اردو میں ڈرامہ نویسی کا آغاز امانت لکھنوی کے ’اندر
سبھا‘ سے ہوا ۔ بعد میں امتیاز علی تاج نے انارکلی لکھ کر شہرتِ دوام حاصل
کی تو آغا حشر کاشمیری نے رستم و سھراب کے بل بوتے پر اپنا نام تاریخِ ادب
اردو میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کرا لیا ۔ اس صنفِ ادب میں اور بھی بہت سے
ڈرامہ نویسوں نے بڑا نام پیدا کیا جن میں ،شرر،آزاد،ظفر،سعادت حسن
منٹو،میرزا ادیب، کنہیا لال کپور،اشفاق احمد،بانو قدسیہ،ہاجرہ مسرور،حسینہ
معین،یونس جاوید،منو بھائی اور انور مقصود وغیرہ ،اہم ہیں ۔
اردو زبان کا دامن مزاح نگاری کے فن سے بھی تہی دست نہیں ۔ فرحت اللہ بیگ ،
رشید احمد صدیقی، احمد شاہ پطرس بخاری ، شوکت صدیقی، کرنل محمد خاں ، شفیق
الرحمٰن ، ابن ِ انشا اور موجودہ دور کے مشتاق یوسفی اور ڈاکٹر یونس نے
اردو زبان کو نایاب تحفے عطا کیے ہیں ۔
اردو ادب کی ترقی میں صحافت کے کردارکو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
اردو صحافت جس کا آغا ز ہری ہاردتہ نے ’ جامِ جہاں نما‘ کے نام سے1822 ء
میں کیا چنانچہ مغلیہ سلطنت کے اختتام تک کئی اخبارات منظرِ عام پر آچکے
تھے اور جنگِ آزادی 1857ء کے بعد بہت سے اردو جرائد و رسائل اور اخبارات
کو بندش کا سامنا کر نا پڑا تو کئی نئے اخبار منظرِ عام پر آئے ۔ سرسید
احمد خاں نے 1866ء میں ’سائنٹیفک سوسائٹی‘ اور 1871ء میں ’تہذیب الاخلاق ‘
جاری کیے ۔ 1877ء میں منشی سجاد حسین نے اوود پنچ، 1888ء میں محبوب عالم نے
پیسہ اخبار جاری کیے ۔ بیسویں صدی میں کئی موقر اخبار نکالے گئے جن میں
بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاں کا ’زمیندار‘، مولانا محمد علی جوہر کا
’ہمدرد‘ اور ابوالکلام آزادکے ’الہلال‘ نے سیاسی بےداری میں اہم کردار ادا
کیا ۔ جدید صحافت کا آغاز اگرچہ مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا ظفر علی
خاں ، مولانا محمد علی جوہراور مولانا حسرت موہانی کے اس میدان میں قدم
رکھنے کے ساتھ ہی ہو گیا تھا لیکن اس میں صحیح معنوں میں جدیدیت کا آغاز
میر خلیل الرحمٰن نے روز نامہ جنگ 1939ء اور حمید نظامی نے نوائے وقت 1940ء
کی اشاعت سے کیا -
آخر میں چند جملے بابائے اردومولوی عبدالحق کے بارے میں کہ ان کی شخصیت کا
ذکر کیے بغیر اردو اور اردو کے متعلقات کی بات نامکمل رہتی ہے کیونکہ مولوی
عبدالحق نے اردو زبان کی اصلاح و ترقی کے لیے جو خدمات سر انجام دیں وہ
ناقابلِ فراموش ہیں ۔
اس ملک میں بالعموم اور اس شہر میں بالخصوص ہم نے ابتدا کی ہے ۔ آپ سب کے
لیے جو آشنا ہیں اور جو نہیں اوراردو زبان کو سیکھنا چاہتے ہیں ، ان سب کے
لیے بھی ہماری خدمات حاضر ہیں ۔
ہم راسخ العزم ہیں اور ہماری تنظیم ایک پلیٹ فارم ہے ان سب بچوں ، جوانوں
اور بڑوں کے لیے ، جو اپنی تہذیب وتمدن سے منسلک رہنا چاہتے ہیں ، کیونکہ
یہ ایک مسلِّمہ حقیقت ہے کہ زبان کے سوتے کسی تہذیب سے پھوٹتے ہیں اور ادب
اور معاشرے کا گہرا تعلق ہو تا ہے اور اسی طرح زبان کسی معاشرت کا آئینہ
ہوتی ہے ۔ آئیے اس آئینے میں اپنا چہر ہ دیکھیے ۔ یہ آئینہ دھندلا گیا
تو آپ کو کچھ دکھائی نہیں دے گا ۔ |