خدا کا قانون کبھی بدلا نہیں کرتا

قانون کی تعریف یہ ہے کہ ” اگر ایسا ہو تو ایسا ہو جائے“ یعنی اگر یہ کام ہوگا تو اس کے رد عمل کے طور پر یہ کام بھی ضرور ہوگا مثلاً اگر جرم کرو گے تو سزا ملے گی نیکی کرو گے تو جنت ملے گی، گناہ کرو گے تو دوزخ میں ڈالا جائے گا، کسی کے ساتھ بھلائی کرو گے تو دعائیں ملیں گیں، ستاﺅ گے تو بددعائیں ملیں گی، کھانا کھاﺅ گے تو بھوک مٹ جائے ، پانی پیو تو پیاس بجھ جائے، آگ کا کام جلانا ہے اور برف کا کام ٹھنڈا کرنا ہے آگ کی تپش قانون کے تحت ہے اور برف کی ٹھنڈک بھی قانون کے تحت ہے ۔اسی طرح علاج کرو تو مرض ختم ہو جائے، بد پرہیزی کرو تو مرض بڑھ جائے۔ علی ہذا القیاس! ہر عمل کا ایک رد عمل یا ری ایکشن ضرور ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی عمل کا رد عمل نہ ہو۔

گویا قانون کے دو حصے ہیں ایک حصہ شرط ہے اور دوسرا اسکی جزا ہے یعنی اگر یہ چیز پائی گئی تو اس کی جزا کے طور پر یہ چیز بھی لازمی ہوگی اور کائنات کی ہر چیز قدرت کے لگے بندھے اصولوں کے مطابق چل رہی ہے اور اسکی ہر حرکت قانون کے تابع ہے ۔

قانون دراصل ایک حکم کا درجہ رکھتا ہے ایک سپریم پاور یا ایک اتھارٹی کی طرف سے جس میں یہ خبردار کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا کرو گے تو اس کا بدلہ یہ ہوگا اور دنیا کے ہر ملک کا ایک آئین اور قانون ہوتا ہے جس کے مطابق اعلیٰ عدالتوں کے بااختیار جج اپنا فیصلہ صادر کرتے ہیں جس کی پابندی اس ملک کے ہر شہری کو لازماً کرنا پڑتی ہے اور اگر وہ اس سے سرمو انحراف کرے تو اسے حراست میں لے لیا جاتا ہے اور قانون کے مطابق سزا سنائی جاتی ہے۔

اسی طرح یہ کائنات خدا کا ملک ہے اور اس میں حکومت و بادشاہی خدا کی ہے اور وہ اس کا خالق و مالک ، مطلق العنان بادشاہ اور بلا شرکت غیرے حکمران ہے اور اس کا حکم کائنات کے ذرہ ذرہ پر چلتا ہے اور کوئی چیز اسکی طاقت و اختیار سے باہر نہیں چنانچہ فرمایا”نہایت بزرگ وبرتر ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے جس نے موت و زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزماکر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل والا ہے “۔ (الملک پ 29)اور فرمایا”اسکی تسبیح بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے اور کوئی چیز نہیں جو نہیں بیان کرتی خوبیاں اسکی لیکن تم نہیں سمجھتے انکا بیان کرنا“۔ (بنی اسرائیل پ 15) اور یہ کہ ” پہلے بھی اللہ کا حکم ہے اور بعد میں بھی اور حکم تو صرف اللہ کا ہے“۔ (القرآن)

جس چیز کا وہ حکم صادر کردے تو کوئی چیز اسے نافذ ہونے سے روک نہیں سکتی اور جس کام کو وہ نہ کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے کر نہیں سکتی اسکی عدالت کا قانون دنیا کی ہر عدالت پر حاوی اور حق و انصاف پر مبنی ہوتا ہے۔ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے زندگی گزارنے کے آئین و دستور سے آگاہ کیا اور بتا دیا کہ میرے ملک میں رہتے ہوئے میرے دستور و قانون کی پابندی کرنا پڑے گی ۔ اور جو لوگ اس کے مطابق زندگی بسر کریں گے تو انہیں خلعت و اکرام اور جنت کی بیش بہا نعمتوں سے نوازا جائے گا اور جو لوگ اسکی خلاف ورزی کریں گے تو انہیں حراست لے لیا جائے گا اور دوزخ کے جیل خانہ میں قید کر دیا جائے گا۔

خدا تعالیٰ کا آئین و دستور کیا ہے؟ یہ وہی ضابطہ حیات ہے جس کی تعلیم اس کے برگزیدہ پیغمبروں علیہم الصلوة و السلام نے دی اور جو مقدس آسمانی کتابوں میں درج ہے جس کے مطابق انسان کیلئے اللہ تعالیٰ کا پسند فرمودہ ضابطہ حیات دین اسلام ہے جی ہاں! اسلام ہی وہ دین ہے جو اس شہنشاہ مطلق نے انسان کیلئے بنایا ہے چنانچہ فرمایا ” جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے مذھب کو بطور دین اختیار کرے گا تو اس کا یہ دین ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والے لوگوں میں ہوگا۔“۔ (المائدہ)

