اوسط شریف شادی شدہ افراد کی مانند چونکہ میں بھی ایک
شوہر ہوں چنانچہ حسب ضابطہ ایک بیوی یافتہ ہوں … بے پناہ محبت کا دعویدار
نہیں اور تھوڑی سی محبت کا روادار نہیں… وہ کہیں گھر پہ نہ ہو تو بے حساب
امن کے باوجود بے تحاشا سناٹے میرے اندر بولنے لگتے ہیں ، لہو گرم رکھنے کے
بہانےڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے، اور مجھے پھر وہی میدان جنگ بےطرح بھانے
لگتا ہے کہ جس کو کبھی غصے سے نہ جانے کیا کیا نام دے چکا ہوتا ہوں… لیکن
کیا کروں پھر وہ واپس آجاتی ہے اور ماحول پھر ویسےکا ویسا ہی مورچہ بند سا
ہوجاتا ہے- مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ میں زیادہ تر شوہروں
کی طرح اک عام سا شوہر ہوں، تاہم یہ بتانے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ میری
بیوی اکثر بیویوں کی مانند ایک خاص بیوی ہے … ایسا نہیں، کہ وہ یہ بات کہتی
ہے لیکن دوسروں کی بیویوں کی طرح وہ یہی ثابت کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتی
ہے،،، یہ جو میرے اندر کیلشیئم کے علاوہ اعتماد کی کمی پائی جاتی ہے اسکی
وجہ بھی میری بیوی کا میرے بارے میں عجیب برتاؤ ہے… غصے کی نوک پہ آکر وہ
کہتی ہے ”آپ بڑے وہ ہیں“ …لیکن وہ سے اسکی کیا مراد ہے ؟ کبھی واضح نہیں
کرتی.. محض اندازے سے ہی قیاس کرتا ہوں اور یہ قیاس بھی بتانے کے قابل نہیں
ہوتا۔۔۔
میری لائی ہوئی کوئی چیز کبھی پسند نہ آنا (یا کم ازکم فوری پسند نہ آنا..)
شاید اسکے ان ازدواجی اعتقادات کا حصہ ہے کہ جو اسے سینہ بہ سینہ ورثے میں
ملے ہیں اور جسکے تحت شوہر کو خدانخواستہ فوری خوشی فراہم کرنا عورت کے
مفتوح ہوجانے کی نشانی ہے- بلامبالغہ میں جب بھی شہر سے باہر جاتا ہوں
مختلف اشیاء خصوصاً کپڑوں کی سوغات ساتھ لے کر آتا ہوں- اس سلسلے میں مہارت
تامہ حاصل کرنے اور اپنے جوہر خریداری کو منوانے کیلیئے میں نے کئی بار
اپنی عزت سادات کو بے پناہ خطرے میں بھی ڈالا ہے ، اور آس پاس خریداری کرتی
خواتین کے ہنر سے استفادہ کرنے کیلیئے میں نے کسی ایک کو چن کر اسکے ساتھ
ساتھ رہنے کی معصومانہ کوشش متعدد بار کی ہے تاہم ایسی زیادہ تر کوششیں
خاصے نامناسب انداز میں ختم ہوئی ہیں بلکہ کرائی گئی ہیں ، کیونکہ بلاشبہ
کسی ناخلف دکاندار کی نگرانی میں زبردستی مارکیٹ کے باہر چھڑوائے جانے سے
خریداری کے ولولے آناًفاناً ماند بھی پڑجاتے ہیں..اور مجرب ہے کہ ایسے
مواقع پہ دائیں بائیں دیکھے بغیر سیدھے سیدھے آگے ہی آگے چلتے رہنے اور
یکایک پاس سے گزرتی کسی سواری میں سوارہی ہوجانے سے اعصاب کا تناؤ خاطر
خواہ حد تک کم ہوپاتا ہے،، ایسے ہر دلآزار موقع پہ میں دانت پیس کراپنے آپ
سے یہ کہتا ہوں کہ ” لعنت ہے ایسی خریداری پراور فوری عہد کرتا ہوں کہ
آئندہ یہ غلطی نہ کروں گا… لیکن آخرکو انسان ہوں… غلطی کرتے رہ کر خود کو
