وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں یہ عام خیال بن چکا ہے
کہ وہ اپنے مخصوص انداز اور اظہارخیال کی وجہ سے اثر چھوڑدیتے ہیں،گزشتہ
مئی میں لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد انہوں نے دوبارہ اقتدار سنبھال
لیا ہے اور اس دوسرے دورمیں مودی کی کارکردگی کے سلسلہ میں سیاسی پنڈتوں نے
محتلف طرح کی باتیں کرنا شروع کردی ہیں ،لتکن انہوں نے پارلیمنٹ کے مرکزی
ہال میں این ڈی اے کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو
اعتماد میں لینے کی بات پرزوردیا اور سرخیاں بٹورلیں ،اس کے بعد ملک میں ان
کے بیان کا کتنا اور کیا اثر ہوا ،اس کے بارے میں کچھ کہے بغیر اتنا کہا
جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں کئی مقامات پر موب لنچنگ کے سنگین واقعات نے
حکومت اور انتظامیہ کو ہلا کررکھ دیا اور اقلیتی فرقہ غیر مطمئن نظرآیا ہے
۔
وزیراعظم کی پارلیمنٹ کے مرکزی ہال کی تقریرپر بحث ومباحثہ ابھی ٹھنڈا بھی
نہیں پڑا تھا کہ موب لانچنگ اور اقلیتو ں اور دلتوں کونشانہ بنانے کا سلسلہ
شروع ہوگیا تو حال میں مودی جی نے ریڈیوپر’ من کی بات ‘ کرتے ہوئے ان
تشددکی وارداتوں کا ذکر کرنا بھی گوارا نہیں سمجھا ،لیکن اس دوسری مدت میں
وہ عام لوگوں اور مختلف فرقوں وطبقات کے درمیان خلیج کو کم کرنے کے لیے
منصوبہ بندی کا دعویٰ کررہے ہیں اور تب ہی انہوں نے اپنے موجودہ دورمیں
دوتقریبات انتہائی جوش وخروش سے منانے کا اعلان کیا ہے ،جن میں بابائے قوم
مہاتما گاندھی کی 150 ویں سالگراور 2022 میں ملک کی آزادی کی 75 ویں سالگرہ
دھوم دھام اور جوش وخروش سے منانے کا عزم کیا ہے ،ماضی میں غیر ملکی فن
کاراورگلوکاران کے مشہورع بھجن گاچکے ہیں،جنہوں نے گاندھی جی کے پسندیدہ
بھجن کوایک ساتھ پیش کیاتھا۔اور اس مرتبہ 2 اکتوبر کومہاتما گاندھی کی
150ویں سالگرہ کونئے انداز میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے منانے کا
فیصلہ کیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ خود وزیراعظم مودی نے حالیہ لوک سبھا انتخابات
میں کامیابی حاصل کرنے والے ارکان پارلیمان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اپنے
انتخابی حلقوں میں تقریباً 150 کلومیٹر کی پدیاترا کریں ۔تاکہ مہاتما
گاندھی کا عدم تشدد،بھائی چارہ اور برابری کا پیغام عوام تک پہنچانے میں
مددگار ثابت ہو۔
ملک کے وزیراعظم مودی اور ان کی پارٹی کا گاندھی جی کی 150ویں سالگرہ منانے
کا اصل مقصد کیا ہے ،اس کا اندازہ نہیں ہے ،کیونکہ حال میں انتخابی مہم کے
دوران بھوپال سے بی جے پی کی ٹکٹ سے کامیاب ہونے والی پرگیہ سنگھ نے گاندھی
جی کے مقابلے میں ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو ’دیش بھکت ‘قراردیا
تھا،بابائے قوم کو ملک کی تقسیم کے ساتھ ساتھ پاکستان اور مسلمانوں کا حامی
قراردیتے ہوئے بُرا بھلا کہنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے اور اس میں بی جے
پی اور سنگھ پریوارسے وابستہ افراد کی اکثریت پائی جاتی ہے ۔جن کے لیے
جدوجہد آزادی میں گاندھی جی کی وابستگی اور شمولیت کی وضاحت کرنا انتہائی
ضروری ہے۔مہاتما گاندھی کو بابائے قوم کا درجہ ایسے نہیں حاصل ہوا ہے ،بلکہ
ان کے اصولوں اور نصب العین ،جوکہ سچ،عدم تشدد، ہندو مسلم اتحاد، ذات پات
کے ذریعہ امتیازی سلوک اور مساوات پر مبنی رہے ،اس لیے انہیں یہ بلند مقام
حاصل ہوا ہے۔ملک کے موجودہ حالات میں آج بھی ان تعلیمات اور اصولوں کی اشد
ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
مودی جی ان دونوں موقعوں کو دھوم دھام سے منانے کی بات کررہے ہیں اور ان
