ربیع الثانی-گیارہویں شریف
ایڈیشن
مادر زاد ولی قطبِ ربانی،شہباز لامکانی غوث الثقلین حضرت غوث اعظم جیلانی ؓ
بیشک خالقِ کائنات اللہ رب العالمین نے اِنس وجن کی رشدوہدایت کے لئے مختلف
وقتوں اور خطوں میں کم وپیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا و مرسلین کو مبعوث
فرمایا ہر نبی ورسول اللہ تعالیٰ کی علیحدہ علیحدہ صفتوں کے مظہرین لے کر
آئے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے اپنی کُل صفات ہی نہیں بلکہ ذات کا بھی مظہر
بناکر اپنے محبوب نبی آخرالزماں پیارے محمد مصطفیﷺ کو مبعُوث فرمایا تو
مظہر ذات کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہ رہی باب نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا
تو رُشدوہدایت اور احیا دین و ملت کے لئے مظہر ذات خدامحبوب رب العلیٰ نے
غیبی خبر دی کہ” ہر صدی کے اختتام پر ایک مجدد پیدا ہوگا“(مشکوٰةشریف)نیز
فرمایا کہ ” اللہ کے نیک بندے دین کی محافظت کرتے رہیں گے“ (ابوداود) حضور
نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ” عملائے دین بارش نبوت کا تالاب ہیں“ (مشکوٰة
شریف) نیز فرمایا کہ ” چالیس ابدال (اولیا) کی برکت سے بارش اور دشمنوں پر
فتح حاصل ہوگی اور اِنہیں کے طفیل اہلِ شام سے عذاب دور رہے گا(مشکوةشریف)
آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” علما کی زندگی کے لئے مچھلیاں دُعا کرتی ہیں“ (مشکوٰةشریف)
نیز فرمایا کہ ” میری اُمت میں ہمیشہ تین سو اُولیا حضرت آدم علیہ السالم
کے نقش ِ قدم پر رہیں گے اور چالیس حضرت موسیٰ علیہ السلام و سات حضرت
اِبراہیم علیہ السلام کے قدام پر ہونگے اور پانچ وہ رہیں گے کہ جن کا قلب
حضرت جبرئیل علیہ السلام کی طرح ہوگا اور تین حضرت میکائیل کے قلب پر اور
ایک حضرت اِسرافیل کے قلب پر رہے گا جب اِس ایک کا انتقال ہوگا تو اِن تین
میں سے کوئی قائم ہوگا اور اِن تین کی کمی پانچ میں سے اور پانچ کی کمی سات
میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی سات میں سے اور سات
کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی تین سو سے اور تین سو کی کمی عالم
مسلمانوں سے پوری کردی جاتی ہے“ (مرقاةملاعلی قاریؒ)۔
علما حق فرماتے ہیں کہ” اللہ تعالیٰ رحمتیں دینے والا، سیدالانبیا رحمت
عالم ﷺ تقسیم فرمانے والے اور اُولیا و علما اِس کا ذریعہ ہیں “اللہ تعالیٰ
کی معرفت کے لئے ملت مصففویہ کے سامنے علما و مشائخ نے ایک خوبصورت اور
زریں اُصول یہ پیش کردیا ہے بارگاہِ ربوبیت تک رسائی آقائے دوجہاں سیدعالم
ﷺ کے ذریعے اور بارگاہِ سرور ِ کائنات تک رسائی اُولیا اللہ کے ذریعہ سے ہی
ممکن ہے اِن اُولیا اللہ کی صف ِ اول میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار
رضوان اللہ علیھم اجمعین شامل ہیں اِن کے بعد تابعین، ائمہ مجتھدین، ائمہ
شریعت وطریقت کے علاوہ صوفیا اتقیا اور دیگر اُولیا بھی شامل ہیں اُولیا
کرام تو بہت ہوئے اور قیامت تک ہوتے رہیں گے لیکن اِس میں کوئی شک وشبہ کی
