اُردو ہے جس کا نام، ہ میں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دُھوم ہماری زباں کی ہے
زبان کسی کی میراث یا ذاتی جاگیر نہیں ہوا کرتی ۔ زبان بولنے، سیکھنے، اسے
پروان چڑھانے اور اس کی حفاظت کرنے والوں کی ہواکرتی ہے ۔ اگر زبان و ادب
کی حفاظت نہ کی جائے تو یہ رفتہ رفتہ صفحہَ ہستی سے نابود ہو جاتے ہیں ، اس
کی روشن مثال آسٹریلیا کے مقامی باشندوں کی زبانیں اور بولیا ں ہیں جو
برطانوی راج سے پہلے سات سو سے زائد تھیں لیکن عدمِ تحفظ کے باعث اب چند ہی
زندہ ہیں اور کچھ تو سسک سسک کر سانس لے رہی ہیں ۔
یہ ایک مسلِّمہ حقیقت ہے کہ کسی زبان کو پروان چڑھانے کا کام اس معاشرے کے
موَرّخ، ادباء ، شعرا اور نقّاد کرتے ہیں جب کہ اسے سمجھنے، بولنے اور
استعمال کرنے کا فریضہ عوامُ النّاس سر انجام دیتے ہیں اور سب کی من جملہ
کاوش زبان و ادب کو بامِ عروج تک لے جاتی ہے ۔ زبان کی بقا اورسلامتی کا
راز اس میں مضمر ہے کہ اسے پھیلانے کے علاوہ اس کی اصلاح کی کوشش بھی جاری
رکھی جائے ۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ زبان کسی خاص تہذیب کی عکاس ہو تی
ہے اور کسی مخصوص ماحول میں پروان چڑھتی ہے تاہم اس کے اندر کسی حد تک
خودسے پھلنے اور پھولنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے، جیسا کہ کسی پودے کی
جڑ تو زمین کے کسی ایک حصے میں ہوتی ہے لیکن اس پر کھلے ہوئے پھول کی خوشبو
کو مقیّد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کے پھیلنے کی سمت ہوا متعین کرتی ہے،
ایسے ہی زبان ایک مقام سے دوسرے اور ایک انسان سے دوسرے تک رسائی حاصل کرتی
ہے اور بقول علامہ اقبال;231;:
ع پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے !
بر صغیر پاک و ہند میں اردو کی تاریخ سات آٹھ سو سال پر محیط ہے ۔ عروج و
زوال کے مختلف ادوار میں یہ کئی ناموں ،ریختہ ، ریختی ، اردو ئے معلی وغیرہ
سے معروف ہوئی لیکن مغلیہ عہد کے آخر میں اس نے خوب ترقی کی اور آج اردو
کے نام سے شناخت رکھنے والی یہ زبان نہ صرف پاکستان کی قومی زبان ہے بلکہ
بھارت کے علاوہ شرق الاوسط میں بھی بولی اورسمجھی جاتی ہے ۔
اردو زبان کی پہلی نثری کتاب ملاوجہی کی ’سب رس‘ کی صورت میں منظرِ عام پر
آئی تو دوسری طرف قلی قطب شاہ کی شاعری کا مجموعہ اردو کا پہلا دیوان
ٹھہرا، تاہم شعر و شاعری اور نثر میں امیر خسرو کی خدمات کو نظر انداز نہیں
کیا جا سکتا ۔ قلی قطب شاہ کے صاحبِ دیوان ہونے پر محققین کا اتفاق ہو چکا
ہے ۔ اس کے سو سال بعد ولی دکنی کا دیوان نکھری ہوئی صورت میں نظر آتا ہے،
مثلاََ:
تجھ لب کی صفت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں تیرے نین غزالاں سوں کہوں گا
اردو زبان کے ارتقا کی داستان بہت طویل ہے ۔ یہ مختلف ادوار اور مراحل و
مدارج اور نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی برِ صغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں
پھیل گئی ۔ مرزا رفیع سودا نے اردو شاعری میں قصیدہ گوئی کی طرح ڈالی جبکہ
میر درد اور میر تقی میرنے کلاسیکی شاعری کی بنیاد وں کو مضبوط کیا نیز میر
تقی میر نے غزل کا بادشاہ ہو نے کا اعزاز حاصل کیا ۔ انہوں نے اردو شاعری
کوترنم اور موسیقیت سے بھی نوازا ۔ مثلاََ:
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم بادوباراں ہے
اور غالب بھی میر کو داد دیئے بغیر نہ رسکے کہ:
ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب کہتے ہیں کہ اگلے زمانے میں کوئی میر
بھی تھا
اصنافِ نظم و نثر میں وسعت آتی چلی گئی ۔ پھر ایک دور ایسا آیا جبب بہادر
شاہ ظفر، مومن، ذوق; اور غالب;; کی شاعری کا ڈنکا بجنے لگا ۔ مومن کا یہ
شعر تو ہر دور میں دل پذیر رہاہے ۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مزید یہ کہ غالب;; نے اردو میں فلسفیانہ شاعری کی طرح ڈالی:
عشرتِ قطرہ ہے ، دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے، قسمت میں مری ، صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا ، بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
غالب;; نے نہ صرف فلسفیانہ شاعری سے اردو کے دامن کو وسیع کیا بلکہ جدید
طرز کی انشاپردازی کی داغ بیل بھی ڈالی ۔ ایک طر ف غالب اردو نظم و نثر کو
جدت عطا کررہے تھے تو دوسری طرف میر امّن نے داستانِ باغ و بہار لکھ کرفنِ
داستان گوئی کوبامِ عروج تک پہنچا دیا ۔ میرامن سے پہلے رجب علی بیگ سرور
نے فسانہ عجائب لکھا تو رتن ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد لکھ کر داستان سے
ناول کے درمیان پل کا کام کیا ۔ میر حسن نے مثنوی سحر البیان تخلیق کرکے
شاعری میں افسانہ نگاری کر ڈالی ۔
.....نظیر اکبر آبادی نے عوامی نظ میں لکھ کر عوامی شاعر ہونے کا خطاب
حاصل کیا ۔
|