چنانچہ بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے اردو ادب اور خصوصاََ
شاعری ایک نئے انداز سے ہمارے سامنے آئی، جس کی وجہ بدلتے ہوئے سیاسی،
معاشرتی اور اجتماعی حالات تھے ۔ انہی حالات کے زیرِ اثر اردو زبان میں سب
سے پہلے جس شخص نے طرزِ خیال میں انقلاب پیدا کیا وہ محمد حسین آزاد;207;
اور ان کے بعد حالی;207; تھے ۔ وہ کہتے ہیں :
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اوراک نسخہَ کیمیا ساتھ لایا
ایک اور بڑا نام جس نے نثر میں اردو کو شہرتِ دوام عطا کی، وہ ابوالکلام
آزاد کاہے ۔ ابوالکلام آزاد جواپنے معاصرین میں فصاحت و بلاغت میں اپنا
ثانی نہیں رکھتے ۔ انہوں نے تخیل کی انتہابلندیوں کو چھوتا ہوا ’غبارِ
خاطر‘کا تحفہ اردو زبان کی جھولی میں ڈال دیا ۔ اسی طرح اردو میں سفر نامے
کا جو سفر، یوسف کمبل پوش کے ’عجائب ِ فرنگ‘ سے شروع ہو اوہ مستنصر حسین
تارڑ کے سفر ناموں میں عروج پر نظر آتاہے
سفر نامے کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں آپ بیتیاں بھی لکھی گئیں ۔ اس صنف
میں مولانا عبدالماجددریا آبادی کی آپ بیتی نے خاص شہرت حاصل کی جبکہ جوش
ملیح آبادی کی یادوں کی بارات، احسان دانش کی جہانِ دانش، قدرت اللہ شہاب
کی شہاب نامہ اور مشتاق احمد یوسفی کی سرگزشت بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں
ہیں ۔ اکبر الہ آبادی نے طنز کے نشتر سے معاشرے کے ناسور کا تریاق تلاش
کیا ۔
جب کہ داغ دہلوی نے شاعری کے ساتھ ساتھ اصلاحِ زبان کا بیڑا اٹھایا ۔ اسی
دوران آسمانِ شاعری پر طلوع ہو نے والے ستارے نے عروقِ مردہ مشرق میں تازہ
خونِ زندگی دوڑا دیا ۔ آسمانِ شاعری کا یہ رخشندہ ستارہ علامہ محمد اقبال
;231; کے نام سے جانا جاتا ہے، جس نے اردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح
پھونک دی اور فلسفہ خودی تخلیق کرکے شہرتِ دوام حاصل کی ۔
زندگانی ہے صدف قطرہَ نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
علامہ;231; کے بعدفراق گورکھپوری،اختر;207; شیرانی، ن ۔ م ۔ راشد،احسان
دانش، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض;207;، ساحر;207; لدھیانوی، حفیظ;207;
جالندھری ، ناصر;207;کاظمی، مجید امجد، سید ضمیر جعفری;207;،منیر نیازی ،
احمد فراز;207;، احمد ندیم;207; قاسمی، امجد اسلام امجد;207;، پروین شاکر،
حبیب جالب;207;،کیفی اعظمی، کشور ناہید، انور مسعوداور عطا الحق قاسمی نے
جدید طرز کی غزلیں اور نظ میں تخلیق کیں ۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ
فیض;207; نے غزل کو غمِ جاناں تک محدود نہیں رکھا بلکہ غمِ دوراں کی بات
کرکے اسے موضوع کے اعتبار سے بے پناہ وسعت عطا کی:
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
جب کہ حفیظ نے نہ صرف گیتوں کا اضافہ کیابلکہ پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے
کا اعزاز بھی حاصل کیا تو مجید امجد نے ہئیت کے تجربات سے نظمِ پابند سے
نظمِ آزاد کی طرف قدم بڑھانے والوں میں خاص مقام حاصل کیا ۔ اسی طرح صنفِ
نعت کو بامِ عروج تک پہنچانے والوں میں ، امام احمد رضابریلوی;231;، علامہ
اقبال;231;، امیر مینائی،محسن کاکوروی، مولانا ظفر علی خاں ، صبا اکبر
آبادی، ماہرالقادری، الطاف حسین حالی;207;، مولانا ظفر علی خاں اور حفیظ
تائب وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔
حالی;207; نے شاعری کے ساتھ ساتھ’ مقدمہ شعر و شاعری‘ لکھ کر اردو میں
تنقید نگاری کے فن کا آغاز کیا اورڈپٹی نذیر احمدنے اردو میں ناول نگاری
کی بنیاد رکھی جب کہ عبدالحلیم شرر نے ’فردوسِ بریں ‘ لکھ کر ناول
نگاری کے فنی تقاضوں کو پورا کرکے انگریزی ناول کا ہم پلہ بنا دیا ۔ منشی
پریم چند نے افسانہ نگاری میں اپنا لوہا منوایا اور سجاد حیدر یلدرم اور
کرشن چندنے اسے چار چاند لگا دیے ۔ |