خیراتی فنڈ اور شریفوں کی شرافت

گزشتہ دنوں ایک برطانوی اخبار نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اوران کے بھائی سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے خلاف 2005کے زلزلہ زدگان کے لیے ملنے والی لاکھوں پاؤنڈ کی رقم میں خردبردکاانکشاف کیاہے برطانوی اخبارکے مطابق بیشترخیراتی رقم زلزلہ زدگان کودینے کی بجائے شہبازشریف صاحب نے لندن میں موجود اپنے فیملی کے کے افراد کے نام اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کردی تھی ،برطانوی ادارے ڈیلی میل نے انکشاف کیاہے کہ برطانوی امدادی ادارے ڈیفڈنے2005اور2012کے دوران پنجاب حکومت کو جب شہبازشریف وزیراعلیٰ تھے زلزلہ متاثرین اور صحت عامہ کے منصوبوں کے لیے 5کروڑ40لاکھ پاؤنڈ دیئے مگر اس رقم میں سے لاکھوں پاؤنڈ منی لانڈرنگ کی نذر ہوگئے ،رپورٹ کے مطابق برطانوی فلاحی ادارے ڈیفڈ کی دیہی افراد کے لیے صحت عامہ اور دیگر سکیموں کا نام دیکر کروڑ روپے کاخردبردکیاگیا،رقم کو منی لانڈرنگ کے زریعے برمنگھم پہنچایاگیا،جہاں سے یہ رقم مبینہ طورپر شہبازشریف کے خاندان کے برطانوی بینکوں میں موجود اکاؤنٹس میں منتقل ہوئی ۔اس انکشاف نے ایک بارپھر سے پوری قوم کو حیرت اور سکتے میں ڈال دیاہے کیونکہ ۔یہ کوئی ایک فرد واحد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس خبرنے پورے ملک کی عزت کو داؤپرلگادیاہے جنھوں نے پیسے کی لالچ میں پوری دنیا کے آگے پاکستان کو بدنام کر کے رکھ دیاہے ،8 اکتوبر2005میں پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش زلزلہ جس میں تقریباً اسی ہزار کے قریب لوگ جابحق ہوئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے ،اس دوران اربوں مالیت کے املاک منہدم ہوگئے یعنی بستی کی بستیاں ہی ملیامیٹ اورملبے کا ڈھیر بن گئی تھی اس جانی اور مالی نقصان کو دیکھتے ہوئے پاکستانی عوام نے ہی نہیں بلکہ جزبہ خیر سگالی کے تحت پوری دنیا نے ہی آگے بڑھ کر پاکستان کے ساتھ مالی تعاون کیا،اس سانحے کے بعد زلزلہ متاثرین کی بحالی کے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں کی بحالی میں بھی سعودی عرب سمیت دنیا بھرکے ممالک نے آگے بڑھ کر پاکستان کا ساتھ دیامگرافسوس کی بات یہ ہے کہ جو بیرونی دنیاپاکستان کو مشکل گھڑی کے موقع پرامداددیتی رہی تاکہ پاکستان میں قدرتی آفات اور سیلاب کے دنوں میں عام آدمی کی متاثر ہونے والی زندگی پھر سے بحال ہوجائے ان امداد کو بھی ہمارے ماضی کے کچھ حکام نے اپنی زاتی مالی حیثیت بہتر کرنے کے لیے خردبرد سے کام لیا یعنی باہر سے آنے والی امداد کا ایک اچھا خاصہ حصہ اپنے اور بہی خاہوں کے اکاؤنٹ میں پہنچادیا، ایک طرد دیکھا جائے تو یہ وزیراعظم عمران خان کی ہمت ہے کہ وہ اس قسم کے مگرمچھوں کے منہ میں ہاتھ ڈال کر قوم کا پیسہ واپس لانے کی ایک ناقابل یقین جستجو میں لگے ہوئے اس سلسلے میں پوری قوم کا بھی یہ فرض بنتاہے کہ وہ اس کوشش میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے ساتھ ڈٹ کرکھڑے رہے کیونکہ ان لٹیروں کا اگر اس بار بھی احتساب نہ کیا گیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی،خیریہ تو انکشاف برطانیہ کے ایک اخبار کی جانب سے ہی ہم تک پہنچاہے جبکہ سعودی عرب سمیت اور دیگر ممالک کی جانب سے بھی امداددی گئی ؟ اس کا کیا بناہوگا؟ یقینی طورپران تمام خیراتی عمل میں پیسہ کہا گیا کس کی جیب میں گیا ؟ ایک عرصے تک کچھ معلوم ہی نہ ہوسکا مگر اب ان تمام لٹیرے حکمرانوں کے چہرے عیاں ہونے شروع گئے ہیں ،افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان لوگوں نے اس عمل سے جہاں بیرونی دنیامیں پاکستان کی شہرت اورنیک نامی کو نقصان پہنچا وہاں ان مصیبت میں گھری عوام کو بھی نہیں بخشا۔ یہ لوگ نہ صرف ملک کے دشمن ہیں بلکہ یہ حقیقی معنوں میں انسانیت کے دشمن قرار دیئے جاسکتے ہیں ،ملکی خزانہ لوٹنے کے بعد انٹرنیشنل لیول پر عوام کے حقوق پرڈاکہ مارنے والوں نے ایک پل کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ یہ ہی وہ غریب لوگ ہیں جن کے اعتماد کے ووٹوں سے یہ ہر دور میں اقتدار بناتے رہے ان ہی لوگوں کے ووٹوں سے یہ اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں اور وہاں جاکر بجائے غریب عوام کے مسائل کو حل کرنے کے الٹاانہیں ہی لوٹنا شروع کردیا،اس عمل سے دنیا بھر میں بیٹھے ان لوگوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی جو اپنی مال ودولت کو پریشان حال لوگوں کی زندگیوں کے لیے وقف کردینا چاہتے ہیں ،ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے پیسوں کو خردبرد کرنے والے جہاں اپنی قوم کا حق مار نے کے ساتھ اس ملک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو دوسری جانب یہ لوگ غریب عوام کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر دولت جمع کرتے ہیں۔ پہلے تویہ لوگ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والی آفتوں کا نقشہ کھینچتے ہیں اور پھر اسے دنیا بھر میں دکھاکر انہیں کے نام سے امداد مانگتے ہیں اور جو امداد جمع ہوتی ہے اس میں سے آٹے میں نمک برابر میڈیا کو دکھاکر متاثرین تک پہنچایاجاتاہے اور ایک بڑاحصہ اپنے اور اپنے جانثاروں کے بینک اکاؤنٹس میں بھردیاجاتاہے ایسے لوگوں کے نزدیک غریب عوام کی اوقات کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی جس انداز میں یہ معاملہ پنجاب کے حکمرانوں کو آئینہ دکھارہاہے بلکل ویسے ہیں صوبہ سندھ میں بھی یہ ہی صورتحال ہے اور یہاں تو باہر سے آنے والی امدادکا تو کیاخاک پتہ چلے گابلکہ یہاں تو صحت اور تعلیم کے نام پر سالانہ اربوں روپے کا بجٹ بھی ایسے صاف ہوجاتاہے کہ ڈکار تک نہیں لی جاتی صوبہ سندھ میں تھر پارکر کے علاقوں میں ہم نظر ڈالیں تو وہاں کے لوگوں کی زندگیوں کو دیکھ کر انسانیت بھی شرماجاتی ہے مگر افسوس مجبورعوام کو لوٹنے والوں کو زرابرابر بھی شرم نہیں آتی ایک طرف تو کہاجاتاہے کہ قدرتی آفات کے دنوں میں لوگ مصیبت کاشکار ہوجاتے ہیں عوام گھروں سے بے گھر ہوجاتی ہیں غریب بچیوں کے جہیز تک سیلابوں میں بہہ جاتے ہیں تو دوسری جانب ایک انسانی آفت بھی ہے جو یہاں جان بوجھ کر پیدا کی جاتی ہے تاکہ دنیا بھر کو پاکستان کا مصیبت زدہ چہرہ دکھاکر امداد وصول کی جائے اوراپنے زاتی اکاؤنٹس کو بھراجائے ۔ معاملہ صرف 8اکتوبر 2005کے زلزلے کا نہیں بلکہ2010اور2011کے شدیدبارشوں سے ہونے والے نقصانات میں بھی جب خود پاکستان کی عوام نے اپنے متاثرہ بہن بھائیوں کے لیے اپنے گھروں کا مال واسباب اٹھاکردیدیا تھا تب بھی ان میں سے بیشتر سامان مستحق افراد تک پہنچ ہی نہیں پایا تھاکیونکہ جب حکمران ایسے ہو تو ان کے انتظامیہ بھی ویسی ہی طبیعت کی ہوگی مشکلات میں گھری عوام کا مسخ شدہ چہرہ دکھاکر ان موقع پرست سیاستدانوں نے اپنی اپنی جائیدادوں کو وسیع توکرلیا مگر کسی ایک دن بھی عوام سے جاکر یہ نہ پوچھا کے وہ کس حا ل میں اپنی زندگیوں کو گزاررہے ہیں،جیسا کہ تھرپارکر کازکر کیا گیاہے یہاں سینکڑوں بچے ہر سال غذائی قلت اورمختلف موذی امراض کا شکارہوکر مرجاتے ہیں ایساہرگرز نہیں ہے کہ ان اموات سے حکام بالا لاعلم ہوبلکہ انہیں ان معاملات کی پل پل کی خبر ہوتی ایسے لوگو ں کو مسئلہ صرف توجہ اور احساس کا ہے جو ان کے پاس موجود نہیں ان تمام حقائق کو سامنے رکھنے ہوئے صحت ،تعلیم اور خوراک کے نام پر ہر سال اربوں روپے کا بجٹ رکھاجاتاہے مگر کوئی ایسا سال نہیں ہوتا جس میں بجٹ میں رکھی گئی رقم کو ان ضرورت مندوں پر خرچ کیاجاتاہو،میں سمجھتا ہوں کہ ایسے تمام لوگ جوعوام کے نام پر پیسہ بناتے ہیں اور خیراتی رقموں کو بھی نہیں چھوڑتے ایسے تمام لوگوں کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے اور بھرپور اندازمیں قانونی کارروائی ہونی چاہئے اور سب سے بڑھ کر میڈیا کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ ایسے تمام لٹیرے حکمرانوں کا چہرہ بے نقاب کرے تاکہ عوام کو ان کے اصل چہرے صاف اور واضح دکھائی دے سکیں۔ختم شدہ
 

Mehmood Molvi
About the Author: Mehmood Molvi Read More Articles by Mehmood Molvi: 5 Articles with 7066 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.