شمائلہ کی روح کا شکوہ ”آزاد“ عدلیہ سے

ٹی وی پر آسٹریلیا اور کینیڈا کا میچ چل رہا تھا کہ اسی دوران میرے پاس بیٹھے ایک دوست کو موبائل پر کال آئی اور اس نے فوراً کوئی نیوز چینل لگانے کا مشورہ دیا۔ جب ایک نیوز چینل لگایا گیا تو وہاں بریکنگ نیوز چل رہی تھی جس کے مطابق لاہور میں دوہرے قتل میں ملوث امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رہائی عمل میں آگئی ہے اور ورثاءنے دیت کی رقم لے کر اسے معاف کردیا جس کے بعد عدالت نے اسے بری کردیا۔ خبروں کے مطابق مقتولین کے انیس لواحقین نے بیس کروڑ روپے بطور دیت وصول کرکے قاتل کو معاف کردیا جبکہ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق لواحقین نے انیس کروڑ روپے وصول کئے اور ساتھ ہی انہیں امریکی ویزے اور نیشنلٹی کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں متضاد اطلاعات گردش میں ہیں جن میں سے بعض کے مطابق امریکی ائیرفورس کا ایک خصوصی طیارہ ریمنڈ ڈیوس کو لے کر لاہور سے کابل کے لئے اڑان بھی بھر چکا ہے۔ مقتول کے ورثاءکے وکلاءکے مطابق دیت کی دستاویزات پر زبردستی دستخط کروائے گئے ہیں۔

