ہمارا ورثہ

 آج دوپہر تخصص فی الدعوة والتحقیق کے شرکاء کے ہمراہ تقریباً 600سال پرانےچوکنڈی قبرستان جانا ہوا۔" کراچی کے جنوب میں لانڈھی، رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کے عقب میں واقع سندھ کے قدیم ورثے ’چوکنڈی قبرستان‘ سے خود کراچی کے شہر ی بھی بہت کم واقف ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ سندھ کے تاریخی شہر ٹھٹھہ کے سب سے مشہور آثار قدیمہ میں شمار کیے جانے والے ’مکلی قبرستان‘ سے ہر پاکستانی واقف ہے مگر کراچی شہر میں بھی اس سے مشابہت رکھنے والا ایک قدیمی قبرستان ہے، اس کا علم کم لوگوں کو ہی ہے۔

محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق چوکنڈی کی قبریں دو قبیلوں ’جوکھیوں‘ اور ’بلوچوں‘ سے منسوب کی جاتی ہیں۔چوکنڈی کے لغوی معنی ’چار کونوں‘ کے ہیں۔ چونکہ یہاں موجود تمام قبروں کے چار کونے ہیں غالباً اسی وجہ سے اسے ’چوکنڈی قبرستان‘ کا نام ملا ہے۔یہاں تمام قبریں جنگ شاہی پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں جو تیز پیلے اور قریب قریب زرد رنگ سے ملتا جلتا ہے۔ جنگ شاہی میں یہ پتھر آج بھی اسی رنگ میں ملتا اور استعمال ہوتا ہے۔سنگ مرمر کی طرح اس پر بھی کسی قسم کی سفیدی یا رنگ و روغن کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 6 صدی قبل بنی چوکنڈی کی یہ قبریں موسموں کی انگنت سختیاں جھیلنے کے باوجود قائم و دائم ہیں۔

چوکنڈی میں موجود یہ تاریخی مستطیل نما قبریں عموماً ڈھائی فٹ چوڑی، پانچ فٹ لمبی اور چار سے چھ فٹ تک اونچی ہیں۔جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

قبروں پر باقاعدہ نقاشی کی گئی ہے۔ نقاشی میں پھول بوٹے، مختلف ڈیزائن، مصری بادشاہوں کے تاج سے ملتے جلتے سرہانےاور جالیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ کچھ قبروں پر بلندوبالا گنبد بھی تعمیر کئے گئے ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ ان قبروں میں عام لوگ مدفن نہیں۔ یقیناً یہ کوئی عہدہ یا اعلیٰ مقام رکھتے ہوں گے۔ہم نے یہاں ایسی قبریں بھی دیکھیں جن پر تلوار بازی، گھڑ سواری اور تلوار، خنجر و غیرہ کے نقوش بھی پائے جاتے ہیں جبکہ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کئے گئے ہیں۔بعض قبریں چبوترے پر بنائی گئی تھیں جبکہ بعض کے نیچے ایک طرح کے طاق بنائے گئے ہیں جن کے آر پار دیکھا جاسکتا ہے۔یہاں کی ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کچھ خواتین کی قبروں پر ڈولی اور جنازے کی علامت گہوارے سے مشابہہ نقوش بھی موجود تھے جن کا مطلب تھا کہ یہ قبریں شادی شدہ رئیس خواتین کی ہیں ۔

یہ قبریں اس دور کے فن تعمیرات کا اعلیٰ نمونہ ہیں لیکن افسوس ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جارہی جس سے یہ تاریخی ورثہ ضائع ہو رہا ہے۔ بیشتر قبریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ لینڈ مافیا رفتہ رفتہ قبروں کو ختم کرکے اراضی پر قبضہ کرتا جا رہا ہے۔اکا دکا کتابوں کے علاوہ جدید دور کی کتابوں میں چوکنڈی قبرستان کا ذکر تک نہیں ملتا اس لئے نوجوان نسل اپنے ہی تاریخی اور قدیمی ورثے سے لاعلم ہے۔

ریسرچر یا مورخین کا یہاں آنا تو محال دکھائی دیتا ہے تاہم نوجوانوں کے لئے اس قبرستان کی اب صرف فوٹوگرافی کی حد تک اہمیت رہ گئی ہے جبکہ بعض افراد اسے ملبوسات اور دیگر اشیا کی ماڈلنگ کے لئے محض ایک ’اچھے مقام‘ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔نیشنل ہائی وے پر ایک چھوٹا سا بورڈ اس قبرستان کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے ، تاہم اس چھوٹے سے بورڈ پر بھی تشہیری پوسٹرز کی بھرمار سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ یہ بورڈ قبرستان کی نشاندہی کے بجائے پبلسٹی کے لئے آویزاں کیا گیا ہے۔

بظاہر قبروں کو دیکھ کر یوں ہی محسوس ہوتا ہے کہ ’ یہاں قبروں کا معیار اس قبر میں موجود میت کے سماجی رتبے اور مال و دولت سے کیا جاتا ہے۔ جوقبر جتنی اونچی ہے ، مرنے والے شخص کا دنیاوی رتبہ اور مال و دولت بھی اسی معیار کی رہی ہوگی البتہ جو قبریں کچی ہیں وہ لوگ غریب اور کم رتبہ رکھنے والوں کی ہیں۔

قبرستان میں فاتحہ خوانی اور مختلف حصوں میں گھومنے کے بعد نماز عصر کی اداٸیگی کےلیے قبرستان میں بنی مسجد کی طرف جانا ہوا۔مسجد کی وہی حالت جو عام طور پر قبرستان کی مسجدوں کی ہوتی ہے۔تمام ساتھیوں نے ملکر مسجد کی صفاٸ کی مولانا شہزاد معاویہ صاحب نے آذان دی اور مولانا ضیاءالرحمان صاحب کی اقتداء میں نماز ادا کرکے ساتھی واپس بوجھل قدموں سے واپس چل پڑے۔سوچوں میں مگن کہ محکمہ آثار قدیمہ کے تحت قبرستان کو باقی رکھنے کےلیے تو کاوشیں جاری ہیں حالانکہ یہ تو مٹے ہوۓ اچھے لیکن مسجد آوارہ جانوروں کا مسکن بنی ہوٸ ہے حالانکہ یہ باقی رکھنے والی جگہ ہے۔کاش کہ مسلمان اپنے حقیقی ورثے کو پہچان لیتا!!!
 

Adeel Moavia
About the Author: Adeel Moavia Read More Articles by Adeel Moavia: 18 Articles with 20739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.