دوو دل کے مریضوں کو شدید حالت میں اسپتال میں داخل کرایا
گیا ان دونوں کو چلنے پھرنے میں سانس پھولنے لگتی تھی،سانس پھولنے کی وجہ
تھی انکے دل کی اہم نالی (یعنی خون کو لے جانے والی نالی) میں روکنے والی
چیز (کلسٹرول) ایک جگہ اکٹھا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے نالی سے ہو کر جانے
والے خون کی مقدار کم ہوگئی تھی ،جس کی وجہ سے ان مریضوں کو سانس لینے میں
پریشانی ہو رہی تھی۔
ڈاکٹر نریش ترہن کے جو کہ گڑگاؤں میں میدانتا میڈی سٹی اسپتال کے صدر اور
منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔معمولی چیرے والی یہ مصنوعی تکنیک Minithoracomtomy کے
ذریعے ان دونوں کو دل کے مرض سے نجات دلائی گئی ہے۔
سرجری والے اسپتال کے اس طریقے میں سرجری والے مریض کے چھاتی کے بائیں حصے
میں 5.5 سینٹی میٹر کا سوراخ کرتے ہیں پھر بہت سارے خصوصی سامان کی مدد سے
دل کے مریض کی آگے والی سطح پر جو نالی (ایک طرف روکنے والی چیز باہر سے
نکلتے ہوئے) سے جوڑ دیتے ہیں اس سرجری کی خصوصیات بیان کرتی ہوئے ڈاکٹر
نریش ترہن کہتے ہیں کہ اس تکنیک میں مریض کو دل پھیپھڑے مشین پر لٹکانے کی
ضرورت نہیں پڑتی جیساکہ بائی پاس سرجری میں یہ نہایت ہی ضروری عمل ہے، لیکن
اس سرجری میں بہت ہی آسانی سے اس عمل کو انجام دیا جاتا ہے اور مریض جلدی
ہی صحت یاب ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر نریش ترہن کا یہ ماننا ہے کہ دل پھیپھڑ ے ومشین مریض کے دماغ اور
گردے پر برابر اثر ڈالتی ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ مریض سرجری کے
دوران چار دن میں گھر واپس جاسکتا ہے بائی پاس سرجری میں مریض کو دس دن تک
اسپتال میں رہنا پڑتا ہے ،غور طلب یہ ہے کہ اس ایجاد میں 5.5سینٹی میٹر کا
سوراخ کرتے ہیں جبکہ بائی پاس سرجری میں چھاتی کے بیچ میں بارہ انچ کا
سوراخ کیا جاتا ہے اور یہ بارہ انچ کٹے کا نشان مریض کی چھاتی پر آپریشن کے
دوران سے لیکر کافی وقت بعد تک رہتا ہے جس سے مریضوں میں احساس کمتری پیدا
ہو جاتی ہے اب تک اس سرجری تکنیک کے ذریعے سے 338 دل کے مریضوں کو فائدہ
ہوچکا ہے۔
|