فرشتہ ہونے سے بچانے اور شرف انسانیت پہ فائز رہنے میں جتا رہتا ہوں
محض ایک خریداری ہی کی بات نہیں، نکاحی حراست میں لیئے جانے کے تھوڑے ہی
عرصے میں میرے خانہ زاد تفتیشی افسر نے میرے اندر ایسے بہت سے قابل اعتراض
پہلو ڈھونڈھ نکالے تھے کہ میں انکی روشنی میں خود اپنے آپ سے مل کر بہت
دنوں تک شرمندہ شرمندہ سا رہا اور اگر خدانخواستہ اکثر مردوں کی طرح مردانہ
ڈھٹائی کی لازوال قوت کا اثاثہ میرے پاس نہ ہوتا تو کبھی کا منہ لپیٹ کر اک
طرف کو پڑ رہتا… اس خرابی میں مگر اچھائی کا ایک پہلو پھر بھی ہے اور وہ یہ
کہ جیسے سیانے کہتے ہیں نا کہ ” قدرکھودیتا ہے،روز کا آنا جانا “ تو اسی
طرح ” اثر کھودیتا ہے روز کا طنز اور طعنہ “ اور یوں رفتہ رفتہ زندگی اک
“مضطرب امن” کی عادی ہوجاتی ہے- یہ بات نہیں کہ میں نے خود کو ڈھب پہ لانے
کی کوئی کوشش نہیں کی، ابھی خریداری کی ضمن میں اپنی بے پایاں مشقت کا تو
زکر کر ہی چکا ہوں ، تاہم اس مد میں یہ زرا بھی کافی نہیں کیونکہ میرے
گھریلو کولمبس نے میرے اندر نقائص کے دفینوں سے پر نجانے کتنے ہی جزائر
دریافت کرلیئے ہیں اور یہ کھوج پیہم جاری و ساری ہے… اس کھوج کا مرکزی خیال
یہ عقیدہ ہے کہ شوہر ایک ایسی مخلوق ہے جو صرف برا کرنے اور براسوچنے ہی پہ
قادر ہے تاہم زوجہ کا باپ اور بھائی قطعی نایاب کے درجے میں ہیں
اورمستثنیات میں داخل ہیں۔۔۔
یہ شوہرانہ مسئلہ بھی بڑا مشترکہ سا اور آفاقی نوعیت کا ہے کہ گھر سے باہر
تیس مارخان کہلانے والے اپنی زوجہ کے لیئے محض چڑی مار کا ہی سا مقام رکھتے
ہیں۔۔۔ خود ہمارے واقف ایک بڑے محترم دبنگ عالیجناب کا گھریلو رتبہ ” موئے
نگوڑ مارے“ سے زیادہ ہرگز نہیں۔۔۔ انہیں دیکھ کرمجھے ایک پیر صاحب کا حوالہ
یاد آتا ہے کہ ایک دنیا جنکی کرامات اور فضائل کی معترف تھی لیکن انکی بیگم
ہر وقت انکا مذاق ہی اڑاتی رہتی تھیں۔۔۔ تنگ آکر انہوں نے بڑی مشقت سے ہوا
میں اڑنے کا ایک خطرناک عمل سیکھا اورپھر ایک دن فضا میں بلند ہوکر خوب
اڑتے پھرے اور طے شدہ ذاتی منصوبے کے تحت اپنے مکان کے ارد گرد کافی بلندی
سے فضاء میں خوب چکر لگائے۔۔۔ بیگم کو صحن میں کھڑا دیکھا اور اس نظارے پہ
حیران ہوتے ہوئے پایا تو بانچھیں ہی کھل گئیں۔۔۔ ذرادیر بعد کہیں دور
جاکراترے اور کشاں کشاں گھر آئے ۔۔۔ گھر میں داخل ہوتے ہی بیگم نے آڑے
ہاتھوں لیا ” تم کہاں کے پیر بنے پھرتے ہومیاں ، صاحب کرمت تو ایسے ہوتے
ہیں کہ جیسے وہ پیر صاحب ہیں کہ جنہوں نے آج فضا میں جہاز کی مانند اڑکر
دکھایا اور یہ منظر میں نے خود دیکھا تھا۔۔کافی اونچائی پہ اڑرہے تھے وہ
۔۔۔
اس پہ تو پیر صاحب بیحد مسرور ہوئے اور ایک احساس فتحمندی کے ساتھ بیگم کو
اطلاع دی کہ “ اخّاہ وہ پیر میں ہی تو تھا۔۔۔
اس پہ بیگم نے کسی قدر بیزاری کے ساتھ فرمایا کہ اچھا وہ آپ تھے۔۔۔ جبھی
میں کہوں کہ ذرا ترچھے کیوں اڑ رہے تھے۔۔!
