انانیت کا کیڑا جب دماغ میں گھس جائے تو اسے دماغ سے
نکالنا ممکن نہیں رہتا۔انسانی انسان کے مختلف ادوار میں انانیت کے ہاتھوں
یہ کرہِ ارض جس طرح تباہ و بربادی کا نشانہ بنتا رہا ہے تاریخ کے اوراق اس
کی گواہی دینے کے لئے کافی ہیں۔خود کو عقلِ کل کا مالک سمجھنا جبکہ دوسروں
کو حقیر ،گمراہ،کم عقل اور کمتر سمجھنا ایسے انسانوں کا نعرہ بن جاتا ہے ۔
خود کو صادق و امین سمجھنا ان کی کمزوری قرار پاتا ہے جبکہ دوسروں کو
خائن،بددیانت اور کرپٹ ثابت کرنا ان کی پہلی ترجیح قرار پاتی ہے ۔ انسانی
نفسیات کی یہ انتہائی پرانی کہانی ہے کہ دولت کا نشہ اپنے ذاتی خصائص کے
علاوہ کچھ اور سوچنے کی مہلت نہیں دیتا۔حد تو یہ ہے کہ کوئی ایک فرد اپنے
تئیں یہ سمجھنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ قوم کا نجات دہندہ ہے اور اسے معاشرے
کو راہِ راست پر لانے کیلئے خصوصی طور پر تخلیق کیا گیا جس سے وہ خود کو
ناگزیر سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ جرمنی کے روڈالف ہٹلر اور اٹلی کے مسو لینی اس
کی سب سے بین مثال ہیں،ان کی ناگزیریت نے انسانیت کا جس بے رحمانہ انداز
میں لہو بہایا اس سے روح کانپ اٹھتی ہے۔اپنے سیاسی مخالفین پر جس طرح عرصہِ
حیات تنگ کیا گیا اور دوسری اقوام کو جس طرح مغلوب کرنے کا عزم ظاہر کیا
گیا وہ کوئی سر بستہ راز نہیں ہے۔ہمارے ہاں آمرانہ انداز اور دوسروں کو
نیچا دکھانے کی روش ہمارے حکمرانوں کے لہو میں شامل ہے لہذا ان کا سارا زور
مخالفین کو نیست و نابود کرنے میں صرف ہوجا تا ہے جس سے ملکی ترقی کا راستہ
کھوٹا ہو جاتا ہے ۔جنرل محمد ایوب خان نے اکتوبر ۱۹۵۸ کے مارشل لاء کے بعد
ایبڈو قانون کے تحت اپنے سارے مخالفین کو دس سالوں کیلئے سیاست سے بے دخل
کر دیاتھا۔۵ جولائی ۱۹۷۷ کے مارشل لاء کے بعد یہ وطیرہ جنرل ضیاالحق نے
بھی اپنایا تھا ا ور پی پی پی کو اپنے نشانے پر رکھ لیاتھا۔ ذولفقار علی
بھٹو کی پھانسی اسی جبرِ مسلسل کا نتیجہ تھی ۔ ۱۲ اکتوبر ۹۹۹ا میں جنرل
پرویز مشرف کے مارشل لاء نے نیب قوانین کے تحت سیاسی مخالفین کے خلاف جس
طرح کاکا لا قانون متعارف کروایا اس سے آج بھی ہمارا سیای ما حو ل آلودہ
ہے۔یہ انہی انتقامی کاروائیوں کا شاخسانہ تھا کہ میاں محمد نواز شریف کو
سعودی عرب اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو یو اے ای میں جلا وطن ہو نا پڑا
کیونکہ جنرل پرویز مشرف ان کا وجود برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔جنرل
پرویز مشرف نے اعلان کر رکھا تھا کہ ان کی حکومت میں دونوں راہنما پاکستان
واپس نہیں آسکتے لیکن چشمِ فلک نے دیکھا کہ دونوں راہنما جلا وطنی کی تاریک
شب کے پردے سے نمو دار ہو کر وطن لوٹے جبکہ ان کی راہ میں رکا وٹیں کھڑا
کرنے والے عظیم جرنیل کو خود دبئی میں جلا وطنی کے دن کاٹنے پر مجبور ہو نا
پڑا ۔جبریت،آمریت ، ظلم، جبر اور انتقام کبھی بھی برگ و بار نہیں لا سکتے
