تنویر ہاسپٹل کے بیڈ پر لیٹا کارٹون دیکھ رہا تھا۔ تنویر
کی ماں پاس ہی بیٹھی تسبیح کے دانوں پر اْنگلیاں پھیر رہی تھی۔ تنویر پچاس
کے قریب تھا بڑھاپا اس کو بہت جلد چھو گیا تھا۔ بڑھاپا ایک طوفان کا نام ہے
اور یہ اکثر کچھ لوگوں پر بہت جلد آ جاتا ہے۔ تنویر کارٹون دیکھتا بچپن کی
وادیوں میں کھو گیا جہاں دولت کی طلب تو دور خیال بھی تنگ نہیں کرتا تھا۔
گاوں میں دوستوں کے ساتھ مل کر پہاڑی بنا رہا تھا۔ پہاڑی پر ایک چھوٹا سا
مینار بنا کر تنویر نے اپنے دوست جمال سے کہا۔ ’’یہ دیکھو میرا محل ایک دن
حقیقت میں بڑا محل ہو گا میرا، ماں کہتی ہیں میں شہزادہ ہوں اور شہزادے
محلوں میں رہتے ہیں‘‘۔ جمال نے سن کر کہا، ’’محلوں میں رہنے کے لیے بہت
ساری دولت چاہیے میں تو زندگی میں رہنا چاہتا ہوں۔ ماں کہتی ہیں جو زندگی
میں رہتے ہیں ان کے لیے محل، دولت، آرائش بہت چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں‘‘۔
جمال کی بات نے تنویر کو پریشان ضرور کیا مگر بچپن کے موسم میں گرمی سردی
نہیں ہوتی صرف بہار ہوتی ہیں۔ ماں کی پھونک نے تنویر کو جگا دیا۔ تنویر کی
ماں تسبیح پر جو پڑھتی وہ تنویر پر وقتاً بہ وقتاً پھونک دیتی جس سے تنویر
کو ٹھنڈی ہوا کا احساس ہوتا۔ تنویر اپنے خیالوں میں گھوم رہا تھا اور اپنے
آپ سے سوال کرتا اور خود ہی کو جواب دیتا۔ ’’کیا فائدہ یہ ساری ذمے داریاں
میرے نصیب میں آئیں، صحت تو ملی نہ، دولت کمانے کے چکر میں ذلالت کما
بیٹھا۔ کچھ سمجھ نہیں آتی ماضی کیسے بدلوں کاش میرے پاس کوئی جادو ہوتا تو
اپنا ماضی بدل لیتا‘‘۔ اچانک تنویر کے ذہن میں اپنے استاد کی بات آئی اور
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
تنویر کی ماں نے پھونک ماری اور مسکراتے ہوئے چہرہ دیکھنے لگ گئیں۔ ’’ماں
ایک بات تو بتا میرا استاد کہتا تھا جس کے پاس حال کا جادو ہوتا ہے وہ
زندگی میں ہر چیز کو حاصل کر لیتا ہے مگر مجھے آج تک یہ جادو نہیں مل سکا
کے میں اپنے مقدر کو ہی بدل لوں۔ وہ کہتا تھا حال میں رہنا ایک کلا ہے اور
یہ کلا سب کلاوں کی ماں ہے اور جس کے پاس حال کا جادو ہوتا ہے اس کے چہرے
پر سکون دل کو آرام، زبان میں تاثیر اور صحت کی دولت ہوتی ہے۔ تو کہتی تھی
میں شہزادہ ہوں محلوں میں رہوں گا مگر میں تو انسانوں میں رہنے کے قابل بھی
نہیں رہا۔ شہزادہ کیا بنتا ساری زندگی نوکریوں میں گزر گئی تیرے پاس اس کا
جواب ہے کیونکہ تیرے چہرے پر بھی سکون نظر آتا ہے‘‘۔
تنویر کی بات سن کر ماں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’پتر میں صحیح کہتی تھی تو
شہزادہ ہے میرا اور تو میرے دل کے محل میں رہتا ہے اور یقین مان میرے دل کے
محل میں شہزادوں کی طرح رہتا ہے۔ رہی بات حال کے جادو کی تو پتر اتنا مشکل
عمل نہیں ہے۔ حال کا جادو اصل میں زندہ رہنے کا نام ہے پتر جب طلب ایک پر
ہوتی ہے تو وہ پوری ہو جائے تو انسان کو اپنی طلب پر قابو پا لینا چاہیے
ورنہ یہ ایک مرض بن جاتی ہے۔ حال کا جادوگر آج میں رہتا ہے وہ انگریزی میں
کہتے ہیں نہ لیو ان دا مومنٹ۔ زندگی میں وہ ماضی کو بھولنے کا فن جانتا ہے
وہ جانتا ہے جب غلط تیر کمان سے نکل جائے تو اپنی غلطی کو اپنی آنکھوں سے
دیکھنے اور اگلا تیر تیار کرنے میں وقت صرف کرتا ہے نہ کہ پچھلے تیر کا غم
لیتا ہے۔ جو تیر نشانے پر لگ جائے وہی اس کی کامیابی ہے۔ وہی اس کے شکر
کرنے کا وقت ہوتا ہے اور سجدہ کرنے کا بھی۔
ماں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے پوچھا ’’پتر حال کا جادوگر بننا ہے؟‘‘ ماں
کی بات سن کر تنویر نے ہاں کہا۔ ’’تو پتر اپنے دل سے خوف نکال دے‘‘ ماں نے