اسلام کے احکامات دو قسم کے ہیں (1)مامورات یعنی وہ کام جنہیں کرنے کا حکم دیا گیا اور (2)منہیات یعنی وہ کام جنہیں کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ چنانچہ فرمان الہٰی ہے (ترجمہ ” اے لوگوں بندگی کرو اپنے رب کی جس نے پیدا کیا تم کو اور انکو جو تم سے پہلے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جاﺅ۔“ ( البقرہ پ ۲) اور اللہ کیلئے لوگوں پر حج فرض کیا گیا ہے جس کو اسکی استطاعت ہو “ (القرآن)

اور منہیات کی مثال یہ ہے کہ کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو چوری نہ کرو ڈاکہ نہ ڈالو ،زنا کے قریب بھی نہ جاﺅ، رشوت نہ لو، والدین کی نافرمانی نہ کرو اور کسی کی حق تلفی نہ کرو وغیرہ ذالک۔ یہ تمام کام جنہیں کرنے کا حکم دیا گیا ہے یا جن کی پابندی کرنا ہر شخص کیلئے از بس ضروری ہیں جو لوگ ان خدائی احکامات کی اطاعت کرتے ہیں انہیں بیش بہا نعمتیں عطا کی جاتی ہیں اور انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے چنانچہ فرمان الہٰی ہے۔ (ترجمہ)” وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے وہ لوگ ہیں سب خلق سے بہتر بدلہ انکا انکے رب کے یہاں جنتیں ہیں ہمیشہ رہنے کو نیچے بہتی ہیں انکے نہریں سدا رہیں ان میں ہمیشہ اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی یہ ملتا ہے اس کو جو ڈرا اپنے رب سے ۔(الزلزال پ۰۳)

اور فرمایا ” اور جو آگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہی ہیں وہ بالکل نزدیکی حاصل کئے ہوئے ہیں نعمتوں والی جنتوں میں (بہت بڑا) گروہ تو اگلے لوگوں میں سے ہوگا اور تھوڑے پچھلے لوگوں میں سے یہ لوگ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے انکے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ (لڑکے ہی)رہیں گے آمدو رفت کریں گے آبخورے اور جگ لے کر اور ایسا جام لیے جو بہتی ہوئی شراب سے پر ہو جس سے نہ سر میں درد ہو نہ عقل میں فتور آئے اور ایسے میوے لئے ہوئے جو انکی پسند کے ہوں ، اور پرندوں کے گوشت جو انہیں مرغوب ہوں اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جو چھپے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں یہ صلہ ہے انکے اعمال کا نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات۔ صرف سلام سلام کی بات ہوگی اور داھنے ہاتھ والے کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے وہ بغیر کانٹوں کی بیریوں میں اور تہ بہ تہ کیلوں اور لمبے لمبے سایوں اور بہتے ہوئے پانیوں اور بکثرت پھلوں میں جو نہ ختم ہوں گے نہ روک لئے جائیں گے اور اونچے اونچے فرشوں میں ہوں گے ہم نے ان(کی بیوں کو)خاص طور پر بنایا ہے اور ہم نے انہیں کنواریاں بنا دیا ہے محبت والیاں اور ہم عمر ہیں دائیں ہاتھ والوں کیلئے ۔“ (الواقعہ پ ۷۲)

یہ انعام و کرام کا بیان ہے اور جو لوگ بغاوت کرتے ہیں انہیں کیسے حراست میں لیا جاتا ہے اس کی ایک جھلک ملاحظ ہو:-(ترجمہ )۔ گناہ گار لوگ صرف حلیہ ہی سے پہنچان لئے جائیں گے انکی پیشانیوں کے بال اور قدم پکڑ لئے جائیں گے۔ “(الرحمن پ ۷۲) اور فرمایا........(ترجمہ )۔ اور جیسے اس (کے اعمال ) کی کتاب اس کے بائیں ہاتھ میں دی جائے گی وہ تو کہے گا کہ کاش مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی اور میں جانتا ہی نہ کہ حساب کیا ہے کاش کہ موت میرا کام تمام کر دیتی میرے مال نے مجھے کچھ نفع نہ دیا میرا غلبہ بھی مجھے سے جاتا رہا (حکم ہوگا)پکڑ لو اسکو پھر اسے طوق پہنا دو پھر اسے دوزخ میں ڈال دو پھر اسے ایسی زنجیر میں جس کی پیمائش ستر ہاتھ کی ہے جکڑ دو بیشک یہ اللہ عظمت والے پر ایمان نہ رکھتا تھا۔ (الحاقة پ ۹۲)جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ نیکی کرو گے تو جنت ملے گی اور گناہ کرو گے تو دوزخ میں ڈالا جائے گا ۔ یہ ایک قانون ہے اور خدا کا قانون کبھی بدلتا نہیں جیسا کہ ارشاد فرمایا ” آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے اور آپ اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے(۔ فاطر پ 22) لہٰذا ہر وہ شخص جو ابدی نجات کا طالب ہے اسے چاہئے کہ خدا کے آئین و قانون کی پیروی کرے۔
Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 196 Articles with 320814 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More