۔جمہوریت،انسانی حقوق،آزادی ِ اظہار اور آئین و قانون کی حکمرانی آج کی سب
سے بڑی سچائی ہے اور جو کوئی جدید دور کی مستقل اقدار کی خلاف ورزی کریگا
اسے منہ کی کھانی پڑیگی ۔آج پاکستان میں آزادی پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں
اور مخالفین کاجینا حرام کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود جمہوریت کے سچے
پجاری اپنے لہو سے جمہوریت کی شمع کو روشن رکھنے کیلئے میدان میں ڈٹے ہوئے
ہیں اور آخری جیت انہی کی ہونی ہے ۔،۔
وزیرِ اعظم جب انتقام اور نفرت کی تصویر بن جائے تو ملکی خلفشار کو سمجھنا
آسان ہو جاتا ہے۔نیب قوانین کی موجودگی میں اپنے مخالفین کو زندانوں میں
قید کرنا انتہائی آسان ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ سیاسی مخالفین ایک ایک کر
کے جیلوں کی ہوا کھا رہے ہیں۔سابق وزیرِ اعظممیاں محمد نواز شریف اور سابق
صدر آصف علی زرداری پسِ زندان ہیں۔ان کے خلاف الزامات کی ایک طویل فہرست ہے
جن میں ملکی خزانے کو بے دریغ لو ٹنا اور منی لانڈرنگ جیسے سنگین الزامات
ہیں۔اب تو کابینہ نے ایک ایسے قانون کی منظوری دے دی ہے جس کی رو سے ملزمان
کو الیکٹرانک میڈیا پر دکھانے کی پابندی ہے ۔کیا یہ میڈیا پر نئی قدغن ہے
یا آمریت کیلئے نئے دروازے کھو لنے کی سعیِ لا حاصل ہے ؟اگر ایسا ہوگیا تو
سیاسی جماعتوں کیلئے انتہائی مشکل صورتِ حال پیدا ہو جائیگی کیونکہ حکومت
اپنے مخالفین کی زبان بند کرنے کیلئے اس قانون کا سہارا لے گی ۔دلچسپ بات
یہ ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کے کئی وفاقی وزراء اور اہم پارٹی
رہنماؤں کے خلاف بھی کئی مقدمات زیرِ سماعت ہیں تو کیا ان پر بھی الیکٹرانک
میڈیا پر آنے کی پابندی ہو گی؟ پا کستا ن کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پر
عدالتیں اپوزیشن کو نشانہ بناتی ہیں۔خفیہ ہاتھوں کی کارستانی سے ایک سمت طے
ہو جاتی ہے اور پھر ساری ریاستی مشینری اس سمت کے حصول میں جٹ جاتی
ہے۔عدالتیں اس سمت کی پیروی میں یک طرفہ فیصلے صادر کرتی چلی جاتی ہیں۔چیف
جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے عہدمیں کیا کچھ نہیں کیا؟ اپوزیشن کو کس طرح
دبا کر رکھا اور ملک کے منتخب وزیرِ اعظم کو اقامہ کی بنیاد پر انتہائی
تضحیک آمیز انداز سے ان کے عہدے سے نا اہل کیا۔آجکل نیب کے جج ارشد ملک کی
ویڈیو عوامی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ان کی ویڈیو نے جس طرح خفیہ ہاتھوں
کی جبریت کا بھانڈہ بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ہے وہ جگ ہنسائی کا باعث بنا
ہوا ہے۔پاکستان کے سارے بڑے فیصلے اسی جبریت کا شکار ہیں۔جسٹس منیر سے شروع
ہونے والی داستان شائد ابھی کئی دہائیاں اور چلے گی کیونکہ خفیہ ہاتھ اب
بھی بڑے مضبوط ہیں ۔ جھنیں اقتدار سے بے دخل کرنا مقصود د ہوتا ہے انھیں
عدا لتوں سے سزائیں سنوا دی جاتی ہیں ۔ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ
