جمعرات کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیرِ اعظم
شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی کی درآمد کے سکینڈل میں گرفتار کر لیا۔
|
|
پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے یہ دوسرے وزیرِ اعظم ہیں جنھیں
گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مجموعی طور پر شاہد خاقان عباسی پاکستان کے چھٹے سابق وزیرِ اعظم ہوں گے
جنھیں گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ جو وزرائے اعظم کسی نہ کسی صورت میں گرفتار رہے ہیں، ان میں سب
سے پہلا نام تو حسین شہید سہروردی کا آتا ہے، پھر ذوالفقار علی بھٹو کا نام
ہے، اُن کے بعد اُن کی بیٹی بینظیر بھٹو، کسی زمانے میں ان کے سخت مخالف
رہنے والے میاں نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کے
نام آتے ہیں۔
حسین شہید سہروردی
حسین شہید سہروردی کا تعلق بنگال سے تھا۔ پاکستان کی تحریکِ آزادی میں ان
کا کافی اہم کردار تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد ان کے مسلم لیگ کی قیادت
سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔
مشرقی پاکستان میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے نامزد کردہ پہلے وزیر
اعلیٰ خواجہ ناظم الدین نے سہروردی کو ’پاکستان دشمن‘ اور ’انڈین ایجنٹ‘
قرار دیا تھا۔
|
|
طویل سیاسی سفر کے بعد انھیں 1956 کے آئین کے تحت پاکستان کا وزیرِ اعظم
بنایا گیا تھا۔ وہ 12 ستمبر 1956 سے لے کر 11 اکتوبر 1957 تک وزیرِ اعظم
رہے۔
لیکن اسی سیاسی رہنما کو جنرل ایوب خان کی حکومت کے زمانے میں سنہ 30 جنوری
سنہ 1962 کو ایبڈو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے
الزام میں سکیورٹی ایکٹ (1952) کے تحت گرفتار کیا گیا۔
انھیں کراچی کی جیل میں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ جب بنیادی جمہوریت
کے انتخابات مکمل ہو گئے تو سہروردی کو 19 اگست سنہ 1962 میں رہا کردیا گیا
تھا۔
حسین شہید شہروردی 5 دسمبر سنہ 1963 میں بیروت کے ایک ہوٹل میں پُراسرار
حالت میں مردہ پائے گئے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو
پاکستان کے نوویں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 3 ستمبر 1977 کو فوج نے
مارچ 1974 میں ہونے والے نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں
گرفتار کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا ٹرائل مقامی عدالت سے شروع کیے جانے کے بجائے
لاہور ہائی کورٹ سے شروع کیا گیا جس کی وجہ سے انھیں اپیل کا ایک موقع کم
ملا۔
انھیں تقریباً ڈیڑھ سال بعد لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے سزائے موت
پانے کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی۔
|
|
بینظیر بھٹو
ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر جو کہ دو مرتبہ پاکستان کی وزیرِ اعظم
رہیں، اپنے والد کی پھانسی کے بعد مختلف مدتوں کے لیے نظربند اور جیلوں میں
قید رہیں۔
انھیں سب سے پہلے چھ ماہ کے لیے جیل میں اور پھر چھ ماہ کے لیے اپنے گھر
میں نظربند رکھا گیا۔
اپریل 1980 میں انھیں رہا تو کر دیا گیا مگر مارچ 1981 میں ضیاء حکومت نے
انھیں ایک مرتبہ پھر گرفتار کر لیا جس کے لیے الذوالفقار نامی تنظیم کی
جانب سے پی آئی اے کی فلائٹ ہائی جیک کرنے کو جواز بنایا گیا۔
انھیں اس دوران سکھر جیل میں رکھا گیا اور تین سال بعد 1984 میں رہا کیا
گیا۔ ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا اور نہ ہی انھیں کوئی سزا ہوئی۔
یہ ان کی زندگی کی آخری جیل تھی۔
|
|
نواز شریف
تین مرتبہ پاکستان کے وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف کو سب سے پہلے اس وقت
گرفتار کیا گیا جب 1999 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ان کی
حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
انھیں بھی راولپنڈی کے اڈیالہ جیل میں رکھا گیا جس دوران ان پر ہیلی کاپٹر
خریداری کے دوران ٹیکس کی عدم ادائیگی، کرپشن، اور طیارہ سازش کیس میں عمر
قید، جرمانے اور پھانسی کی سزا سنائی گئی۔
اس دوران مبینہ طور پر سعودی عرب کے شاہ فہد کی درخواست پر پاکستان کی فوجی
حکومت نے انھیں اس شرط پر رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ 10 سال تک
پاکستان جبکہ 21 سال تک سیاست میں واپس نہیں آئیں گے۔
2007 میں وہ پاکستان واپس آئے اور 2013 کے عام انتخابات کے نتیجے میں ایک
مرتبہ پھر وزیرِ اعظم بنے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 6 جولائی 2018 کو انھیں ایون فیلڈ ریفرینس
میں سزا سنائی مگر وہ ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے فوری طور پر گرفتار نہیں
ہو سکے۔
13 جولائی 2018 کو عام انتخابات سے صرف دو ہفتے قبل وہ پاکستان لوٹے جہاں
انھیں ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کر لیا گیا اور اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔
فی الوقت وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں مقید ہیں۔
|
|
یوسف رضا گیلانی
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے یوسف رضا گیلانی کو فروری 2001 میں
نیب نے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں گرفتار کیا۔ ان پر الزام
تھا کہ انھوں نے بحیثیت سپیکر قومی اسمبلی 1993 سے 1997 کے دوران اپنے
اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔
انھیں جون 2002 میں احتساب عدالت نے پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی جسے
ان کی گرفتاری کے دن سے گنا گیا، مگر انھوں نے اپنی سزا مکمل کی۔
سنہ 2012 میں 26 اپریل کو یوسف رضا گیلانی پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم قرار
پائے جب انھیں توہینِ عدالت کے جرم میں چند لمحوں کی قید کی سزا دی گئی۔ وہ
مجرم قرار پائے اور چند دنوں بعد ایک اور عدالت نے اس سزا کی بنا پر انھیں
قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دے دیا اور وہ وزیرِ اعظم بھی نہ
رہے۔
|
|