موقعوں کو ایک سنگ میلبنائے جانے کے حق میں ہیں کیونکہ دونوں موقع قومی
تقریب کا درجہ رکھتی ہیں۔گاندھی کو یاد رکھنے کے لئے پارلیمنٹ میں انہوں نے
سبھی پارٹیوں اور مختلف نظریات رکھنے والوں کو متحد ہونے کا درس دیا ہے
،لیکن خود ان کی پارٹی کے اراکین نے اس کا کتنا اثر لیا ہے یہ تو وقت بتائے
گا ،کیونکہ جب پرگیہ سنگھ نے گوڈسے کے حق میں بیان دیا اور ملک بھر میں
برہمی اور ناراضگی کی لہر پیدا ہوئی تو بی جے پی کو ہوش آیا اور لیڈرشپ نے
انہیں محض وجہ بتلاؤ نوٹس دے دیا ،جس کے جواب میں پرگیہ نے معافی مانگنے کا
ڈھونگ رچا اور کہا کہ ’’ان کے گوڈسے والے بیان پر جنہیں ٹھیس پہنچی ہے ،اس
کے لیے وہ معذر ت کرتی ہیں۔‘‘پرگیہ نہیں یہ نہیں کہا کہ ان کا بیان غلط تھا
۔
لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو مہاتما گاندھی
کی 150ویں سالگرہ منانے کی شکل میں مکمل سیاسی شعبدہ بازی کا موقع مل
گیا،دراصل ہر کوئی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ
(آر ایس ایس) نے ہمیشہ گاندھی کے ساتھ فاصلہ بنائے رکھا اور لاتعلقی کا
اظہار کیا ہے ،دونوں ہندومت سے روایتی طورپر مضبوط طریقے سے جڑرہے ، آر ایس
ایس کا نقطہ نظرسخت گیری پر منحصر رہا اور مسلمانوں کے تعلق سے انکی سوچ
گاندھی سے مختلف رہی ہے ،گاندھی ہندومت کے ایک لبرل پیروکار سمجھتے جاتے
ہیں۔اور آرایس ایس کے برعکس وہ رواداری، کثیریت اور سامراجی ہم آہنگی کو
لازمی خیال کرتے ہیں۔اس سے کوئی انکار نہیں کرتا ہے کہ ناتھو رام گوڈسے کی
شکل میں ہندومت کے ایک سخت گیر پیروکار نے گاندھی جی کو قتل کردیا گیا ،یہ
بھی بات درست ہے کہ قتل کے وقت آرایس ایس سے اس کی وابستگی نہیں رہی تھی۔
بی جے پی نے 1980 میں پارٹی کے قائم پر گاندھیائی سوشلزم اپنانے کا اعلان
کیا تھا ، لیکن کچھ عرصہ کے بعد ہی اس میں تبدیلی واقع ہونے لگی اور پارٹی
میں نظریاتی تبدیلی واضح طورپر نظرآرہی ہے ۔
دراصل بی جے پی ملکی سطح پر خود کو ایک الگ رنگ وروپ میں پیش کرنا چاہتی
تھی اور ان کے ایک بانی لال کرشن اڈوانی واضح طورپر کہتے رہے کہ بی جے پی
دیگر پارٹیوں سے مختلف ہے اور اپنے’’ اصولوں اور آدرشوں‘‘کو برقرار رکھنا
چاہتی ہے ۔اوراپنے سیاسی مفادات کو پانے کے لیے بی جے پی نے تمام اصولوں
ونظریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پہلے رام مندر کے لیے رتھ یاترا نکالی
اور پھر حالیہ تین عشرے میں بی جے پی لیڈرشپ کھل کر ہندتوا کی باتیں کررہی
ہے ،دنیا میں دورے کے دوران دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑپھینکنے کے لیے عالمی
سطح پر منصوبہ سازی اورمتحدہ طورپر اس ناسور سے لڑنے کی بات کرنے والے
وزیراعظم مودی کے پاس اس کاکوئی جواب نہیں ہے کہ بھوپال سے بی جے پی کی ایم
پی مالیگاؤں میں ہونے والے بم دھماکہ جیسے سنگین جرم میں ملوث ہیں اور
روزانہ متنازع اور فرقہ وارانہ بیانات دینا اپنی شان سمجھتی ہے،بی جے پی کی
سوچ میں اچانک یہ تبدیلی کس بات کی غمازی کرتی ہے ،اس کا علم نہیں ہے ،لیکن
سنگھ کے نظریات کو ماننے والو ں پتہ ہوکہ گاندھی جی نے جنوبی افریقہ سے
لیکر ہندوستان تک جدوجہد آزادی میں اور ہندوستان کے معاشرہ میں امن وبھائی
چارہ کا جو پودا لگایا ہے ،اسے اکھاڑ پھینکنا ناممکن ہے،،عدم تشدد اور سچ
کا پرچم بلند کرنے والے گاندھی نے سچ بولنے کی قسم کھائی تھی اور دوسروں سے
بھی اس عمل کی توقع کرتے تھے۔ ،لیکن اگر حکمراں بی جے پی اور اس کی لیڈرشپ
اپنی سوچ بدل کرمہاتما گاندھی کے اقدار کوواقعی پورا کرنا چاہتی ہے تو ہمیں
بہت زیادہ سوچنے اور بحث میں پڑنے کے بجائے ،بی جے پی کا تماشا بڑی خاموشی
سے دیکھتے رہنا چاہیئے-
|