میرے پاؤں تو سلامت ہیں

شام کا وقت تھا، حَسَن اور فاطمہ اپنے ابّوجان کی دفتر سے واپسی کے انتظار میں تھے۔ حَسَن بولا: کافی دن ہوگئے ہیں ابّوجان نے کوئی کہانی نہیں سُنائی! جی بھیّا! واقعی کافی دن ہوگئے، بس آج تو ابّوجان سے لازمی کہانی سنیں گے، فاطمہ نے جواب دیا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی حَسَن اور فاطمہ ”ابّوجان آگئے! ابّوجان آگئے!“ کہتے ہوئے دروازے کی طرف دوڑے اور دروازہ کھولتے ہی ابّوجان سے چِمَٹ گئے۔ ابّوجان نے دونوں کو پیار کیا اور ساتھ لے کر کمرے میں آ بیٹھے۔ بیٹھتے ہی حَسَن نے فرمائش کی: ابّوجان آج ہم نے آپ سے ایک پیاری سی کہانی سننی ہے۔ اِدھر سے فاطمہ نے بھی بھائی کی فرمائش کی تائید کرتے ہوئے کہا:جی ابّوجان بالکل! کافی دن ہوگئے ہیں آپ نے کوئی کہانی نہیں سُنائی۔ ابّوجان بچّوں کی پُرزور فرمائش سُن کر مسکرا دیئے اور دونوں کو پیار کرتے ہوئے کہا: میں کہانی ضَرور سُناؤں گا، لیکن رات کے کھانے کے بعد! کھانا کھانے کے بعد ابّوجان نے کہانی شروع کی:پُرانے وقتوں کی بات ہے:ایک بزرگ علمِ دین حاصل کرنے کے لئے دُوردَراز شہر کی طرف پیدل روانہ ہوئے۔ ابّوجان! اتنا لمبا سفر! اور وہ بھی پیدل! وہ کیوں؟ حَسَن نے حیرت سے پوچھا۔ ابّوجان نے جواب دیا: جی بیٹا! اس لئے کہ اس زمانے میں کار، بس، ریل (Train)، جہاز (Aeroplane)وغیرہ نہیں تھے۔ جو لوگ امیر ہوتے تھے وہ اونٹوں، گھوڑوں وغیرہ پر سفر کرتے تھے اور غریب لوگ پیدل ہی سفر کرتے تھے۔ اس لئے وہ بزرگ بھی پیدل ہی سفر پر روانہ ہوئے۔ چلتے چلتے ان کے جوتے ٹُوٹ گئے اور چلنا مشکل ہوگیا تو انہوں نے جوتے اُتار دئیے اور ننگے پاؤں چلنا شروع کردیا۔ فاطمہ جو ابھی تک خاموشی سے کہانی سُن رہی تھی تعجب سے بولی: ابّوجان!وہ بزرگ ننگے پاؤں چلتے رہے؟ ابّوجان: جی! اور ننگے پاؤں چلنے کی وجہ سے ان کے پاؤں میں چھالے پڑگئے، لیکن جب تکلیف بہت زیادہ بڑھ گئی تو وہ بزرگ تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ ابّوجان پھر کیا ہوا؟ حَسَن بے چینی سے بولا۔ ابّوجان: اس وقت ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر میرے پاس بھی دولت ہوتی تو میں بھی کسی سواری پر سفر کرتا اور میری یہ تکلیف دہ حالت نہ ہوتی۔ اچانک اس بزرگ کی ایک معذور شخص پر نظر پڑی جس کے پاؤں ہی نہیں تھے اور وہ زمین پر گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھ رہا تھا۔اس بزرگ نے جب یہ منظر دیکھا تو اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے اُس خیال کی معافی مانگنے لگے اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ سُواری نہ ہونے کی وجہ سے پاؤں زخمی ہوگئے ہیں تو کیا ہوا میرے پاؤں تو سلامت ہیں کہ کھڑا بھی ہوسکتا ہوں اور چل بھی سکتا ہوں۔ کہانی سنانے کے بعد ابّوجان نے بچّوں سے سوال کیا: بچّو! اس واقعے سے ہمیں کیا سبق ملا؟ تھوڑا سوچنے کے بعد فاطمہ بولی: اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملا کہ کوئی بھی مصیبت پہنچے اللہ پاک کی ناشکری نہیں کرنی چاہئے بلکہ ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ حَسَن نے کہا: جب کوئی مصیبت پہنچے تو اس سے بڑی مصیبت کو یاد کرکے اللہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ میں اس بڑی مصیبت سے بچ گیا ہوں۔ ابّوجان: بالکل صحیح! دنیا کے معاملات میں ہمیشہ اپنے سے کم درجہ لوگوں کو دیکھنا چاہئے کہ اس سے دل میں نعمتوں کی قدر پیدا ہوتی ہے اور شکر کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔
 

Owais
About the Author: Owais Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.