گنجائش نہیں کہ علم و فضل کشف و کرامات، مجاہدات وتصرفات اور حسب ونسب کی
بعض خصوصیات کی وجہ سے حضرت غوث اعظم ؓ کو اُولیا کی جماعت میں جو خصوصی
امتیاز حاصل ہے وہ کسی اور نہیں یہ واضح رہے کہ حضرت غوث اعظم ؓ کو جب ہم
مقامِ ولیوں کا تاجدار کہتے یں تو یہاں ولیوں کے عموم میں صحابہ کی جماعت
کو شامل نہیں کرنا چاہئے خالقِ کائنات اللہ رب العزت جن خوش نصیب بندوں کو
مقام ولایت عطا فرماتا ہے اُن کی ولایت کو کبھی زائل نہیں فرماتا۔آپ غوث
اعظمؓ،غوث الثقلینؓ ، غیوث الکونینؓ، امام الطرفینؓ، امام النقےٰؓ،رئیس
الاتقیاؓ، تاج الاصفیاؓ، قطبِ ربانیؓ، شہبازلامکانیؓ، محی الملت والدین ؓ،
فخرشریعت وطریقت ؓ، ناصرسُنتؓ، عماد حقیقتؓ، قامع بدعتؓ، سیدوالزاہدینؓ،
رھبرِ عابدینؓ، کاشف الحائقؓ، مقتدا الخلائقؓ، قطب الاقطابؓ، غوث الاغوث ؓ
وغیرہم القابات تاجدارِ غوث صمدانیؓ ، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی
ولادتِ پاک وطن مبارک گیلا جیسے گیلان بھی کہتے ہیں عرب کے لوگ اِسی کو جیل
اور جیلان بھی کہتے ہیں یہ طبرستان کے پاس ایک علاقہ ہے جو ملک عجم میں
واقع ہے اِسی علاقے میں نیف نام کے ایک قصبہ میں معتبر روایتوں کے ذریعہ
پتہ چلتاہے کہ (آپ حضرت غوث اعظمؓ) یکم رمضان المبارک جمعہ کے دن سنہ 470ہ
مطابق 1075سنہ میں ہوئی یہ علاقہ بغداد مُقدس سے سات میل کی دوری پر ہے
بغداد مُقدس اور مَدائن کے قریب بھی جیل یا گیل نام کے دو قصبے پائے جاتے
ہیں لیکن اِن دونوں قصبوں کو حضرت غوث اعظمؓ کا مولا باور کرنا درست نہیں
کیونکہ یہ ملک عراق سے متعلق ہیں اور حضرت غوث اعظمؓ کا عجمی ہونا متحقق ہے
امام حافظ ابنِ کثیر و مشقی المتوفی774سنہ ہ میں اپنی تصنیف البدایہ و
الہنایہ میں حضرت غوث اعظمؓ کا سنہ ولادت470سنہ ھ لکھتے ہیں اور امام یافعیٰ
المتوفی 768سنہ ھ اپنی تصنیف مراة الجنان و عبرة الیقان میں لکھتے ہیں کہ
حضرت غوث اعظمؓ سے جب کسی نے آپ کے سال ولادت کے متعلق سوال کیا تو آپ ؓ نے
جواب دیا مجھ کو صحیح طور پر یاد نہیں البتہ! اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جس
سال میں بغداد آیا تھا اِسی سال شیخ ابوامحمد رزق اللہ ابنِ عبدالوباب
تمیمی کا وصال ہوا اور یہ 488سنہ ھ تھا اِس وقت میری عمر18سال تھی اِس حساب
سے آپ ؓکا سنہ ھ ولادت 470سنہ ھ ہوا اِس طرح جملہ سوانح نگاروں کے بیانات
زیادہ تر نفحات ہی سے ماخوذ ہیں اِس وجہ سے عام لوگوں کی رائے یہی ہوگئی کہ
غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ حضرت غوث اعظمؓ کا سنہ ولادت 470سنہ ھ
ہے ۔آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ اُم الخیر بیان فرماتی ہیں کہ ولادت کے
ساتھ احکامِ شریعت کا اِس قدر احترام تھا کہ حضرت غوث اعظمؓ رمضان بھر دن
میں قطعی دودھ نہیں پیتے تھے ایک مرتبہ اَبر کے باعث 29شعبان کو چاند کی
رویت نہ ہوسکی لوگ تردد ّمیں تھے لیکن اِس مادر ذاد ولی حضرت غوث اعظم ؓ نے
صبح کو دودھ نہیں پیا بالآخر تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ آج یکم رمضان
المبارک ہے ۔ آپ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ آپ کے پورے عہدِ رضاعت میں
