یار کو ہم نے جا بجا دیکھا - قسط نمبر 18

ہائے میرا بچہ. کیا حال کردیا ظالموں نے.اس کی ماما سلاخوں کے اندر ہاتھ کیے اس کا چہرہ تھامے رو رہی تھیں
کچھ نہیں ہوا ماما میں ٹھیک ہوں.اس نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی
کیسے کچھ نہیں ہوا.دیکھو تو سہی کیا حال بنا دیا ظالموں نے. میں ابھی جا کر اس انسپیکٹر کا گریبان پکڑتی ہوں نا پوچھتی ہوں اس سے کہ تمہارا قانون یہ سکھاتا ہے کہ کسی بیگناہ کو پکڑ کر اس کا یہ حال کر دو¿ وہ بجلی کی سی تیزی سے وہاں سے گئیں اور وہ انہیں روکتا ہی رہ گیا
کیا حال کر دیا میرے بچے کا. آپ کا قانون یہ سکھا رہا ہے کہ کسی بیگناہ کا یہ حال کر دو¿ وہ جاتے ہی پھٹ پڑیں
تو بی بی ثبوت لے آؤ بیگناہی کا میں ابھی چھوڑ دیتا ہوں آپ کے بیٹے کو. انسپیکٹر صاحب بھی تپ کر بولے
دیکھیں سر میں آپ کی ہیلپ صرف ایک صورت میں ہی کر سکتا ہوں. انسپیکٹر صاحب نے نظریں چراتے ہوئے کہا
وہ کونسی¿ اس کے پاپا نے جھٹ سے پوچھا
دیکھیں سر میرا تو اس میں تو کوئی فائدہ ہے نہیں. اس لیے آپ سوچ سمجھ کے جواب دیجیے گا. وہ.کچھ توقف کے بعد پھر سے گویا ہوئے
اگر آپ میرے ساتھ تھوڑا تعاون کریں تو میں ایک سرٹیفیکیٹ بنوا دوں گا جس میں یہ ثابت ہو جائے گا کہ آپ کا بیٹا ذہنی طور پہ اس قابل نہیں کہ اسے ایک نارمل انسان کہا جا سکےاس طرح وہ جلد جیل سے باہر آ جائے گا. انسپیٹکر صاحب نے ان کی خاموشی کو دیکھتے ہوئےایک مطلبی سی نگاہ ان دونوں پہ ڈالی اور پھر سے گویا ہوئے
نہیں¿ چلیں جیسے آپ کی..
ہمیں منظور ہے. اس کی ماما نے انسپیکٹر صاحب کی بات کو کاٹتے ہوئے جلدی سے کہا
نہیں. مجھے یہ ہرگز منظور نہیں. انسپیکٹر صاحب کے چہرے پہ ابھی ایک خود غرض سی مسکراہٹ آئی ہی تھی کہ فورا ختم ہو گئی
دیکھ لیں اس میں آپ کا فائدہ" زیادہ "ہے. ورنہ تو پھانسی سے کم سزا نہیں ہونے والی. انسپیکٹر صاحب نے زیادہ پہ زور دیتے ہوئے کہا. وہ ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنا حصہ بھی یاد کروا رہے تھے
لیکن مجھے منظور نہیں. انھوں نے غصے سے جواب دیا تو انسپیکٹر صاحب بھی خاموش ہو گئے لیکن اس کی ماما کے آنسو ؤں میں مزید روانی آگئی
سنیے آپ مان جائیے نا. اس سے کم سے کم ہمارا بیٹا سلاخوں سے تو باہر آ جائے گا نا.موت کی سزا سے تو بچ جائے گا نا. اس کی ماما مسلسل روئے جا رہی تھیں
نہیں میرا بیٹا سچ کی جنگ لڑ رہا ہے. میں اسے جھوٹ کا سہارا لے کر ہرگز نہیں بچاؤں گا. وہ اپنا فیصلہ سنا کر اپنے بیٹے کو دیکھنے آ گئے
دیکھ نا بیٹا اچھا بھلا وہ انسپیکٹر کہہ رہا تھا کہ کچھ دے دلا کے اپنے بیٹے کو باہر نکال لیں. پر تمہارے پاپا نہیں مانے. اس کی ماما کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اسے ایک لمحے سے پہلے باہر نکال لائیں اسی لیے بیٹے کو اپنا حامی بنانے کی کوشش کر رہی تھیں
اور جو دوسری بات وہ کہہ رہا تھا¿وہ نہیں بتاؤگی¿ انہوں نے تھوڑا خفگی ظاہر کی
اچھا چھوڑیں نا فضول باتوں کو. ہمارا بیٹا گھر آ جائے ہمیں اور کیا چا ہیے¿ وہ جلدی سے بات کو ٹالنے لگیں
سنو بیٹا دیپ¿ وہ انسپیکٹر کہہ رہا تھا کہ مجھے کچھ دو تا کہ میں سرٹیفیکیٹ بنوا دوں جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ تمہارا ذہنی توازن ٹھیک نہیں لہزا تمہیں رہا کیا..
