۔۔ اس کا بڑا بھائی نور محمد تھا۔
نور محمد بچپن ہی سے شریر اور شرارتی تھا، جوانی کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھتے ہی اس کی شرارتوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کا اُٹھنا بیٹھنا شہر کے آوارہ گرد لڑکوں کے ساتھ ہونے لگا۔ گھر سے کئی کئی دن غائب رہنے لگا، یہی باغیانہ طبیعت اور آوارہ پن ابا جان کو راس نہیں آتا تھا۔اکثر گھر میں ابا جان کے ساتھ تُو تُو ، میں میں ہوتی۔ بالآخر ایک دن وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا۔اس کے بعد وہ کبھی گھر لوٹ کر نہیں آیا۔
آج برسوں بعد اس کا بھائی ایک مجرم کی حیثیت سے سامنے کھڑا تھا۔یار محمد چند لمحوں کے لئے ذہنی دباؤ کا شکار ہوگیا۔ اس کے ذہن میں یہ خیال لپکا کہ بھائی کو فرار ہونے دیا جائے لیکن اس نے اس خیال کو فوراً ذہن سے جھٹک دیا۔ اس کے دماغ میں قرآن ِ مجید کے یہ الفاظ گونجنے لگے۔
’’ تم کبھی نہیں پاؤ گے کہ جو لوگ اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جنہوں نے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خان دان۔ ‘‘
اس وقت نور محمد صرف حکومت پاکستان کا مجرم ہی نہ تھا بلکہ اسلام اور انسانیت کا مجرم بھی تھا۔
’’ ہینڈز اَپ! ‘‘ یار محمد نے بلند آواز میں پستول تھامتے ہوئے کہا۔ ’’ خود کو ہمارے حوالے کردواور اگر کوئی غلط حرکت کی تو میرا پستول شعلے اگلنے میں تاخیر نہیں کرے گا۔ ‘‘
نوری چند لمحے تذبذب میں مبتلا رہا۔ اس کے بعد اس کا دایاں ہاتھ آہستہ سے جیب کی طرف رینگنے لگا لیکن اس کی یہ حرکت یارمحمد نے دیکھ لی اور اس کے پستول کی گولیاں سیکنڈوں میں نوری کے جسم کے پار ہو گئیں اور نوری کی دل دوز چیخوں کے ساتھ ایک دھماکہ ہوا، یقینا اس کے جسم کے ساتھ خود کش جیکٹ بندھی ہوئی تھی۔
*********
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301509 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.