آپ کا یہ حال رہا کہ سال کے تمام مہینوں میں آپ دودھ پیتے رہتے تھے لیکن
جوں ہی رمضان شریف کا مبارک مہینہ آپ کا یہ معمول رہتا تھا کہ طلوع آفتاب
سے لے کر غروب آفتاب تک قطعاََ دودھ نہیں پیتے تھے۔ خواہ کتنی ہی دودھ
پلانےکی کوشش کی جاتی یعنیٰ رمضان شریف کے پورے مہینہ آپ دن میں روزہ سے
رہتے تھے اور جب مغرب کے وقت اذان ہوتی اور لوگ افطار کرتے تو آپ بھی دودھ
پینے لگتے تھے ابتدا ہی سے خالقِ کائنات اللہ رب العزت کی نوازشات سرکار
غوث اعظمؓ کی جانب متوجہ تھیں پھر کیوں کوئی آپؓ کے مرتبہ فلک وقار کو
چھوسکتا یا اِس کا اندازہ کرسکے چنانچہ سرکارِ غوث اعظمؓ اپنے لڑکپن سے
متعلق خود ارشاد فرماتے ہیں کہ عمر کے ابتدائی دور میں جب کبھی میں لڑکوں
کے ساتھ کھیلنا چاہتا تو غیب سے آواز آتی تھی کہ لہوولعب سے باز رہو۔جِسے
سُن کر میں رُک جایا کرتا تھا اور اپنے گردوپیش جو نظر ڈالتا تو مجھے کوئی
آواز دینے والا نہ دِکھائی دیتا تھا جس سے مجھے دہشت سی معلوم ہوتی اور میں
جلدی سے بھاگتا ہوا گھر آتا اور والدہ محترمہ کی آغوش محبت میں چھپ جاتا
تھا۔
اَب وہی آواز میں اپنی تنہائیوں میں سُنا کرتا ہوں اگر مجھ کو کبھی نیند
آتی ہے تو وہ آواز فوراََ میرے کانوں میں آ کر کے مجھے متنبہ کردیتی ہے کہ
تم کو اِس لئے نہیں پیدا کیا ہے کہ تم سُویا کرو آپ حضرت غوث اعظمؓ فرماتے
ہیں کہ بچپن کے زمانے میں غیر آبادی میں کھیل رہا تھا بتقاضائے طفلی ایک
گائے کی دم پکڑ کر کھینچ لی فوراََ اِس نے کلام کیا عبدالقادر تم اِس غرض
سے دنیا میں نہیں بھیجے گئے ہو میں نے اِسے چھوڑ دیا اور دل کے اُوپرایک
ہیبت سی طاری ہوگئی مشہور روایت ہے کہ جب سیدنا سرکار غوث اعظمؓ کی عمر
شریف چار سال کی ہوئی تو رسم ورواج ِاسلامی کے مطابق والد محترم سیدنا شیخ
ابوصالحؓ جن کا لقب” جنگی دوست “ ہے اِس وجہ سے ”قلائدالجواہر“میں بتائی
گئی ہے کہ آپ جنگ کو دوست رکھتے تھے ریاض الحیات میں اِس لقب کی تشریح یہ
بتائی گئی ہے کہ آپ اپنے نفس سے ہمیشہ جہاد فرماتے تھے اور نفس کشی کو
تزکیہ نفس کا مدار سمجھتے تھے۔ اُنہوں نے آپ کو رسم بسم اللہ خوانی ادائیگی
اور مکتب میں داخل کرنے کی غرض سے لے گئے اور اُستاد کے سامنے آپ ؓ دو
زانوں ہوکر بیٹھ گئے اُستاد نے کہا! پڑھو بیٹے بسم اللہ الرحمن الرحیم آپؓ
نے بسم اللہ شریف پڑھنے کے ساتھ ساتھ الم سے لے کر مکمل اٹھارہ 18پارے
زبانی پڑھ ڈالے اُستاد نے حیرت کے ساتھ دریافت کیا کہ یہ تم نے کب پڑھا....؟اور
کیسے پڑھا....؟تو آپ ؓ نے فرمایا کہ والدہ ماجدہ اٹھارہ سِپاروں کی حافظہ
ہیں جن کا وہ اکثر ورد کیا کرتی تھیں جب میں شکمِ مادر میں تھا تو یہ
اٹھارہ سپارے سُنتے سُنتے مجھے بھی یاد ہوگئے تھے (دیکھئے یہ شان ہوتی ہے
اللہ کے ولیوں کی حضور غوث اعظمؓ آج سے کئی صدیوں قبل ہی اِس حقیقت کو من
وعن سچ ثابت کرچکے ہیں کہ دورانِ حمل ماں جو کچھ بھی سوچ رہی ہوتی ہے اور
پڑھ رہی ہوتی ہے تو اُس کا اثر دونوں ہی صورتوں میں شکمِ مادر میں رہنے (پلنے)
والے بچے پر ضرور پڑ رہا ہوتا ہے اور آج چاند کو چھو لینے اور اِس پر چہل
