راجدھانی ایکسپریس میں بیرے نے کلن بنگلوری کے سامنے چائے
کا تھرماس رکھا تو للن بھوپالی نے شکریہ ادا کیا ۔
کلن بولا شکریہ تو مجھے ادا کرنا چاہیے لیکن آپ نے ۰۰۰۰۰
وہ ایسا ہے کہ اس میں ہم دونوں کی چائے ہے اس لیے مشترکہ شکریہ ادا کردیا ۔
کلن نے تائید کی جی ہاں اب مشترک چائے کی مانند ہمارا سیاسی مستقبل بھی
یکساں ہونے والا ہے۔
للن بولا یہ چائے میں سیاست کہاں سے آگئی ؟کہیں آپ بھی تو پچھلے پانچ
سالوں سے چائے کے خمار میں گرفتار نہیں ہیں؟
کلن کا فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا۔ وہ بولا ارے بھائی ہماری اور آپ کی کیا
بساط اب تو ساری دنیا ہمارےپردھان جی اور ان کی چائے پر فدا ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ جس یکسانیت کا ذکر کررہے تھے وہ میں نہیں سمجھا ۔
شاید آپ اخبار نہیں پڑھتے ۔ آپ کے مدھیہ پردیش میں حزب اختلاف کےرہنما
گوپال بھارگو نے صوبائی حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ اگراوپر سے نمبر ایک اور
نمبر دو کا حکم ہوا تو سارا کام تمام کرنے میں ایک دن بھی نہیں لگے گا۔
یہ اوپر بیٹھے ایک اور دونمبر برتھ والے مسافر تو تمل ناڈو کے ہیں ان کا
میرے صوبے ایم پی سے کیا تعلق؟
بھائی للن آپ بڑے بھولے ہیں ۔ بھارگو جی کا اشارہ مودی اور شاہ کی طرف ہے۔
اگر وہ کہہ دیں تو ایک دن میں کمل ناتھ کو کمار سوامی بنادیا جائے ۔
اچھا تواس کم بخت بھارگو نے صبح یہ دھمکی دی تھی لیکن آپ کو پتہ ہےکہ آج
دن میں ہماری اسمبلی میں کیا ہوا؟
نہیں بھائی دوپہر سے میرے موبائل کو نہ جانے کیا ہوگیا ۔ انٹر نیٹ چل کر
نہیں دے رہا ہے۔ کئی جتن کیے لیکن بات نہیں بنی ۔
یہی حال بھارگو جی کا بھی ہوگا ۔ وہ جتن تو کریں گے لیکن بات نہیں بنے گی۔
کیا سمجھے ؟
اس بار کلن بنگلوری نے سوال کیا ۔ اچھا میرا تو وشواس ہے کہ ‘مودی ہے تو
ممکن ہے’ ؟ آپ نے دیکھا نہیں کہ ہمارے بنگلور میں کیا ہوا؟
جی ہاں گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ٹیلیویژن پر دیکھاتھا ۔ چاہو تو میرے
موبائل پر آپ بھی دیکھ لو۔
خیر آپ نے دیکھ لیا ہے تو بتادیں ہم مان لیں گے ۔
ہوایہ کہ اسمبلی میں ایک سزا قانون پر ترمیمی بل پیش کیا گیا۔اس پر بحث کے
دوران بی ایس پی کے سنجو کشواہا کے مطالبہ پر ووٹنگ کرائی گئی تواس کے حق
میں 122 اراکین اسمبلی کے ووٹ آگئے جبکہ کانگریس اور اس کے حامیوں کی
تعداد صرف ۱۲۰ ہے ۔
کلن بنگلوری سرد آہ بھرکر بولا بھائی کیا بتائیں میں تو کہہ کہہ کر تھک
گیا کہ پسماندہ لوگوں کو ٹکٹ نہ دو یہ قابل اعتماد نہیں ہیں لیکن کوئی سنتا
ہی نہیں ۔
بھائی کلن اس بار کسی پسماندہ یا دلت نے نہیں بلکہ نرائن ترپاٹھی اور شرد
کول نامی براہمنوں نے آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپاہے ۔ اب بولو کیا کروگے ؟
مجھے تو وشواس نہیں ہوتا ۔ دو براہمن بھلا یہ مہا پاپ کیسےکرسکتے ہیں ۔
اچھا ! ان بدبختوں نے اس غداری کا جواز کیا پیش کیا؟
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے حلقۂ انتخاب کی ترقی کے لیے یہ کیا ہے؟ اب آپ
ہی بتائیں کہ اپنے رائے دہندگان کی فلاح و بہبود غداری ہے کیا؟
لیکن اس کے لیے اپنی پارٹی سے بغاوت کیسے جائز ہوسکتی ہے؟ للن جی ۔ اس دیش
دروہ کے لیے وہ کم بخت کمل ناتھ دوشی ہے ۔
ایسا ہے تو کانگریسیوں کو دس دس کروڈ میں خریدکربنگلور سے ممبئی لےجانا دیش
بھکتی کیسےہوگیا؟ یہ سن کر کلن کا کمل مرجھا اور للن کا کمل کھل گیا !!!
|