نہیں پاپا. میں جھوٹ کا بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتا. آپ انہیں منع کر دیں. اس نے خ کی بات کاٹتے ہوئے کہا
میں آلریڈی منع کر چکا ہوں. انہوں نے ایک فخریہ سی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے بیگم کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ آخر بیٹا کس کا ہے¿
جیسے آپ دونوں کی مرضی. ماما شرمندگی سے بس اتنا ہی کہہ سکیں
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ہوں!تو میڈم جیل جاتی ہیں اس سے ملنے. متھن سے ساری تفصیل سننے کے بعد سہگل صاحب نے کہا
جی سراور میڈم کاجیل جا کر یوں ایک قیدی سے ملنا آپ کے سیاسی کیرئیر کے لیے ٹھیک نہیں. مخالفین تو پہلے ہی اس تاک میں ہیں کہ کب ان کے ہاتھ کوئی خبرلگے اور وہ آپ کو نیچا دکھا سکیں. متھن ہاتھ باندھے تفصیل بتا رہا تھا
ٹھیک ہے تم کچھ بھی کر کے اسے جیل سے نکلواؤ اور کوشش کرنا کہ میڈم کو اس کا ایڈریس معلوم نہ ہو سکے. انہوں نےاتنا کہااور لان میں بیٹھے چائے پینے لگے
ہے ڈارلنگ!وئیر آر یو گوئینگ¿ انہوں نے علیزے کو ہاتھ کے اشارے سے روکا جو کہ تیزی سے گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی
آآآ پاپا پولیس اسٹیشن. اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا.وہ پہلے بھی پولیس اسٹیشن جاتی رہتی تھی لیکن انہوں دیکھا کہ آج پہلی بار اس نے نظریں چرائی ہیں
اوکے ام گوئینگ. وہ جلدی سے جانے کو مڑی لیکن انہوں نے اسے پھر روک لیا
لیزو ڈارلنگ کبھی ہمارے ساتھ بھی بیٹھ جایا کرو. آؤ ایک کپ چائےکا ہو جائے. انہوں نے ٹیبل پہ سجی چائے کی طرف اشارہ کیا
نو نو پاپا ام گیٹنگ لیٹ. آپ پئیں میں فر کبھی ساتھ دوں گی آپ کا. اوکے بائے. وہ اتنا کہہ کر تقریبا دوڑتی ہوئی گاڑی تک گئی اور بہت تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے گیٹ سے نکل گئی
ان کو اس کی اس قدر بے چینی اور اضطرابی نے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا. وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ پہلی بار تھا کہ وہ کسی عام سے شخص کے لیے ایسی پاگل ہو رہی تھی ورنہ تو وہ جانتے تھے کہ کتنے لڑکے اس کے پیچھے پاگل رہتے تھے.جن سے وہ دوستی تو ضرور رکھتی تھی لیکن جیسے ہی کوئی اس سے اظہار محبت کرنے کی کوشش کرتا وہ ہمیشہ کے لیے اسے چھوڑ دیتی تھی.
آخر اس شخص میں ایسا کیا ہے جس نے میری مغرور سی بیٹی کو یوں دیوانہ سا کر دیا ہے.لیکن شاید وہ کوئی عام شخص نہیں ہے جب ہی تو میری لیزو ایسی بے چین ہو رہی ہے. وہ خود کلامی کر رہے تھے کہ تھوڑی دور کھڑا متھن جلدی سے قریب آیا
یس سر آپ نے کچھ کہا کیا¿
ہوں¿ نہیں. آآآ ہاں. کہا تھا. وہ متھن کی آواز پر چونک کر بولے
یس سر حکم کریں. وہ ہاتھ باندھے غور سے بات سننے لگا
جلد سے جلد اس لڑکے کو جیل سے نکلواؤ. انہوں نے پر سوچ لہجے میں کہا
جیسے آپ کا حکم سر
 

Adeela Chaudry
About the Author: Adeela Chaudry Read More Articles by Adeela Chaudry: 24 Articles with 47477 views I am sincere to all...!.. View More