یہ خبریں دیکھتے اور سنتے میں نے آنکھیں بند کیں اور کوشش کی کہ میرے کان بند ہوجائیں، میں نہ تو کچھ سوچوں اور نہ سنوں، اسی دوران مجھے یوں لگا کہ میرے تصور میں شمائلہ کی روح میرے سامنے آن کھڑی ہے، وہ مجھے کہہ رہی ہے کہ ”تم اور بہت سے دیوانے جنہوں نے عدلیہ کو ”آزاد“ کروانے کے لئے پوری قوم کو ایک طرح کے عذاب میں ڈال رکھا تھا، ہر جمعرات کو پورے ملک کی سڑکوں پر جلوس نکالا کرتے تھے ، نہ خود کوئی کام کرتے تھے اور نہ کسی اور کو کرنے دیتے تھے، تم لوگوں نے بالآخر عدلیہ کو بحال کرا کے ہی دم لیا لیکن مجھے بے حد افسوس ہے کہ آج وہی عدلیہ جو خود کو آزاد کہتی ہے، وہی عدلیہ غلاموں سے بھی زیادہ غلام ہے، میں نے تصور میں ہی اسے جواب دیا کہ اس میں عدلیہ کا کیا قصور ہے، قتل ہونے والوں کے ورثاءنے ہی قاتل کو معاف کیا ہے، ایسے میں عدلیہ کیا کرسکتی تھی؟ شمائلہ کی روح دوبارہ گویا ہوئی ”بھائی صاحب! آپ یا تو بڑے بھولے ہیں یا معصوم بننے کی کوشش کررہے ہیں، میڈیا کے توسط سے آج ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے 2006ءمیں قتل کے ایک مقدمے میں کیا حکم جاری کیا تھا، اگر آپ کو پتہ نہیں تو میں بتاتی ہوں کہ اس قتل کیس میں بھی لواحقین نے قاتل کو معاف کردیا تھا لیکن ہائی کورٹ نے اسے بری نہیں کیا تھا بلکہ تعزیر میں اسے سزائے عمر قید سنائی تھی کیونکہ ہائی کورٹ کے بقول یہ فساد فی الارض تھا اور اس میں ملوث مجرم کو دیت کی وصولی یا معافی کے باوجود بری نہیں کیا جاسکتا، تو کیا میرے خاوند کا کیس فساد فی الارض کا کیس نہیں تھا؟“ میں نے جواب دیا کہ آپ کے سسر، آپ کی ساس اور آپ کے مقتول شوہر کے دوسرے لواحقین نے باقاعدہ طور پر خون بہا وصول کرکے عدالت میں بیان دیا ہے، مرحومہ کی روح بولی کہ ”خاندان پر جتنے دباﺅ ڈالے گئے ان کا کوئی شمار نہیں کیا جاسکتا، پورے خاندان کو بچوں سمیت مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور ساتھ ہی دیت اور امریکی ویزوں کا لالچ دیا گیا لیکن میرا سوال پاکستان کی ”آزاد” اور ”خودمختار“ عدلیہ سے ہے کہ ایڈیشنل سیشن جج کی جانب سے جس قسم کی تیزی دکھائی گئی اور ایک ہی دن میں تمام امور کی کامیابی سے تکمیل کی گئی وہ کسی کو نظر آتی ہے؟ یہاں تو عدالتوں میں سال ہا سال تک تاریخیں دی جاتی ہیں، عدالتوں میں مقدمات لڑنے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا تو یہ کام کس طرح ایک ہی دن میں مکمل ہوگیا؟ اس سے چند دن پہلے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے وہ ساری درخواستیں مسترد کردی تھیں جن کے تحت قاتل کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا، اگر وہ ساری درخواستیں مسترد ہی کرنی تھیں تو پہلے ان ہی کی بنیاد پر عدالت نے یہ کیوں کہا تھا کہ استثنیٰ کا فیصلہ یہ عدالت کرے گی اور بعد میں یہ کیوں کہہ دیا گیا کہ استثنیٰ کا فیصلہ ٹرائل کورٹ کرے گی۔ اگر اندر کھاتے پاکستانی اور امریکی حکومتوں، افواج اور خفیہ ایجنسیوں کے مابین لین دین نہیں ہوا ، وعدے وعید نہیں ہوئے، حکمرانوں کی جیبوں میں ڈالروں کی ریل پیل نہیں ہوئی اور عدلیہ نے اپنی ”آزادی“ رہن نہیں رکھی تو امریکہ کو کیا خواب آگیا تھا کہ آج سارا کچھ ہوجائے گا۔ کیا اب یہ بات آشکار نہیں ہوچکی کہ امریکی ایئرفورس کا طیارہ رات سے ہی لاہور ایئرپورٹ پر سٹینڈ بائی رکھا گیا تھا ؟ کیا چیف جسٹس صاحب اس معاملے میں کوئی ”ازخود“ ایکشن نہیں لے سکتے تھے، کیا اب چیف جسٹس صاحب کو بھی ہائی کورٹ کے احکامات بتانا پڑیں گے؟ کیا چیف جسٹس صاحب کو قاتل اور جاسوس کی گاڑی سے ملنے والے جاسوسی کے آلات ملنے کا علم نہیں تھا، کیا اس کے خلاف پاکستان کے خلاف جاسوسی کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ کا اندراج نہیں ہونا چاہئے تھا؟ کیا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی والوں کے، ججوں کے اور جاسوس و قاتل کے وکیلوں کے بچے زرہ بکتر پہن کر پھرتے ہیں؟ کیا ان کے جسموں پر گولیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، یاد رکھیں! کہیں سے بھی، کسی بھی جانب سے کوئی اندھی گولی کسی کو بھی نگل سکتی ہے۔ میں نے اپنی اور اپنے پیٹ میں موجود بچے کی قربانی اسی لئے دی تھی کہ مجھے کسی حکومت ، آئی ایس آئی، فوج یا کسی سیاسی جماعت سے کوئی توقع نہیں تھی، اگر توقع تھی تو صرف عدلیہ سے لیکن مرنے کے بعد مجھے پتہ چلا ہے کہ عدلیہ آج بھی آزاد نہیں، میرا شکوہ صرف اور صرف چیف جسٹس اور ان کے ان رفقاءسے ہے جو چیف جسٹس کی تنزلی پر تو سارے اکٹھے ہوگئے تھے لیکن ایک مظلوم کو انصاف دینے کے لئے کسی کی کوئی رگ نہیں پھڑکی، مجھے یقین ہے کہ میری قربانی رائیگاں نہیں جائے گی، مجھے یقین ہے کہ جس جس نے بھی قاتل کو چھوڑنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے اسے ایک دن ا للہ کی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا، مجھے یقین ہے کہ اللہ کی عدالت میرے ساتھ اور میرے بچے کے ساتھ ضرور انصاف کرے گی اور وہ انصاف ساری دنیا دیکھے گی، اب تم بھی آزاد عدلیہ آزاد عدلیہ کی رٹ چھوڑ دو....“

میں اس سے زیادہ برداشت نہ کرسکا اور آنکھیں کھول لیں، میری بڑی شدید خواہش تھی کہ کاش میں نے کوئی ڈراﺅنا خواب دیکھا ہو لیکن حقائق کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222588 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.