کہا۔ ’’کون سا خوف ماں‘‘ تنویر تجسس میں مبتلا ہو گیا جیسے کوئی خزانہ اس
کے ہاتھ لگنے والا ہے۔ ’’کل کا خوف، حال کا جادو گر کل کی فکر سے بے نیاز
ہوتا ہے مگر ہم لوگ تو بیٹی پیدا ہونے پر اس کے مستقبل کی فکر میں پڑ جاتے
ہیں جبکہ یہ بھول جاتے ہیں وہ تو رحمت ہوتی ہے اور وہ وقت رحمت پر خوش ہونے
کا ہوتا ہے۔ اسی طرح جس طرح تو اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھا اپنے ہاتھوں پہ
ڈرپ لگائے اس چار دیواری میں کارٹون دیکھ رہا ہے۔ تجھے اْس درخت کی طرح
بننا ہوگا جو پھل دیتا ہے مگر کھانے کی تمنا نہیں رکھتا پھر بھی راضی رہتا
ہے تب جا کر تیری چھاوں میں رونق لگے گی۔ تیری زبان پر جب ہر حال میں شکر
چلے گا تیرے لبوں پر ذکر خدا وندی جاری رہے گا تو تیری زبان بھی تاثیر رکھے
گی۔ لوگ تجھے سننے لگیں گے، تجھے ماننے لگیں گے۔ پتر خیال کی طاقت کو پہچان
خیال کی طاقت تجھے حال میں رہنا سکھائے گی۔ خوبصورت خیالات خوبصورت حالات
بناتے ہیں جب اپنے درد کی جگہ دوسرے کا درد محسوس ہونا شروع ہو جائے سمجھ
جا تیرے میں وہ صلاحیت آنی شروع ہو گئی ہے‘‘۔
ماں بولتے بولتے خاموش ہوئی تو تنویر نگاہیں ماں کی طرف ٹکائے اس کے بولنے
کا انتظار کر رہا تھا۔ ’’تو مانگتا محل ہے مگر تو تو اپنے چھوٹے سے مکان
میں خوش نہیں ہے تو محل میں کیا خوش رہے گا جب تو مکان میں رہ کر خوش رہے
گا یقین مان وہ تجھے اپنی وسعت سے زیادہ محسوس ہو گا۔ بھوک سے زیادہ کھا لو
تو وہ لالچ کا مرض بن جاتا ہے اور لالچ جیسی بیماری تیرے میں جادو نہیں
کالا جادو بھر دے گی۔ بے روزگار کہتا ہے کہ میرے پاس روزگار ہو جب روزگار
ملتا ہے تو کہتا ہے میری مرضی کا روزگار ہو۔ جب مرضی کا روزگار ملتا ہے تو
کہتا ہے مالک بن جاوں۔ جب مالک بن جاے تو بادشاہ بننا مانگتا ہے پتر حال کے
جادوگر ہر حال میں خوش رہتے ہیں وہ جو پاس ہوتا ہے اسے بانٹتے ہیں ان کے
پاس ضرب دینے کا طریقہ ہوتا ہے۔ وہ بہت بڑے ریاضی دان ہوتے ہیں وہ خوشی سب
میں بانٹ کر ڈبل کرنا جانتے ہیں جب تم اپنی خوشیاں سب میں تقسیم کرنے کی
صلاحیت نہیں رکھتے تو تمہارا دل مردہ ہو جاتا ہے۔ میرے پیارے بیٹے سمجھ اس
بات کو تو بیمار اس لیے نہیں کہ بیماری نے تجھے چھوا ہے تو بیمار اس لیے ہے
کہ تو نے اپنے آپ کو بیمار تسلیم کر لیا ہے‘‘، ماں نے تسبیح کے دانوں پر
انگلیاں پھیریں اور تنویر پر پھونک دی۔ ماں کی باتیں تنویر کے کانوں سے
ہوتے ہوئے دل کی دھڑکنوں میں تبدیل ہو گئی وہ ماضی مستقبل کی قید سیآزاد ہو
گیا تھا۔ ماں کی باتیں اسے آج سے پہلے اتنی اچھی طرح سمجھ کیوں نہیں آتی
تھی شاید وہ مردہ تھا زندہ تو آج ہوا تھا ماں کی پھونک نے اس کی زندگی میں
نئی سوچ پھونک دی تھی۔
خوبصورت وسیع باغ میں بیٹھا تھا ساتھ میں ماں کی یاد بیٹھی تھی۔ آج وہ حال
کا جادوگر تھا اس کے جسم کو ہوا اچھی لگ رہی تھی۔ اب حرص نے اس سے کنارہ کر
لیا تھا۔ قدرت کی خوبصورتی نے اس کے دل میں بسیرا کر لیا تھا۔ وہ جادو گر
جان گیا تھا کہ وہ ہوا میں اڑ نہیں سکتا مگر وہ آسمان میں اْڑتے ہوئے
پرندوں کو دیکھ کر اڑان تو محسوس کر سکتا ہے ماضی اور مستقبل کو چھوڑ کر آج
کے سورج کی روشنی کو اپنی آنکھوں میں سجا سکتا ہے۔ خواہشوں سے نجات حاصل کر
کے موجودہ نعمتوں سے لطف اندوز ہو کر رب کا شکر ادا کر سکتا ہے اور یہی اصل
زندگی ہے اور یہی اصل جادو ہے حال کا جادو۔ دور سے بچہ بھاگتا ہوا تنویر کی
گود میں آ کر بیٹھ گیا ’’دادا ابو آپ کے چہرے پر بہت سکون ہے دل کرتا ہے
دیکھتا جاوں آپ جادو گر تو نہیں‘‘، تنویر نے مسکراتے ہوئے اْس کا منہ چوم
لیا۔ |