اس میں کیا شک ہے کہ دنیائے خاوندیت کا ہر باسی شادی کے پہلے چند برسوں میں
اپنے طور پہ اس خوش فہمی میں مبتلا نظر آتا ہے کہ گھرچلانے کے لیئے بیگم کو
ساری تنخواہ دینے ، اور بچوں کی پیدائش میں ‘ ناگزیر’ مدد فراہم کرنے کی
وجہ سے وہ اپنے گھریلو نظام شمسی کا گویا اک دمکتا سورج ہے لیکن اک طویل
مشاہدے بلکہ تجربے کے بعد اب مجھے کامل یقین ہے کہ اکثر بیگمات کی کائنات
میں شوہر کا کردار محض دمدار ستارے سے زیادہ ہرگز نہیں۔۔۔ پھر ڈھلتی عمر کے
آتے آتے تو شوہر اور بوسیدہ فرنیچر میں کوئی خاص فرق نہیں رہ جاتا۔۔۔ دونوں
ہی ایک طرف کو پڑے رہتے ہیں ۔۔۔ اور ناکارگی یہ شعر سوبار سنائے جاتی ہے۔۔
ع- غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں ۔۔۔
اس روزمرہ گھریلو سی حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ زیادہ تر شوہروں
کا کوئی بھی کام اپنی ہی بیگمات کی نظر میں کوئی خاص وقعت نہیں رکھتا
کیونکہ انکی تنقیدی بصیرت انکے ہر کام میں وہ وہ عیب ڈھونڈھ نکالتی ہے کہ
جو اس معصوم کے حاشیہ گمان میں پیشگی کبھی آہی نہیں سکتے تھے ورنہ کوئی
شوہر اتنا برا کام کرنے پہ بھلا مائل ہی کیوں ہوتا ! لیکن مسئلہ یہ بھی تو
ہے نا کہ اگر ان مبینہ' برے کاموں' سے اجتناب کا ہلکا سا ارادہ بھی ِدلِ
خاوند سے ہو گزرے تو نجانے کیوں اور کس طرح وہ 'سرکش آرزو' نظر بیگم سے بچ
نہیں پاتی اور حسرتِ ناکام میں بدل کے رہتی ہے ۔۔۔ اس طرح کے ہر گمان پہ
نکمے پن سے جڑے ان گنت محاورے اور تشبہیہات اور ضرب الامثال زبان بیگم پہ
فی الفور رواں ہوجاتے ہیں۔۔۔ اس روانی کا نقطہ عروج ٹیپ کا بند وہ لافانی و
بین الاقوامی واویلا ہوتا ہے کہ ” آپکے ساتھ تو میری قسمت ہی پھوٹ گئی “
۔۔۔ بالائے ستم یہ کہ اس ازدواجی استغاثےمیں شوہر کو جواب دعویٰ داخل کرنے
کا استحقاق بھی میسر نہیں۔۔۔
ایک اور سنگین مسئلہ جو بنیادی طور پہ سراسر مشرقی نوعیت کا ہے اور جو شادی
کے بعد کچھ ہی عرصے میں شوہروں کے لبوں کواکثر رومانی گانوں اور برجستہ
قہقہوں سے محروم کردیتا ہے اور مسلسل منہ بسورے رکھنے پہ مجبور رکھتا ہے،
وہ ہے فراواں شک کا مسئلہء جاریہ ۔۔۔ ہوتا یوں ہے کہ اسکی ذد میں سب سے
پہلے تو بیگم آپکی عمر کے آس پاس کی وہ کزنزلاتی ہیں کہ آپ جنکے چکر میں
امکانی طورپہ ذرا بھی مبتلا ہو سکتے تھے مگر بوجوہ ایسا کرنے کی ہمت نہ جٹا
