وہ کو ن ہے؟جو بہت عام ہو کے بھی بہت خاص ہے؟یہ کون ہے جو
بن کہی باتیں بھی سمجھ جا تا ہے؟
شاید یہ وہ ہے جس کانام دل کی دہڑکن میں تو روز ازل سے تھا۔مگر اس کو پانا
شا ید قسمت کی لکیروں میں نہ تھا۔سوال پھر وہی ہے،
وہ کون ہے؟
اس سوال کا جواب اتنا ہی آساں ہے جیسا آسماں کا رنگ نیلا ہونا۔لیکن سوچنے
والے پوچھتے ہیں کے آسماں تو رنگ بدلتا ہے۔پر وہ بدلتے رنگ ہر راہ گزر کی
سمجھ میں نہیں آتے۔کہتے ہیں نہ کے گہری باتیں سمجھنے کے لئے گہرا ہونا پرتا
ہے۔اور گہرا ہونے کے لئے چوٹیں کھانی پڑتی ہیں۔۔۔۔ارے ارے آپ تو ابھی سے
پریشان ہو گئے۔چلئے آپ کے لئے اسے آسان کر تی ہوں۔وہ تو ہمیشہ سے ایک کھولی
کتاب تھا۔پر اس زمانے کا المیاں دیکھیں کے بڑی بڑی ڈگریاں تو سب کے پاس مل
جائیں گی پر انسان کو پڑھنا نہیں آتا آج بھی لوگوں کو۔ہم انسان ہی اپنے
ساتھ رہنے والے انسان سے بے خبر ہیں۔کبھی کسی کی خاموشی کی وجہ جانی ہے آپ
نے؟نہیں نہ بلکہ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کے اس کی کوئی وجہ کسے ہوسکتی؟خاموشی
کے پیچھے ہمیشہ ایک طوفان ہوتا ہے۔پر ہر طوفان کو الفاظ میں بیاں کرنا آسان
کب ہوتا؟وہ ہمیشہ سے محبت باٹتا تھا۔ہربارمنہ کی کھا تا تھا،پر دل صاف تھا
نہ اس وجہ سے کپرجھاڑ کر پھر سے زندگی کی گاڑی کو نہ ہموار راہ میں چل پڑتا
تھا۔
راہ میں بہت سے لوگ ملے پر وہ کسی کے لیے رکتا نا تھا۔پر کہتے ہیں نا کے
طوفان نے انا ہو تو اسے کوئی نہیں روک سکتا۔کچھ ایسا ہی ہوا اس کے ساتھ۔
محبت ہو گی اس کو،کوقاف کی پری سے۔پر وہ تو اک آدم زاد تھا۔اس پری کو حاصل
کرنا چاہتا تھا۔مگر شاید قسمت کو یہاں بھی اس کو آزمانا تھا۔وہ پری بھی اس
سے محبت کرتی تھی،پر اس کی جان ایک ظالم جن کے قبضے میں تھی۔اگر وہ پری کو
حاصل کر تا تو پری کی جان جاتی۔تو اس نے پری کو جانے دیا۔مگر وقت کے ساتھ
اسکی جا ن بھی اس پری میں آ گئی تھی۔پری تو چلی گی پر اپنی یادیں لیجانا
بھول گئی۔اب کون زنداہ رہا کو مر گیا۔اس بات کا فیصلہ آپ پر چھوڑ رہی ہوں۔
زندگی کی گاڑی پھرسے چل رہی تھی۔بس فرق اتنا آگیاتھا کے اب انتظار نہیں
تھا۔ناکسی کے آنے کا نا کسی کے جا نے کا۔کچھ بدلہ تھا تو وہ دل تھا جو اب
کس کی آہٹ پر دھڑکتا نہیں تھا۔اب وہ دہڑکن کسی کی آواز پر بے تر تیب نہیں
ہوتی تھی۔زندگی ٹہر سی گئی تھی۔اور اس ٹہراو نے اس کو تلخ بنا دیا تھا۔اب
اگر کوئی اس کی ٹہری ہوئی زندگی میں آنا چاہتا تو وہ آنے والوں کو زہرکا
پیا لہ دیتا اور کہتا پی جاؤ۔لوگ جب یہ دیکھتے تو اس کو دیوانہ کہتیاور
دہلیز سے واپس مڑ جاتے۔وہ دیوانہ پھر سے اپنی زندگی میں مست ہوجاتا۔اس کو
کسی کے آنے یا جانے کب کوئی سروکار تھا۔وہ تو مہوعشق تھا۔ایک وجد تھا جو اس
کے نام سے تھا۔مگر دنیا سے بے خبر بھی نہ تھا۔
اکژکوئی دنیا سے تھکا ہارا اس کے پاس نظر آتا۔یہ اس کو دلاسہ دیتا اس کا
حوصلہ بڑھاتا۔اس کو سمجھاتا اور زندگی میں واپس دھکیل دیتاکیوں کے جانتا
تھا نہ کہ زندگی کسی مقصد کے بغیر بے معنی ہو جا تی ہے۔جانے والے اس کو دعا
دے جاتے۔مگر اس کا معملہ تو دعا سے بہت آگے تھا۔دیوانہ تھا عشق کر بیٹھا
تھا۔
کچھ بات ہے کہ خیال یار آیا
ایک بار نہ ہی بلکہ بار بار آیا
بھول چکا تھا سب چوٹیں دل کی
یہ کیا کہ پھر زخم فگار آیا
وہ زمانے کی سازش وہ اپنوں کا ستم
کچھ نہیں بس یاد اک اک وار آیا
بتائے تو کوئی جا کہ صاحب کو
چلتے چلتے یہاں تک اس کا طلبگار آیا
عامر نہ کر جیت کی لگن اب
جانے کب کا ہے تو ہار آی
|