قدمی کرنے کی دعویدار 21ویں صدی کی جدید سائنسی دنیا کے یورپ اور امریکا کے
سائنسدان اپنی تحقیقوں سے یہ بتانے پھر رہے ہیں کہ سائنس نے یہ ایک نئی
تحقیق کرلی ہے کہ دورانِ حمل ماں جو کچھ بھی منفی یا مثبت سوچ رکھتی ہے اِس
کا اَثر آئندہ آنے والے بچے کی زندگی پر پڑتا ہے یہ بات سائنس نے آج دریافت
کی ہے ۔جبکہ حضور غوث اعظمؓ نے صدیوں قبل اِسکا عملی ثبوت دنیا کے سامنے
خود پیش کردیا تھا اِس سے ہم اُمت مسلمہ کو فخر ہونا چاہئے کہ موجودہ دنیا
کی کوئی ترقی قرآن و سنت اور تعلیمات اسلامی کے دائرہ کار سے باہر نہیں
ہوسکتی)۔
اور یوں آپ ؓ نے اپنے وطن جیلان ہی میں باضابطہ طور پر قرآن عظیم ختم کیا
اور چند دوسری دینی کتابیں پڑھ ڈالیں تھیں حضرت غوث اعظمؓ نے حضرت شیخ حماد
بن مسلم ہی سے قرآن مجید فرقانِ حمید حفظ کیا اور برسوں خدمتِ حمادیہ میں
رہ کر آپ ؓ فیوض وبرکات حاصل فرماتے رہے سرکار غوث اعظمؓ نے528سنہ ھ میں
درس گاہ کی تعمیر جدید سے فراغت پائی اور مختلف اطراف وجوانب کے لوگ آپ ؓ
سے شرف تلمذ حاصل کر کے علوم دینیہ سے مالا مال ہونے لگے آپ کی بزرگی
وولادیت اِسقدر مشہور اور مسلم الثبوت ہے کہ آپ کے ” غوث اعظمؓ ہونے پر
تمام اُمت کا اتفاق ہے حضرت کے سوانح نگار فرماتے ہیں کہ”کسی ولی کی
کرامتیں اِسقدار تواتر اور تفاصیل کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی ہیں کہ جس قدر
حضرت غوث الثقلین کی کرامتیں ثفات سے منقول ہیں(نزپتہ الخاطر الفاطر)۔خلق
خدامیں آپ کی مقبولیت ایسی رہی ہے کہ اکبرواصاغرسب ہی عالم استعجاب میں
مبتلا ہوجاتے ہیں مشرق یا مغرب ہرایک غوث اعظمؓ کا مداح اور آپ کے فیض کا
حاجت مند نظر آتا ہے مقبولیت وہردلعزیزی کے ساتھ ساتھ آپ کی زبان شیریں
بیانی اور کلام و وعظ میں اَثر آفرینی بھی حیران کن تھی۔اِسے آپ یوں بھی
کہہ سکتے ہیں کہ آپ ؓ کی حیات مقدس کا ایک ایک لمحہ کرامت ہے اور آپ کے
علمی کمال کا تو یہ حال تھا کہ جب بغداد میں آپؓ کی مجالس ووعظ میں ستر،
ستر(70,70)ہزار سامعین کا مجمع ہونے لگا تو بعض عالموں کو حسد ہونے لگا کہ
ایک عجمی گیلان کا رہنے والا اِسقدر مقبولیت حاصل کر گیا ہے ۔
چنانچہ حافظ ابوالعباس احمدبن احمدبغدادی اور علامہ حافظ عبدالرحمن بن
الجوزی جو دونوں اپنے وقت میں علم کے سمندر اور حدیثوں کے پہاڑ شمار کئے
جاتے تھے آپ ؓ کی مجلس ووعظ میں بغرض امتحان حاضر ہوئے اور یہ دونوں ایک
دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے جب حضور غوث اعظمؓ نے وعظ شروع فرمایا تو ایک
آیت کی تفسیر مختلف طریقوں سے بیان فرمانے لگے پہلی تفسیر بیان فرمائی تو
اِن دونوں عالموں نے ایک دوسرے ک ودیکھتے ہوئے تصدیق کرتے ہوئے اپنی اپنی
گردنیں ہلا دیں اِسی طرح گیارہ تفسیروں تک تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ
دیکھ کر اپنی اپنی گردنیں ہلاتے اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے رہے مگر جب
حضور غوث اعظمؓ نے بارہویں تفسیر بیان فرمائی تو اِس تفسیر سے دونوں عالم
