میرپور معصومہ سے درندگی اور معاشرے اداروں کی ناکامی

میرپور معصومہ سے درندگی اور معاشرے اداروں کی ناکامی

آزاد جموں وکشمیر ہائی کورٹ شریعت ٹریبونل بینچ نے بارہ سالہ بچی کے ساتھ درندگی کرنے والے دو ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کرتے ہوئے گرفتار کرادیا ہے ، ان ملزمان نے بارہ سالہ بچی کوبہلا پھسلا اور دھمکیوں کے ذریعے زیادتیوں کا نشانہ بناتے ہوئے حاملہ کر دیا ، یہ ہمارے معاشرے کی سب سے ستم رسیدہ ماں کی بیٹی ہے ، جسکی ماں گھروں میں صفائی کپڑے برتن دھوکر دووقت کی روٹی خود اور اس بچی کو کھلاتی ہے اسطرح کے ستم رسیدہ مجبور بے کس افراد انکے بچوں کو انکی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ظلم و درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور نظام نہیں بلکہ نظام کو اپنے پنجہ استبداد میں جکڑ ے شیطان نماء انسا ن ناصرف ظلم کرتے ہیں بلکہ ظلم کے شکار مظلوموں کا جینا عذاب بنا دیئے ہیں ،اس کیس میں ناصرف بچی کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس کی آواز کو دباتے ہوئے پی ڈی ایس پی کے کمزور ربنائے کیس قاضی عدالت میں مصلحت کے ہاتھوں ضمانت کے نام پر رہا کر دیا گیا کہ کمزور ناتواں باپ کو ڈرا دھمکا کر سمجھوتہ کے نام پر شیطانی طاقت کا زور دکھایا گیا ، مگر اس بچی کی ماں کو کروڑوں بار سلام و خراج تحسین ہے جس نے ہمت نہیں ہاری ، جسکے نتیجہ میں ہائی کورٹ شریعت ٹریبونل بینچ کے سامنے کیس کھل گیا ، جسٹس چوہدری منیر نے نچلی عدالت کے ضمانت کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے ان ملزمان کو گرفتار کر ا دیا ہے ، تیسراملزم کریمنل کورٹ میں اپنا کیس زیر کاروائی ہونے کے باعث باہر ہے ناصرف جسٹس منیر بلکہ ایڈووکیٹ جنرل کے ڈی خان کا کردار انکے احساس کے جذبے کی سلامتی کا گہوارہ ہے نبیلہ ایوب ایڈووکیٹ اس ماں کیطرف سے ماں ہونے کا فریضہ نبھا رہی ہیں ، تاہم یہ کیس اور اس سے پہلے بہت سارے ایسے مقدمات میں ملزمان کو پولیس کے دباءو کا شکار طرز عمل ماتحت عدلیہ کے کمزور فیصلے کیوں وقوع پذیر ہوئے ہیں یہ المیہ ہے جو بہت سی خوبیوں والے معاشرے پر کلنگ کا داغ ہے اگرچہ یہ عوام کے شعورکا کریڈٹ ہے کہ یہاں جرائم وباء کیطرح نہیں ہیں نہ کہ بجٹ سے مراعات یافتہ عناصر کا اس میں عمل دخل ہے مگر رب کریم کی مقدس ہستیوں کیطرح معصوم بچوں کے ساتھ درندگی پر معاشرے کا بیدار کردار قابل فخر ہونا چاہیے مظفرآباد ایک ایک معصوم طالبہ کے اغواء ہونے پر سارے شہر نے باہر نکل کر عظمتوں کا باب رقم کیا تھا اب یہ شعور جذبہ پھر چاہیے کیونکہ خطہ کے مزاج سرکاری سطح پر ایسا ساری مشینری میں داخل ہو چکا ہے قصور قانون نہیں دیکھا جاتا بلکہ چہرے دیکھے جاتے ہیں برادری علاقہ اور تعلق اثر رسوخ آئین قانون کا درجہ رکھتے ہیں ، جو ہر معاملے اور سطح پر یہ عذاب بنتا جارہا ہے ناموں کے لاحقے عزت کردار کی نگہبانی کے بجائے ، ذلالت ظلم کی پشت بانی ہوتے جارہے ہیں ، یہی اس بچی اور اس جیسی دیگر مظلوموں کو انصاف دینے میں سب سے بڑی رکاءوٹ ہیں ،جسکی درندگی کا شکارناصرف جنسی بلکہ انصاف میرٹ حقوق کے حوالے سے محروم کمزور طبقات کو مریض بنا چکی ہے ، ان مظلوموں کی کوئی برادری علاقہ نہیں ہوتا مگر ان ناموں پر یہ بیوقوف بن کر ظلم کو سینے سے لگاتے چلے آرہے ہیں ،اور ظالموں کے پشت بانی ہر ہر جماعت ادارے شعبہ مکاتب فکر میں منظم نیٹ ورک بنائے موجود ہیں جو اپنے ناجائز کاموں کیلئے جماعت برادری ، علاقہ رنگ ونسل کے نام پر ان کو تحفظ دیتے ہیں ، محض بہت ہی مجبوری ہو جائے تو بیان دیکر دکھاوا کیا جاتا ہے ، ورنہ تعلیمات اسلامی یا کسی قانون میں کہاں لکھا ہے کہ پہلے کو کھڑپینچ سے تعلق دیکھا جائے ذات برادری جماعت علاقہ دو لت ،ا ختیا ر بدمعاشی کو سامنے رکھ کر پوچھا جائے ، اور پھر نام نہاد پرچے انکی آڑ میں دولت خوشنودی کا حصول مذہب بنا لیا جائے اس کیس میں بھی ایسا ہوا ہے جن میں کمزوری دکھانے والوں کو نشان عبرت بنا یا چاہیے یہ تو بھلا ہوا سکی ماں اور جسٹس منیر کے ڈی کے ڈی خان نبیلہ ایوب کا اسکا سہارا بنے ہیں اور انسپکٹر جنرل پولیس اولیاء سے محبت رکھنے والے ہیں وہ اسطرف خصوصی توجہ دیں اس بچی کی حاملہ صورت اور بچے کی پیدائش ڈی این اے ظالموں کو نشان عبرت بنانے کی امید ہے اسی بچی او ر اسکی ماں کو تحفظ دیں ورنہ ظالم انکا گلہ بند کرنے کے درپہ ہیں ، نیز چیف جسٹس صاحبان اور آئی جی پی کم ازکم ماتحت عدلیہ اور پولیس کے آفیسران کو چاروں صوبوں اور چاروں صوبوں کے آفیسران کو یہاں تبادلہ کر کے نظام کو درست کریں ورنہ یہ سلسلہ چلتا رہا تو پھر نہ جانے کب آتش فشاں بن کر برباد کر دے ۔

Tahir Farooqi
About the Author: Tahir Farooqi Read More Articles by Tahir Farooqi: 206 Articles with 131313 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.