سکے۔۔۔ اور پھر بتدریج اس شک کا دائرہ ہر عمراور ہرقابل نکاح تعلق تک وسیع
کردیا جاتا ہے۔۔۔ یہ دائرہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا ہے اور انتھک طعن و
تشنیع کے بل پہ تمام عمر ہی بڑھایا ہی جاتا رہتا ہےاور یوں آپ تاعمر
ازدواجی ریمانڈ پہ رہتے ہیں اور تفتیش کبھی مکمل نہیں ہوپاتی۔۔۔۔ جبکہ اس
دوران آپکو بالجبرنہ جانے کتنی ہی نازنینوں کا بھائی صاحب بنا دیا جاچکا
ہوتا ہے۔۔ اور یہاں بھائی جان والی آپشن بھی کسی کو نہیں دی جاتی، (بجز سگی
بہنوں کے۔۔۔!!) کیونکہ اس خطاب کے آخر میں پھر وہی ازیتناک 'جان' براجمان
ہے کہ جس سے بیگمات کی جان جاتی ہے۔۔۔ چونکہ بیگماتی قرار و سکون کا چشمہ
اسی شک کی زمین سے پھوٹتا ہے اور تاعمر رواں ہی رہتا ہے۔۔ چنانچہ آپ گھر سے
باہر کہیں بھی جائیں اور بیگم کو منزل کی بابت بالکل درست اطلاع فراہم کریں
تب بھی انکی آنکھوں میں بے یقینی کے قلزم ہلکورے لیتے صاف محسوس کیئے
جاسکتے ہیں- کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ وہ عورت صرف ایک بیوہ ہی ہوسکتی ہے کہ
جسے کامل یقین ہوتا ہے کہ اس وقت اسکا شوہر کہاں ہے۔۔۔ تاہم زندہ شوہر اپنی
زندگی کا ثبوت فراہم نہ کرتے رہیں،ایسا بھی کم ہی ہوتا ہے۔۔۔
ازدواجی معاملات میں ایک پہلو مگر ایسا ہے جس سے میں بہت حیران رہتا ہوں
اور مجھے یقین ہے کہ میرے دیگر ' شوہر بھائی ' بھی اس ہی قسم کی حیرانی سے
دوچاررہتے ہونگے کہ انکی بیگمات کی طرح میری بیوی بھی میرے اکثر خیالات پڑھ
سکنے کی بلا کی صلاحیت رکھتی ہے،اور کئی بار تو مجھے میری سوچ کا کھویا ہوا
سرا بھی پکڑادیتی ہے… میری بہت سی ایسی باتیں اس پہ کھلی ہوئی ہوتی ہیں کہ
جنہیں چھپائے رکھنا میرے لیئے بہت اہم ہوتا ہے… شاید اسی لیئے اک میری بیگم
ہی نہیں بلکہ اکثر بیگمات کا دعویٰ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کو
خوب اچھی طرح سمجھتی ہیں … تاہم عجیب بات یہ ہے یہ فقرہ بھی انکے لبوں پہ
کبھی کبھار آہی جاتا ہے کہ
” میں آپکو ابھی تک سمجھ ہی نہیں سکی…“
بلاشبہ مستورات کے اس تضاد میں شوہروں کیلیئے ایک تسلی بخش راحت مستور ہے…
کیونکہ یہ انکی اس بے پناہ صلاحیت کا لاچارانہ اعتراف بھی ہے کہ جسکے ذریعے
وہ پھر بھی کچھ نہ کچھ اپنی بیگمات سے چھپائے رکھنے میں کامیاب ہی رہتے
ہیں…اور وہ ایسا کچھ ضرور ہوتا ہے کہ جسکے چھپے رہنے ہی میں ازدواجی مسرتوں
کی عافیت ہے
=============
سید عارف مصطفیٰ
|