ہی لاعلم تھے اِس لئے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دونوں آپؓ کا منہ مبارک تکنے لگے
اِسی طرح چالیس تفسیریں اِس آیت مبارکہ کی آپؓ بیان فرماتے چلے گئے اور یہ
دونوں عالم استعجاب میں تصویر حیرت بنے سُنتے اور سر دھنتے رہے پھر آخر میں
آپؓ نے فرمایا کہ آپ ہم قال سے حال کی طرف پلٹتے ہیں پھر بلند آواز سے کلمہ
طیبہ کا نعرہ بلند فرمایا تو ساری مجلس میں ایک جوش و کیفیت اور اضطراب
پیدا ہوگیا اور علامہ ابن الجوشی نے جوش حال میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے(بہجتہ
الاسرار) بغیر کسی مادی سویلہ (یعنی ساونڈ سسٹم کے بغیر) کے ستر ہزار کے
مجمع تک اپنی آواز پہنچانا اور سب کا یکساں انداز میں سماعت کرنا آپ ؓ کی
ایسی کرامت ہے کو روزانہ ظاہر ہوتی رہتی تھی ۔
سیدنا غوث اعظمؓ کے سوانح وحالات رقم کرنے والے تمام مصنفین وتذکرہ نگاروں
کا اِس پر اتفاق ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ نے ایک مرتبہ بہت بڑی
مجلس میں (کہ جس میں اپنے دور کے اقطاب وابدال اور بہت بڑی تعداد میں
اُولیا وصلحا بھی موجود تھے جبکہ عام لوگوں کی بھی ایک اچھی خاصی ہزاروں
میں تعداد موجود تھی)دورانِ وعظ اپنی غوثیت کبریٰ کی شان کا اِس طرح اظہار
فرمایا کہ (قَدَمیِ ھٰذِہِ علی رقبةکُل ولی اللہ) ترجمہ:-میرا یہ قدم تمام
ولیوں کی گردنوں پر ہے“تو مجلس میں موجود تمام اُولیا نے اپنی گردنوں کو
جھکا دیا اور دنیا کے دوسرے علاقوں کے اُولیا نے کشف کے ذریعے آپ ؓ کے
اعلان کو سُنا اور اپنے اپنے مقام پر اپنی گردنیں خم کردیں حضرت خواجہ شیخ
معین الدین اجمیری ؒ نے گردن خم کرتے ہوئے کہا کہ” آقا آپ کا قدم میری گرن
پر بھی اور میرے سر پر بھی“(اخبار الاخیار، شمائم امدادیہ، سفینہ اولیا،
قلائدالجواہرِ نزہتہ الخاطر افاطر، فتاویٰ افریقہ کرامات غوثیہ اعلی حضرت)
۔
بیشک !حضور غوث اعظمؓ جیلانی پیر کامل اور مادر ذاد ولی تھے امام حافظ ابن
کثیر نے البدایہ والہنایہ می اور حضرت امام یافعی ؒ نے مراة الجنان میں آپ
ؓ کے وصال کے سلسلے میں صرف سال وصال کا تذکرہ کیا ہے جو561سنہ ھ ہے دن یا
تاریخ یا مہینہ کا کوئی ذکر نہیں ہے حضرت مولانا عبدالرحمن جامی ؒ نے بھی
نفحات الانس میں آپؓ کے وصال کے بیان میں561سنہ ھ کا ہی ذکر کیا ہے ہاں
البتہ! آگے چل کر کرامات کے بیان میں سرکار غوث اعظمؓ کے شاہزادے حضرت شیخ
عبدالوہاب ؒ کا قول نقل فرمایا ہے کہ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ماہِ ریبع
الآخری میں آپ حضور غوث اعظم ؓ کا وصال شریف ہوا ہے بعض 17ربیع الآخری سنہ
561ھ اور بعض کتابوں میں 11اور12ربیع الآخر بھی لکھا ہوا ملتا ہے ۔
آپ حضور غوث اعظمؓ کی حیات مبارکہ کا اکثر و بیشتر حصہ بغداد مقدس میں گزرا
اور وہیں پر آپؓ کا وصال ہوا اور وہیں پر ہی آپ ؓ کا مزار مبارک ہے جس کے
گرد عام لوگوں کے علاوہ بڑے بڑے مشائخ اور اقطاب آج بھی کمالِ عقیدت کے
ساتھ طوافِ زیارت کیا کرتے ہیں اور فیوض و برکات سمٹتے ہیں۔
(بحوالہ:-مجلہ نقیب ملت اگست ۲۰۰۲ کراچی....کتاب سیرتِ غوث اعظم قدس سرہ
العزیز لاہور)۔ |