صادر کرنے والے ججز نے اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے دباؤ کے تحت فیصلہ صادر
کیا تھا ۔ جسٹس ملک عبدالقیوم نے شریف برادران کی ہدائیت پر محترمہ بے نظیر
بھٹو کے خلاف فیصلہ سنایا تھا لیکن ایک ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد ان
کے خلاف دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار پایا تھا۔جج ارشد ملک کے اعترافی بیان
کے بعد میاں محمد نواز شریف کے خلاف دیا گیا فیصلہ بھی مشکوک قرارپائے گا
کیونکہ عدل میں جبر کا کوئی تصور نہیں ہے۔ستم ظریفی کی انتہا تو دیکھئے کہ
ملک کے منتخب وزیرِ اعظم کو جو سزا سنائی گئی تھہ وہ دباؤ کے تحت تھی جس کا
اعتراف خود نیب عدالت کے جج ارشد ملک نے اپنی ویڈیو میں کیا ہے ۔یہ تو
انصاف کا کھلا خون ہے کہ سیاسی مخالفین کو زبردستی سزا سنوائی جائے۔۔کسی
ملک کی اس سے بڑی بد قسمتی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ عدا لتوں سے عوام کا
اعتماد اٹھ جائے ۔اگر چہ ہماری عدلیہ کا کردار قابلِ فخر نہیں رہا لیکن اس
کے باوجود بھی عوام عدلیہ کی جانب دیکھتے ہیں۔ ارشد ملک کی ویڈیو نے عوام
کے اعتماد کو جس طرح چکنا چور کیا ہے وہ نا قابلِ بیان ہے۔کیا ہماری عدلیہ
کا کام محض خفیہ ہاتھوں کے اشاروں پر ناچنا ہے یا حقیقی انصاف کا بول بالا
کرنا ہے ؟جھنوں نے جرم کیا ہے انھیں سزا ملنی چائیے ۔جھنوں نے ملکی خزانے
کو لوٹا ہے انھیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جانا چائیے لیکن کسی سازش اور
دباؤ کے تحت نہیں بلکہ شفاف ٹرائل کے ذریعے اور اس میں اپنوں اور غیروں کی
تمیز نہیں ہونی چائیے ۔اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف تو دباؤ کے تحت فیصلے
صادر کروا لئے جائیں لیکن جب اپنے دوستوں کی باری آئے تو انھیں تحفظ فراہم
کر دیا جائے۔ایسے طرزِ عمل سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں،معاشرے نا ہمواری کا
شکار ہو جاتے ہیں،ترقی کا سفر کھوٹا ہو جاتا ہے،بد امنی اور انتشار روزمرہ
کا معمول بن جاتا ہے،عوام قانون کی پیروی کی بجائے قانون کو اپنے ہاتھ میں
لے لیتے ہیں کیونکہ انھیں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ ہمیں سیاسی
مخالفین کوکچلنے کی بجائے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہو گا کیونکہ
یہی ترقی کا راستہ ہے۔اپنے مخالفین کا صفایا کرنا اور انھیں ملیا میٹ کرنا
ایک دن تاریخ کے ہاتھوں اپنی موت آپ مر جانا ہو تا ہے۔جسے یقین نہ آئے وہ
جنرل محمد ایوب خان ، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتوں کا
بغور مطالعہ کرے تو اس پر ہر شہ روزِ روش ن کی طرح روشن ہو جائے گی۔ بقا
صرف عدل و انصاف اور آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے میں ہے لیکن
انانیت کا زہر ایسا ہونے نہیں دیتا جس سے قومی ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔،۔
|