ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکا کانام تو کچھ اور تھا
لیکن اسکی بیوقوفانہ حرکتوں کی وجہ سے سب اسے شیخ چلی کہتے تھے وہ درخت پر
بیٹھا اسی لکڑی کو کاٹ رہا تھا جس پر بیٹھا تھا تو کسی آدمی نے دیکھا اور
کہا بھائی نیچے اترو گر جاؤ گے لیکن اسنے نہیں سنا اور آخر گر گیا تو شیخ
چلی اس آدمی کے پیچھے پڑ گیا کہ بتاؤ کیسے پتا چلا تمہیں کہ میں گر جاؤں
گاتم تو سب جانتے ہو آدمی نے کہا مجھے پتہ ہے تو اس لڑکے نے کہا اچھا بتاؤ
میں کب مروں گا آدمی نے جان چھڑانے کے لیے کہا تمہیں تین دفعہ چھینک آئی تو
تم مر جاؤ گے اسی طرح کچھ وقفے سے اس لڑکے کو تین چھینکیں آئیں تو وہ گڑھا
کھود کے اس میں لیٹ گیا کہ مر چکا ہے تو اس جگہ سے ایک دوسرے آدمی کا گزر
ہوا تو اسنے کہا تم یہاں کیوں لیٹے ہو لڑکے نے کہا مر گیا ہوں اس لیے آدمی
نے کہا تم تو زندہ ہو لڑکے نے کہا اچھا میں زندہ ہوں تو آدمی نے کیوں کہا
میں تین چھینک پے مر جاؤں گا آدمی نے کہا اس بات کو چھوڑو چلو یہ انڈے
اٹھواؤ میں تمہیں پیسے دوں گا اب لڑکے نے انڈے اٹھاۓ اور سوچنے لگا کے مجھے
پیسے ملیں گے تو میں مرغی خریدوں گا پھر وہ انڈے دے گی انڈے بیچ کے اور
مرغیاں خریدوں گا پھر انکے بچے بیچ کے گاۓ خریدوں گا گاۓ دودھ دے گی وہ
بیچوں گا پھر امیر ہو جاؤں گا اسی طرح سوچتے ہوئے اسکا پیر پتھر سے اٹکا
اور وہ گر گیا تو سارے انڈے ٹوٹ گئے آدمی نے کہا یہ کیا کیا تم نے میرا
نقصان کر دیا اور اسکو ایک روپیہ بھی نہ ملا.اسلیے کہتے ہیں محنت میں عظمت
ہے نہ کہ خیالی پلاؤ پکانے میں.
|